Tag: mental health

  • کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    گزشتہ 2 برس میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ذہنی امراض میں بے حد اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال کے دوران دنیا بھر میں ڈپریشن اور اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کی شرح میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ یہ اس بے نظیر تناؤ کی وضاحت کرتا ہے جس کا سامنا کرونا کی وبا کے دوران سماجی قرنطینہ سے ہوا۔ تنہائی، بیماری کا ڈر، اس سے متاثر ہونا، اپنی اور پیاروں کی موت، غم اور مالیاتی مسائل سب ایسے عناصر ہیں جو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی جانب لے جاتے ہیں۔

    یہ سب باتیں عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ کے اثرات کے حوالے سے جاری نئی رپورٹ میں بتائی گئی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نوجوانوں اور خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔

    مزید براں جو افراد پہلے سے کسی بیماری سے متاثر تھے ان میں بھی ذہنی امراض کی علامات کا خطرہ بڑھا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ جن افراد میں پہلے ہی کسی ذہنی بیماری کی ابتدا ہوچکی تھی، ان میں نہ صرف کووڈ 19 میں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے بلکہ اسپتال میں داخلے، سنگین پیچیدگیوں اور موت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق وبا کے دوران دنیا بھر کے ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کے لیے طبی سروسز متاثر ہونے سے بھی اس مسئلے کی شدت بڑھی۔

    ادارے کا کہنا تھا کہ دنیا کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس موجود تفصیلات تو بس آئس برگ کی نوک ہے، یہ تمام ممالک کے لیے خبردار کرنے والا لمحہ ہے کہ وہ ذہنی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اپنی آبادیوں کی ذہنی صحت کے لیے زیادہ بہتر کام کریں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق حالیہ سروسز میں عندیہ ملا ہے کہ 90 فیصد ممالک کی جانب سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سپورٹ کی فراہمی پر کام کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کے عزم کا مطالبہ بھی کیا۔

  • اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    فکرمندی اور خوف کی وجہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے؟

    کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔

    دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہوتے ہیں، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں، اس لیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آ جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں، جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں، اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

    خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

    جس سے خوشی محسوس ہو

    چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے، یہ کام آپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کر سکتا ہے۔

    دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے

    انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے، جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے، گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے لاک ڈاؤن میں اکیلا پن زیادہ محسوس کیا، خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکھتی ہے، ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

    غذائیت سے بھرپور خوراک

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے انجام دینے، اور حتیٰ کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو نیوٹرینٹس موجود ہوں، طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔

    مائیکرو نیوٹرینٹس ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہے، ان میں وٹامنز, اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی پیداوار، مدافعتی افعال، خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں، جب کہ معدنیات نشوونما، ہڈی کی صحت، مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جب کہ میکرونیوٹرینٹس میں کاربوہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹین شامل ہیں، یہ وہ چیزیں جو بہت استعمال ہوتی ہیں، یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں۔

  • کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    دنیا کووِڈ 19 کی بد ترین وبا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے، جو نئے ویرینٹ اومیکرون کی صورت میں اب عالمی سطح پر لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔

    ماہرین ایک طرف 50 تبدیلیوں والی نئی کرونا قِسم کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا یہ 2 تبدیلیوں والے ویرینٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ شدید اور متعدی ثابت ہوگا، یا آخر کار کرونا وائرس تبدیلیوں سے گزرتا ہوا منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے، یعنی کم زور ہو گیا ہے۔

    دوسری طرف، جب کہ اومیکرون ویرینٹ آسٹریلیا بھی پہنچ گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے، کیوں کہ لوگ پُرامید ہو گئے تھے کہ اب وہ جلد ہی اپنے خوف سے پیچھا چھڑا لیں گے۔

    ایسے میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائیکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے کرائسز سپورٹ سروس لائف کے ہیلپ لائن پر صرف ماہِ اگست ماہ میں روزانہ اوسطاً 3 ہزار 505 کالز کی گئیں، یہ کالیں مختلف پریشانیوں میں مبتلا شہریوں نے کیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94 ہزار 4 سو پریشان آسٹریلوی شہریوں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا۔

    جیولی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلا پن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق تھیں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کو طویل عرصے بعد بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی یعنی ذہنی دھند کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    لانگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے۔ اس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے مسائل
    بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کو اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • بہت زیادہ فراغت بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے

    بہت زیادہ فراغت بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے

    آج کل کی زندگی میں بہت زیادہ مصروفیات تھکن کا شکار کردیتی ہیں اور اس کے لیے کچھ وقت فارغ رہ کر گزارنا بہترین حل ہے، تاہم اب ماہرین نے بہت زیادہ فراغت کو بھی نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ دن بھر میں ساڑھے 3 گھنٹے سے زیادہ فراغت ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور 7 گھنٹے تک فارغ رہنا لوگوں کو خود برا محسوس ہونے لگتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے فارغ وقت اور خوشی کے درمیان ایک اتار چڑھاؤ پر مبنی تعلق کو دریافت کیا، اگر فراغت کا وقت بہت کم ہے تو بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کو بہت زیادہ تناؤ محسوس ہوتا ہے، مگر زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی فرد بہت زیادہ فارغ رہ کر گزارتا ہے تو بھی اس کی شخصیت اور خوشی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر فراغت کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے، اگر اس کو تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 21 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو 2012 اور 2013 کے دوران ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ ان افراد سے گزشتہ 24 گھنٹوں کا تفصیلی احوال معلوم کیا گیا اور ان سے اپنی ذہنی حالت کے بارے میں رپورٹ کرنے کا کہا گیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ فارغ رہ کر 5 گھنٹے گزارنے سے لوگوں میں خوشی کا احساس گھٹنے لگتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو بہت کم یا بہت زیادہ فراغت ہوتی ہے وہ ذہنی طور پر بدترین اثرات محسوس کرتے ہیں جبکہ معتدل وقت گزارنے والوں کا ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔

    ماہرین نے تسلیم کیا کہ یہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی جیسے ضروری نہیں کہ بہت زیادہ فارغ وقت ہر فرد پر یکساں اثرات مرتب کرتا ہو، تحقیق کے نتائج لوگوں کے تاثرات پر مبنی تھے لہٰذا ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اسی طرح کے تجربے کا سامنا ہوتا ہو۔

  • کورونا وائرس سے دماغی صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    کورونا وائرس سے دماغی صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    کورونا وائرس جسمانی صحت کے علاوہ دماغی توازن پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اس کا انکشاف محققین نے اپنی تحقیق میں کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کے افراد پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

    تحقیقی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔

    الزائمر ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیے گئے ان نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس سے دماغی افعال پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں بالخصوص بزرگ افراد میں۔

    تاہم الزائمر ایسوسی ایشن کی نائب صدر ہیتھر ایم سنائیڈر کا کہنا تھا کہ اگرچہ تحقیقی نتائج دماغ پر کووڈ کے اثرات کو سمجھنے کی جانب پیش رفت ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر آپ کووڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ڈیمینشیا یا الزائمر کا خطرہ بڑھ جائے، ہم ابھی بھی کووڈ اور دماغی امراض کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    ایک تحقیق کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تھی جس میں 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 400 سے زیادہ ارجنٹائنی افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔

    تحقیقی ٹیم نے ان افراد کا معائنہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے 3 سے 6 ماہ بعد کیا تھا اور دماغی صلاحیتوں، جذباتی ردعمل اور دیگر کی جانچ پڑتال کی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا ہوا، 60 فیصد کے دماغی افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ہر 3 میں سے ایک میں علامات کی شدت سنگین تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی شدت سے دماغی مسائل کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی، بلکہ مرض سے ہی ان مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، چاہے آپ جتنے زیادہ یا کم بیمار ہوں۔

    محققین کے مطابق اگر بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو، تاہم کووڈ کے شکار ہیں اور معمر ہیں تو ان مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح سونگھنے کی حس سے محرومی بھی دماغی افعال کے مسائل سے جڑی ہوتی ہے، سونگھے کی حس سے محرومی کی شدت جتنی زیادہ ہوگی، دماغی افعال اتنے ہی زیادہ متاثر ہوں گے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی دماغی تبدیلیاں مستقل ہوتی ہیں یا ان کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔

    دوسری تحقیق یونان کی ٹھیسلے یونیورسٹی کی تھی جس میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔

    اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 61 سال تھی اور ان میں بیماری کی شدت معملی سے معتدل تھی۔ تحقیق میں یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ دماغی تنزلی کس حد تک جسمانی فٹنس اور نظام تنفس کے افعال سے منسلک تھی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد دماغی تنزلی کا سامنا کررہے تھے جبکہ ان میں نظام تنفس کے افعال زیادہ خراب ہوچکے تھے۔

    علامات جیسے ہی تھیں ان میں سے کچھ مریضوں کو دماغی صحت کے ڈاکٹروں سے مدد لینے پر غور کرنا پڑا۔ محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کو دماغی تنزلی کو لانگ کووڈ کا حصہ سمجھنا چاہئے۔

    تیسری تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے خون میں الزائمر کا خطرہ بڑھانے والے حیاتیاتی اشاروں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے نیویارک یونیورسٹی لانگون ہیتھ میں زیرعلاج رہنے والے 310 مریضوں کے پلازما نمونوں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ الزائمر سے منسلک حیاتیاتی اشارے توقع سے زیادہ تھے اور یہ حیاتیاتی تبدیلیاں اس سے ملتی جلتی تھیں جو الزائمر اور دیگر دماغی امراض سے منسلک کی جاتی ہیں۔

    تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 69 سال تھی اور محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھ نہیں سکے کہ لوگوں میں یہ حیاتیاتی تبدیی کیوں آتی ہے، ہم ابھی نہیں جانتے کہ اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے مریضوں میں الزائمر کی علامات اور اس مرض کی جانب سفر کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ سب تحقیقی رپورٹس ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئیں اور طبی ماہرین نے ان کی جانچ پڑتال نہیں کی۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفصیلات انتہائی اہم ہیں اور اس وبا سے ہمیں وائرل انفیکشن کے اثرات کو جاننے کا موقع ملا ہے، بالخصوص کورونا وائرس سے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات کا۔

    ماہرین نے زور دیا کہ اگر انہوں نے اب تک ویکسینیشن نہیں کرائی تو جلد از جلد کرالیں، ہمارا بہترین مشورہ یہ ہے کہ کووڈ سے بچیں۔

  • کووڈ 19 سے دماغی صحت کو بھی خطرہ

    کووڈ 19 سے دماغی صحت کو بھی خطرہ

    حال ہی میں امریکا اور برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    امپرئیل کالج لندن، کنگز کالج، کیمبرج، ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کووڈ 19 کس حد تک ذہنی صحت اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔

    اس مقصد کے لیے گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کے 81 ہزار سے زیادہ افراد کے جنوری سے دسمبر 2020 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 13 ہزار کے قریب میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق ان میں سے صرف 275 افراد نے کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد میں ذہانت کے ٹیسٹ کو مکمل کیا تھا۔

    باقی افراد کے لیے محققین نے دماغی کارکردگی کی پیشگوئی کے ایک لائنر ماڈل کو استعمال کیا، جس میں جنس، نسل، مادری زبان، رہائش کے ملک، آمدنی اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق دماغ کی کارکردگی کے مشاہدے اور پیشگوئی سے ان افراد کے ذہانت کے ٹیسٹوں میں ممکنہ کارکردگی کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کا شکار ہوئے، ان کی ذہنی کارکردگی اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔

    ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق، مسائل حل کرنے، منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج لانگ کووڈ کی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں، جن میں مریضوں کو ذہنی دھند، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور الفاظ کے چناؤ جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل سے جڑی ہوسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 دماغی تنزلی سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس کا تسلسل صحت یابی کے مراحل کے دوران برقرار رہتا ہے، یعی علامات ہفتوں یا مہینوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی شدت پر ہوتا ہے۔

    یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، ان میں ذہنی افعال کی تنزلی کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی، درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں 7 پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔

  • ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    بھاگتی دوڑتی زندگی اور مختلف مسائل نے ہر شخص کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے، ایسے میں ذہنی صحت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ نہ صرف زندگی کے مختلف امور بہتر طور پر سرانجام دیے جائیں بلکہ خود کو بھی خوش رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ڈاکٹر کنول قدیر نے شرکت کی اور ذہنی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذہنی خرابی کی سب سے پہلی علامت تو یہ ہے کہ مناسب طریقے سے کوئی کام سرانجام دینے میں ناکامی ہونا۔ جب بھی ہم کسی شخص میں تبدیلی محسوس کریں اور تبدیلی خرابی کی صورت میں ہو تو ایسی صورت میں چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    جیسے کوئی شخص پہلے کی نسبت تنہائی پسند ہوگیا، زیادہ رونے لگا ہے، اس کی پیشہ وارانہ کارکردگی میں فرق آگیا ہے تو یہ ذہنی طور پر پریشان ہونے کی علامت ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کو سب سے پہلے اہل خانہ اور قریبی دوست محسوس کرتے ہیں۔ اگلا مرحلہ اس شخص کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ یہ عادت نارمل نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ اس تبدیلی کو مانتے نہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں، پاکستان میں خواتین کی اکثریت ڈپریشن کا شکار ہے اور انہیں یہ نہیں پتہ کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ زیادہ رونا، زیادہ سوچنا یا گھلنے ملنے سے پرہیز کرنا ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ پچھلا پورا سال کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہوا اور اس سے ہماری دماغی صحت کو بے حد نقصان پہنچا ہے، اب دماغی صحت کی بہتری کے لیے سب سے پہلا قدم یہ اٹھائیں کہ گھر سے باہر وقت گزاریں۔

    انہوں نے کہا کہ پورا سال گھر میں بند رہنے کے بعد اب ہمارے دماغ کو تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہے، لہٰذا اگر کسی روز کوئی کام نہ بھی ہو تب بھی صبح جلدی اٹھیں، کپڑے تبدیل کریں اور باہر نکلیں۔

    ڈاکٹر کنول نے بتایا کہ وہ ایک استاد بھی ہیں اور انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آج کل نوجوان بچوں میں اینگزائٹی میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سخت مقابلے کی فضا اور سوشل میڈیا پر سب اچھا دکھانے کا رجحان ہے۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر بچے (اور بڑے بھی) کسی اہم موقع یا امتحان کے دن دماغی بلیک آؤٹ محسوس کرتے ہیں اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ جب بھی ایسی صورتحال پیش آئے تو اس پر فوکس کریں جو آپ کو یاد ہے، بجائے اس کے کہ اس پر فوکس کیا جائے جو آپ کو یاد نہیں۔

    ڈاکٹر کنول نے دماغی صحت کی بہتری کے لیے 5 ٹپس بھی بتائیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    روزانہ دن میں کم از کم 1 گھنٹہ گھر سے باہر کھلی ہوا میں گزاریں۔

    مراقبے کی عادت اپنائیں اور اس کے لیے یوٹیوب ویڈیوز کی مدد لیں۔

    اپنے سوشل سرکل کو بہتر کریں، ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں جو آپ کی حوصلہ افزئی کریں اور جن کے ساتھ بیٹھ کر آپ خوشی محسوس کریں۔ جو لوگ آپ کی حوصلہ شکنی کرتے رہیں اور آپ کی خرابیاں گنوائیں، ایسے لوگوں سے رابطہ ختم نہیں کرسکتے تو کم سے کم کردیں۔

    اپنی کامیابیوں اور خود کو حاصل نعمتوں کی ایک فہرست بنا کر رکھیں، جب بھی اداسی اور مایوسی محسوس کریں اس فہرست کو دیکھیں۔

    چاکلیٹ اور اخروٹ کا استعمال باقاعدگی سے کریں، یہ دماغ کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔

  • کورونا وائرس مریضوں کو دہری اذیت کا سامنا، نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    کورونا وائرس مریضوں کو دہری اذیت کا سامنا، نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے معمولی حد تک بھی بیمار ہونے والے افراد کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی میل مین اسکول آف پبلک ہیلتھ کی برازیل میں ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کوویڈ 19 کے شکار افراد میں ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور ذہنی صدمے جیسے امراض کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی علامات والی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کو نفیساتی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ طبی جریدے پروگریس این نیورو سائیکوفارما لوجی اینڈ بائیولوجیجکل سائیکاٹری میں شائع تحقیق میں ذہنی علامات کے خطرے پر روشنی ڈالی گئی۔

    محققین نے بتایا کہ زیادہ تر افراد میں کوویڈ 19 کی شدت معمولی ہوتی ہے اور انہیں کافی وقت تک گھر میں الگ تھلگ رہنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوویڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مریضوں کو نفسیاتی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جو اس بیماری کا ہی حصہ ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق میں برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں رہنے والے 18 سال سے زائد عمر کے افراد کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں کووڈ 19 کی مشتبہ علامات کو دریافت کیا گیا تھا۔

    ان مریضوں کا علاج گھروں میں طبی ماہرین کی نگرانی میں ہوا تھا اور جن کا ٹیسٹ مثبت آیا ان میں سے بیشتر میں بیماری کی شدت معمولی تھی۔ ان افراد میں نفسیاتی علامات کی موجودگی کا جائزہ 2 ماہ بعد لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور صدمے کو رپورٹ کرنے والے افراد کی تعداد بالترتیب 26 فیصد، 22 فیصد اور 17 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کوڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں صحت یابی کے بعد ذہنی علامات کی شرح زیادہ ہوتی ہے، ان افراد کی جانب سے بھی ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور صدمے کو عام رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    محققین کے مطابق مریضوں کی ذہنی صحت کا خیال رکھنا ان میں ذہنی مسائل کے مسائل کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ علم ہوسکے کہ کون سے ذہنی میکنزمز کا تعلق کوویڈ 19 اور ذہنی صحت کے مسائل سے ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو یوں تو کئی ماہ تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، تاہم ایسے افراد میں ذہنی امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو بیماری کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد مختلف دماغی امراض کا سامنا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 2 لاکھ 36 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کے الیکٹرونک ہیلتھ ریکارڈز کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 34 فیصد افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد ذہنی اور نیورولوجیکل امراض کا تجربہ ہوا جن میں سب سے عام ذہنی بے چینی یا اینگزائٹی ہے۔

    نیورولوجیکل امراض جیسے فالج اور ڈیمینشیا کی شرح کرونا وائرس کے صحت یاب مریضوں میں بہت کم ہے، مگر کووڈ سے سنگین حد تک بیمار ہونے والوں میں یہ غیرمعمولی نہیں۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ کے جو مریض آئی سی یو میں زیرعلاج رہے، ان میں سے 7 فیصد میں فالج اور لگ بھگ 2 فیصد میں ڈیمینشیا کی تشخیص ہوئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ سائیکٹری میں شائع تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ یہ ذہنی و دماغی امراض کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں زیادہ عام نظر آتے ہیں جو فلو یا سانس کی نالی کی دیگر بیماریوں کا سامنا کووڈ کے ساتھ کرتے رہے۔

    پہلے سے امراض، عمر، جنس اور نسل سمیت دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے تخمینہ لگایا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری سے صحت یابی کے بعد ذہنی و دماغی امراض کا خطرہ فلو کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر پال ہیریسن کا کہنا تھا کہ یہ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کا ڈیٹا ہے اور اس سے کووڈ 19 کے بعد ذہنی امراض کی بڑھتی شرح کی تصدیق ہونے کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سنگین امراض (جیسے فالج اور ڈیمینشیا) اعصابی نظام کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    اگرچہ یہ بہت زیادہ عام نہیں مگر پھر بھی کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں ان بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر امراض کا خطرہ مریضوں میں زیادہ نہیں، مگر ہر عمر کی آبادی پر اس کے اثرات ضرور نمایاں ہیں۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ کو شکست دینے کے بعد جن ذہنی و دماغی امراض کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ان میں اینگزائٹی ڈس آرڈرز (17 فیصد مریضوں کو)، مزاج پر منفی اثرات (14 فیصد)، سکون کے لیے ادویات یا دیگر کا زیادہ یا غلط استعمال (7 فیصد) اور بے خوابی (5 فیصد) نمایاں ہیں۔

    اعصابی امراض کی شرح بہت کم ہے جیسے برین ہیمرج کا خطرہ 0.6 فیصد اور ڈیمینشیا کی شرح 0.7 فیصد ہوسکتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ 6 ماہ کے بعد مریضوں کی حالت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔