Tag: mental health

  • ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ذہنی امراض کی سب سے بڑی قسم ڈپریشن ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 20 میں سے 1 شخص شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے۔

    دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، یعنی دنیا کی 5 فیصد آبادی ڈپریشن کے زیر اثر ہے اور اس کے باعث نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے۔ ڈپریشن کے علاوہ دیگر ذہنی امراض جیسے اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا یا فوبیاز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ذہنی امراض سے متاثر ہونے کے باوجود اس حوالے سے نہایت غیر محتاط، غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ لوگوں سے کٹ جانا، تنہائی اختیار کرلینا یا پھر خودکشی کرلینا ہی انہیں راہ نجات دکھائی دیتا ہے۔

    ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد غلط تصورات اور غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا بے حد ضروری ہے، آج یہاں پر ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔

    غلط فہمی: ڈپریشن کو کسی علاج کی ضرورت نہیں

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لیے کسی علاج یا دوا کی ضرورت نہیں، یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

    حقیقت

    اگر ہمیں بخار ہو، نزلہ زکام ہو، کیا کوئی اور تکلیف ہو تو ہم ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لیتے ہیں، تو پھر ڈپریشن کی دوا لینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ڈپریشن کا صحیح وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر سنگین صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    غلط فہمی: ماہر نفسیات کے پاس مت جاؤ، دنیا کیا کہے گی!

    دنیا کیا کہے گی، یہ وہ خیال ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی زندگی کو بدتر بنا دیتا ہے۔ ذہنی امراض کے بارے میں قائم غلط تصورات کے باعث اسے شرمناک سمجھا جاتا ہے اور ماہر نفسیات کے پاس جانا گویا کلنک کا ٹیکہ، جس کے بعد ماہر نفسیات کے پاس جانے والے معاشرے کی نظر میں سرٹیفائڈ نفسیاتی ہوجاتے ہیں۔

    حقیقت

    اگر ہم دل کی تکلیف کا شکار ہوں، تو ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ ناک، کان، یا گلے کی تکلیف کے لیے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جایا جاتا ہے، کینسر کے علاج کے لیے کینسر اسپیشلسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جسے اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر دماغی امراض کے علاج کے لیے ماہر نفسیات یا دماغی امراض سے ہی رجوع کیا جانا چاہیئے جو مرض کی درست تشخیص کر کے اسے ٹریٹ کرسکے۔

    غلط فہمی: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض کو پاگل خانے جانا چاہیئے

    یہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا وہ بدصورت رویہ ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی بیماری کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

    ذہنی طور پر خطرناک حد تک بیمار افراد کے علاوہ بھی جب کسی شخص کا ڈپریشن حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کیفیت میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو اب پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہیئے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مریض کی جگہ پاگل خانہ نہیں ہے، یہ افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں اور ان کا علاج ایسے ہی ہوسکتا ہے جیسے دل کا مریض اپنا علاج بھی کرواتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں و مصروفیات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لے۔

    غلط فہمی: اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہیں

    یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روک دیتی ہے، اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنی لت میں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا کردیتی ہیں اور ان کا استعمال ساری زندگی کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے یہ دوائیں لینے والے افراد سارا دن غنودگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

    حقیقت

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے دوران ہمارے جسم میں سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمون جیسے سیروٹونین کی کمی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اینٹی ڈپریسنٹ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جسم میں کیلشیئم کی کمی پورا کرنے کے لیے کیلشیئم کی گولیاں کھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی بھی ہمارے جسم اور دماغ کو بری طرح ڈسٹرب کرتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا ڈپریشن کے شکار افراد کے لیے سب سے اہم نیند کا پورا ہونا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے اعصاب ریلیکس حالت میں نہیں ہوتے جبکہ وہ گہری اور پرسکون نیند لینے سے بھی قاصر رہتے ہیں لہٰذا یہ دوائیں ڈپریشن کا شکار شخص کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں جس سے اس کی نیند میں بہتری واقع ہوتی ہے۔ یہ مریض کے لیے نہایت ضروری ہے، طویل، پرسکون اور گہری نیند لینے کے ساتھ ڈپریشن میں کمی ہوتی جاتی ہے یوں اس شخص کی حالت میں بہتری آتی ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق شدید ڈپریشن کے مریض کو وہ ابتدا میں غشی آور ادویات ضرور استعمال کرواتے ہیں تاہم جیسے جیسے مریض کی نیند کا قدرتی لیول بحال ہونے لگتا ہے وہ ان دواؤں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ان دواؤں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

    غلط فہمی: غذا کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

    عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ غذا صرف ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، اور دماغ پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتی۔

    حقیقت

    ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں بلکہ دماغ، نفسیات اور موڈ پر بھی پڑتا ہے۔ جس طرح جنک فوڈ ہمارے جسم کو فربہ کر کے ہمیں بلڈ پریشر یا دل کا مریض بنا سکتے ہیں اسی طرح یہ دماغ کو بھی ڈسٹرب کرتے ہیں۔

    سائنس ڈیلی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جنک فوڈ کھانے کے عادی افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر غذائیں کھانے والے افراد کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    جنک فوڈ اور غیر متوازن غذائیں ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں غصہ، چڑچڑاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    اس کے برعکس پھل اور سبزیاں کھانے کے عادی افراد ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں نہ صرف دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ کسی انسان کو خوش باش بھی رکھتے ہیں۔

    غلط فہمی: ذہنی امراض کا شکار افراد سے دور رہا جائے

    جب ہمیں اپنے ارد گرد کسی شخص کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے تو ہم اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، ہمیں یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس شخص کے لیے بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض کا شکار افراد کو سب سے زیادہ ضرورت ان کے اپنوں اور دوستوں کی ہوتی ہے، ایسے افراد کا سب سے بڑا علاج اور سب سے بڑی مدد ان کی بات سننا ہے تاکہ ان کے دل کا غبار کم ہوسکے۔

    ایسے شخص کو اکیلا چھوڑنا اس کے مرض کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، دوستوں اور اہل خانہ کی سپورٹ اور ان کے ساتھ ہونے کا احساس مریض کو بتدریج نارمل زندگی کی طرف لے آتا ہے اور وہ اپنے ڈپریشن سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت / پاکستان

    کتابچے برائے ذہنی امراض: کراچی نفسیاتی اسپتال

  • کرونا وائرس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کے طویل المدتی اثرات آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے دریافتت کیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

    حال ہی میں سنگاپور میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق سے علم ہوا کہ ہر 3 میں سے 1 بالغ فرد بالخصوص خواتین، جوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کووڈ 19 کے نتیجے میں ذہنی مسائل کا سامنا ہورہا ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤنز، قرنطینہ اور سماجی دوری کے اقدامات نے ذہنی دباؤ کو بڑھا کر لوگوں میں ذہنی بے چینی، ڈپریشن اور بے خوابی جیسے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ان عوامل کو سمجھنا ذہنی صحت کے پروگرامز کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

    اس تحقیق کے دوران 68 تحقیقی رپورٹس کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا جن میں 19 ممالک کے 2 لاکھ 88 ہزار سے زائد افراد شامل تھے اور ان عناصر کا تجزیہ کیا گیا جو ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا خطرہ عام آبادی میں بڑھاتے ہیں۔

    محققین نے دریافت کیا کہ خواتین، نوجوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کوویڈ، دیہی آبادی اور کوویڈ کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد اس بیماری سے جڑے ڈپریشن یا ذہنی بے چینی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین میں نفسیاتی مسائل کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق خواتین کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی کو زیادہ ترجیح نہ دینا ممکنہ طور پر ان میں منفی ذہنی اثرات کا باعث بنتا ہے، 35 سال سے کم عمر افراد میں ذہنی مسائل کا تجربہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس کی وجہ واضح نہیں۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کے ساتھ تفریق برتنا، غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اور ایسے افراد کو مزید تناؤ زدہ حالات سے دو چار کرنا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دماغی صحت میں بہتری کے اقدامات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں۔

    مختلف ممالک اپنے کل بجٹ کا اوسطاً صرف 2 فیصد ذہنی صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

  • ذہنی امراض کو اجاگر کرنے کے لیے صبا قمر کا منفرد انداز

    ذہنی امراض کو اجاگر کرنے کے لیے صبا قمر کا منفرد انداز

    کراچی: معروف اداکارہ صبا قمر نے اپنی نئی ویڈیو میں ذہنی امراض اور اس کے بارے میں معاشرے کے رویے کو منفرد انداز سے اجاگر کیا ہے جسے مداحوں کی جانب سے بے حد پسند کیا جارہا ہے۔

    صبا قمر نے حال ہی میں اپنا یوٹیوب چینل شروع کیا ہے جس میں انہوں نے چند ہی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں تاہم ان ویڈیوز کے منفرد موضوعات کی وجہ سے انہیں بہت پسند کیا جارہا ہے۔

    اب وہ اپنی نئی ویڈیو میں نہایت تخلیقی انداز میں ڈپریشن اور سماجی رویوں کو اجاگر کرتی نظر آئیں۔

    اپنی ویڈیو میں صبا نے لوگوں کی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کو موضوع گفتگو یا مذاق بنا لینے پر بات کی۔ انہوں نے ڈپریشن کے ہاتھوں زندگی ہار جانے والے افراد انعم تنولی، روشان فرخ اور بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کا بھی ذکر کیا۔

    انہوں نے بار بار سوال اٹھایا کہ ہم کب تک لوگوں کے ظاہر کو مذاق کا نشانہ بنا کر انہیں تکلیف میں مبتلا کرتے رہیں گے، یہ جانے بغیر کہ ہمارے لفظ اس شخص کو کتنی تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں۔

    انہوں نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ کیوں کسی کی زندگی میں دخل اندازی کی جاتی ہے اور لوگوں کو اپنی جاگیر سمجھا جاتا ہے، ہم لوگوں کو سائیکو، ملنگ، پاگل جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں لیکن ان کی مدد نہیں کرتے۔

    صبا نے کہا کہ ہم بچپن سے ہی پڑھتے آئے ہیں کہ کسی کو حقیر مت جانو، کسی کو نفرت سے نہ دیکھو لیکن ہم نے اس پر کبھی عمل نہیں کیا، کیونکہ یہ نفرت ہماری تربیت میں شامل ہے، ہمیں اپنے گھر سے ہی نفرت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

    صبا قمر کی نئی ویڈیو کو ان کے مداحوں کی جانب سے بہت پسند کیا جارہا ہے۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • سانحہ کرائسٹ چرچ، عدالت نے دہشت گرد کے دماغی معائنے کا حکم دے دیا

    سانحہ کرائسٹ چرچ، عدالت نے دہشت گرد کے دماغی معائنے کا حکم دے دیا

    ویلنگٹن : برینٹن ٹیرنٹ پر دہشت گردی کا مقدمہ چلانے سے پہلے نیوزی لینڈ کی عدالت نےملزم کے دماغی معائنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ کیس کی دوسری سماعت کے موقع پر جج کا کہنا تھا کہ دو ماہرین جائزہ لیں کہ ٹیرنٹ مقدمے کا سامنا کرنے کے قابل ہے یا دماغی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔

    کرائسٹ چرچ کی عدالت میں مقدمے کی مختصر سماعت ہوئی جس میں مجرم ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوا، اس موقع پر شہداء کے لواحقین کی بھی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود رہی۔

    واضح رہے کہ کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ کو مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کو 50 افراد کے قتل اور 39 کے اقدام قتل سمیت مجموعی طور پر 89 الزامات کا سامنا ہے۔

    نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ میں گزشتہ ماہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے نسل پرست دہشت گرد نے نماز جمعہ کے دوران دو مساجد میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرکے 50 افراد کو قتل جبکہ درجنوں افراد کو زخمی کردیا تھا۔

    سفید فام دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو حملے کے کچھ دیر بعد ہی گرفتار کرکے اگلے روز عدالت میں پیش کردیا گیا تھا جہاں اس پر ایک قتل کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں : کرائسٹ چرچ حملہ، سفید فام دہشت گرد کے خلاف 50 افراد کے قتل کی چارج شیٹ تیار

    یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ایردن نے 25 مارچ کو سانحہ کرائسٹ چرچ کی تحقیقات کے لیے رائل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔

  • مانچسٹر: شہریوں کو چاقو کے وار سے زخمی کرنے والا شخص ذہنی مریض قرار

    مانچسٹر: شہریوں کو چاقو کے وار سے زخمی کرنے والا شخص ذہنی مریض قرار

    لندن : برطانوی پولیس نے وکٹوریہ ریلوے اسٹیشن پر شہریوں چاقو کے وار سے شہریوں کو زخمی کرنے والے چاقو بردار شخص کو ذہنی مریض قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں واقع وکٹوریہ ریلوے اسٹیشن پر مسلح شخص نے شہریوں پر چاقو سے حملہ کردیا تھا، چاقو زنی کی واردات میں پولیس افسر سمیت تین افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پولیس نے وکٹوریہ ریلوے اسٹیشن پر چاقو زنی کی واردات کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ چاقو کے وار لوگوں کو زخمی کرنے والے 25 سالہ نوجوان کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔

    مانچسٹر پولیس نے حملہ آور کی میڈیکل رپورٹ جاری کرتے ہوئے چاقو بردار شخص کو ذہنی مریض قرار دیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ چاقو زنی کی واردات میں زخمی ہونے والی 50 سالہ خاتون کو چہرے اور معدے میں زخم آئے ہیں جبکہ 50 سالہ شخص کے معدے میں زخم آئے تھے۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ حملے میں زخمی ہونے والی خاتون کی حالت نازک ہے لیکن 30 سالہ پولیس افسر کو ابتدائی طبی امداد کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ مانچسٹر ریلوے اسٹیشن پر اس وقت حملہ ہوا تھا جب دنیا بھر میں نئے سال کا استقبال کیا جارہا تھا۔

    مزید پڑھیں : لندن میں چاقو زنی کی ایک اور واردات، 2 افراد زخمی

    یاد رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں برطانوی دارالحکومت لندن میں چاقو زنی کی ایک اور واردات ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 2 افراد زخمی ہوئے تھے، نارتھ لندن میں چوروں سے مزاحمت پر 98 سالہ شخص زخمی ہوگیا۔

  • برطانوی اسکالر اماراتی جیل کے تلخ تجربات بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے

    برطانوی اسکالر اماراتی جیل کے تلخ تجربات بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے

    لندن :  متحدہ عرب امارات میں جیل کاٹنے والے برطانوی اسکالرنے کہا ہے کہ جیل میں ان پر بے پناہ تشدد کیا جاتا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے برطانوی اسکالر میتھیو ہیجز نے بتایا کہ انہیں زبردستی پورا دن ایڑیوں پر کھڑا رکھا جاتا تھا۔

    ڈاکٹر میتھیو ہیجز نے برطانوی خبرنشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے تبایاکہ میں نے خود پر لگائے ہوئے جاسوسی کے الزامات کی تردید کی تھی صرف تشدد سے بچنے کے لیے ایم آئی 6 کے کیپٹن ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

    ان کاکہنا تھا کہ اماراتی مسلسل ایک بات کہتے تھے کہ برطانوی دفتر خارجہ میں ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرو۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق 31 سالہ برطانوی اسکالر نے جاسوسی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ پی ایچ ڈی کی تحقیق کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات گئے تھے لیکن انہیں گرفتار کرلیا تھا۔

    [bs-quote quote=”اماراتی مسلسل برطانوی دفتر خارجہ میں ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرنے پر زور دیتے تھے۔” style=”style-2″ align=”left” author_name=”ڈاکٹر میتھیو ہیجز” author_job=”برطانوی اسکالر”][/bs-quote]

    اماراتی حکومت وثوق سے دعویٰ کیا کہ درھم یونیورسٹی کا طالب علم جاسوس ہے لیکن اسے 26 نومبر کو متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر عام معافی دے دی گئی۔

    میتھیو ہیجز نے بی بی سی کو بتایا کہ تنہائی کے باعث میری دماغی حالت خراب ہورہی تھی اور مجھے خود کو مشغول رکھنے کےلیے کچھ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی جبکہ بیت خلاء بھی تنہا نہیں جانے دیتے تھے 4 مسلح اہلکار ساتھ جاتے تھے۔

    ڈاکٹر میتھیو کا کہنا تھا کہ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی اورآنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی اور پورا دن ایڑھیوں پر کھڑا رکھتے تھے۔

    ابوظہبی : عدالت نے برطانوی اسکالر جاسوسی کے الزام میں ٹرائل پر بھیج دیا

    واضح رہے کہ برطانوی شہری پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر میتھیو ہیجز کو سنہ 2011 آنے والی عرب بہار ’انقلابی تحریکیں‘ ختم ہونے کے بعد امارات کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کا مطالعہ کرنے دبئی آئے تھے۔

    برطانوی اسکالر کو اماراتی پولیس نے رواں برس 5 مئی کو دبئی کے عالمی ہوائی اڈے سے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

    مزید پڑھیں : اماراتی عدالت نے برطانوی اسکالر کو عمر قید کی سزا سنا دی

    یاد رہے کہ 22 نومبر کو31 سالہ ڈاکٹر میتھیوکو اماراتی عدالت نے ریاست کی جاسوسی اور اقتصادی سیکیورٹی تک رسائی حاصل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی، جبکہ سزا مکمل ہونے کے بعد ملک بدر کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • سوشل میڈیا انسان کی ’ہزاروں سال‘ پرانی صلاحیت ختم کررہا ہے

    سوشل میڈیا انسان کی ’ہزاروں سال‘ پرانی صلاحیت ختم کررہا ہے

      اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا اب ہم میں سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کا اہم جزو بن چکا ہے لیکن جہاں یہ مشین اور پلیٹ فارم ہمیں بے بہا معلومات تک رسائی دے رہے ہیں وہیں ہمارے ذہن کے خطرے کو بھانپنے کی قوت کو ختم کررہے ہیں اور ہمیں تنہائی،  منتشر المزاجی اور ڈپریشن میں مبتلا کررہے ہیں۔

     نیورو ریگولیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق  اسمارٹ فون ہمیں مسلسل اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں اور ان میں موجود سماجی رابطوں کی اپلیکیشنز کے سبب ہم اصل اور حقیقی سماجی دنیا سے دور ہوتے جارہے ہیں‘ یہ تحقیق امریکا  کی سان فرانسسکو اسٹیٹ  یونی ورسٹی کے پروفیسر ایرک پیپر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر  رچرڈ ہاروے کی جانب سے مرتب کی گئی ہے۔

    ہیلتھ ایجوکیشن کے شعبے سے وابستہ مذکورہ بالا ماہرین کا ماننا ہے کہ اسمارٹ فونز کا ایک مقررہ حد سے زیادہ استعمال انسانوں میں  ذہنی امراض کو فروغ دے رہا ہے‘   مسلسل سوشل میڈیا سے جڑے رہنے والے افراد میں تنہائی کا احساس ، ڈپریشن اور منتشر المزاجی کے رحجانات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    اسمارٹ فون سے مسلسل جڑے رہنے والے افراد کے دماغ میں وہی نیورولاجیکل کنکشن دیکھنے میں آرہے ہیں جو کہ درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے افیون یا اسی نوعیت کی دیگر اشیا استعمال کرنے والے افراد کے دماغ میں بتدریج دیکھنے میں آتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ منفی اثر ہمارے سماجی رابطوں پر پڑا ہے۔ سان فرانسسکو اسٹیٹ یونی ورسٹی کے 135 طلبہ پر کیے جانے والے سروے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ وہ طالب  علم جو کہ اپنی تمام نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کےدوران بھی اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان میں تنہا ئی کا احساس بڑھ رہا ہے‘ وہ ڈپریشن اور منتشر المزاجی کا شکار ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ طالب علم براہ راست ملاقات کے بجائے سوشل میڈیا پر  رابطوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر استوار رابطوں میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انسان کی باڈی لینگوئج، انسانی احساسات اور جذبات دوسری جانب اس  طرح منتقل نہیں ہوپاتے جس طرح کہ باضابطہ ملاقات میں ہوتے ہیں۔ مسلسل سوشل میڈیا پر جتے رہنے کے سبب انسا ن کے جسم اور ذہن کو  پرسکون حالت میں لانے والا وفقہ بھی انتہائی کم ہوگیا ہے جس کے سبب ان کی ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں اور یکسوئی سے کام کرنے کی عادت بھی متاثر ہورہی ہے۔

    پیپر اور ہاروے نے اپنی تحقیق کے دوران سب سے اہم بات جو نوٹ کی وہ یہ تھی کہ اس مسلسل سوش ل میڈیا سے جڑے رہنے کے عمل میں انسانی خواہش سے زیادہ کارپوریٹ ورلڈ کی خواہش کارگر ہے جو چاہتے ہیں کہ عوام ہر وقت ان کی پراڈکٹس کے ساتھ  مشغول رہیں اور ان کے منافع میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا الرٹس انسانی نفسیات پر بالکل ویسے ہی کام کرتے ہیں جیسے قدیم دور میں شیر یا کسی اور خطرناک جانور کی آواز سن کر انسانی حسیات بیدار ہوجایا کرتی تھیں۔ یعنی اب ہم کسی بڑے اور حقیقی خطرے کے بجائے سوشل میڈیا کی جانب متوجہ رہتے ہیں جس کے سبب انسان کی خطرات کا سامنا کرنے کی ہزاروں برس کے ارتقا سے حاصل کی جانے والی صلاحیت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین نے اپنی تحقیق میں یہ بھی کہا ہے کہ ان تمام مسائل کا حل ایک آسان نسخے میں چھپا ہے اور وہ ہے اپنے ذہن کو تربیت دینا۔ جیسا کہ ہم جب محسوس کرتے ہیں کہ چینی کی زیادتی ہمارے جسم کونقصان پہنچا رہی ہے تو ہم اپنےجسم کو کم چینی استعمال کرنے کا عادی بناتے ہیں ایسے ہی اگر ہم احساس کرلیں کہ  سوشل میڈیا ہماری ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا رہا ہے تو  ہم پش نوٹی فیکیشن الرٹس کو بند کرکے، ای میل چیک کرنے  سوشل میڈیا پر میسر ہونے کے اوقات مقرر کرکے ان  خطرات کا سامنا کرسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں