Tag: Merkel

  • داعش منتشر ہوکر غیرمنظم تنظیم بن گئی، انجیلا مرکل نے ٹرمپ کا دعویٰ مسترد کردیا

    داعش منتشر ہوکر غیرمنظم تنظیم بن گئی، انجیلا مرکل نے ٹرمپ کا دعویٰ مسترد کردیا

    برلن : جرمن چانسلر انجیلا مرکل ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کرتےہوئے کہا کہ ’داعش سے شام و عراق کا بڑا رقبہ آزاد ہوچکا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوئے ہیں‘۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے دارالحکومت برلن میں ملکی خفیہ ادارے کے مرکزی دفتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا داعش کو مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر علاقے سے بے دخل کیا جاچکا ہے لیکن وہ اب بھی سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔

    انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ داعشی جنگجوؤں کو شام و عراق میں منتشر ضرور کیا گیا ہے جس کے بعد وہ ایک غیر منظم تنظیم میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

    انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’میں امریکی صدر ٹرمپ کے دعوے سے اختلاف کرتی ہوں کہ داعش کو شام میں مکمل طور پر شکست دے دی‘۔

    انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ شام میں انٹیلی جنس معاملات کی نگرانی بی اینڈ ڈی (جرمنی کی خفیہ ایجنسی) کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ ہم نے داعش کو شکست دے دی، اور آئندہ 30 دنوں میں امریکی فورسز شام سے نکل جائیں گی۔

    مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا

    ایک ہفتے میں شام و عراق سے داعش کا مکمل خاتمہ کردیں گے، ٹرمپ

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں داعش کا مکمل خاتمہ کرکے 100 فیصد خلافت ہمارے پاس ہوگی۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں نے کچھ عرصے انٹرنیٹ کا استعمال ہم سے بہتر انداز میں کیا لیکن اب اس شعبے میں وہ اتنے اچھے نہیں رہے۔

    مزید پڑھیں : صدر ٹرمپ سے اختلافات، امریکی وزیر دفاع مستعفی ہوگئے

    شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس اور دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی ایلچی بریٹ میکگرک نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    خیال رہے کہ داعش کے خلاف شام میں صدر باراک اوبامہ نے پہلی مرتبہ سنہ 2014 میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر باضابطہ شام کی خانہ جنگی میں حصّہ لیا تھا۔

  • جرمن چانسلر کی فرانسیسی صدر سے ملاقات، بریگزٹ معاملے پر تبادلہ خیال

    جرمن چانسلر کی فرانسیسی صدر سے ملاقات، بریگزٹ معاملے پر تبادلہ خیال

    پیرس: جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سے ملاقات کی، اس دروان بریگزٹ سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انجیلا مرکل اور ایمانوئیل میکرون کی ملاقات فرانس کے شہر مرسیلی میں ہوئی جہاں دونوں رہنماؤں نے بریگزٹ کے علاوہ مہاجرین کے معاملے پر بھی گفتگو کی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر نے ملاقات کے دوران مہاجرت، یورو زون میں اصلاحات اور بریگزٹ جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔

    دوسری جانب آسٹریا کے شہر سالزبرت میں 20 ستمبر کو یورپی یونین کی ایک اہم سمٹ ہونے جارہی ہے، جس میں مہاجرین اور بریگزٹ سمیت دیگر موضوعات زیر بحث آئیں گے۔

    علاوہ ازیں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کی جانب سے انجیلا اور میکرون کی ملاقات کو اہم قرار دیا گیا ہے۔

    بریگزٹ مذاکرات: برطانیہ اور یورپی یونین کا تجارتی معاملات پر اختلاف برقرار

    خیال رہے کہ گذشتہ روز بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں بریگزٹ معاملے پر برطانیہ اور یورپی یونین کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جس میں فریقین میں اختلاف بدستور برقرار رہا۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے بعد افریقہ میں برطانوی سرمایہ کاری بڑھانے کا اعلان کیا تھا، ان کی خواہش ہے برطانیہ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ جون میں برطانیہ کی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے مذاکرات خود کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ وزیر برائے بریگزٹ کو بریگزٹ کے حوالے سے ملک کے داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ذمہ دی تھی۔

  • اقلیتوں کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا تو جمہوریت خطرے میں پڑسکتی ہے: جرمن چانسلر

    اقلیتوں کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا تو جمہوریت خطرے میں پڑسکتی ہے: جرمن چانسلر

    برلن: جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ جمہوریت صرف اکثریت کا نام نہیں بلکہ اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانا بھی جمہویت کی ذمہ داری ہے، بصورت دیگر جمہریت خطرے میں پڑسکتی ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ جمہوریت اقلیتوں کے تحفظ، آزادی اظہار کو یقینی بنانے اور عدلیہ کی آزادی کا نام ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اداروں کا تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت ہے، اگر اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے جاتے تو جمہوریت نامکمل رہ جائے گی، ہمیں جمہوری اقدار کو مزید مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

    برلن میں انتہاپسندوں نےمسجد پرحملہ کرکےآگ لگادی

    خیال رہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو ان کی مہاجرین دوست پالیسیوں کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس انٹرویو میں چانسلر مرکل کا مہاجرین کے بارے میں موقف ماضی کی نسبت سخت دکھائی دیا۔

    واضح رہے کہ ماضی میں ملکی عدالت کی جانب سے ایسے فیصلے سامنے آئیں تھے جس کے باعث بعض طبقوں کی جانب سے عدلیہ پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی، انجیلا مرکل کا اداروں سے متعلق بیان اسی تناظر میں سامنے آیا ہے۔

    یاد رہے کہ رواں سال ماچ میں برلن کے علاقے کوہلی وینسٹرابی میں انتہا پسندوں نے مسجد پر حملہ کرکے آگ لگادی تھی، برلن فائر بریگیڈ کے ترجمان کے مطابق آگ پر ایک گھنٹے بعد قابو پالیا تھا تاہم مسجد میں ہونے والی آتشزدگی سے اندر رکھا ہوا سامان جل کر راکھ ہوگیا۔ البتہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

  • مرکل اور اردوگان کی ٹیلی فونک گفتگو، دو طرفہ تعلقات کی بہتری پر زور

    مرکل اور اردوگان کی ٹیلی فونک گفتگو، دو طرفہ تعلقات کی بہتری پر زور

    برلن: جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور ترک صدر رجب طیب اردوگان کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو ہوئی اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری پر زور دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انجیلا مرکل اور رجب طیب اردوگان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے ترکی اور جرمنی کے درمیان تعلقات میں بہتری کے موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ تعلقات میں بہتری اور مضبوطی کے لیے ٹھوس اقدامات اور عزم کی ضرورت ہے۔

    ٹیلی فونک گفتگو کے دوران دونوں رہنماؤں نے اگلے ماہ کے آخر طیب اردوگان کے دورہ جرمنی کے موضوع پر بھی بات چیت کی، تعلقات کی بہتری کے لیے دوطرفہ مربوط حکمت عملی پر زور دیا گیا۔


    جرمنی اور ترکی کے تعلقات خوشگوار، رہنماؤں کا ملکی دورے کا فیصلہ


    خیال رہے کہ 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے برلن اور انقرہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے، ترک حکومت نے دو جرمن شہریوں کو بھی ناکام فوج بغاوت میں ملوث ہونے کے شبہے میں گرفتار کرتے ہوئے سزائیں سنائی تھی۔

    بعد ازاں دونوں ملکوں کے مابین ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا تھا، تاہم گزشتہ برس اکتوبر اور رواں برس فروری میں دونوں جرمن شہریوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔

    دوسری جانب انقرہ حکومت برلن پر یہ الزام بھی عائد کرتی ہے کہ اس نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، جو ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہے۔

  • جرمنی شام میں کسی بھی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا، انجیلا مرکل

    جرمنی شام میں کسی بھی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا، انجیلا مرکل

    برلن: جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ برلن حکومت شام میں کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی، شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ناقابل قبول ہے۔

    جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی سے قبل مغربی اتحادی ممالک کو جرمنی سے مشاورت کرنا چاہئے۔

    انہوں نے کہا کہ شام میں کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل اتحادی ممالک کا متحد اور ہم خیال ہونا ضروری ہے تاہم شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کسی صورت قبول نہیں ہے۔

    مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمینٹ نے بشارالاسد کے خلاف کارروائی پررضامندی ظاہرکردی

    دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی وفاقی کابینہ نے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ مستقبل میں کیمیائی حملہ روکنے کے لیے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ روس تیار رہے شام پر جدید میزائل سے حملہ کرنے آرہے ہیں تاہم شام پر حملہ بہت جلد بھی کرسکتے ہیں اور اس میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔

    خیال رہے کہ روس کا امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام پر فضائی حملے دو ملکوں کے درمیان جنگ کا سبب بن سکتے ہیں، امریکا عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے، موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔