Tag: mathematics

  • ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    عام طور سے اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچے میتھس (ریاضی) کے مضمون سے سخت نالاں ہوتے ہیں، اور الجبرا، فریکشن اور بہت سارے فارمولوں میں پھنسے بچے، کسی بھی صورت ریاضی کا مضمون چھوڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ ریاضی (mathematics) چھوڑنے سے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور اگر 16 برس کی عمر میں ریاضی کا مضمون چھوڑا تو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    انسانی دماغ کی بہتر نشونما کے لیے ریاضی کے سوالوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاضی کا مضمون چھوڑنے سے دماغ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    سائنسی تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے سولہ سال کی عمر میں جو طلبہ میتھمیٹکس چھوڑ دیتے ہیں، ان میں بدستور ریاضی پڑھنے والوں کی نسبت ایک قسم کے دماغی کیمیکل کی سطح کم رہ جاتی ہے، جو دماغ اور ادراکی قوت کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچرز نے دیکھا کہ جن طلبہ نے سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد ریاضی چھوڑ دیا، ان میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ نامی کیمیکل کی مقدار کم پائی گئی، جو کہ دماغ (brain) کی شکل پذیری کے لیے اہم ہوتا ہے۔

    نیورو ٹرانسمیٹر کے طور پر کام کرنے والے اس کیمیکل کی کمی دماغ کے ایک اہم حصے پری فرنٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) میں پائی گئی، جو ریاضی، یادداشت، سیکھنے، استدلال کی صلاحیت اور مسائل کے حل کے لیے مدد کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ’تجرباتی نفسیات‘ کے محققین نے اس مطالعے کے لیے 14 سے 18 برس کی عمر کے 130 طلبہ کو شریک کیا، 16 سال سے زائد عمر کے طلبہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑ چکے ہیں، اور چھوٹے بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان سب کو ایک برین اسکین اور ادراکی تجزیے سے گزارا گیا، اور پھر 19 ماہ بعد پھر دیکھا گیا۔

    جریدے پرسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع شدہ اس مقالے کے مطابق محققین نے سولہ سال کے بعد ریاضی پڑھنے اور نہ پڑھنے والے طلبہ میں دماغی کیمیکل کی کارکردگی میں واضح فرق دیکھا، تاہم 19 ماہ بعد بچوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ کی بہتر نشوونما ہوئی وہ سوالوں کو بہ آسانی حل کر سکے۔

    تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ریاضی کی مشکل مساوات کو حل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنا دماغ کے اس حصے کو مضبوط بناتا ہے، اور لوگوں کو ممکنہ طور پر بعد کی زندگی میں مشکل مسائل حل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے نیورو سائنس کے پروفیسر، روئی کوہن قدوش نے کہا کہ ریاضی میں دل چسپی نہ رکھنے والے بچوں کو اس کے مطالعے پر مجبور کرنا بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ ہمیں ان کے لیے متبادل راستے ڈھونڈنے چاہئیں تاکہ ان کے دماغ کی ورزش ہو سکے۔

  • میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    ایک طویل عرصے سے اس بات پر بحث جاری ہے کہ سائنس کے شعبے میں خواتین کی تعداد کم کیوں ہے؟ اس شعبے میں مہارت رکھنے والی خواتین یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین سائنس سے دور ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس کی اہلیہ میلنڈا گیٹس اس بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    میلنڈا گیٹس بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں جو دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

    وہ خود کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مائیکرو سافٹ کمپنی میں ایک دہائی تک کام کیا ہے۔

    ایک انٹرویو میں میلنڈا نے بتایا کہ انہوں نے وکالت اور طب کے شعبے میں بے تحاشہ خواتین کو دیکھا ہے، لیکن ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھامیٹکس کے شعبوں میں صورتحال مختلف ہے۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا اب فلاحی کاموں کے ساتھ سائنس کے شعبوں میں صنفی برابری کے فروغ کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ہمیں سائنس کی خواتین پروفیسرز کی بھی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں سائنس پڑھنے کی طرف راغب ہوں، سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے‘۔