Tag: mehdi hassan

  • شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 8 برس بیت گئے

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 8 برس بیت گئے

    کراچی: شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کو بچھڑے 8 برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، ان کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔

    سانسوں کو سروں میں ڈھال دینے کے ماہرمہدی حسن پچیس ہزار سے زائد فلمی وغیر فلمی گیت اور غزلیں گائیں، حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو ان کی خدمات کے اعتراف تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

    انیس سو نواسی میں مہدی حسن کو بھارتی حکومت نے اپنا بڑا ایوارڈ ”کے ایل سہگل“ سے بھی نوازا، مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔

    اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔

    1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن مرحوم کی 92ویں سالگرہ آج 18جولائی کو منائی جا رہی ہے، دنیائے غزل کے شہنشاہ مہدی حسن اٹھارہ جولائی سن انیس سو ستائیس میں پیدا ہوئے، انہوں نے نے انتھک محنت اور لگن سے فن غزل میں دنیا بھر میں اعلیٰٰ مقام بنایا۔

    مہدی حسن بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔
    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

  • شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 7 برس بیت گئے

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 7 برس بیت گئے

    کراچی: شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کو بچھڑے 7 برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، ان کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔

    سانسوں کو سروں میں ڈھال دینے کے ماہرمہدی حسن پچیس ہزار سے زائد فلمی وغیر فلمی گیت اور غزلیں گائیں، حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو ان کی خدمات کے اعتراف تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

    انیس سو نواسی میں مہدی حسن کو بھارتی حکومت نے اپنا بڑا ایوارڈ ”کے ایل سہگل“ سے بھی نوازا، مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

  • سُروں کے شہنشاہ استاد مہدی حسن مرحوم کی سالگرہ پر گوگل کا خراجِ تحسین

    سُروں کے شہنشاہ استاد مہدی حسن مرحوم کی سالگرہ پر گوگل کا خراجِ تحسین

    کراچی : شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں اپنا فرنٹ پیچ مہدی حسن مرحوم کی تصویر  سے سجالیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ہر اہم دن کے موقع پر اپنا ڈوڈل تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل نے برصغیر کے عالمی شہرت یافتہ گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن مرحوم کی 92ویں سالگرہ پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈوڈل بنادیا۔

    شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن مرحوم کی 92ویں سالگرہ آج 18جولائی کو منائی جا رہی ہے، دنیائے غزل کے شہنشاہ مہدی حسن اٹھارہ جولائی سن انیس سو ستائیس میں پیدا ہوئے، انہوں نے نے انتھک محنت اور لگن سے فن غزل میں دنیا بھر میں اعلیٰٰ مقام بنایا۔

    پاکستان کے معروف گلوکار مہدی حسن نے ہزاروں فلمی گیت، ملی نغمے، غزلیں گائیں، مہدی حسن کو کلاسیکی گانوں میں مہارت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کے معروف گلوکار مہدی حسن کی آواز کے شیدائی تھے۔

    مہدی حسن تیرہ جون سن دو ہزار بارہ کو شدید علالت کے باعث اپنے چاہنے والوں کو  سوگوار چھوڑ گئے لیکن وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

    مہدی حسن1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے، اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی، خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • معروف غزل گلوکار مہدی حسن کو گزرے چھ برس بیت گئے

    معروف غزل گلوکار مہدی حسن کو گزرے چھ برس بیت گئے

    کراچی : برصغیر کے عالمی شہرت یافتہ گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کی آج برسی منائی جا رہی ہے۔ مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چھ برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، ان کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔

    مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    مہدی حسن کی یادگارشیلڈزاوراعزازات اونے پونے داموں فروخت

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز میں ایک خوبصورت ملّی نغمہ

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

  • آج شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کا چوتھا یومِ وفات ہے

    آج شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کا چوتھا یومِ وفات ہے

    کراچی : شہنشاہ غزل مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے آج چار برس بیت گئے ، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، برصغیر پاک و ہند میں مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

    مہدی حسن کی گائیگی بھارت اور پاکستان میں یکساں مقبول ہے۔ مہدی حسن ایک سادہ طبیعت انسان تھے اور بعض اوقات بات سیدھی منہ پر کردیا کرتے تھے ۔

    فلمی موسیقی کے زرخیز دور میں مہدی حسن کو احمد رشدی کے بعد دوسرے پسندیدہ گلوکار کا درجہ حاصل رہا۔ مہدی حسن 1927ء میں راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔

    خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولھویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔

    مہدی حسن نے کلاسیکی موسیقی میں اپنے آپ کو متعارف کروایا، جب آٹھ سال کے تھے۔اور پچپن سے ہی گلوکاری کے اسرار و رموُز سے آشنا ہیں مگر اس سفر کا باقاعدہ آغاز 1952ء میں ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹوڈیو سے ہوا اس وقت سے لے کرآج تک وہ پچیس ہزار سے زیادہ فلمی غیر فلمی گیت اور غزلیں گا چکے ہیں۔

    سن انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ان کا شمار عوام کے پسندیدہ ترین فلمی گلوکاروں میں ہوتا تھا۔اور سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لیکر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    مہدی حسن نے کل 441 فلموں کے لیے گانے گائے اور گیتوں کی تعداد 626 ہے ۔ فلموں میں سے اردو فلموں کی تعداد 366 جن میں 541 گیت گائے۔ جب کہ 74 پنجابی فلموں میں 82 گیت گائے ۔

    انہوں نے 1962 سے 1989 تک 28 تک مسلسل فلموں کے لیے گائیکی کی تھی ۔ ان کی پہلی غزل جو ریڈیو پر مشہور ہوئی وہ کلاسک شاعر میر تقی میر کی مشہور زمانہ غزل تھی ۔ دیکھ تو دل کہ جان سے اٹھتا ہے۔

    کافی عرصہ علالت میں گزارنے کے بعد آخر کار 13 جون 2012 کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔

     

  • ایسے پاکستانی جنہوں نے اپنی پہچان آپ بنائی اورپاکستان کی پہچان بنے

    ایسے پاکستانی جنہوں نے اپنی پہچان آپ بنائی اورپاکستان کی پہچان بنے

    زندگی آگے بڑھنے اوربڑھتے رہنے کا نام ہے تاریخ میں ہمیں کئی نام ایسے ملتے ہیں جو سونے کا چمچہ منہ لے کر یا کسی پہلے سے شہرت یافتہ خاندان میں پیدا نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی اورآج ساری دنیا انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے، یہاں ہم کچھ ایسے ہی پاکستانیوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے زندگی کی تمام ترمشکلات کا سامنا کرکے اپنے لئے ایسے راستے بنائے کہ دنیا ان کے نقش قدم پرچلنا چاہتی ہے۔

    عبد الستارایدھی

    عبدالستارایدھی کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں ’پھیری والے‘تھے اور معمولی پیمانے پرکپڑا بیچا کرتے تھے لیکن آج وہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس اور رفاعی ادارے چلارہے ہیں۔ پاکستان کے اس عظیم سماجی رہنماء کو خدمتِ خلق کا جذبہ ان کی بیمار والدہ سے ملا جن کی وفات مفلوجی کی حالت میں ہوئی۔

    مہدی حسن

    مہدی حسن نے اپنی جوانی کے آغاز میں چیچہ وطنی اور بہاولپور میں موٹر مکینک کے طور پرکام کیا کہ اپنا اوراپنے خاندان کا پیٹ بھرسکیں لیکن انہوں نے اپنے خواب کو ترک نہیں کیا اورآج دنیا انہیں’شہنشائے غزل‘کے نام سے یاد کرتی ہے اور پاکستانی موسیقی کی تاریخ ان کے نام کے بغیرنا مکمل تصورکی جاتی ہے۔

    محمد یوسف

    اپنے دور میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سرمایہ اور ٹیسٹ کرکٹ کے مایہ نازکھلاڑی محمد یوسف نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور انتہائی دشوار حالات میں گزارا۔ انہوں نے رکشہ چلایا اور کرکٹ شروع کرنے سے قبل ایک درزی کی دوکان میں ملازمت بھی کی۔

    ملک ریاض

    پاکستان کے دس متمول ترین افراد میں ایک نام ملک ریاض کا بھی ہے لیکن یہ دولت انہیں ورثے میں نہیں ملی۔ ملک ریاض نے اپنی زندگی کی شروعات ایک کلرک کی حیثیت سے کی تھی۔ آج نا صرف یہ کہ وہ ایک جانی پہچانی کاروباری شخصیت ہیں بلکہ ان کی شہرت کا سبب ان کی سماجی خدمات اورفلاحی کام ہیں جن سے پاکستان کے نادار افراد کی کثیر تعداد فوائد کشید کرتی ہے۔

    ملالہ یوسف زئی

    چھوٹی سی عمرمیں بڑے خواب آنکھوں میں سجانے والی ملالہ یوسف زئی سے کون واقف نہیں۔ سوات میں حالتِ جنگ کے دور میں اپنی تعلیم کے حصول کے لئے آواز اٹھا کرانہوں نے پاکستان کا ایک ایسا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔ طالبان نے انہیں اس جرم کی پاداش میں قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئیں اورآج وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہیں اوریہ ایوارڈ انہیں امن اورتعلیم کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کے صلے میں ملاہے۔