Tag: mental health

  • دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دماغی طور پر صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی عادات و رویوں کے عادی ہوتے ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری دماغی صحت کو متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ان عادات و رویوں سے چھٹکارہ پانا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کئی عوامل جیسے کم گفتگو کرنا، اپنے جذبات کو شیئر نہ کرنا، آلودہ فضا میں رہنا، موٹاپا اور نیند کی کمی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کئی ایسی عادات ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آئیے ان عادات کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ان سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔


    ڈپریشن

    2

    مستقل ڈپریشن کا شکار رہنا آپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکتا ہے۔

    ایک طویل عرصے تک ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار رہنے والا شخص بالآخر اسی کا عادی بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر لیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے


    تنقید کا نشانہ بننا

    11

    آپ نے اب تک اسکول بلنگ کا نام سنا ہوگا جس میں کوئی بچہ اپنی شکل و صورت یا وزن کے باعث دیگر بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہے نتیجتاً اس بچے کی نفسیات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ احساس کمتری سمیت مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا سلسلہ اسکول تک ختم نہیں ہوجاتا۔ کام کرنے کی جگہوں پر بھی لوگ بلنگ یا تنقید و مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی تمام تر سنجیدگی اور ذہنی وسعت کے باوجود یہ ان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی عمر میں بلنگ کا نشانہ بننا دماغی صحت کے لیے خطرناک ہے اور اس کے اثرات سے نجات کے لیے ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔


    کاموں کو ٹالنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ناکامی کے خوف یا سستی کے باعث اسے ٹال دیتے ہیں تو جان جائیں کہ آپ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی دماغی صحت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    یاد رکھیں پہلا قدم اٹھانے کا مطلب کسی کام کو نصف پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ جب آپ کام شروع کریں گے تو خود اسے مکمل کرنا چاہیں گے۔


    ناپسندیدہ رشتے

    ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ایسے رشتوں میں بندھے رہنا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ صرف معاشروں یا خاندان کے خوف سے وہ ان رشتوں کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    ایسے دوست احباب، شریک حیات یا اہل خانہ جو منفی سوچوں کو فروغ دیں، آپ کی کامیابی پر حسد کریں، ناکامی پر خوش ہوں اور ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ایسے رشتوں سے دور ہوجانا ہی بہتر ہے۔


    لوگوں میں گھرے رہنا

    5

    محبت کرنے والے دوست، احباب اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اچھی عادت ہے لیکن ہفتے میں کچھ وقت تنہائی میں بھی گزارنا چاہیئے۔

    تنہائی اور خاموشی آپ کے دماغ کو خلیات کو پرسکون کرتی ہے اور یہ ایک بار پھر نئی توانائی حاصل کر کے پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خاموشی کے فوائد


    جھک کر چلنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین سماجیات کے مطابق جو افراد چلتے ہوئے کاندھوں کو جھکا لیتے ہیں اور کاندھوں کو جھکا کر بیٹھتے ہیں، وہ عموماً منفی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔


    ہر چیز کی تصویر کھینچنا

    7

    معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں لوگوں کو زندگی جینے سے زیادہ اسے ریکارڈ کرنے سے دلچسپی ہے‘۔

    ہم اپنی زندگی کے بے شمار خوبصورت لمحوں اور اپنے درمیان کیمرے کا لینس حائل کردیتے ہیں اور اس لمحے کی خوبصورتی اور خوشی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے باقاعدہ تحقیق سے ثابت کیا کہ جو افراد دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے موبائل کو دور رکھتے ہیں اور تصاویر لینے سے پرہیز کرتے ہیں وہ ایک خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔


    زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا

    8

    زندگی مسائل، دکھوں، پریشانیوں اور اس کے ساتھ ساتھ خوشیوں کانام ہے۔

    یہ سوچنا احمقانہ بات ہے کہ کسی کی زندگی میں مصائب یا دکھ نہ ہوں۔ انہیں سنجیدگی سے لے کر ان پر افسردہ اور ڈپریس ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے ان کا حل سوچنا چاہیئے۔


    ورزش نہ کرنا

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال ہونا ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ہفتے میں 3 دن ورزش کرتے ہیں وہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ویک اینڈ پر ورزش کرنا زیادہ فوائد کا باعث


    ہر وقت اسمارٹ فون کا استعمال

    9

    ہر دوسرے منٹ اپنے اسمارٹ فون میں مختلف ایپس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ جیسے فیس بک، ٹوئٹر پر وقت گزارنا، یا مختلف گیمز کھیلنا آپ کے کسی کام کا نہیں ہے۔

    یہ آپ کی دماغی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریاں


    بیک وقت کئی کام کرنا

    10

    ماہرین کی نظر میں ملٹی ٹاسکنگ ایک اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے توجہ تقسیم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی کام درست طریقے سے نہیں ہو پاتا۔

    اس کے برعکس ایک وقت میں ایک ہی کام پوری یکسوئی اور دلجمعی سے کیا جائے۔ ملٹی ٹاسکنگ دماغی خیالات کو منتشر کر کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برٹش کونسل کی جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں دماغی امراض کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی۔

    یہ پروگرام برٹش کونسل اور ایک مقامی اسکول کے تعاون سے منعقد کیا گیا جس میں ہر عمر کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ذہنی الجھنوں کا شکار افراد کو مدد کی ضرورت

    پروگرام میں ماہرین دماغی امراض نے شرکت کی اور شرکا کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں، ان کی علامات اور علاج کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

    اس دوران شرکا سے مختلف سرگرمیوں جیسے مراقبے اور آرٹ تھراپی میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا جس کے بعد کئی افراد نے خود کو لاحق ذہنی مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔

    خیال رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی امراض کی اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اس سوال کا جواب صرف ذہنی مریض یا بے حد ذہین انسان دے سکتا ہے

    اس سوال کا جواب صرف ذہنی مریض یا بے حد ذہین انسان دے سکتا ہے

    بعض دفعہ کسی انسان کی ظاہری شخصیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی ذہنی مرض یا ذہنی خلل کا شکار ہے۔ اسی طرح بعض ڈاکٹرز بھی اندازہ لگانے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کا مریض اس وقت کس کیفیت کا شکار ہے اور اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔

    ایسے افراد کی جانچ کرنے کے لیے یہاں ایسے ہی 2 سوالات دیے جارہے ہیں جن کے درست جواب صرف ایک ذہنی خلل کا شکار شخص ہی دے سکتا ہے۔

    اور ہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ اگر آپ غیر معمولی ذہانت کے حامل ہیں تب بھی آپ ان سوالوں کا درست جواب دے سکتے ہیں۔

    نوٹ: مندرجہ ذیل تصاویر کو دیکھیں، ان کے سوال کو سمجھیں اور اس بات پر ذہن مرکوز کریں کہ آپ کا دماغ کیا بتا رہا ہے۔ منطق اور اصول کو ایک طرف رکھیں اور صرف وہ جواب دیں جو آپ کا دماغ آپ کو بتا رہا ہے۔

    پہلا سوال: کیا یہ ماسک دونوں جانب سے محدب (باہر کو ابھرا ہوا ) ہے یا اس کا ایک حصہ کھوکھلا ہے؟

    دوسرا سوال: یہ ماسک ایک طرف گھوم رہا ہے یا دونوں طرف؟


    درست جواب

    پہلے سوال کا درست جواب ہے کہ ماسک ایک طرف سے محدب جبکہ دوسری طرف سے کھوکھلا ہے جیسے کہ ماسک ہوتا ہے۔

    دوسرے سوال کا درست جواب یہ ہے کہ ماسک صرف ایک سمت یعنی دائیں سمت میں گھوم رہا ہے۔


    آپ کون ہیں؟

    اب آپ کا جواب آپ کی شخصیت کا تعین کرے گا۔ اگر آپ نے دونوں جواب غلط دیے ہیں تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ دماغی طور پر بالکل صحت مند ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغی طور پر صحت مند آدمی کسی بھی شے کو عقل اور اصول کے مطابق پرکھتا ہے۔ پہلے سوال میں کوئی بھی ذہنی طور پر صحت مند شخص دیکھ کر یہی کہے گا کہ یہ ماسک صرف اپنی ایک سمت دکھا رہا ہے۔

    اس کے برعکس دماغی خلل کا شکار افراد اتنی گہرائی سے نہیں سوچتا، وہ فوری طور پر اسی پر نتیجہ قائم کرتا ہے جو اسے نظر آتا ہے۔

    ہاں البتہ اگر آپ نے ایک بھی سوال کا جواب درست دیا ہے تو آپ کو دماغی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضروت ہے۔


    دماغی مرض اور ذہانت میں کیا تعلق ہے؟

    غیر معمولی طور پر ذہانت کے حامل افراد میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ عام افراد کی طرح بھی سوچ سکتے ہیں جبکہ چاہیں تو تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر کسی دماغی خلل کا شکار افراد کی طرح بھی سوچ سکتے ہیں۔

    تو اگر آپ نے دونوں سوالات کے درست جواب دیے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، ہوسکتا ہے آپ غیر معمولی طور پر ذہین ہوں۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    آج دنیا بھر میں ذہنی امراض سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آپ کے اور ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیر معمولی رویوں کے حامل ہیں اور انہیں عموماً نفسیاتی یا پاگل کہا جاتا ہے، تاہم نفسیاتی یا پاگل سمجھ یا کہہ کر جان چھڑا لینا اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کے مترداف ہے۔

    ذہنی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جبکہ سنہ 2020 تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا مرض بن جائے گا۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ذہنی امراض ہیں کیا، یہ کس حد تک ہمارے معاشرے کو متاثر کر چکے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں پائے جانے والے 5 عام ذہنی امراض

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں ماہرین نفسیات و دماغی امراض سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں دماغی امراض کی شرح کیا ہے اور کون سے افراد ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی میں فرق

    معروف اسپتال برائے نفسیاتی امراض کاروان حیات سے منسلک ڈاکٹر سلیم احمد نے تفصیل سے اس بارے میں گفتگو کی۔ ان کے مطابق ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی، جسے ہم ذہنی معذوری بھی کہتے ہیں، میں فرق ہے۔ ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی پیدائشی ہے اور اس کا دارو مدار بچے یا والدین کی جینز پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ بچے پیدا ہی ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، ان میں سے ایک وجہ والدین کا بلڈ گروپ بھی ہوتا ہے جو ملاپ کے بعد جب نئی زندگی وجود میں لاتا ہے تو وہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

    اسی طرح بعض دفعہ بچہ پیدا ہونے کے کافی دیر بعد روتا ہے، 5 سے 7 منٹ تک سانس نہیں لے پاتا یا نیلا پڑ جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس بچے کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے کیونکہ دماغ کو فوری طور پر آکسیجن نہیں ملتی۔

    ایسے بچے عمر بھر کے لیے ذہنی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق ایسی معذوری کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ بہت شدید طور پر ذہنی معذوری، جس میں بچے کو کچھ بھی سکھانا ناممکن ہو، ایسے بچے عموماً زیادہ نہیں جی پاتے اور جلد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

    درمیانی یا کم شدت کے ذہنی معذور بچوں کے لیے تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں اور انہیں خصوصی طور پر اسپیشل ایجوکیشن دی جاتی ہے جہاں ان کے ذہن کی حد تک ان کی تعلیم اور تربیت کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ پیدائشی ذہنی معذور بچوں میں مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ عام بچوں کے مقابلے میں اپنی افزائش کا عمل دیر سے شروع کرتے ہیں۔

    جیسے 8 سے 9 ماہ کی عمر کے بچے کا بیٹھنا، 16 یا 18 ماہ کی عمر کے بچے کا بولنا شروع کرنا، 1 سال کی عمر سے قبل قدم اٹھانا شروع کردینا وغیرہ معمول کا عمل ہے تاہم اگر اس عمل میں تاخیر ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بچوں میں ذہنی پسماندگی یا معذوری کی ایک مثال ڈاؤن سنڈروم کا مرض ہے جو تا عمر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں جانیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    دماغی امراض کیا ہیں؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق دماغی امراض کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک سائیکوٹک سنڈروم اور دوسرا نیوروٹک سنڈرمز۔

    سائیکوٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق سائیکوٹک سنڈروم میں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کا بچپن نارمل گزرا ہو لیکن اوائل نوجوانی میں ان کے ساتھ نفسیاتی مسائل پیش آنا شروع ہوجائیں۔

    مثال کے طور پر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے جذبات میں تبدیلی اور اس کی وجہ سے غصہ، ڈپریشن یا کسی قسم کے خوف کا بڑھ جانا۔ اگر کوئی شخص حساس ہے تو اس عمر میں وہ حد سے زیادہ حساس ہوگا اور معمولی باتوں کو بھی ذہن پر سوار کرلے گا۔

    اس درجہ بندی کے مریضوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

    سائیکوٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    الزائمر

    ڈیمینشیا

    شیزو فرینیا

    مندرجہ بالا 2 امراض میں مبتلا افراد بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض عموماً 50 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا اور کیوں کرنے جارہا ہے۔

    اسی طرح شیزو فرینیا بھی مختلف توہمات و خیالات کے ذہن میں بیٹھ جانے یا اپنے آپ کو کوئی دوسری شخصیت سمجھنے کی بیماری ہے اور اس میں بھی مریض تقریباً اپنے مرض سے بے خبر اور ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق نیوروٹک سنڈروم وہ ذہنی امراض ہیں جن میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    اینگزائٹی ۔ بے چینی کا مرض

    پینک ڈس آرڈر ۔ شدید گھبراہٹ، اداسی، رقت طاری ہوجانا

    اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر ۔ اس مرض میں مریض کوئی کام بار بار سرانجام دیتا ہے یا جنون کی حد تک نفاست پسند ہوجاتا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مرض کا شکار ہیں۔

    فوبیا ۔ کسی جانور، چوہے یا بلی سے خوف آنا

    اونچائی کا خوف

    بند جگہوں کا خوف

    اس نوعیت کے امراض میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے لیکن وہ اس کے آگے بے بس ہوتا ہے اور خود کو لاشعوری طور پر نقصان دہ کام کرنے پر مجبور پاتا ہے۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایک عام مرض بن چکا ہے جو اب اس مرحلے پر آگیا ہے کہ اس کا شکار افراد کو باقاعدہ ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق ہر وہ شے جو آپ کی دماغی کارکردگی کو متاثر کرے، ڈپریشن کہلاتی ہے۔

    مثال کے طور پر آپ کی کسی سے نوک جھونک ہوگئی اور آپ کا موڈ خراب ہوگیا، تو یہ بھی ڈپریشن کی ایک قسم ہے تاہم یہ عارضی ہوتی ہے اور مذکورہ شخص کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے پر خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

    اسی طرح آپ کسی سے برے رویے یا دھوکے کی امید نہ رکھتے ہوں، لیکن اس شخص کا رویہ آپ کو غیر متوقع طور پر دکھ پہنچائے تو یہ بھی ڈپریشن ہے۔ اس کا اثر چند دن، یا چند ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ ڈپریشن میں دراصل بیرونی عوامل زیادہ کار فرما ہوتے ہیں جو ہر شخص پر الگ انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ 2 افراد ایک جیسے ماحول میں رہتے ہوئے بھی ڈپریشن کی مختلف اقسام (کم یا شدید) میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ڈپریشن سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    کیا اذیت پسندی بھی ذہنی مرض ہے؟

    بعض افراد خود کو یا دوسروں کو اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ایسا نہ صرف جنسی تعلقات میں ہوتا ہے بلکہ زندگی کے دیگر مواقعوں پر بھی ایسے افراد اذیت پسندی سے باز نہیں آتے۔ کیا یہ بھی کسی ذہنی مرض کی علامت ہے؟

    ضیا الدین یونیورسٹی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمیہہ علیم اس بارے میں بتاتی ہیں کہ کسی دوسرے کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرنا سیڈ ازم کہلاتا ہے جبکہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا یا کسی دوسرے کے ذریعے خود کو تکالیف دلوانا میکوس ازم کہلاتا ہے۔

    اس علامت کے حامل افراد لازماً کسی ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ’یہ دونوں اصطلاحیں صرف جنسی عمل سے منسلک نہیں ہیں، عام زندگی میں بھی ان افراد کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق اگر یہ اپنے لیے، کسی دوسرے کے لیے یا مجموعی طور پر معاشرے کے لیے نقصان دہ، متشدد اور جان لیوا ثابت ہونے لگے تو پھر یہ خطرناک بن جاتا ہے جس کا علاج ضروری ہے۔

    آپ خصوصاً مغرب میں پائے جانے والے ایسے سیریل کلرز کے بارے میں جانتے ہوں گے جو کسی کو قتل کرنے سے قبل اسے مخصوص تکلیف پہنچاتے تھے۔

    اس مرض کا آغاز بھی بچپن سے ہوتا ہے اور جب یہ مرض بڑھ جائے تو مریض اپنے لاشعور میں دبی کسی شے کی وجہ سے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔

    جیسے بچپن میں ماں کا برا رویہ سہنے والا شخص عورتوں کو قتل یا نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔ کسی مخصوص رویے یا رنگ سے اس کی کوئی ناخوشگوار یاد منسوب ہوتی ہے جسے دیکھتے ہی وہ اشتعال میں آجاتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

    ایسے افراد بچپن میں بے ضرر اشیا یا اپنے سے کمزور افراد کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہیں سے ان کا یہ مرض نشونما پانے لگتا ہے۔

    بعض افراد اداسی یا غم کو بھی اپنے اوپر سوار کرلیتے ہیں اور خوش نہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور ایسی طبیعت کے افراد منفی سوچ اور مضمحل طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔

    شخصیت کے مختلف پہلو بھی ذہنی امراض کی علامت

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق شخصیت کے بعض مختلف پہلو جب شدت اختیار کرجائیں تو یہ بھی ذہنی امراض کی علامت ہوتے ہیں جنہیں پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    جیسے کسی کی شخصیت حاکمانہ ہے اور وہ سب پر اپنا حکم چلانے کا عادی ہے تو یہ اس کی شخصیت کا پہلو ہے۔ لیکن اگر یہی پہلو اس کے ارد گرد موجود افراد کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے لگے تو یہ ڈس آرڈر کہلائے گا جس کا علاج ضروری ہے۔

    ظلم و زیادتی کو برداشت کرنا بھی ذہنی مرض؟

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج ہے کہ لڑکیوں کا شادیاں ان کی پسند اور رضا مندی کے بغیر کردی جاتی ہیں، گو کہ یہ ظلم ہے تاہم ثقافتی اور سماجی طور پر لوگ اس ظلم کو سہنے کے عادی ہیں۔

    مذہبی یا ثقافتی رسوم و رواج کو نہ چاہتے ہوہے قبول کرلینا اطاعت گزاری یا فرمانبرداری کا نام ہے جس کے پیچھے معاشرتی، خاندانی و سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

    تاہم اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کے دباؤ سے بالکل آزاد ہو، تب بھی وہ ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنا پسند کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ لوگ اسے تکلیف پہنچائیں، شخصیت کے اس پہلو کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

    اس بارے میں ڈاکٹر سمیہہ کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بچپن میں پیش آنے والے حالات و ماحول سے ہے جو لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔

    بظاہر آپ کے سامنے ایک خود انحصار اور پر اعتماد شخص موجود ہوگا، لیکن اگر سب کے سامنے اس کا اچھے الفاظ میں بھی تذکرہ کیا جائے تو وہ شرمندگی محسوس کرے گا۔

    ایسے شخص کو کسی ادارے میں کسی شعبے کا سربراہ بنانے پر غور کیا جائے تو وہ شخص ڈر جاتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکے گا، یا لوگ اسے اس روپ میں قبول نہیں کریں گے۔ ایسے افراد میں قائدانہ صلاحیتیں بالکل نہیں ہوتیں اور یہ پس منظر میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: احساس کمتری سے نجات حاصل کریں

    دراصل ایسے افراد کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو مظلوم بنا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو نہ صرف انہیں قبول کیا جائے گا بلکہ ان سے محبت بھی کی جائے گی۔ ایسے لوگ ہر لمحہ خود کو غیر محفوظ بھی تصور کرتے ہیں اور ان کے لاشعور میں بے شمار خوف و توہمات موجود ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق یہ بھی شخصیت کا ایک پہلو ہے، تاہم منفی پہلو ہے۔

    ذہنی امراض کا علاج کیا ہے؟

    کراچی نفسیاتی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر روحی افروز کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی کا تو کوئی علاج نہیں۔ اس میں مریض کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور مختلف تربیتی سیشنز کے ذریعے ذہنی معذور افراد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    البتہ ذہنی امراض کا شکار افراد کے علاج کا انحصار ان کے مرض کی شدت پر ہوتا ہے کہ اسے کس نوعیت کی دواؤں یا تھراپی سے کنٹرول کیا جاسکے۔

    کراچی نفسیاتی اسپتال ڈاکٹر سید مبین اختر کا قائم کیا ہوا ہے جہاں پاکستان میں ہی بننے والی دواؤں سے ذہنی امراض کا نہایت مؤثر علاج کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر سمیہہ کا اس کے بارے میں کہنا تھا کہ پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کو تھراپی کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی لیے ضروری ہے کہ مریض خود اپنی اس کیفیت کو سمجھے اور علاج کروانے پر رضا مند ہو۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب رہنا دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    بعض افراد کو علم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کا کوئی منفی پہلو بڑھ کر ذہنی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے تاہم پھر بھی وہ اس کا علاج نہیں کروانا چاہتے، ایسے افراد خود اپنے دشمن ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سلیم احمد نے اس بارے میں بتایا کہ ماہرین نفسیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کو براہ راست ڈیل نہ کریں۔

    وہ چاہتے ہیں کہ مریض کے ساتھ اس کا کوئی بے حد قریبی عزیز چاہے وہ اہل خانہ میں سے ہو، کوئی دوست ہو، یا دفتر کا کوئی ساتھی جس سے وہ بہت قریب ہوں، وہ ان کے ساتھ آئے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    وہ مریض سے زیادہ اس کے ساتھ آئے شخص سے گفتگو کر کے مریض کی مختلف کیفیات و علامات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ مرض کی جڑ کو پکڑ کر اس کا علاج کیا جا سکے۔

    ذہنی امراض اور مذہب

    ڈاکٹر سلیم احمد نے ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی امراض میں اضافے کی اصل وجہ اپنی بنیاد یعنی مذہب سے دور ہوجانا ہے۔ ’قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں، ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘۔

    ان کے مطابق نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کو زندگی کا حصہ بنا لینا ذہنی امراض سے بچاتا ہے۔ اپنی زندگی میں خدا سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے والے افراد (بذریعہ نماز و تلاوت) جذباتی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن سے نجات حضرت علیؓ کے اقوال کے ذریعے

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ یہی بات دوسرے مذاہب پر بھی لاگو ہوتی ہے، ’کیونکہ ہیں تو سب آدم کی اولاد، تمام انبیا بھی خدا کے حکم سے اس عہدے پر فائز ہوئے چنانچہ سب کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اس ایک خدا سے ضرور جا ملتا ہے جو واحد اس کائنات کا مالک ہے‘۔

    ان کے مطابق خدا کے سامنے رونا اور گڑگڑانا کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے جو سکون آپ کو حاصل ہوتا ہے وہ دنیا کا بڑے سے بڑا ماہر نفسیات بھی آپ کو نہیں دے سکتا۔


    دماغ ہمارے جسم کا سب سے طاقتور عضو ہے جسے صحت مند رکھنے کے لیے سب سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • فطرت کے قریب ورزش دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    فطرت کے قریب ورزش دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    ورزش کرنے یا چہل قدمی کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ ورزش ہر عمر کے شخص کے لیے مفید ہے اور انہیں مختلف بیماریوں سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلی فضا میں چہل قدمی کرنا جم میں ورزش کرنے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ فوائد دے سکتی ہے۔

    آسٹریا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ فطرت کے درمیان جیسے جنگلات اور پہاڑوں کے درمیان وقت گزارنا ہماری دماغی صحت پر بہترین اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ورزش کا مطلب جسم کو فعال کرنا ہے تاکہ ہمارے جسم کا اندرونی نظام تیز اور بہتر ہوسکے اور ہم بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم ورزش کرتے ہوئے لطف اندوز نہیں ہوتے، تو ورزش سے ہماری دلچسپی کم ہوتی جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق تحقیق کے لیے جب کھلی فضا اور جم میں ورزش کرنے والوں کا جائزہ لیا گیا تو دیکھا گیا کہ جو افراد کھلی فضا میں کسی پارک، یا سبزے سے گھری کسی سڑک پر چہل قدمی کرتے تھے ان کا موڈ ان لوگوں کی نسبت بہتر پایا گیا جو جم میں ورزش کرتے تھے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت ہماری دماغی صحت پر ناقابل یقین اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں کمی کرتی ہے جبکہ ہمارے دماغ کو پرسکون کر کے ہماری تخلیقی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر پر کوئی پسندیدہ کام کرتے ہوئے وقت گزارنے والے اور فطرت کے قریب وقت گزارنے والے افراد کے درمیان ان لوگوں میں ذہنی سکون اور اطمینان کی شرح بلند ہوگی جنہوں نے کھلی فضا میں وقت گزارا۔

    ان کے مطابق لوگ جتنا زیادہ فطرت سے منسلک ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ جسمانی و دماغی طور پر صحت مند ہوں گے۔

    ماہرین نے تجویز کیا کہ پر ہجوم شہروں میں رہنے والے لوگ سال میں ایک سے دو مرتبہ کسی فطری مقام پر ضرور وقت گزاریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیلفی کی عادت آپ کی دماغی صحت کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے

    سیلفی کی عادت آپ کی دماغی صحت کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے

    نیویارک : سیلفی کی دیوانگی ہر عمر کے لوگوں کو ہے لیکن ٹين ایج اور نوجوان گروپس کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سیلفی لینے کی عادت آپ کی دماغی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔

    اسمارٹ فونز اب ہم سب کی دسترس میں ہیں اور تصویر بنوانے فوٹو اسٹوڈیو جانے کی روایت دم توڑ رہی ہے کیونکہ ہمارے اسمارٹ فون کا کیمرا اب ہمیں یہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔

    حالیہ چند برسوں میں سیلفی لینے کا رواج بہت زور پکڑ چکا ہے، دفاتر، پارکوں، تفریحی مقامات اور  پارٹیوں میں اب  لوگ موبائل فون سے اکثر اپنی تصویریں بناتے نظر آتے ہیں اور سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا  عام تفریح بن چکی ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ عادت  نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلفی کے سبب لوگ اپنے تک محدود ہو رہے ہیں خود ہی کو خوبصورت دکھانے کی تمنا آپ کو ہر وقت ایک الھ ہی دنیا میں رکھتی ہے، جو دماغی صحت پے پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔

    12

    ماہر نفسیات لنڈا پیپیڈوپولس کا کہنا ہے کہ "سیلفی کلچر” نوجوان لوگوں کی ذہنی صحت کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، اور ان میں ڈپریشن بھی بدترین قسم کا پایا جاتا ہے۔

     

    ایک انٹرویو میں انکا کا کہنا ہے کہ کھانے کی عادات میں بے ترتیبی اور دماغی کمزوری کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر کتنا وقت گزارتے ہیں۔

    اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصاویر لینے کی عادت لوگوں کے اندر اہم لمحات کو یاد کرنے کی صلاحیت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے، ماہرین کے مطابق سیلفی لینے کی عادت یاداشت پر اثر انداز ہوتی ہے اور لوگ اپنی زندگی کے اہم لمحات کی بہت کم باتیں ہی یاد رکھ پاتے ہیں کیونکہ سیلفی لیتے ہوئے لوگوں کی توجہ صرف ایک خاص چیز یا منظر پر مرکوز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی یاداشت زوم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔

    13

    محققین کا کہنا ہے کہ نوجوان عمر میں سیلفی لینے کی عادت ان کی پوری شخصیت پر اثر ڈالتی ہے اور یہ کسی بھی فیلڈ میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔