Tag: mental illness

  • ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس کا شکار ہیں

    ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس کا شکار ہیں

    بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ کچھ ایسی چیزیں دیکھ یا سُن رہے ہیں جو درحقیقت موجود ہی نہیں ہیں، اکثر لوگ اسے توہم پرستی میں اوپری ہوا کا اثر کہتے ہیں لیکن میڈیکل سائنس اس کے برعکس بیان کرتی ہے۔

    ایسے حالات یا تجربات درحقیقت ہماری جسمانی یا ذہنی صحت سے متعلق ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات صحت کے سنگین مسائل کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے تجربے کو طبی زبان میں ’ہیلوسینیشن‘ کہتے ہیں۔

    Hallucinations

    ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں ؟

    کسی شخص کو کسی شے یا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو پھر بھی آوازیں سنائی دینے لگیں تو اس عمل کو ’ہیلو سینیشن‘ کہتے ہیں۔

    زیادہ تر معاملات میں ہیلوسینیشن کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور یہ مریض کے معیار زندگی پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نشہ یا کچھ ادویات کے اثرات کو ایک طرف چھوڑ دیا جائے تو زیادہ تر معاملات میں اس کے لیے سنگین ذہنی اور دماغی صحت کی خرابیاں ہوتی ہیں۔

    اس حوالے سے بھارتی ماہر نفسیات ڈاکٹر رینا دتہ (پی ایچ ڈی) کا کہنا ہے کہ ہیلوسینیشن ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ہمارے حواس متاثر ہونے لگتے ہیں، یہ فریب کاری کئی قسم کی ہو سکتی ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں کو بصری فریب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کو سماعت کے فریب کا سامنا ہو سکتا ہے، جس میں وہ ایسی آوازیں سن سکتے ہیں جو حقیقی نہیں ہیں جیسے کہ کسی کے بولنے یا گانے کی آواز وغیرہ۔

    اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو ’ٹیکٹائل ہیلوسینیشن‘ کا بھی سامنا ہوسکتا ہے یعنی ایسا محسوس ہو جیسے کوئی انہیں چھو رہا ہے اور ذائقہ یا بو سے متعلق فریب کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    Visual

    فریب کی وجوہات

    ڈاکٹر رینا دتہ بتاتی ہیں کہ ہیلوسینیشن بہت سی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتا ہے جس میں جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق وجوہات اور مسائل کچھ بری عادتیں اور بعض اوقات تناؤ بھی شامل ہیں۔

    کچھ وجوہات جن کے اثرات میں ہیلوسینیشن بھی شامل ہے یا جنہیں فریب کی ذمہ دار وجوہات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔

    دماغی صحت کے عوارض : دماغی صحت کے عوارض جیسے شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، پی ٹی ایس ڈی، بعض دیگر فریبی عوارض، اور شدید ڈپریشن فریب کا باعث بن سکتے ہیں۔

    دماغی امراض : دماغی مسائل جیسے مرگی، پارکنسنز کی بیماری، یا دماغی ٹیومر بھی فریب کا باعث بن سکتے ہیں۔

    دواؤں کا اثر : کچھ دواؤں کے ضمنی اثر کے طور پر ہیلوسینیشن بھی ہو سکتا ہے۔

    متلی اور اضطراب: ضرورت سے زیادہ تناؤ اور اضطراب بھی انسان کو فریب کا شکار بنا سکتا ہے۔

    منشیات اور الکحل: کچھ منشیات اور الکحل کا زیادہ استعمال فریب کا باعث بن سکتا ہے۔

    نیند کی کمی: نیند کی دائمی کمی یا بے خوابی بھی فریب کا باعث بن سکتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ اگر دماغی یا دماغ سے متعلق وجوہات ہیلوسینیشن کی ذمہ دار ہیں تو ضروری ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر دوائیں، کچھ خصوصی تھراپی اور سائیکو تھراپی تجویز کرتے ہیں۔

    دوسری طرف اگر منشیات کا استعمال، نیند کی کمی یا دیگر رویے یا منشیات سے متعلق وجوہات اس کے لیے ذمہ دار ہیں، جس کا اثر صرف تھوڑے عرصے تک رہتا ہے تو ڈاکٹر متاثرہ شخص کو اس سے متعلقہ اچھی عادتیں اپنانے کا مشورہ دے گا۔ یعنی غذا، طرزِ زندگی اور باقاعدگی سے ورزش کرنا وغیرہ۔

  • بار بار آنے والے منفی خیالات کس بیماری کا سبب بنتے ہیں؟

    بار بار آنے والے منفی خیالات کس بیماری کا سبب بنتے ہیں؟

    عام طور پر ہر انسان کے ذہن میں روزانہ کئی اقسام کی سوچیں، تفکرات اور پریشانیاں غالب رہتی ہیں جو زیادہ تر محض مفروضوں یا اندیشوں پر مبنی ہوتی ہیں انہیں بڑھنے دیا جائے تو متاثرہ شخص ایک مخصوص ذہنی بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

    سوچ کا یہ وسیع دائرہ کار ہماری شخصیت پر منفی زیادہ اور مثبت اثرات کم ڈالتا ہے، جس کے سبب انسان کسی بھی کام کو لگن اور محنت کے ساتھ نہیں کر پاتا۔

    جب کسی شخص کے ذہن میں ہر بات کے لئے منفی خیال آئے یا ایک ہی خیال بار بار آئے اور ان خیالات سے خود ہی سب سے زیادہ پریشان ہو تو ایسا شخص اوبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈر (منفی خیالات کی بیماری ) میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

    اس بیماری میں مبتلا شخص کسی دوسرے انسان کو قابل رحم حالت میں دیکھتا ہے مثلاً اسے کوئی انتہائی مفلس شخص نظر آ ئے یا پھر اسپتال میں بیمار لوگوں کو دیکھے تو اس کے ذہن میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ یہ اب مر جائے گا۔ سڑک پر کسی کتے کے بچے کو دیکھے تو اسے لگے گا کہ یہ گاڑی کے نیچے آکر مر جائے گا وغیرہ۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ذہن میں ایک ہی خیال گردش کرتا رہتا ہے، جس کے سبب ان کا جینا مشکل ہو جاتا ہے، وہ شخص خود کو ایک ایسے بھنور میں پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے کہ بعض اوقات خودکشی کرنے کی بات بھی سوچنے لگتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق ایک ہی طرح کا خیال یا ہر بات پر منفی خیالات کا بار بار ذہن میں آنا سائیکالوجی کی زبان میں ’اوبسیشن ‘ کہلاتا ہے۔

    منفی خیالات انسان میں بے چینی پیدا کرتے ہیں جس کے سبب وہ ان خیالات سے بھاگنا چاہتا ہے اور وہ کچھ اس طرح کے عمل کرتا ہے جنہیں کرنے سے اسے کچھ راحت ملتی ہے۔

    مثال کے طور پر کچھ لوگ بار بار تالا چیک کرتے ہیں، کچھ لوگ بار بار گیس چیک کرتے ہیں اور کچھ لوگ بار بار جیب چیک کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہر چیز کو بے حد منظم طریقہ سے رکھتے ہیں، اتنا منظم کہ اگر وہ شے ذرا بھی اپنی جگہ سے ہل جائے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔

    کچھ دیر تک خاص عمل کرنے سے انہیں چین تو مل جاتا ہے لیکن پھر کچھ دیر بعد منفی خیالات ذہن میں آنے شروع ہوجاتے ہیں، اس لئے بے چین ہو کر پھر اسی مخصوص عمل کو کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بار بار دہرائے جانے والے عمل کو کمپلشن کہتے ہیں۔

    جب خیالات اور عمل خود کو یا اس کے آس پاس کے لوگوں کو پریشان کرنے لگ جاتے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ بیماری (اوبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈر ) کی شروعات ہوچکی ہے۔

    بیماری کے اسباب

    اگر کسی شخص کے ذہن میں کوئی ایسی بات ذہن نشین رہ جائے جسے وہ کسی اور کے ساتھ شیئر نہیں کر پارہا ہو لیکن اندر ہی اندر پریشان رہتا ہو یا کسی دوسرے شخص کا کوئی ایسا راز جو صرف اسے یا دوسرے شخص کو ہی معلوم ہو لیکن اسے اندر ہی اندر ایسا لگ رہا ہو کہ یہ غلط ہوا ہے۔

    بعض اوقات گھر میں بہت زیادہ بےسکونی یا انتہائی سکون کا ماحول ہو یعنی گھر میں ہمیشہ لڑائی جھگڑے کا ماحول رہنا یا پھر گھر میں بالکل خاموشی کا ہونا۔ ایسے حالات میں جب بات کسی سے شیئر نہیں کی جاسکے یا پھر سننے والا ہی کوئی نہ ہو تو ایسی بات دل میں دبی رہ جاتی ہے ایسے میں وہ شخص بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    احتیاط اور علاج

    طویل مدت تک جب ایسے خیالات پریشان کرنے لگتے ہیں تو ذہن کا کیمیائی توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بیماری کا روپ اختیار کرنے لگتا ہے۔ اس کے علاج کے لئے معقول دوائیں ، سائیکوتھیرپی اور معمول زندگی لازمی ہے۔

    اگر بیماری کا ابتدائی دور ہے تو کاؤنسلنگ اور معمول زندگی سے بھی آرام مل جاتا ہے لیکن اگر آرام نہیں ملے تو پھر ماہر نفسیات سے مل کر صحیح علاج کرانا چاہیے۔ صحیح معمول زندگی سے مراد معقول غذا، ورزش اور پوری نیند سے ہے۔

  • کورونا سے شفا یاب مریضوں کو نئی مشکل آن پڑی

    کورونا سے شفا یاب مریضوں کو نئی مشکل آن پڑی

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وبا سے شفایاب ہونے والے کئی مریضوں میں ایک نئی کیفیت سامنے آئی ہے جس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی دماغی حالت مکمل طور پر بہتر نہیں ہوتی۔

    امریکا اور یورپ میں 37 فیصد لانگ کوویڈ کے مریض زیادہ ہیں۔37فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جو کورونا سے شفایاب ہونے کے باوجود مہینوں اور سال تک اس کے ضمنی منفی اثرات کے شکار رہتے ہیں۔

    ان علامات میں بھول جانا، دماغ ماؤف ہونا، یادداشت کی کمزوری، مصروفیت کے وقت جلد باز ہوکر بے عمل ہونے کی کیفیات شدت سے سامنے آتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اسے برین فوگ کا نام دیا ہے۔

    دنیا بھر میں کوویڈ19 کے شکار ہونے اور اس سے شفایاب ہونے والے مریض ایک کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں جسے دماغی دھند یا برین فوگ کا نام دیا گیا ہے، اب ایک نئے طریقے سے دماغی دھند کا علاج کیا جاسکتا ہے یا اس کیفیت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اب روچیسٹر میں واقع مایو کلینک سے وابستہ ماہر ڈاکٹر ٹام برگ کوئسٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے دماغی لچک یا نیوروپلاسٹیسٹی کو اس ضمن میں بہت مفید قرار دیا ہے۔ اس عمل میں کئی ایک مشقیں کرواکے دماغی لچک کو بحال کیا جاسکتا ہے جس کے بعض مریضوں پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف البامہ کے سائنسدانوں نے بھی ایک تھراپی پیش کی ہے جسے “شیپنگ” کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں اسی بات پر زور دیا جاتا ہے جس میں دماغ کمزور ہوتا ہے مثلاً لوگ گھریلو امور میں سے کوئی ایک بھول جاتے ہیں۔

    اس طرح ایک کلینک میں رہتے ہوئے ہفتوں اس کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس طرح دماغی سرکٹ اور یادداشت سے وابستہ اعصابی نظام دھیرے دھیرے مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اب تک اس تھراپی کے بہت اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں۔

    دوسری جانب فلیش کارڈ ، کمپیوٹر گیمز اور دیگر ٹیکنالوجی سے بھی کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی دماغی دھند کو دور کرنے کے تجربات کئے جارہے ہیں۔

  • ذہنی مریضوں کی صحت کا خیال رکھنے والے افراد ہوشیار رہیں

    ذہنی مریضوں کی صحت کا خیال رکھنے والے افراد ہوشیار رہیں

    ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا کہ ایسے افراد جو مریضوں کا خیال رکھتے ہیں وہ پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ لوگ خوشی کو عام افراد کی طرح محسوس نہیں کرسکتے اور دیرپا ڈپریشن سے گزرتے ہیں، ایسے افراد کو معمول کی زندگی پر لانا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسا عمل مہینوں سے سالوں پر محیط ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کلینکل سائیکا لوجسٹ ڈاکٹر زینب خان نے ذہنی امراض کے اسباب پر روشنی ڈالی اور اس کے سدباب کیلئے تجازویز بھی دیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسے لوگ جو ان مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو ذہنی مرض میں مبتلا ہوں ان کی ذہنی حالت بھی بہت حساس نوعیت کی ہوجاتی ہے جس کے باعث وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی گہرا اثر لیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض تکلیف دہ واقعات مثلاً کسی قریبی عزیز کا انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے لیکن ان باتوں کو ذہن پر سوار کرلینا انسان کیلئے نقصان دہ ہے۔

    ان کاکہنا تھا کہ بعض لوگ اس اداسی یا اس صدمے سے باہر نہیں نکل پاتے جس کے باعث وہ ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے ذہنی مرض کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

  • ذہنی و دماغی بیماریوں کا پھیلاؤ، کہیں آپ بھی تو اس کا شکار نہیں؟

    ذہنی و دماغی بیماریوں کا پھیلاؤ، کہیں آپ بھی تو اس کا شکار نہیں؟

    اگر کسی شخص کی دماغی اور ذہنی صحت ٹھیک نہیں تو اس کے اثرات پوری شخصیت اور زندگی پر مرتّب ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی شخصیت کو مضبوط بنانا ہے تو دماغ اور ذہن پر توجّہ دینا ہوگی، یہی وجہ ہے کہ دُنیا بَھر میں دماغی اور ذہنی صحت پر بہت زیادہ توجّہ دی جارہی ہے۔

    ماہرینِ صحت ذہنی دباؤ کو جسمانی صحت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیتے ہیں کہ یہ اعصاب، عضلات، دِل اور انہضام کے نظام پر مضراثرات مرتّب کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی بھی جسمانی عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کلینکل سائیکالوجسٹ عنبرین علی نے بتایا کہ اگر آپ خود کو جسمانی طور پر صحت مند محسوس کریں گے تو اس سے آپ کی ذہنی صحت مزید بہتر ہوگی۔

    عنبرین علی کا کہنا تھا کہ جسمانی صحت، ذہنی صحت کے بغیر نامکمل ہے اور اگر ذہنی و دماغی صحت معمولی سی بھی متاثر ہوجائے تو اُس کے اثرات جسمانی صحت پر خاصے گہرے مرتّب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جو لوگ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں تو آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ وہ جسمانی طور پر بھی توانا اور چاق و چوبند نہیں رہتے، مزاج میں کڑواہٹ اور بات بات پر غصہ کرتے ہیں۔

    عنبرین علی نے کہا کہ مثال کے طور پر ماضی میں جس مقام پر آپ کا کوئی ایکسیڈنٹ کوئی دردناک حادثہ پیشس آیا تھا اس مقام سے گزرتے ہوئے اس واقعے کو بار بار یاد کرتے ہیں تو وہ ٹراما کی خطرناک علامت ہے اس لیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    دنیا بھر میں سنہ 2020 کے دوران کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں ڈرامائی اضافہ ہوا، ان امراض میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں بتایا گیا کہ 2020 میں دنیا بھر میں اینگزائٹی کے اضافی 7 کروڑ 60 لاکھ جبکہ ڈپریشن کے 5 کروڑ 30 لاکھ کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ مردوں یا معمر افراد کے بجائے نوجوان اور خواتین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ وبا کے سماجی اور معاشی نتائج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کی بندش یا خاندان کے اراکین کے بیمار ہونے پر خواتین گھروں کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں، جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں، بچت کم ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں ملازمت میں تحفظ کم ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر بھی تعلیمی اداروں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ دیگر پابندیوں کے باعث اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے رابطے بھی برقرار نہیں رکھ سکے، جبکہ کسی بھی اقتصادی بحران میں نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل لانسیٹ میں شائع اس تحقیق میں یکم جنوری 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران شائع ہونے والی 48 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں مختلف ممالک میں کرونا کی وبا سے قبل اور اس کے دوران اینگزائٹی اور ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیقی ٹیم نے جائزہ لیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی نقل و حمل کم ہونے اور روزانہ کیسز کی شرح سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔

    اس کے بعد تمام تر تفصیلات کو استعمال کرکے ایک ماڈل کو تشکیل دیا گیا تاکہ وبا سے قبل اور بعد میں عالمی سطح پر ذہنی صحت کے امراض کی شرح کے درمیان فرق کو دیکھا جا سکے۔

    اس میں ایسے ممالک کو بھی شامل کیا گیا جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی بھی سروے انفارمیشن وبا کے دوران دستیاب نہیں تھی۔

    تمام تر عناصر اور تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے تخمینہ لگایا کہ 2020 کے دوران ڈپریشن سے جڑے امراض کے 24 کروڑ 60 لاکھ جبکہ اینگزائٹی کے 37 کروڑ 40 لاکھ کیسز دنیا بھر میں ریکارڈ ہوئے۔

    سنہ 2019 کے مقابلے میں ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح میں 28 فیصد اور اینگزائٹی کے کیسز کی شرح میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے جڑے امراض کے دو تہائی جبکہ اینگزائٹی کے 68 فیصد اضافی کیسز خواتین میں سامنے آئے جبکہ نوجوان معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے، بالخصوص 20 سے 24 سال کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا کی وبا سے ذہنی صحت کے سسٹمز پر دباؤ پر بہت زیادہ بڑھ گیا جو پہلے ہی کیسز کی بھرمار سے نمٹنے میں جدوجہد کا سامنے کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں سنجیدگی سے یہ جانچ پڑتال کرنی چاہیئے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بنیادی ذہنی صحت کی ضروریات پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے، ہمیں توقع ہے کہ نتائج سے ان فیصلوں کی رہنمائی مدد مل سکے گی جو آبادی کی ذہنی صحت کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

  • کرونا وائرس کا ایک اور خطرناک پہلو منظر عام پر

    کرونا وائرس کا ایک اور خطرناک پہلو منظر عام پر

    نیویارک: عالمی وبا کرونا کے باعث لگائی گئی پابندیوں نے سنگین اثرات مرتب کئے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے نے خبردار کردیا ہے۔

    اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف نے اس حوالہ سے ہلاکت خیز عالمی وبا کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے لگائی گئی پابندیوں کے سنگین نفسیاتی اثرات سے بیان کئے ہیں۔

    یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں دس سے انیس برس تک کی عمر کا ہر ساتواں نوجوان کسی نہ کسی ذہنی عارضے کا شکار ہے، اس عمر کے نوجوانوں میں پائے جانے والے نفسیاتی مسائل میں ڈپریشن، خوف اور ذہنی بے چینی نمایاں ہیں۔

    عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ایسے نوجوانوں کی مدد کے لیے سہولیات اور ان کے ذہنی مسائل کے علاج کے لیے دستیاب فنڈز کی بہت کمی ہے، یونیسیف نے دنیا کے ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ نوجوانوں کے ذہنی مسائل تدارک کے لئے کا م کرنا چاہئے۔

    اس سے قبل امریکا میں کوروناوائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کووڈ19 کے حوالے سے نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وبائی مریضوں کو دماغی مسائل کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کورونا کے حوالے سے ایک اور ہوشربا تحقیق

    تحقیق کے مطابق کوروناوائرس کے بہت زیادہ بیمار ہوکر آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں دماغی افعال کی محرومی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جن میں دماغی ہذیان، کوما اور طویل المعیاد بنیادوں پر ڈیمنشیا سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

    امریکا کی وینڈربلٹ میڈیکل یونیورسٹی کی یہ تحقیق طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع ہوئی تھی۔ اس ریسرچ میں اسپین کے ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ یہ دماغی مسائل کے حوالے سے سب سے بڑی تحقیق تھی جس میں 28 اپریل 2020 سے قبل 14 ممالک کے 2088 مریضوں پر مشاہدہ کیا گیا تھا۔

  • بُھولنے کی بیماری سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    بُھولنے کی بیماری سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    یوں تو انسانی جسم کا ہر عضو قدرت کا انمول عطیہ ہے مگر دماغ کی حیثیت ان سب سے زیادہ اہم ہے۔ دماغ کی وجہ سے انسان خلا کو تسخیر کرنے کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی تیار کرتا چلا جارہا ہے۔

    ایمنشیا ایک ایسا دماغی مرض ہے جس میں انسان اکثر باتیں بھول جاتا ہے، بازار جاتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ خریدنا کیا تھا۔ امتحانات میں تیاری کرنے کے باوجود آدھا جواب بھول جاتے ہیں۔

    کسی سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو اس کا نام یاد نہ آیا۔ کسی کام کے لئے دوسرے کمرے میں گئے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد سوچنے لگے کہ کس کام کے لئے آئے تھے۔

    لیکن اگر آپ کو بھولنے کی بیماری ہے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آپ ضرورت سے کم نیند لے رہے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں، جسمانی مشقت کم ہے یا جینیاتی مسئلہ ہے۔

    وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دماغی صحت میں خوراک کا کردار نہایت اہم ہے اور اگر آپ بھولنے کی شکایت کر رہے ہیں تو یقیناً اپنے دماغ کو درست غذا فراہم نہیں کرپا رہے۔

    دماغ کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال ہمارے جسم میں خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے اور خون زیادہ روانی سے ہمارے دماغ تک پہنچ پاتا ہے۔ جس کے باعث بھولنے کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔ اب بھولنا بھول جائیں اور یہ سب شوق سے کھائیں۔

    آپ کو گوشت پسند ہے تو شوق سے کھائیں، لیکن سبزیوں سے بھی لازمی ناطہ جوڑے رکھیں۔ کیونکہ یہ دماغی صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔ خاص طور پر پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک، بند گوبھی اور سلاد پتہ وغیرہ۔

    اس کے علاوہ پھل دل، دماغ اورجسم سب ہی کے لیے فائدہ مند ہیں لیکن چیری اور ایسے تمام پھل جن کے بیج گودے کے اندر ہوں، انسانی دماغ کے عمدہ غذا مانے جاتے ہیں۔ مثلاً کیلا، ٹماٹر اور اسٹرابری وغیرہ۔

    دماغ کے ساتھ ساتھ ہڈیوں اور بالوں کے لیے مفید اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وافر مقدار سی فوڈز میں موجود ہوتی ہے اس لیے ہفتہ میں دو یا تین بار اپنے کھانے میں گوشت کی جگہ مچھلی، جھینگا یا کوئی اور سی فوڈ شامل کریں اور اسے فرانی کرنے کے بجائے گرل، بوائل یا بیک کرلیں۔

    اگر آپ یہ سب کھانا پسند نہیں کرتے تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اس کے متبادل فوڈ سپلیمنٹ کا انتخاب کریں کیوں کہ یہ یادداشت بڑھانے کے لیے اکسیر ہے۔ مچھلی کا تیل بھی آپ کو یہی فائدہ دے سکتا ہے۔

  • برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    کیا آپ خود کو ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار محسوس کرتے ہیں؟ تو اس کا سبب وہ برگر یا فرنچ فرائز ہوسکتے ہیں جنہیں آپ بہت زیادہ کھاتے ہیں۔

    انٹرنیشنل جرنل آف فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق جنک فوڈ آپ کو ڈپریشن سمیت مختلف دماغی و نفسیاتی مسائل سے دوچار کرسکتا ہے۔

    اس سے قبل کئی بار اس بات کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ جنک فوڈ دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    تاہم اب امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں دیکھا گیا کہ شوگر کا زیادہ استعمال بائی پولر ڈس آرڈر جبکہ تلی ہوئی اشیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزیاں اور پھل جنک فوڈ بن سکتے ہیں

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جنک فوڈ کا استعمال عمر، جنس اور ازدواجی حیثیت سے قطع نظر ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے سربراہ پروفیسر جم ای بانتا نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس بات پر جامع تحقیق کی جائے کہ مختلف غذائیں ذہنی صحت پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذہنی بیماریوں کا شکار افراد کو دوا اور کاؤنسلنگ کے ساتھ ساتھ صحت مند غذاؤں کی طرف راغب کرنے کی بھی ضروت ہے۔

  • کے پی کے میں ذہنی امراض کے اسپتالوں کی صورتحال سے متعلق کیس کی سماعت

    کے پی کے میں ذہنی امراض کے اسپتالوں کی صورتحال سے متعلق کیس کی سماعت

    اسلام آباد : چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کے پی کے میں ذہنی امراض کے اسپتالوں کی حالت بدترین ہے، سیکریٹری صحت ہر دو ماہ بعد رپورٹ پیش کریں۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی کے میں ذہنی امراض کے اسپتالوں کی صورتحال سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوئی۔

    چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے سوال کیا کہ کیا آپ نے کبھی مینٹل اسپتال کا دورہ کیا ہے؟ جبکہ میں نے وہاں یہ دیکھا کہ مریضوں کو جانوروں سے بھی بدترحالت میں رکھا جارہا ہے، لوگ اپنے گھروں میں پالتو کتوں کو بھی ایسے نہیں رکھتے، وہاں لوگو ں کو باندھ کر زمین پرلٹایا جاتا ہے۔

    جس کے جواب میں سیکریٹری صحت کےپی نے بتایا کہ آپ کےدورے کے بعد ہم نے صورتحال کافی حد تک بہتر کی ہے، وہاں ایک نیافاؤنٹین ہاؤس بھی بنا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ میں زائد المیعاد دوائیوں کے نمونے بھی لایا تھا، وہاں ڈاکٹر بھی نہیں ہوتے، کن بنیادوں پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کے پی کو جنت بنادیا گیا ہے؟ کے پی کی حالت بدترین ہے۔

    انہوں نے کہا کہ3سے4دن بعد پھردورہ کروں گا، پھر دیکھوں گا کہ اسپتال میں مزید کیا بہتری آئی ہے، اس موقع پر سیکریٹری صحت نے کےپی کے اسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے سےمتعلق رپورٹ پیش کی ۔

    عدالت نےسیکریٹری صحت کو ہر دو ماہ میں صورتحال کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت دو ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔