Tag: Medical experts

  • طبی ماہرین نے کورونا سے اموات میں اضافے کی بڑی وجہ بتادی

    طبی ماہرین نے کورونا سے اموات میں اضافے کی بڑی وجہ بتادی

    موٹاپا امراضِ قلب سے لے کر کینسر اور ذیابیطس جیسے امراض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے تاہم نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موٹاپے کا شکار کوویڈ 19 کے مریضوں کو اس وائرس سے کسی عام شخص سے زیادہ خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ جسمانی وزن اور موٹاپے کے شکار افراد میں کوویڈ 19 کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس سے قبل متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا جاچکا ہے کہ موٹاپا کوویڈ 19 کی سنگین شدت کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے اور ایسے افراد کو ہسپتال میں داخلے، آئی سی یو اور وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت بیماری کے ابتدائی مرحلے میں پڑسکتی ہے۔

    جس کی وجہ یہ ہے کہ موٹاپے سے دل کی شریانوں کے امراض، بلڈ کلاٹس اور پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے جیسے خطرات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ایسے افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کے ماہرین کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جس میں دریافت کیا گیا کہ موٹاپے کے شکار افراد میں کوویڈ 19 کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے دوران کلیولینڈ ہیتھ سسٹم میں مارچ سے جولائی2020 کے دوران آنے والے افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا جن کا فالو اپ جنوری 2021تک جاری رکھا گیا۔

    محققین نے کوویڈ 19 کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کے لیے3 عناصر کا تجزیہ کیا جن میں اسپتال میں داخلے، موت اور میڈیکل ٹیسٹوں کی ضرورت شامل تھے۔ ان کا موازنہ مریضوں کے5 گروپس سے کیا گیا جن کو جسمانی وزن کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کوویڈ کو شکست دینے کے بعد مختلف علامات کا سامنا عام ہوتا ہے، تاہم عام معتدل سے زیادہ جسمانی وزن کے حامل

    افراد میں کوویڈ کی پیچیدگیوں کے باعث دوبارہ اسپتال پہنچنے کا خطرہ 28 سے 30 فیصد تک زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح ان افراد میں مختلف طبی مسائل کی تشخیص کے لیے ٹیسٹوں کا امکان بھی عام جسمانی وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں25 سے 39فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد میں دل، پھیپھڑوں، گردوں، معدے اور دماغی صحت کے مسائل بھی دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ مشاہداتی تحقیق تھی جس میں دیکھا گیا کہ کووڈ 19 کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہوسکتا ہے۔

    محققین کی جانب سے نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ کیوں موٹاپا کوویڈ کے مریضوں میں طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف ڈائیبیٹس، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع ہوئے۔

  • کرونا سے بچنے کے لیے ’وٹامن سی‘ کا استعمال کریں، طبی ماہرین

    کرونا سے بچنے کے لیے ’وٹامن سی‘ کا استعمال کریں، طبی ماہرین

    کراچی: کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے طبی ماہرین نے وٹامن سی استعمال کرنے کا مشورہ دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق طبی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ کرونا سے بچنا چاہتے ہیں تو وٹامن سی کا استعمال کریں، وٹامن سی سپلیمنٹس سے حاصل کرنے کے بجائے غذا کے طور پر حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق یعنی وٹامن سی کو سبزیوں اور پھلوں کے ذریعے جسم میں پہنچانا بہت فائدہ مند ہے۔

    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ وٹامن سی اہم غذائئی جز ہے جو مدافعی نظام کو درست طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتا ہے، وٹامن سی ایک طاقت اور اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو آپ کے جسم کے قدرتی دفاعی نظام کو مضوط بنا سکتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وٹامن سی سوائن فلو سمیت نظام تنفس کی دیگر بیماریوں میں پھیپھڑوں پر ہونے والے ورم میں کمی لانے میں مددگار ہوتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں جسم میں وٹامن سی کی کمی کے نقصانات کیا ہیں؟

    مسوڑوں کا سوجنا اور خون بہنا

    اگر جسم میں وٹامن سی کی کمی ہو تو مسوڑے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ان میں زیادہ خون بہنے لگتا ہے کیونکہ وٹامن سی زخم بھرنے میں مدد دیتا ہے جس کی کمی کے باعث مسوڑے جلد ٹھیک نہیں ہوپاتے۔

    خشک بال

    جب بال صحت مند اور چمکدار ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ متوازن غذا کا استعمال کررہے ہیں، مگر جب اس کے سرے ٹوٹنے لگے اور بال خشک ہوجائیں تو ممکنہ طور پر یہ وٹامن سی کی کمی کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ بالوں کی مضبوطی اور صحت کا انحصار کولیگن پر ہوتا ہے جس کی پیداوار میں وٹامن سی کا اہم کردار ہے، اس وٹامن کی کمی گنج پن کا شکار بھی کرسکتی ہے۔

    زخم جلد نہ بھرنا

    جسم کے زخم بھرنے کا میکنزم کسی حد تک وٹامن سی پر انحصار کرتا ہے، یہ وٹامن کولیگن کی پیداوار بھی بڑھاتا ہے جو ان ٹشوز کو مضبوط کرتا ہے جو زخم کے اوپر بنتے ہیں۔

    آئرن کی کمی

    وٹامن سی سبزیوں سے حاصل ہونے والے آئرن کو آسانی سے جذب ہونے میں مدد دیتا ہے اور اس کے بغیر وہ جذب نہیں ہوپاتا، یعنی وٹامن سی کی کمی خون کی کمی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

  • بڑی کامیابی ، پاکستانی ماہرین کا کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

    بڑی کامیابی ، پاکستانی ماہرین کا کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

    کراچی : پاکستانی ماہرین نے کورونا کےعلاج کیلئے دوا تیار کرنے کا دعویٰ کردیا ، یہ دوا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسے تیار کی گئی، ماہرین نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کورونا کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی ، ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے دعوی کیا ہے کہ کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔

    ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، ریسرچ ٹیم سربراہ پروفیسر شوکت علی نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔

    وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسےگلوبیولن تیار کی ،ماہرین نے تیار گلوبیولن کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا۔

    پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس میں علاج کیلئے تیار کی گئی دوا کو کورونا کے شدید بیمار مریضوں کو استعمال کیا جاسکے گا، اس دوا کا جانوروں پر علاج کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں اور انسانوں پر دوا کے استعمال کی اجازت کیلئے درخواست دیدی ہے، اجازت ملنے کےبعد کمرشل تیاری کی جائے گی اور علاج میں 2سے3ہفتے لگیں گے۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم نے محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آ ئی وی آئی جی تیار کی ، ٹیم نے ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

    بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوئی، اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔

    یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے ، جو کورونا بحران میں امید کی کرن تصور کی جارہی ہے۔

    ان ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں اس محفوظ اورموثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس،مرس،اور ابیولا میں موثر طورپر استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ تشنج،انفلوئنزا اور رےبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کےلیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

    ریسرچ ٹیم نے کوووڈ نائینٹین کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیرموثر کرچکے تھے، ان کی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کرلیا۔

    یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد سعید قریشی نے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے ٹرائل کے لیے اخلاقی اور قانونی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے، مشترکہ ٹیم کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی،سید منیب الدین،میر راشد علی،عائشہ علی ،مجتبی خان،فاطمہ انجم اور ڈاکٹر صہیب توحید شامل ہیں۔

    یہ کامیابی کورونا سے ہونے والے جانی نقصان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کی جانے والی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔

    خیال رہے امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظور شدہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لو رسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے، اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے۔

    واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن نے عمومی حالات کےلیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے۔

    یاد رہے ایک ہفتہ قبل ہی دنیا کی چھ بڑی ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اشتراک کا اعلان کیا تھا تاہم ڈاؤ یونیورسٹی نے اس عمل میں سبقت لیتے ہوئے مقامی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کر لی ہے۔

    حالیہ دنوں کی ریسرچ نے مقامی کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی آئی وی آئی جی بہت موثر اور مفید ثابت ہوگی۔

    ڈاؤ یونیورسٹی نے نئے کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کرنے والے جینیاتی سیکوینس بھی معلوم کیا اور انسانی جین میں ایسی تبدیلیوں کا پتہ لگایا، جو کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں۔

  • نہارمنہ گرم پانی پینے کے فوائد

    نہارمنہ گرم پانی پینے کے فوائد

    طبی ماہرین نے کہا ہے کہ گرم پانی پینے کے بے شمار فوائد ہیں، جن میں وزن میں کمی، سانس لینے میں آسانی اور ہاضمہ بھی درست رہتا ہے اس کے علاوہ گرم پانی پینے سے جسم سے نقصان دہ اجزاء کا اخراج ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گرم پانی پینے سے جسم کا درجہ حرارت بلند ہوگا جس سے میٹابولزم ریٹ بڑھ جائے گا اور ہم بآسانی وزن کم کر پائیں گے۔

    اس کے علاوہ بھوک میں کمی ہوتی ہے اور کم غذا کھانا معدے کیلئے بے حد فائدہ مند ہے، اس کے ساتھ ہماری آنتیں بھی صاف ہوجاتی ہیں۔

    صدیوں پرانی اس چینی حکمت میں سچائی ہے، گرم پانی کے استعمال سے سر کا درد، ہائی بلڈ پریشر، خون کی کمی، مثانے کی گرمی، کھانسی اور زکام سے نجات اور دیگر مسائل سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

    ٹھنڈا پانی پینے کے نقصانات

    اس کے برعکس ٹھنڈا پانی وقتی طور پر تو سکون فراہم کرتا ہے لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہیں، ٹھنڈے پانی کے اثرات جوانی کے بعد اثر انداز ہوتے ہیں، بلکہ جوانی میں ہونے والا دل کا دورہ بھی اسی کے سبب ہوتا ہے کیونکہ ٹھنڈا پانی دل کی رگوں کو جوڑ دیتا ہے۔

    ٹھنڈے مشروبات بھی ہاٹ اٹیک کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ٹھنڈا پانی جگر کی نابودی کا سبب بنتا ہے اس سے چربی چپک جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر روز صبح جلدی اٹھیں اور گرم پانی پیئں لیکن یاد رہے کہ اس کے بعد پنتالیس منٹ تک کچھ نہیں کھانا پینا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔