Tag: mental health

  • بادام اور اخروٹ : گوشت سے پرہیز کرنے والوں کیلیے بہترین متبادل

    بادام اور اخروٹ : گوشت سے پرہیز کرنے والوں کیلیے بہترین متبادل

    اپنی غذا میں بادام اور اخروٹ جیسےگری دار میوے شامل کرنا کئی ضروری غذائی اجزاء کی مقدار کو یقینی بنانے کا ایک مؤثر طریقہ اور متعدد بیماریوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    بادام اور اخروٹ یہ دو ایسی سوغاتیں ہیں جو اپنے ذائقے اور افادیت کی بدولت میوہ جات میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ بادام کو تو میوہ جات میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا کی اشیاء شمار کیا جاتا ہے۔

    یہ دونوں ہی ان تمام بنیادی غذائی عناصر سے بھرپور ہیں جو یاد داشت اور دماغ کی عام کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔

    خشک میوہ جات بادام اور اخروٹ، گوشت کے استعمال سے دور بھاگنے والے سبزی خوروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، جو افراد گوشت نہیں کھاتے وہ ان میووں کے استعمال سے پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔

    بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی یک رپورٹ میں ان دونوں میوہ جات کی غذائی خصوصیات اور دماغ کی مضبوطی کے لیے ان کی صفات کا موازنہ کیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ صحت کو بہتر بنانے کے لیے ان میں سے خاص چیزکون سی ہے؟

    بادام

    بادام کو ڈرائی فروٹ یعنی خشک میوہ جات کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے، تقریباً 23 باداموں میں 164کیلوریز، 14 گرام فیٹ، 6 گرام پروٹین، 6 گرام کاربز جبکہ 3.5 گرام فائبر پایا جاتا ہے۔

    بادام سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں خوب چبا چبا کر کھانا چاہیے، بادام نہار منہ کھانے سے ذہانت میں اضافہ اور کمر پتلی ہوتی ہے۔

    بادام بھگو کر کھانے سے ان کی تاثیر ٹھنڈی ہو جاتی ہے، رات کو پانی میں باداموں کی 7 سے 9 گریاں بھگو کر رکھ دیں اور صبح نہار منہ کھا لیں، اس سے معدہ، آنکھیں اور دماغ تروتازہ رہتا ہے۔

    اخروٹ

    انسانی دماغی شکل سے مشابہت رکھنے والی گری اخروٹ میں وٹامن اور معدنی نمک پایا جاتا ہے جس سے ناصرف مسلز مضبوط ہوتے ہیں بلکہ اس سے میٹابالزم بھی تیز ہوتا ہے۔

    غذائی لحاظ سے 14 اخروٹ میں تقریباً 185 کیلوریز، 18.5 گرام فیٹ، 4 گرام پروٹین، 4 گرام کاربز جبکہ 1.9 گرام فائبر پایا جاتا ہے۔

    اخروٹ مقدار میں کم کھانے چاہئیں کیونکہ اِن میں کیلوریز، کولیسٹرول زیادہ اور فائبر کم پایا جاتا ہے۔

    یہ گلے میں خراش اور منہ میں چھالے بننے کا سبب بھی بن سکتا ہے، اخروٹ دن کے بجائے رات سونے سے قبل کھائیں، اخروٹ کھانے کے بعد چائے پینا نقصان دہ ہے ثابت ہو سکتا ہے۔

    اگرچہ اخروٹ اور بادام دماغی صحت کے لیے مفید ہیں تاہم اخروٹ اپنی غذائی ترکیب کے سبب یاد داشت بہتر بنانے میں شان دار کردار ادا کرتا ہے۔

    بہترین نتائج کے حصول کے لیے روزانہ اخروٹ اور بادام کا ایک حصہ اپنے جامع صحت بخش غذائی نظام کے جزو کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے، یہ گریاں بلاشبہ صحت بخش غذائی پلان کا بہترین حصہ ہیں۔

  • دماغی صحت : سوکر اٹھتے ہی موبائل فون دیکھنا کس بات کی علامت ہے؟

    دماغی صحت : سوکر اٹھتے ہی موبائل فون دیکھنا کس بات کی علامت ہے؟

    موجودہ دور میں غائب دماغی کی بڑی وجہ موبائل فون ہے، کیونکہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے صرف  موبائل فون کی ہی فکر رہتی ہے کہ پتہ نہیں کون سا نوٹیفکیشن آیا ہوگا؟ یہ بات دماغی صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ 

    نوجوان نسل میں موبائل فون کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انسان ہر چند لمحوں بعد موبائل فون کی اسکرین دیکھتا رہتا ہے۔

    بھارت میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 84 فیصد موبائل فون صارفین جاگنے کے فوراً بعد یا پھر 15 منٹ کے اندر موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال صارفین کی دماغی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

    یہ بات بھی درست ہے کہ ٹیکنالوجی انسان کی زندگی کو آسان بناتی ہے لیکن دوسری طرف اس کے استعمال کی وجہ سے انسانی زندگیوں پر کئی مہلک اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب انسان صبح جاگتا ہے تو اس کا دماغ ڈیلٹا اسٹیٹ (گہرے سکون کی حالت) میں ہوتا ہے۔

    اس کے بعد دماغ الفا اسٹیٹ میں چلا جاتا ہے یعنی یہ ایک ایسا اسٹیج ہوتا ہے جس میں میں آپ جاگے تو ہوتے ہیں لیکن پوری طرح سے آپ کا دماغ ابھی چل نہیں رہا ہوتا۔

    اس کے بعد دماغ بیٹا حالت میں داخل ہوتا ہے جو کہ باقاعدہ پوری طرح سے فعال حالت ہوتی ہے۔ جب آپ جاگتے ساتھ ہی موبائل فون کا استعمال شروع کر دیتے ہیں تو دماغ ڈیلٹا سے بیٹا حالت میں داخل ہو رہا ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے ذہن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کے مطابق تیزی سے رونما ہونے والی منتقلی کی وجہ سے دماغی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے جس کے سبب بے چینی، چڑچڑا پن بڑھ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے آپ دن بھر کام سے اُکتائے رہتے ہیں۔

    ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ماہرین کا خیال ہے کہ جاگنے سے 30 منٹ سے ایک گھنٹہ بعد موبائل فون استعمال کیا جانا چاہیے۔

    رپورٹ کے مطابق گذشتہ چند برسوں کے دوران سونے سے قبل موبائل فون کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    اس عادت کی وجہ سے بھی آپ کے سونے کا معمول خراب ہو سکتا ہے جو بعد میں صحت کے متعدد مسائل کا باعث بھی بنتا ہے۔

  • فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا، سی این این کی رپورٹ

    فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا، سی این این کی رپورٹ

    فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا ہو گئے ہیں، اس حوالے سے سی این این کی ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی اہلکار شدید ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگے ہیں، غزہ میں کیے گئے مظالم واپس جانے والے صہیونی فوجیوں کے اعصاب پر طاری ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق نہتے فلسطینی بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والے صہیونی فوجیوں کو احساسِ جرم نے گھیر لیا ہے، اور وہ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، اور خود کشی کرنے لگے ہیں، یہ فوجی غزہ سے تو نکل آئے لیکن غزہ ان کے ذہنوں سے نہیں نکل سکا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے واپس گھروں کو جانے والے اسرائیلی فوجیوں میں خود کشیوں کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے، اور وہ دوبارہ غزہ جانے کے لیے کسی قیمت تیار نہیں ہیں، واپس آنے والے ان فوجیوں میں ایک تہائی سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق احساسِ جرم اُن کے دل و دماغ کو گھیرے ہوئے ہے، نہتے شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی شہادت کا کریڈٹ لینا اب انھیں سوہانِ روح محسوس ہو رہا ہے۔

    حزب اللہ کی اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب پر بمباری، شہر میں‌ ایمرجنسی نافذ

    سی این این کے مطابق 40 سالہ ایلیران مزرہی چار بچوں کا باپ تھا، جو حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں تعینات ہوا، جب چھ ماہ بعد وہ لوٹا تو اس کے خاندان کے مطابق وہ ’پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD)‘ کا شکار ہو گیا، اسے دوبارہ غزہ بھیجا جا رہا تھا لیکن اس نے خود کشی کر لی۔ اس کی ماں جینی مزرہی نے کہا ’’وہ غزہ سے نکل آیا، لیکن غزہ اس سے نہیں نکلا، اور وہ بعد از جنگ کے صدمے سے مر گیا۔‘‘

    اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ ان ہزاروں فوجیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے، جو جنگ کے دوران صدمے کی وجہ سے پی ٹی ایس ڈی یا ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کتنے لوگ اپنی جانیں لے چکے ہیں، کیوں کہ اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) نے کوئی سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے ہیں۔

    واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کے حملوں کے بعد ایک سال کے عرصے میں غزہ میں 42,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے، اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

    اسرائیل نے اب جنگ لبنان تک پھیلا دی ہے، اور اسرائیلی فوجی مزید خوف زدہ ہو گئے ہیں، غزہ میں چار ماہ تک خدمات انجام دینے والے ایک IDF طبیب نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے سی این این کو بتایا ’’ہم میں سے بہت سے لوگ لبنان میں دوبارہ جنگ کے لیے بھیجے جانے سے بہت خوف زدہ ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے۔‘‘

    اسرائیلی فوج نے غزہ کو صحافیوں کے لیے بند کر رکھا ہے، لیکن وہاں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں نے CNN کو بتایا کہ انھوں نے ایسی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے، جسے بیرونی دنیا کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتی۔

  • قیلولہ : دوپہر میں کچھ دیر آرام اور بےشمار فوائد

    قیلولہ : دوپہر میں کچھ دیر آرام اور بےشمار فوائد

    قیلولہ کے معنی دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر کیلئے لیٹنا ہیں، خواہ نیند آئے یا نہ آئے، یہ عمل صحت کیلئے انتہائی مفید ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں فیملی فزیشن ڈاکٹر عظمیٰ حمید نے قیلولہ کے تفصیلی معنی اور اس کے فوائد سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    قیلولہ

    انہوں نے بتایا کہ قیلولہ جسے انگریزی میں پاور نیپ بھی کہتے ہیں اور سنت نبویﷺ کے مطابق دوپہر کے کھانے کے بعد کم سے کم دس منٹ یا زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹے کیلئے آرام کرنا بھی ضروری ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ قیلولہ کے وقت آپ کا بستر یا کام کرنے کی جگہ اور کرسی آرام دہ ہو اس دوران کسی بھی قسم کی مصروفیت موبائل فون دیکھنا یا کوئی اور کام بالکل نہیں کرنا ذہن کو تمام فکروں سے آزاد ہوکر کچھ دیر کیلئے آنکھیں بند کرکے لیٹیں۔

    دوپہر کو سونے سے

    ڈاکٹر عظمیٰ حمید کا کہنا ہے کہ اس عمل کے بعد آپ خود کو بہتر اور توانا محسوس کریں گے اور کام کرنے کی جستجو اور طاقت میں اضافہ ہوگا۔

    قیلولہ سنت

    انہوں نے بتایا کہ کچھ دیر کا قیلولہ فرسٹریشن کا خطرہ کم کرتا ہے، بیماریوں کے خلاف جسم کا دفاعی نظام زیادہ بہتر طریقے سے کام کرپاتا ہے۔ یاداشت میں بھی بہتری آتی ہے اور دماغی صلاحیتوں کو بھی بہتر کرتا ہے۔

  • بھیگے ہوئے بادام نہار منہ کھانے کے 8 حیرت انگیز فوائد

    بھیگے ہوئے بادام نہار منہ کھانے کے 8 حیرت انگیز فوائد

    ہم اکثر اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ صبح سویرے رات بھر بھگوئے ہوئے بادام کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے اور جسم کو توانائی بھی ملتی ہے۔

    خشک میوہ جات اور ان میں پایا جانے والا روغن انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے جبکہ بادام سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال سے انسانی جسم کو بے شمار کرشماتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    اگر آپ صبح سویرے بھیگے بادام نہیں کھاتے تو آج سے ہی شروع کردیں کیونکہ تحقیق نے یہ ثابت کردی ہے کہ یہ بات بالکل دُرست ہے۔

    صبح بھیگے بادام کھانا اس کے فوائد کو دُگنا کر دیتا ہے۔ بچوں بڑوں میں اس طرح بادام کھانے کی عادت دماغ کی بہترین نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے

    ہاضمے کو بہتربناتے ہیں رات بھر بھیگے ہوئے بادام غذائی اجزاء کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سےہاضمے کے عمل کو آسان بناتے ہیں۔

    زیر نظر مضمون میں آج آپ کو ان بھیگے ہوئے باداموں کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے۔

    بادام ایک ایسا خشک میوہ ہے جو صحت کیلئے بہت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے، بادام میں پوٹاشیم، میگنیشیم، آئرن، کیلشیم اور دیگر غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو جسم کو بہت سے فوائد فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    اگر آپ روزانہ صبح میں بھگوئے ہوئے بادام کھاتے ہیں تو آپ صحت کے بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

    بھیگے باداموں کے فائدے

     بادام

    1.ہاضمہ

    بھگوئے ہوئے بادام کے چھلکے اتارنے سے ان میں موجود ٹینن کی مقدار کم ہو جاتی ہے جو کہ نظام ہاضمہ کو بہتر رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    2.موٹاپا

    بھیگے ہوئے بادام میں فائبر ہوتا ہے جو کہ بھوک کو کنٹرول کرنے اور وزن کم کرنے میں مددگار ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو صبح کے وقت بھگوئے ہوئے بادام کھا سکتے ہیں۔

    3.دل

    بادام میں monounsaturated چربی ہوتی ہے جو دل کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ یہ کولیسٹرول کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہیں۔

    4 دماغی صحت

    بھیگے ہوئے بادام میں وٹامن ای اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو دماغی صحت کو فروغ دینے میں مددگار ہوتے ہیں۔

    5.ہڈیاں

    بادام میں کیلشیم اور میگنیشیم کی اچھی مقدار ہوتی ہے جو کہ ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    6.قوت مدافعت

    بھگوئے ہوئے بادام میں موجود وٹامنز اور منرلز قوت مدافعت کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    7.جلد

    بھگوئے ہوئے بادام میں وٹامن ای ہوتا ہے جو جلد کو صحت مند اور چمکدار بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے آپ بھیگے ہوئے بادام کھا سکتے ہیں۔

    8.توانائی

    بھیگے ہوئے بادام میں پروٹین، فائبر اور صحت بخش چکنائی ہوتی ہے، جو جسم کو توانا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

     

  • سرخ گوشت کھانے سے دماغی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

    سرخ گوشت کھانے سے دماغی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

    ہم میں سے اکثر لوگ گوشت کھانے کے بے حد شوقین ہوتے ہیں اور ہمارا کھانا گوشت کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ روزانہ گوشت کھانا کس قدر نقصان دہ ہے؟

    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ گوشت کو اعتدال میں کھانا ہی صحت بخش ہے کیونکہ اس کی زیادتی سے ڈائریا، بد ہضمی، الٹی اور فوڈ پوائزننگ جیسی شکایت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    سرخ اور سفید گوشت کیا ہے؟

    گوشت کے بارے میں وائٹ میٹ اور ریڈ میٹ کی اصطلاح تو آپ نے اکثر سنی ہو گی، وائٹ میٹ چکن اور مچھلی یا دیگر آبی حیات سے حاصل ہونے والے گوشت کو کہا جاتا ہے، جب کہ بکری، بھیٹر اور گائے وغیرہ کے گوشت کو ریڈ میٹ کہتے ہیں۔

    ریڈ میٹ عموماً زیادہ ذائقے دار ہوتا ہے، اس میں پروٹین، وٹامنز اور دوسرے صحت بخش اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس لیے معالج عموماً بعض صور توں میں بڑا گوشت یا ریڈ میٹ کھانے سے منع کرتے ہیں۔

    سرخ گوشت

    گو کہ گوشت میں شامل غذائی اجزا جسم کے لیے ضروری ہوتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اجزا دوسری متبادل غذاؤں جیسے مچھلی، انڈوں یا خشک میوہ جات سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گوشت کو اپنی غذا کا لازمی حصہ بنانے سے قبل ان کے خطرناک نقصانات کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

    حیران کن تحقیق 

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گائے یا بکرے کا گوشت زیادہ مقدار کھانے والے افراد میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ محض 28 گرام پراسیس سرخ گوشت کے استعمال سے ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں سرخ گوشت کی جگہ گریوں، دالوں اور بیجوں کو استعمال کرنے سے ڈیمینشیا کا خطرہ 20 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔

    ماضی میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پراسیس سرخ گوشت میں چکنائی، نمکیات اور نائٹریٹ کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جس سے کینسر کی مختلف اقسام، ذیابیطس ٹائپ 2، امراض قلب اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کیا ویڈیو گیمز سے بچوں کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    کیا ویڈیو گیمز سے بچوں کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ جو بچے کھیل کے میدان کی بجائے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ پر زیادہ وقت گزارتے ہیں اور ویڈیو گیمز کے عادی ہیں، ان کے دماغ پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے دن بھر کمرے میں بیٹھ کر گیم میں مگن رہتے ہیں، اور بغیر پلک جھپکائے لمبے وقت تک موبائل پر ویڈیو گیمز کھیلتے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کا دماغ ٹھیک سے کام کرنے کی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔

    صحت کے ماہرین کے مطابق موبائل فون پر زیادہ دیر تک گیم کھیلنے کی وجہ سے ذہن پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے جس سے بچوں کو سر درد، بے چینی اور بھاری پن محسوس ہونے لگتا ہے، جس کے سبب پڑھائی میں ان کا دل بھی نہیں لگتا کیوں کہ ان کے ذہن پر ویڈیو گیمز حاوی رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو اس صورت حال میں توجہ دینی ہوگی، کیوں کہ اس سے بچوں کی ذہنی صحت خراب ہو رہی ہے، وہ چڑچڑے ہوتے جا رہے ہیں، اور ویڈیو گیمز کی وجہ سے بچے خاندان اور معاشرے سے بھی بالکل کٹ رہے ہیں۔

    رات کو دیر تک موبائل فون پر آن لائن گیمز کھیلنے کی وجہ سے آنکھوں پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بینائی متاثر ہو جاتی ہے، اور نیند کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، جس سے انھیں دن بھر تھکن اور بوریت کا احساس ستاتا رہتا ہے، والدین اور دوستوں سے دوری کی وجہ سے انھیں تنہائی کا احساس بھی ہونے لگتا ہے، یوں وہ اداس اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کا اسکرین ٹائم کم کرنے کی کوشش کریں، اور اسکرین ٹائم 2 گھنٹے سے زیادہ نہ ہونے دیں۔ ماہرین نے یہ دل چسپ حل بھی بتایا ہے کہ والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کو گھر یعنی کچن کے چھوٹے موٹے کام میں پیار اور حکمت سے مشغول کروائیں، اور باہر کے کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔

    والدین خود بھی موبائل فون کا استعمال کم کر دیں، اور اپنے عمل سے بتائیں کہ یہ بھی دوسری چیزوں کی ایک چیز ہے جسے ضرورت کے وقت ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کس بیماری کا سبب ہے؟

    سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کس بیماری کا سبب ہے؟

    واشنگٹن : امریکی سرجن نے سوشل میڈیا کے استعمال کو نوجوانوں میں ڈپریشن کی بڑی وجہ قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومتیں اس کے سدباب کیلئے مؤثر قانون سازی کریں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ کے ممتاز ترین سرجن جنرل ڈاکٹر ویویک مورتھی نے کہا ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا کی اجازت دینا ایسا ہی ہے جیسے انہیں غیر محفوظ ادویات کا استعمال کرایا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال موجودہ عہد کے نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    یہ بات انہوں نے ایک انٹرویو میں کہی، ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے میں ناکامی ناقابل یقین ہے۔

    انہوں نے یہ تبصرہ ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے حوالے سے کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں 15 سے 24 سال کے افراد میں مایوسی کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

    رپورٹ میں نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن بڑھنے کی وجہ پر تو روشنی نہیں ڈالی گئی مگر یو ایس سرجن جنرل کے خیال میں اس کی وجہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنا ہے۔

    انہوں نے ایک تحقیق کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق امریکی نوجوان اوسطاً روزانہ لگ بھگ 5 گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ایسے ڈیٹا کے منتظر ہیں جس سے ثابت ہوسکے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بچوں اور نوجوانوں کیلئے محفوظ ہیں۔

    انہوں نے ایسی قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا جس سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا سے ہونے والے نقصانات سے محفوظ رکھا جاسکے۔

    سوشل میڈیا دماغی صحت کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

    انسان ایک سماجی مخلوق ہے جسے زندہ رہنے کیلئے دوسروں کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے رابطوں کی مضبوطی ہماری ذہنی صحت اور خوشی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دوسروں کے ساتھ سماجی طور پر جڑے رہنا تناؤ، اضطراب، تنہائی اور افسردگی کو کم اور خود اعتمادی کو بڑھا سکتا ہے بلکہ سکون اور خوشی فراہم کرسکتا ہے۔

    یہاں تک کہ آپ کی زندگی میں کئی سالوں کا اضافہ بھی کر سکتا ہے لیکن دوسری جانب مضبوط سماجی روابط کا فقدان آپ کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔

    لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کبھی بھی حقیقی دنیا کے انسانی رابطے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

    اگر آپ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزار رہے ہیں اور اداسی، عدم اطمینان، مایوسی یا تنہائی کے احساسات آپ کی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں تو اپنا وقت کسی اور مشغولیات میں صرف کریں۔

  • دماغی صحت کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    دماغی صحت کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ہر انسان کیلئے ذہنی صحت اتنی اہمیت کی حامل ہے جیسے سانس لینا یا یا کھانا پینا کیونکہ جب ہم دماغی طور پر تندرست و توانا نہیں ہوں گے تو فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھ سکیں گے۔

    اچھی زندگی کیلئے دماغی صحت اہم جز ہے کیونکہ یہ خیالات، طرز عمل اور جذبات کو متاثر کرتی ہے، ذہنی طور پر صحت مند ہونا روزمرہ کی سرگرمیوں میں مثبت اور دیرپا نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں شوبز کی معروف اداکارہ شرمین علی نے ذہنی صحت کی اہمیت اور اس کی افادیت سے متعلق اہم باتیں بتائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اچھی دماغی صحت ہماری سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ جب ہم خود کسی کام کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہونگے تو دوسروں کے کام بھی نہیں آسکتے۔

    لہٰذا ہمیں اس حوالے سے مزید جاننا چاہیے تاکہ اس سے بچا جاسکے اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی پھیلائی جا سکے۔

    انسان کی دماغی صحت اس وقت متاثر ہوتی ہے جب کوئی شخص کیا اچھا ہے اور اچھا چل رہا ہے کے بجائے مسئلہ کیا ہے؟ پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو مطمئن کرنے کے بجائے اپنے اوپر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے تاکہ وہ خود بھی پرسکون رہ سکے۔

    دماغی صحت کیا ہے؟

    دماغی صحت سب سے زیادہ غلط سمجھی جانے والی اصطلاح ہے، لوگ اکثر ذہنی صحت کی حالتوں جیسے ڈپریشن، اضطراب، شخصیت کی خرابی، شیزوفرینیا جیسے علامات کو ذہنی صحت کی خرابی سمجھتے ہیں جبکہ معاملہ اس سے مختلف ہے۔

    بہت سے لوگوں کو جسمانی بیماریوں کی علامات کا علم ہوسکتا ہے جیسے کہ ہارٹ اٹیک یا فالج لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ خراب دماغی صحت کے بارے میں نہیں جانتے ہوں یا انہیں اس کا ادراک ہی نہ ہو۔

    بہت سے لوگوں کو جسمانی بیماریوں کی علامات کا علم ہوسکتا ہے، جیسے ہارٹ اٹیک یا فالج لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ خراب دماغی صحت کے بارے میں نہیں جانتے ہوں۔

    علامات کیا ہیں:

    اس کیفیت کی علامات میں مسلسل اداسی یا کوئی کمی محسوس ہونا، سماجی روابط اور روزمرہ کی سرگرمیوں سے دستبرداری یا بے اعتناعی، کھانے اور سونے کے اوقات میں تبدیلیاں، خودکشی کے خیالات اور تنہائی کے احساسات، حد سے زیادہ سوچنا اورحالات اور لوگوں سے متعلق یا سمجھنے میں دشواری، ضرورت سے زیادہ غصہ شامل ہیں۔

    دماغی صحت کیسے بہتر بنائی جائے؟

    وہ افراد جو ذہنی طور پر لچکدار ہوتے ہیں وہ مشکل حالات سے نمٹنے اور مثبت نقطہ نظر کو برقرار رکھنے کے لیے ذہن سازی کی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    چھوٹی چھوٹی چیزیں یا اقدامات دماغی صحت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، دماغی صحت کے مخصوص مسئلے سے نمٹنے کے لیے جذبات کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے لیے یا محض زیادہ مثبت اور توانائی بخش محسوس کرنے کے چند طریقے یہ ہیں۔

    اپنے ارد گرد سماجی روابط کو ترجیح دیں، روزانہ 30 منٹ کی جسمانی سرگرمی کو مقصد بنائیں متوازن اور صحت مند دماغی غذا کھائیں۔ فرصت کے وقت کو ترجیح دیں، ہر رات سات سے نو گھنٹے کی معیاری نیند ضروری بنائیں۔

  • روزانہ دو گھنٹے فون کا استعمال کس خطرے کا باعث ہے؟

    روزانہ دو گھنٹے فون کا استعمال کس خطرے کا باعث ہے؟

    موبائل فون کے استعمال سے جہاں بہت سے سماجی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں تو دوسری جانب اس کی وجہ سے صحت پر بھی کافی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    موبائل فون کو اگر ضرورت کے مطابق تھوڑے وقت کے لیے صرف ضرورت کے لیے استعمال کیا جائے تو صحت پر ظاہر ہونے والے مضر اثرات سے آسانی کے ساتھ بچا جاسکتا ہے لیکن آج کل موبائل فون کا غیر ضروری استعمال بہت زیادہ حد تک بڑھ چکا ہے، خاص پر نوجوان سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت سارا وقت موبائل فون پر گزار دیتے ہیں۔

    cell phone

    حال ہی میں کی گئی ایک سائنسی تحقیق میں موبائل فون کے زیادہ استعمال کے خلاف سخت وارننگ جاری کی گئی اور اس سے ہونے والے کچھ نقصانات کا انکشاف کیا گیا کیونکہ روزانہ فون کا طویل استعمال صارف کو ایسی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے جو اس کی زندگی کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

     برطانوی اخبار "ڈیلی میل” کی رپورٹ کے مطابق امریکی محققین کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ سائنسی تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اسمارٹ فون کا طویل استعمال یعنی اسے دن میں صرف دو گھنٹے استعمال کرنا بالغ افراد کے لیے حرکت اور توجہ میں کمی، ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کی نشوونما کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔

     Phone

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا توجہ کی کمی ہائپرایکٹیویٹی ڈس آرڈر میں مبتلا بالغوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مشاہدہ کر رہی ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ اس وجہ اسمارٹ فون ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا جوانی میں ہائپرایکٹیویٹی ڈس آرڈر میں مسلسل اضافہ صرف بہتر اسکریننگ یا ماحولیاتی اور رویے کے عوامل کی وجہ سے ہے۔

     Radiation

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ دن میں دو یا اس سے زیادہ گھنٹے اپنے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان میں توجہ کی کمی کے باعث ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کا خطرہ 10 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ عارضہ بنیادی طور پر چھوٹے بچوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ بچہ بڑے ہوتے ہی اس سے باہر نکل سکے گا، لیکن اسمارٹ فونز جیسے سوشل میڈیا، ٹیکسٹ میسجز، سٹریمنگ میوزک، فلم یا ٹیلی ویژن کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلفشار کا سبب بنتا ہے جو بچوں میں ہائپرایکٹیویٹی ڈس آرڈر کی وبا پیدا کر رہے ہیں۔

    Cancer

    محققین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا لوگوں پر مسلسل معلومات کی بمباری کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے فون چیک کرنے کے لیے اپنے کاموں سے وقفہ لیتے ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنا فارغ وقت ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے گذارتے ہیں وہ اپنے دماغ کو آرام نہیں دیتے اور کسی ایک کام پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور عام خلفشار بالغ افراد کی توجہ کا دورانیہ کم کرنے اور آسانی سے مشغول ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔

    Speed

    سٹینفورڈ یونیورسٹی کے رویے کے ماہر نفسیات الیاس ابو جاود نے کہا کہ "ایک طویل عرصے سے ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر اور بھاری آن لائن استعمال کے درمیان تعلق ہمارے میدان میں ایک مرغی اور انڈے کا سوال رہا ہے۔ کیا لوگ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر ہونے کی وجہ سے بھاری آن لائن صارفین بن جاتے ہیں”ْ۔

    سائنس دانوں نے ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کو دماغی صحت کی خرابی کے طور پر بیان کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو محدود توجہ، انتہائی سرگرمی ہو سکتی ہے جو ان کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرسکتی ہے۔

    Smartphone

    ماہرین کے مطابق اس بات کی ہر ممکن حد تک کوشش کرنی چاہیئے کہ موبائل فون کا استعمال ضرورت کے وقت ہی کیا جائے۔ تاہم دو سے پانچ سال کی عمر تک کے بچے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے تک موبائل فون استعمال کر سکتے ہیں، جب کہ نوجوانوں اور بڑوں کے لیے موبائل فون کے استعمال کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ دو گھنٹے ہے۔