Tag: Medical research

  • جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    سورج کی روشنی سے مفت حاصل ہونے والا وٹامن ڈی ہمارے جسم کے لیے بالخصوص ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اس کی کمی سے ہڈیاں ہی نہیں بلکہ دل کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں ایسے جینیاتی شواہد کو شناخت کیا گیا جو دل کی شریانوں کے امراض اور وٹامن ڈی کی کمی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    درحقیقت ایسے افراد میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار والے افراد کے مقابلے میں امراض قلب کا خطرہ دگنا سے زیادہ ہوتا ہے، عالمی سطح پر دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا سی وی ڈی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

    اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی دل کی صحت پر منفی کردار ادا کرتی ہے اور اس پر توجہ دے کر دل کی شریانوں کے امراض کے عالمی بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ وٹامن ڈی کی بہت زیادہ کمی کا مسئلہ بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر معتدل کمی کی روک تھام کرکے دل کو منفی اثرات سے بچانا بہت ضروری ہے، بالخصوص ایسے افراد جو چار دیواری سے باہر سورج کی روشنی میں زیادہ گھومتے نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم وٹامن ڈی کو غذا بشمول مچھلی، انڈوں اور فورٹیفائیڈ غذاؤں اور مشروبات سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر غذا وٹامن ڈی کے حصول کا زیادہ اچھا ذریعہ نہیں اور صحت بخش غذا سے بھی عموماً وٹامن ڈی کی کمی دور نہیں کی جاسکتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ سورج کے ذریعے وٹامن ڈی کا حصول مفت اور آسان ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر روزانہ سپلیمنٹ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے متعلق اہم انکشاف، تحقیق

    ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے متعلق اہم انکشاف، تحقیق

    ڈبلن : آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے دیگر دودھ پینے والوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے وفاقی دارالحکومت میں واقع ڈبل کالج یونیورسٹی کے محققین نے بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق تحقیق کی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے بچے جنہیں ماں کا دودھ میسر ہوتا ہے اُن کی ذہنی نشو نما الگ ہوتی ہے۔

    تحقیق کے دوران سات ہزار سے زیادہ بچوں کی ذہانت جانچنے کے لیے اُن سے مختلف سوالات کیے گئے اور 9 ماہ سے پانچ سال تک کی عمروں کے بچوں کی جسمانی صحت کا جائزہ بھی لیا گیا۔

    محقیقین اس نتیجے پر پہنچنے کہ اپنی والدہ کا دودھ پینے والے بچوں میں 3 سال کی عمر سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جلد بھولنے یا ہائپر ایکٹیویٹی جیسی بیماریوں کو بچے رہتے ہیں۔

    اس طرح تحقیق میں ایسے شواہد نہیں ملے کہ ماں کے دودھ پر پلنے والے بچوں کی زبان دانی اور دیگر صلاحیتیں دیگر کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ماؤں کی تعلیم، غلط عادات کی وجہ سے بچوں کی نشونما پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم پانچ سال کی عمر کے تمام بچوں کی ذہنی صلاحیتیں ایک جیسی پائی گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنے اور ان میں بڑھتی شرح اموات میں تعلق دیکھا گیا ہے، جن بچوں کو پیدائش کے بعد ماں کا دودھ میسر آتا ہے ان میں شرح اموات واضح طور پر کم دیکھی گئی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چوالیس فی صد بچوں میں نشوونما سے متعلق مسائل کی وجہ ماؤں کی بریسٹ فیڈنگ نہ کرنا ہے، جس کے اسباب میں غربت، کمزور صحت، اور تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔

  • مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    کووڈ 19 کی وبا نے دنیا بھر میں جہاں ایک طرف تو طبی ایمرجنسی نافذ کردی، وہیں اس وبا کے دوران دنیا کے طبی نظام میں موجود خامیوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ یہ وبا مختلف ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے طبی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات کرسکیں۔

    اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت میڈیکل ریسرچ اور طبی اصلاحات میں کس طرح مددگار ثابت ہورہی ہے، اس حوالے سے محمد عثمان طارق کچھ اہم سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔

    محمد عثمان طارق فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکول آف کمپیوٹنگ اینڈ انفارمیشن سائنسز سے وابستہ ہیں، ان کی تحقیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص اور اس کے علاج کے گرد گھومتی ہے۔

    محمد عثمان طارق بتا رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کس طرح پرسنلائزڈ میڈیسن کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کی قوت مدافعت اور دواؤں پر اس کے جسم کے ردعمل کے حساب سے دوا تیار کی جائے تاکہ مریض کے صحت یاب ہونے کا امکان بڑھ جائے۔

    اس سوال پر، کہ کیا ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے ویکسینز بھی تیار کی جاسکیں گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ ویکسین بھی ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے مختلف اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اس کی حالیہ مثال کرونا ویکسین کی ہے جس نے کچھ افراد پر ویسے اثرات مرتب نہیں کیے جس کی توقع کی جارہی تھی، گو کہ یہ شرح خاصی کم ہے، تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    محمد عثمان طارق نے اس اہم سوال پر بھی روشنی ڈالی کہ جب مختلف شعبے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے جارہے ہیں، تو ایسے میں مصنوعی ذہانت سے ہونے والی کوئی غلطی یا غلط فیصلے کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسے کیسے درست کیا جاسکے گا۔

    انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے کے باجود اب بھی حتمی فیصلہ انسانی ذہانت ہی کرتی ہے۔

    عثمان طارق کے مطابق جیسے جیسے اس کا استعمال بڑھتا جائے گا، ویسے ویسے اس بات کی ضرورت بھی پڑے گی کہ اس کے استعمال کے حوالے سے ضوابط اور قوانین طے کیے جائیں تاکہ اس کے نقصان کی شرح کم سے کم کی جاسکے۔

  • کورونا ویکسین کی خاص خوراکیں کس طرح مؤثر ہیں؟ تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا ویکسین کی خاص خوراکیں کس طرح مؤثر ہیں؟ تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا ویکسینز پر تحقیق کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کورونا ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد دو مخصوص خوراکوں سے وباء سے بچاؤ کافی حد تک ممکن ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسٹرا زینیکا یا فائزر کوویڈ ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد دوسرا ڈوز موڈرنا یا نووا ویکس ویکسینز کا استعمال کرنا اس وبائی مرض کے خلاف زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت ہونے والی کوم کوو تحقیق میں مختلف کوویڈ ویکسینز کے امتزاج سے مدافعتی نظام پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل رضاکاروں کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسینز  پہلی خوراک کے طور پر استعمال کرائی گئی اور نو ہفتے بعد نووا ویکس یا موڈرنا ویکسینز کی دوسری خوراک دی گئی۔

    تحقیق میں شامل 1070 افراد کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات سامنے نہیں آئے۔ محققین نے بتایا کہ اس طرح کی تحقیقی رپورٹس کی بدولت ہمارے سامنے مختلف کووڈ ویکسینز کو ایک ساتھ استعمال کرنے کے حوالے سے مکمل تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب خلیاتی مدافعت کی بات آتی ہے تو ایسٹرا زینیکا ویکسین کو بطور پہلی خوراک کے بعد دیگر ویکسینز کا استعمال ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح جس حد تک جلد ممکن ہوا کووڈ 19 سے بچانے کے لیے دنیا کی ویکسینیشن ممکن ہوسکے گی۔

    تحقیق کے مطابق ایسٹرا زینیکا ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد اسی کی دوسری خوراک کی بجائے موڈرنا یا نووا ویکس کا استعمال زیادہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز ردعمل کا باعث بنتا ہے۔

    فائرز کی 2 خوراکوں کی بجائے فائزر اور موڈرنا کا امتزاج زیادہ ٹھوس اینٹی باڈی اور ٹی سیلز ردعمل پیدا کرتا ہے۔فائزر اور نووا ویکس ویکسینز کا امتزاج ایسٹرا زینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں سے زیادہ اینٹی باڈیز بناتا ہے مگر فائزر کی 2 خوراکوں کے مقابلے میں کم اینٹی باڈیز اور ٹی سیل ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

    ان رضاکاروں کے خون کے نمونوں پر وائرس کی اصل، بیٹا اور ڈیلٹا اقسام کے خلاف ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔ محققین نے وائرس کی اقسام کے خلاف ویکسینز کی افادیت میں کمی کو دیکھا اور یہ تسلسل مکس این میچ شیڈول میں برقرار رہا۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک شیڈول میں مختلف ویکسینز کا استعمال ہم نے کیا یعنی ایم آر این اے ویکسینز، وائرل ویکٹر ویکسینز یا پروٹین پر مبنی ویکسینز، جو ویکسینیشن کا ایک نوول طریقہ کار ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے، تحقیق کے نتائج سے ان ویکسینز کے لچک دار استعمال کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو کہ ان ویکسینز کو برق رفتاری سے لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

  • طبی تحقیق کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، پاکستان میڈیکل کمیشن کا مطالبہ

    طبی تحقیق کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، پاکستان میڈیکل کمیشن کا مطالبہ

    کراچی: پاکستان میڈیکل کمیشن اور میڈیکل یونیورسٹیوں کی جانب سے صحت کے شعبے میں تحقیق کو میڈیکل کالجز کے نصاب کا لازمی حصہ بنانے کی ہدایات جاری کردی گئیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری کراچی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر راشد نسیم خان نے کالج میں ریسرچ سیل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    اس موقع پر لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری میں مقامی فارماسیوٹیکل کمپنی فارم ایوو کی جانب قائم کردہ ریسرچ سیل کا افتتاح افتتاح بھی کیا گیا، افتتاحی تقریب میں لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری و دارالصحت ہسپتال کے وائس چیئرمین ڈاکٹر علی فرحان رضی، فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد، معروف نیورولوجسٹ و رجسٹرار ڈاکٹر عبدالمالک، وائس پرنسپل کالج آف ڈینٹسری ڈاکٹر ناہید نجمی سمیت دیگر ماہرین صحت موجود تھے۔

    مقامی فارماسوٹیکل کمپنی فارم ایوو کے سی ای او سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کا رہن سہن، قد و قامت، خوراک اور مقامی آب وہوا اس بات کا متقاضی ہے کہ یہاں کے صحت اور تعلیم کے اداروں میں بیماریوں اور ان کے مقامی حل تلاش کرنے پر تحقیق کی جائے، پاکستانی فارماسیوٹیکل انڈسٹری اور صحت کی یونیورسٹیوں کے درمیان تعاون سے پاکستان صحت کے شعبے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ ان کا ادارہ نہ صرف نوجوان تحقیق کاروں کو مالی امداد اور ایوارڈز سے نواز رہا ہے بلکہ وہ صحت کے اداروں کے سربراہان کی لیڈر شپ ٹریننگ میں بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔

    لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری کے وائس چیئرمین ڈاکٹر علی فرحان رضا کا کہنا تھا کہ اسلام تحقیق پر بہت زور دیتا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ طبی تحقیق کے شعبے میں مسلمان آگے آئیں اور انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کریں۔