Tag: mental health

  • دماغی صحت اور ہڈیوں کی مضبوطی صرف ’انگور‘ سے

    دماغی صحت اور ہڈیوں کی مضبوطی صرف ’انگور‘ سے

    انگور کو بیریز کے خاندان کا حصہ سمجھا جاتا ہے جس کی مزیدار اور غذائیت سے بھرپور مختلف اقسام دنیا بھر میں مختلف رنگوں جیسے سبز، سرخ، نیلے، جامنی اور سیاہ رنگوں میں دستیاب ہیں۔

    ویسے تو موسمی پھل ہر طرح کی غذائیت سے بھرپور ہوتے اور انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر ترو تازہ رکھتے ہیں۔ انگور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جو کسی سپر فوڈ سے کم نہیں اسے کھانے سے آپ کو صحت کے حوالے سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    صحت مند دل

    انگور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں، جو دل کے امراض کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان اینٹی آکسیڈنٹس کے ساتھ ساتھ اس میں پولی فینولز بھی پائے جاتے ہیں جو خراب کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں کمی لاسکتے ہیں۔ یہ قلبی بیماریوں کے خطرے کو کم کرسکتی ہیں۔

    سوزش میں کمی 

    انگور میں موجود مرکبات سوزش انسانی جسم میں سوزش کو کم کرتے ہیں اور دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔

    کینسر کی روک تھام 

    یہ نتائج حاصل ہوئے ہیں کہ انگور میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس کینسر سے لڑنے والی خصوصیات رکھتے ہیں، جو کینسر کے خلیوں کی مخصوص اقسام کی نشوونما کو روکنے میں مدد کرتے ہیں۔

    مدافعتی نظام میں بہتری

    انگور وٹامن سی کا ایک اچھا ذریعہ ہیں، جو صحت مند مدافعتی نظام کے لیے ضروری ہے۔

    نظام ہاضمہ

    انگور میں فائبر ہوتا ہے جو نظام ہاضمہ میں مدد کرتا ہے۔ انگور میں پایا جانے والا فائبر زیادہ تر ناقابل تحلیل ہوتا ہے کیونکہ یہ پیٹ کو صحت مند رکھنے کے لیے آپ کی آنتوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ انگور کا رس ایک اہم جزو ہے، جو صحت مند ہاضمے میں مدد کرتا ہے

    وزن میں کمی

    انگور میں کیلوریز نسبتاً کم اور پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ ان لوگوں کے لیے مفید ہیں جو اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔

    دماغی صحت

    انگور میں پایا جانے والا Resveratrol کو علمی فوائد سے منسلک ہے اور یہ دماغ کو عمر سے متعلق زوال سے بچانے میں مدد کر سکتا ہے، یہ پھل یادداشت بہتر بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔

    ہڈیوں کی صحت 

    انگور پوٹاشیم، کیلشیم اور میگنیشیم جیسی معدنیات سے بھرپور ہوتے ہیں، جو ہڈیوں کی صحت میں معاون ہوتے ہیں اور آسٹیوپوروسس کو روکنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

    ہائیڈریشن
    انگور میں پانی کی زیادہ مقدار ہائیڈریشن میں مدد کرتی ہے اور جسمانی افعال کو درست رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

    جِلد کیلئے بہترین

    انگور میں موجود اجزاء، عمر میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی علامات اور جِلد سے متعلق مسائل کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ انگو ر میں موجود ریسوریٹرول کیل مہاسوں کی وجہ بننے والے جراثیم کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

    بلڈ شوگر کنٹرول کرنا

    یہ پایا گیا ہے کہ انگور میں موجود کچھ مرکبات خون میں شکر کی سطح کو منظم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں، انگور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

    آنکھوں کیلئے مفید

    انگور کھانے سے آنکھیں صحت مند رہتی ہیں۔ انگور کھانے سے آنکھوں کے قرنیے میں نقصان دہ مالیکیولز کے اخراج کا خطرہ کم ہوتاہے۔

    یہ پھل ڈی این اے کو نقصان سے محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہوئے صحت مند خلیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جس سے بصارت کو فائدہ ہوتا ہے

  • دماغی طاقت میں اضافے کیلئے یہ طریقہ اختیار کریں

    دماغی طاقت میں اضافے کیلئے یہ طریقہ اختیار کریں

    دماغی صحت کی بہتری کے لیے کوئی تحقیق یا ہدایات سامنے آئیں تو بہت سے لوگ ان باتوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، دماغی صحت کو بہتر بنانے لیے ہمیں شروع سے اس کا آغاز کرنا ہوگا۔

    ان مسائل سے دوچار لوگوں کو پریشان ہونے کے بجائے چند چھوٹی چھوٹی عادات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ اپنے 30 کے عشرے میں ہی بوڑھے محسوس ہونے لگتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ50 کے عشرے میں بھی جوان نظر آتے ہیں۔ آپ جلد بوڑھے ہوجاتے ہیں یا آپ سدا بہار جوانی پاتے ہیں، اس کا دارومدار آپ کے روزمرہ معمولات اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں (لائف اسٹائل) پر ہے۔

    سائنسی لحاظ سے انسان بوڑھا ہونا اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسانی خلیوں کی جھلیوں میں شامل ایک اہم کیمیائی جزو ’فاسفیڈائیٹل کولین‘ ختم ہونے لگتا ہے۔
    (Phosphatidylcholine)

    جسمانی وزن کے اعتبار سے دماغ کا حصہ دو فیصد ہوتا ہے، تاہم جسم 20فیصد خون دماغ سے حاصل کرتا ہے، اسی طرح جسم کی 20فی صد آکسیجن اور گلوکوز دماغ استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جینیاتی پیچیدگی میں 50فی صد نمائندگی دماغ کی ہے۔

    دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے آدھے جینز اس کے دماغ کے ڈیزائن کو بیان کرنے میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ باقی 50فیصد جینز 98 فیصد جسم کی بناوٹ کو بیان کرتے ہیں، مزید برآں دماغ آپ کے جسم کا کنٹرولر ہوتا ہے۔

    یہ آپ کے دل کی ہر دھڑکن، آنکھ کی ہر جھپک، ہارمونز کے ریلیز ہونے اور آپ کی ہر جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔ انسانی جسم میں دماغ کی اس قدر اہمیت اور مرکزیت کے باعث یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دماغ کو متحرک، صحت منداور خوش رکھنے کے ساتھ ہی بوڑھے ہونے کے عمل کو سست کرنے (یعنی جواں رکھنے) کے لیے بنیادی ضروری تدابیر اختیار کرے۔

    19ویں صدی کے وسط تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ دماغ مخصوص ساخت کا ہوتا ہے اور اس کے نیورانز کو تبدیل یا دوبارہ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم سائنس کے میدان میں حالیہ عرصے میں ہونے والی پیشرفت برین اِمیجنگ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ نا صرف اپنی ساخت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ درحقیقت یہ انسانی جسم کا سب سے متحرک اور خود بخود منظم ہونے والا حصہ ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دماغ کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کے باعث جب کسی شخص کے دماغ کا ایک حصہ فالج سے متاثر ہوکر غیرمتحرک ہوجاتا ہے تو دماغ اپنے خودکار نظام کے تحت متاثرہ حصے کی معلومات، علم اور ہنر کو دماغ کے صحت مند حصے کی طرف منتقل کردیتا ہے۔

    دماغی سرگرمیاں صحت کی ضامن

    دماغ انسان کے کسی بھی دیگر گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہے، جسے آپ استعمال کریں یا ضائع کردیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب انسان ایک عرصہ تک بستر پر پڑا رہتا ہے (کسی بیماری کے باعث) تو اس کے پٹھے کسی کام کے نہیں رہتے۔

    دماغ کی صحت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جب انسان اپنے دماغ کو عقلی طور پر چیلنج کرنے والی سرگرمیوں میں مشغول نہیں رکھتا، پھر چاہے وہ دماغ کو فائدہ پہنچانے والے وٹامنز یا غذائیں ہی کیوں نہ کھاتا ہو، صحت مند دماغ بھی نئے کنکشنز بناناختم کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ بدنظمی کا شکار اور بالآخر غیرفعال ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح جسمانی طور پر کمزور شخص باقاعدہ ورزش یا جسمانی تھراپی کے ذریعے اپنے پٹھوں کو دوبارہ فعال بناسکتا ہے، دماغ کو بھی اسی طرح پھر سے متحرک بنایا جاسکتا ہے۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وہ عمر رسیدہ افراد جو اپنے دماغ کو روز مرہ کی چیلنجنگ سرگرمیوں جیسے کتب بینی میں مصروف رکھتے ہیں، دماغی طور پر متحرک رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اپنے دماغ کو سکونت کی حالت میں رکھنے والے عمر رسیدہ افراد کی ذہنی صلاحیت میںقابلِ ذکر کمی دیکھی گئی۔

    صحت مند دماغ کیلئے طرزِ زندگی بدلیں

    انسان ویسا ہی بن جاتا ہے جیسا وہ سوچتا ہے، غذا، دماغ کو چیلنجنگ سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے علاوہ دماغ کی صحت کو برقرار رکھنے میں صف اوّل کی مدافعتی قوت فراہم کرنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آپ کی غذاناکافی ہے تواس کمی کو آپ دماغ کو تقویت دینے والے اضافی سپلیمنٹس کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ آپ کا دماغ 60فیصد چربی (فیٹس) پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے دماغی صحت کے لیے صحت مند چربی کو اپنی غذا میں شامل کرنا ضروری ہے۔

  • یادداشت کو تیز کرنے کا جادوئی نسخہ

    یادداشت کو تیز کرنے کا جادوئی نسخہ

    ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ شکایت یا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں، اس کی وجہ دیگر عوامل کے علاوہ یادداشت کی کمزوری بھی ہوسکتی ہے۔

    اس مسئلے کی وجہ سے لوگوں کے نام یاد نہیں رہتے، چابیاں یا چشمہ کہیں رکھ کر بھول جانا، تاریخوں کا بھول جانا، بہت سی دعائیں جو یاد کر رکھی ہوں ان کا یاد نہ آنا سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

    لیکن اگر آپ کو بھولنے کی بیماری ہے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آپ ضرورت سے کم نیند لے رہے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں، جسمانی مشقت کم ہے یا کوئی جینیاتی مسئلہ ہے۔

    اس چیز سے چھٹکارا پانے کیلیے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر عیسیٰ نے بہت آسان سا نسخہ بیان کیا جس کو کھا کر چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھول جانے کا یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ سو روپے کی برہمی بوٹی کسی بھی پنساری کی دکان سے لیں اور اس کے اندر اتنے ہی وزن کی مصری شامل کریں اور اس کا سفوف بنا کر رکھ لیں، ڈاکٹر عیسیٰ نے کہا کہ روزانہ ایک چمچ دودھ میں ڈال کر پیئیں آپ کی یادداشت بہترین ہوجائے گی۔

    دماغی صحت میں خوراک کا کردار نہایت اہم ہے، دماغ کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال ہمارے جسم میں خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے اور اگر آپ بھولنے کی شکایت کر رہے ہیں تو یقیناً اپنے دماغ کو درست غذا فراہم نہیں کرپا رہے۔

  • فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئے

    فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئے

    تل ابیب: فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کا ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہونے لگے ہیں، اس سلسلے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے فوجیوں کے لیے ایک پوسٹ ٹراما سیشن منعقد کیا۔

    سیشن میں فوجیوں نے بتایا کہ فلسطینیوں پر ظلم کرنے کے بعد انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی اور ہر وقت ایک خوف سا چھایا رہتا ہے، دی یروشلم پوسٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں کئی اسرائیلی فوجی خودکشیاں کر چکے ہیں جس کے بعد اس مسئلے کی طرف توجہ دی گئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہوئے انھیں علاج کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں، بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھا ہی نہیں گیا، جس کی وجہ سے وہ خود کشی پر مجبور ہوئے۔

    آئی ڈی ایف اہلکار بار کلاف نے وزارت دفاع کو درخواست دی تھی کہ اسے ’معذور فوجی‘ کے طور پر تسلیم کیا جائے، تاہم درخواست مسترد ہونے پر اس ماہ کے شروع میں اس نے خود کو نذر آتش کر دیا، جو اگلے دن چل بسا۔ اگلے ہی دن ایک اور فوجی اورڈونیو نے بھی اسی سبب خود کو مار ڈالا۔

    واضح رہے کہ رواں سال صہیونی فورسز 220 فلسطینی شہید کر چکی ہے، ٹوئٹر پر ایسی متعدد ویڈیوز موجود ہیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کو سڑکوں پر کم عمر نہتے فلسطینیوں کو بھی گولیاں مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

  • نمک کے زیادہ استعمال کا خطرناک نقصان

    نمک کے زیادہ استعمال کا خطرناک نقصان

    نمک کا زیادہ استعمال کئی جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے لیکن اب حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ نمک کا زیادہ استعمال ذہنی بیماریاں بھی دے سکتا ہے۔

    تحقیقی جریدے برٹش فارماکولوجیکل سوسائٹی میں شائع تحقیق کے مطابق جاپانی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کا زیادہ استعمال نہ صرف ہائی بلڈ پریشر بلکہ ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین نے نمک کے زیادہ استعمال کے دماغ اور انسانی اعصاب پر پڑنے والے منفی اثرات جانچنے کے لیے چوہوں پر تحقیق کی اور چوہوں کو 12 ہفتوں تک زیادہ نمک والا پانی اور خوراک دی گئی۔

    بعد ازاں ماہرین نے تمام چوہوں کے اعصاب، جسمانی اور دماغی حالت کا جائزہ لیا اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ زیادہ نمک استعمال کرنے سے کون سے کیمیکل یا پروٹین بڑھ جاتے ہیں جو بیماریوں اور مسائل کا سبب بنتے ہیں۔

    ماہرین نے دیکھا کہ زیادہ نمک استعمال کرنے سے جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرنے والے پروٹین تاؤ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے ڈیمینشیا یا الزائمر ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ زیادہ نمک کے استعمال سے چوہوں کے دماغ میں ایک کیلشیئم پروٹین میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی ہے، یہ پروٹین دماغ میں لہروں یا وہاں موجود نسوں کے درمیان سگنلز بھیجنے کا کام کرتا ہے۔

    ماہرین نے زیادہ نمک کے استعمال سے چوہوں کے اعصاب پر پڑنے والے اثرات کا بھی جائزہ لیا۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ زیادہ نمک استعمال کرنے سے چوہوں کے اعصابی نظام کے دو اہم ہارمونز اور ان کے جزوی ہارمونز میں بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جو ہائی بلڈ پریشر کا سبب بن رہی ہیں۔

    مذکورہ دونوں ہارمونز اور ان کے جزوی ہارمونز انسان کے نسوں میں خون کی روانی کو بہتر اور معیاری بنا کر اسے دل اور دماغ سمیت جسم کے دیگر حصوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں جبکہ اس میں سے ایک ہارمون چوٹ لگنے یا خون بہنے کی صورت میں خون کو روکنے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ زیادہ نمک کے استعمال سے چوہوں کے اعصابی اور دماغی نظام کے متعدد پروٹینز اور ہارمونز میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئیں جو کہ ہائی بلڈ پریشر اور دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیادہ نمک استعمال کرنے سے نہ صرف ہائی بلڈ پریشر بلکہ ذہن کے غیر فعال ہونے یا ڈیمینشیا اور الزائمر جیسی بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ہر انسان کو یومیہ زیادہ سے زیادہ 4 گرام نمک کھانا چاہیئے لیکن آج کل کے دور میں باربی کیو اور فاسٹ فوڈز کی وجہ سے انسانوں میں نمک کا یومیہ استعمال 15 سے 20 گرام تک جا پہنچا ہے جو کہ مطلوبہ مقدار سے 5 گنا زیادہ ہے۔

  • ملک کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل باعث تشویش ہیں: صدر مملکت

    ملک کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل باعث تشویش ہیں: صدر مملکت

    اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل ہونا باعث تشویش ہے، مینٹل ہیلتھ پروفیشنلز کو استعداد کار میں اضافے کے لیے تربیت دینا ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت نفسیاتی صحت کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں صدر پاکستانی امریکن سائیکٹرک ایسوسی ایشن، قومی کمیشن انسانی حقوق، عالمی ادارہ صحت کے نمائندوں، پاکستان سائیکٹری سوسائٹی، وزارت صحت اور نفسیاتی صحت کے ماہرین نے شرکت کی۔

    اجلاس میں صدر مملکت نے ذہنی صحت کے علاج اور روک تھام کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔

    صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل ہونا باعث تشویش ہے، نفسیاتی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے صرف 5 سے 6 سو ماہرین نفسیات ہیں۔

    انہوں نے ذہنی صحت کے پروفیشنلز کی تعداد میں اضافے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہیلتھ پروفیشنلز کو استعداد کار میں اضافے کے لیے تربیت دینا ہوگی۔

    اجلاس کے شرکا نے نفسیاتی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز دیں۔

  • 6 منٹ کی سخت ورزش کا حیران کن نتیجہ، نئی تحقیق

    طبی ماہرین نے ایک تحقیق کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ محض 6 منٹ کی سخت ورزش آپ کے دماغ میں ایک اہم مالیکیول کو بڑھا دیتی ہے، جو دماغی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔

    یہ ریسرچ اسٹڈی نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو میں کی گئی جو جرنل آف سائیکولوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ چھ منٹ کی تیز رفتار ورزش سے حیران کن طور پر دماغ میں ایک اہم پروٹین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے، یہ پروٹین دماغ کی بناوٹ، افعال اور یادداشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اس پروٹین کی کمی یا خرابی کی وجہ سے الزائمر کی بیماری جیسا کہ نیوروڈیجینریٹیو عوارض ابھرنے لگتے ہیں۔

    زیربحث خصوصی پروٹین کو ’دماغ سے ماخوذ نیوروٹروفک فیکٹر‘ (BDNF) کہا جاتا ہے، اور یہ دماغ میں نیورون سیلز کی نشوونما اور بقا دونوں کو فروغ دیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ نئے روابط اور سگنل لانے لے جانے والے راستوں کی نشوونما میں سہولت فراہم کرتا ہے۔

    تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ صرف چھ منٹ کی سخت اور تیز ورزش آپ کو دماغی امراض سے بچا سکتی ہے۔

    ریسرچ کیسے کی گئی؟

    محققین نے جسمانی طور پر فعال 12 رضاکاروں کو ریسرچ اسٹڈی کے لیے منتخب کیا، جن کی عمریں 18 سے 56 سال کے درمیان تھیں۔ ان تمام شرکا کو تین مختلف طریقوں کے ذریعے جانچا گیا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دماغ میں بی ڈی این ایف کی پیداوار بڑھانے کے لیے کون سا طریقہ بہترین ہے۔

    ان تین طریقوں میں 20 گھنٹے کا روزہ، 90 منٹ سائیکل چلانا، اور 6 منٹ کی بھرپور سائیکلنگ شامل تھی۔

    مختصر وقت کے لیے تیز رفتار یعنی سخت سائیکلنگ نے اس پروٹین کی پیداوار بڑھانے حیران کن نتائج فراہم کیے، درحقیقت، اس نے خون میں بی ڈی این ایف کی سطح کو 4 یا 5 گنا بڑھایا، اس کے برعکس ہلکی ورزش کے بعد معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا، تاہم روزے کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ دماغ کو صحت مند رکھنے اور بیماری سے بچانے کے لیے زیادہ شدت والی ورزش ایک آسان اور سستا طریقہ ہے۔

    نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی فزیالوجسٹ ٹریوس گبنس کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اب تک انسانوں میں اس اہم پروٹین کی پیداوار بڑھانے اوراس کی طاقت کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہی ہیں، حالاں کہ جانوروں کے ماڈلز میں اس کی کارکردگی اچھی رہی۔ لہذا انھوں نے اس کے لیے غیر روایتی طریقوں کو تلاش کیا، جو اس پروٹین کی پیداور کو بڑھا کر اسے مستقبل میں استعمال کرتے ہوئے دماغی امراض سے بچا سکے۔

  • کیا آپ اپنے دوستوں کے درمیان خود کو غریب محسوس کرتے ہیں؟

    کسی انسان کے معاشی حالات اس کی ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ اس کی مجموعی شخصیت کا بھی تعین کرتے ہیں، اب حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ دوستوں کے درمیان خود کو غریب محسوس کرنا باقاعدہ دماغی بیماری کو جنم دیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دماغی صحت سے مراد کسی شخص کی مجموعی جذباتی اور نفسیاتی تندرستی ہے، اس میں کسی کے جذبات، خیالات اور طرز عمل کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ صحت مند تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔

    اچھی ذہنی صحت ہی مجموعی صحت اور تندرستی کی ضامن ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نفسیات کی ایک نئی تحقیق کے مطابق جو نوجوان خود کو اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں غریب یا پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والا سمجھتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور ان میں مجرمانہ سرگرمیوں کا شکار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ جو لوگ خود کوغریب یا امیر محسوس کرتے ہیں وہ دونوں ہی غنڈہ گردی میں ملوث ہوتے ہیں، تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ دوستوں کے درمیان معاشی مساوات کا احساس ذہنی صحت اور سماجی رویے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    اگرچہ معاشرے میں معاشی پسماندگی کا تعلق نوجوانوں میں دماغی صحت اور سماجی مسائل سے طویل عرصے سے رہا ہے، تاہم آپ کے قریبی سماجی دائرے میں رہنے والوں کی نسبت خود کو صرف غریب محسوس کرنا منفی رویہ سے متعلق ہے جبکہ یہ نئی تحقیق اس طرح کا تعلق ظاہر کرنے والی پہلی تحقیق ہے۔

    ماہرین کے مطابق، نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنی ابتدائی جوانی میں دوستوں کے ساتھ سماجی موازنہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بارے میں جو فیصلے کرتی ہے جیسے وہ دوسروں کی نسبت کتنے مقبول یا پرکشش ہیں، اس طرح کی سوچ نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے احساسِ نفس کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اور یہ سمجھی جانے والی معاشی حیثیت اس کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

    کیمبرج گیٹس کی اسکالر اور پی ایچ ڈی، مطالعہ کی مرکزی مصنفہ بلانکا پیرا پی سنیئرکا کہنا ہے کہ جوانی ایک طرح سے تبدیلی کی عمر ہے جسے نوجوان دوسروں کے ساتھ اپنے سماجی موازنے کو مدنظر رکھتے ہوئے خود فیصلہ کرنے اور اپنے احساس کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    یہ احساس کہ آپ کی معاشی حیثیت کیا ہے، یہ نہ صرف معاشرے کے وسیع تناظر میں، بلکہ آپ کے قریبی ماحول سے وابستگی کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب آپ جوان ہوتے ہیں تو اس وقت اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ دولت کا موازنہ سماجی اور ذاتی خود اعتمادی کے احساس پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین نے نوجواںوں میں معاشی حیثیت اور ان کے حساس کے درمیان تعلق کو جاننے کے لیے ایک تحقیق کی جس میں برطانیہ کے 12 ہزار 995 ایسے بچوں کے درمیان دوستی گروپوں کے اندر سمجھی جانے والی معاشی عدم مساوات کا تجزیہ کیا جن کی عمریں 11 برس تھی۔

    گیارہ سال کے وہ بچے جو اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے زیادہ غریب سمجھتے تھے، ان میں 6 سے 8 فیصد کم خود اعتمادی نوٹ کی گئی، جبکہ ان میں فلاح و بہبود کے لحاظ سے 11 فیصد کمی دیکھی گئی بہ نسبت ان لوگوں کے جو معاشی طور پر خود کو دوستوں کے برابر سمجھتے تھے۔

    اسی طرح جو لوگ اپنے آپ کو کم امیر سمجھتے تھے ان میں جذباتی مسائل جیسے اضطراب اور غصے کے مسائل یا ہائپر ایکٹیوٹی بھی موجود تھی اور ساتھ ہی ان میں غنڈہ گردی کا امکان 17 فیصد زیادہ تھا، جبکہ 14 برس کی عمر تک پہنچنے پران میں غنڈہ گردی کرنے کو واضح طور پر نوٹ کیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی عدم توازن اس عمل کو جنم دینے میں ایک اہم محرک ہے۔

  • وہ 5 دماغی امراض جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہے ہیں

    وہ 5 دماغی امراض جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہے ہیں

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں اس وقت 5 کروڑ افراد کسی نہ کسی نوعیت کے ذہنی امراض کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی امراض کو اہم مسئلہ خیال کرتے ہوئے اسے اولین ترجیح دینا ضروری ہے اور صحت کے بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

  • والدین بچوں کی ذہنی صحت کا خیال کس طرح رکھیں؟

    والدین بچوں کی ذہنی صحت کا خیال کس طرح رکھیں؟

    اکثر والدین اپنے بچوں یا نوعمر اولاد کی ذہنی صحت اور تندرستی کے بارے میں پریشان رہتے ہیں، ان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کی ذہنی نشوٓنما اور ان کے غصے کو کیسے کنٹرول رکھا جائے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں کلینیکل سائیکالوجسٹ عاصمہ ناہید کسانہ نے شرکت کی اور بچوں کی ذہنی صحت بہتر کرنے کے طریقے بتائے۔

    عاصمہ ناہید نے بتایا کہ بچوں سے ان کی عمر کے تناسب سے برتاؤ کرنا چاہیے، بارہ سال کی عمر تک ان گہری نظر رکھی جائے اور 13 سے 19سال تک ان سے دوستانہ ماحول میں گفتگو کی جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی ذہنی صلاحتیں بہتر بنانے میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے، والدین کو چاہیئے کہ بچوں کا ایک شیڈول بنائیں جس میں پڑھائی، کھیل، کمپیوٹر / موبائل / ٹی وی کا استعمال، باہر جانا اور تخلیقی سرگرمیاں سب ہی کچھ شامل ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ دوستانہ برتاؤ کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان کے دوست بن جائیں اس کا مطلب ہے کہ ان پر سختی بھی رکھیں اور ان کی حرکات و سکنات پر خصوصی توجہ بھی دیں۔

    والدین کو بچوں کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ بچوں کی جذباتی و نفسیاتی ضروریات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔