Tag: meteor shower

  • سعودی عرب: شہابیوں کی برسات کا خوبصورت نظارہ کب ہوگا؟

    سعودی عرب: شہابیوں کی برسات کا خوبصورت نظارہ کب ہوگا؟

    سعودی عرب کے شہر طائف میں شہابیوں کی بارش کا موسم شروع ہو چکا ہے جسے دیکھنے کے لیے ملک بھر سے شائقین پہنچ رہے ہیں۔

    فلکیاتی علوم کی کمیٹی نے شہابیوں کی بارش کا نظارہ کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کیا ہے۔

    کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر شرف السفیانی کا کہنا ہے کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب شہابیوں کی بارش کے عروج کی رات ہے، طائف میں ہر سال 17 جولائی سے 24 اگست تک وقفے وقفے سے شہابیوں کی بارش ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جمعرات کو رات 12 بجے سے 4 بجے فجر تک ایک گھنٹے کے دوران 150 شہابیے دیکھے جائیں گے۔

    ڈاکٹر شرف نے مزید کہا کہ شہابیوں کی بارش کا نظارہ کرنے کے لیے دوربین کی ضرورت نہیں ہوگی۔

  • تارا ٹوٹنے کی حیرت انگیز ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

    تارا ٹوٹنے کی حیرت انگیز ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

    میکسیکو  : امریکی خاتون موسیقار نے اپنے کیمرے سے شہاب ثاقب ٹوٹنے کی ویڈیو بنائی جو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پروائرل ہوگئی جس پر لاکھوں لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔

    امریکا کی معروف موسیقار امبر کوفمین نے اس حسین نظارے کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا، انہوں نے اس منظر کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی موبائل فون کے کیمرے میں اتنا واضح اور دیر تک تاروں کے ٹوٹنے کا عمل محفوظ ہوا، اس حیرت انگیز ویڈیو کو لاکھوں صارفین نے دیکھا اور خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔

    ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے امبر کوفمین نے لکھا کہ یہ منظر میرے لیے انتہائی حیران کن اور خوشگوار تھا، مجھے بے انتہا خوشی محسوس ہوئی۔

    اس حوالے سے امریکن میٹیر سوسائٹی (اے ایم ایس) کا کہنا ہے کہ دو شہاب ثاقب جن میں سے ایک جنوبی ڈیلٹا ایکویریڈس کے مقام پر اور دوسرا الفا کپرینیڈس کی طرف گرا اور یہ منظر امبر کوفمین نے ریکارڈ کیا۔

    اے ایم ایس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مناظر بارش میں رات کے وقت بہتر طور پر دیکھے جاسکتے ہیں خصوصاً چاند کی تاریخوں میں جب وہ آدھے سے زیادہ روشن ہو (پہلی سہ ماہی سے آخری سہ ماہی) تک چاند کی روشنی متاثر ہوگی اوراس کا مشاہدہ کرنا مشکل ہوگا۔

    اس وائرل ویڈیو پر بہت سے لوگوں نے تبصرہ کیا، ایک سائنسدان ڈاکٹر جیمس او ڈونوگو نے بتایا کہ اس طرح کے تیز رفتاری سے ہونے والے عمل کو کسی کیمرے میں محفوظ کرلینا بہت مشکل تھا، تاہم تاروں کا ٹوٹنا قدرتی عمل ہے جو اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔

  • آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے، آج کی رات وہ علاقے جہاں مصںوعی روشنیاں کم اور مطلع صاف رہے گا وہاں آسمان سے گرتے ان پتھروں کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ( راکس) ہیں جو پوری کائنات اور ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔ جنھیں’می ٹیور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’می ٹیور شاور ‘ کہا جاتا ہے ۔ عموما ََ می ٹیور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں ۔لہذاٰ انکی دم سے خارج ہونے والی ’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ’شوٹنگ سٹار ‘یا ’فالنگ سٹار ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

    یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھری ہوئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ََ بڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے 70 سے 100 کلومیٹر کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں ۔لہذا ٰ ہر می ٹیورشاور کا نام ’کانسٹی لیشن‘ یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    سنہ 2018 میں نظر آنے والے چند اہم می ٹیور شاورز مندرجہ ذیل ہیں ۔

    پرسیڈ می ٹیورشاور: دنیا بھر سے فلکیات کے شائقین نے 13 اگست 2018 کی رات کو شہابیوں کے گرنے کی جس بارش کا مشا ہدہ کیا تھا اسے پر سیڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ جو 20 اگست تک ہر رات دیکھا گیا تھا مگر اس میں 13 اگست کی رات شدت تھی جس میں پتھروں کے گرنے کی تعداد 80 فی گھنٹہ تھی۔ اس شاور کا باعث بننے والے دم دار ستارے کا نام سوفٹ ٹرٹل ہے جس کا سورج کے گرد ایک چکر133 سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ چونکہ 13 اگست کی رات چاند کی دو تاریخ تھی لہذا ٰ چاندنی بالکل نہ ہونے کے باعث اسے 30 سے 40 ڈگری کے زاویئے پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔ اس می ٹیور شاور میں گرنے والے پتھر ایک دوسرے سے اتنے کم فاصلے پر تھے کہ گرتے ہوئے کسی دھار یا روشن لکیرکی طرح معلوم پڑتے تھے۔ یہ بارش کو پرسیڈ شاور کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ یہ پرشس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اور جس مقام سے یہ گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اسے فلکیات میں ‘ ریڈینٹ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس شاور کو سب سے پہلے 1865 میں مشاہدہ کیا گیا تھا جس میں مکمل شدت سے پہلے ایک دفعہ پتھروں کے گرنے میں ہلکی شدت آتی ہے اور پھر کچھ وقفے کے بعد وہ زیادہ تعداد میں گرنے لگتے ہیں۔ پرسیڈ می ٹیور کا مشاہدہ 17 جولائی 2018 کی رات کو بھی کیا گیا تھا۔

    اورینائڈ می ٹیور شاور: آسمانی پتھروں کی یہ بارش ہیلی کی دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ یہ بارش اورین کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے اورینائڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں 16 سے 30 اکتوبر کی راتوں میں اورینائڈ می ٹیور شاور ہر رات دیکھا گیا ۔ جس میں شدت 21 اکتوبر کی رات میں تھی اور اس رات فی گھنٹہ 25 شہابیئے گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ جو آسمان پر 30 سے 40 ڈگری کے فاصلے پر واضح دکھائی دیئے۔ مگر 21 اکتوبر کو چاند کی 12 تاریخ ہونے اور بھرپور روشنی ہونے کے باعث آسمانی پتھروں کی یہ بارش اتنی واضح نہیں تھی۔

    ٹورڈ می ٹیور شاور: فلکیات کے شائقین نے 5 نومبر 2018 کی رات کو آسمان سے پتھروں کی جس بارش کا مشاہدہ کیا اسے ٹورڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہےجو ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہو تی ہے۔ اور اس کے باعث گرتے ہوئے می ٹیور کو 30 نومبر تک دیکھا جاسکے گا ۔ جو 2 پی اینکل دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث ہوگی۔ 5 نومبر کی رات گرنے والے شہابیوں کی رفتار فی گھنٹہ دس تھی اور چونکہ اس رات چاند کی 27 تاریخ تھی تو چاند کی روشنی نہ ہو نے کے باعث اس بارش کو 14 ڈگری شمال یا اس سے دور 30 سے 40 ڈگری کے زاویوں پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔

    لیو نائڈ می ٹیورشاور: شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں ہر برس 17 اور 18 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ می ٹیور شاور کا مشاہدہ کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ان راتوں میں ہماری زمین دم دار ستارے ٹیمپل ٹر ٹل کے بیضوی مدار میں سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے ۔ دم دار ستارہ ٹیمپل ٹر ٹل 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ چونکہ یہ بارش لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے لیونائڈ می ٹیور شاور کا نام دیا گیا ہے۔ 2018 میں انہی راتوں میں لیونائڈ می ٹیور شاورچاند کی بھرپور روشنی ہونے کے باعث زیادہ واضح نہیں دیکھا جا سکا۔ ۔ اس رات فی گھنٹہ دس سے پندرہ می ٹیور گرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ اگرچہ پتھروں کے گرنے میں 17 نومبر کی رات شدت تھی مگر 18 نومبر کی رات انھیں زیادہ واضح نہیں دیکھا جاسکا۔

    جیمی نائڈ می ٹیور شاور: سنہ 2018 کی آخری می ٹیور شاور سے فلکیات کے شیدائی 14-13 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے۔ اسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔ اس می ٹیور شاور کی سال کی بہترین بارش کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نا صرف بہت واضح ہوتا ہے بلکہ پتھروں کی گرنے کی رفتار بھی زیادہ اور بہت تیز ہوتی ہے۔2018 میں ان کے گرنے کی رفتار مزید تیز ہوگی اور فی گھنٹہ 100 شہابیے گرنے کی توقع ہے۔ جن کو دیکھنے کا بہترین وقت آدھی رات ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق جیمی نائڈ می ٹیور شاور قدیم زمانے سے مشاہدے کیے جارہے ہیں اور سب سے پہلے 1833 میں اسے دیکھ کر باقاعدہ ریکارڈ بھی جمع کیا گیا ۔ اور یہ مشاہدہ کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پتھروں کے گرنے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے کیونکہ مشتری کی گریویٹی ان چھوٹے چھوٹے اجسام کے منبع ایسٹی رائڈ 3200 فائی تھون کو کئی صدیوں سے آگے زمین کی طرف دکھیلتی رہی ہے۔ یہ ایسٹی رائڈ تقریبا 1 سال 4 ماہ میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔

    لہذاٰ اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں نومبر اور دسمبر کی راتوں میں آسمانی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور روشن علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ۔می ٹیور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعا دور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں ابھی بھی دو بار ٹیور شاورز کا با آسانی مشاہدہ کیا جاسکے گا۔ سو ابھی سے اپنے کیلنڈرز کو مارک کرلیں ۔

  • سال نو کے پہلے شہابِ ثاقب کا نظارہ پاکستان میں بھی دیکھا جاسکے گا

    سال نو کے پہلے شہابِ ثاقب کا نظارہ پاکستان میں بھی دیکھا جاسکے گا

    نیویارک: ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ تین اور چار جنوری کی درمیانی رات آسمان پر شہابِ ثاقب بڑی تعداد میں نمودار ہوگا جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیکھا جاسکے گا۔

    خلائی سائنس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے خبر یہ ہے کہ آج رات آسمان پر شہاب ثاقب کی روشنیوں کی بھرمار ہوگی ماہرین کے مطابق یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور دلفریب نظارہ ہوگا۔

    ناسا خلائی تحقیقاتی مرکز کے  ترجمان کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب کے دیو ہیکل اجسام کراہ ارض کے انتہائی قریب سے سفر کریں گی جن کی رفتار 17 سو کلومیٹر فی سیکنڈ ہوگی۔

    مزید پڑھیں: آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    واضح رہے کہ ہر سال دسمبر اور جنوری میں آسمان پر شہاب ثاقب نمودار ہوتے ہیں جو عام آنکھ سے بھی نظر آتے ہیں تاہم دلفریب نظارے سے محظوظ ہونے کے لیے کچھ لوگ ٹیلی اسکوپ کا سہارا لیتے ہیں۔

    مطلع صاف ہونے پر پاکستان میں یہ نظارہ تین اور چار جنوری کی درمیانی شب با آسانی دیکھا جا سکے گا، ماہرین فلکیات کے مطابق 1  گھنٹے کے دوران 40 سے زائد شہاب ثاقب گزرنے کا امکان ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آسمان صاف ہوا تو روشن لکیریں باآسانی نظر آسکتی ہیں، یہ فلکیاتی مظہر دراصل ہیلے نامی دم دار ستارے کا ملبہ زمین کی حدود میں داخل ہونے کے بعد آسمان پر شہابِ ثاقب نمودار ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ سنگی بارش صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے ۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ہیں جو پوری کائنات کی طرح ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔انھیں ’میٹی یور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’میٹی یور شاور‘ کہا جاتا ہے ۔

    عموما ََ میٹی یور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں لہذا‘ انکی دم سے خارج ہونے والی’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیںجنھیں ” شوٹنگ سٹار ” یا ” فالنگ سٹار ” بھی کہا جاتا ہے یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھرے ہو ئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ًبڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے تیس سے اسی میل کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے ‘ کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں لہذا ٰ ہر میٹی یور شاور کا نام "کانسٹی لیشن” یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    گلگت بلتستان میں شہاب ثاقب گرنے کی اطلاعات*

    گذشتہ ہفتے دنیا بھر میں 20-21 اور 21-22 کی راتیں فلکیات کے شیدائیوں کی توجہ کا مرکز رہیں جب انھیں آسمان سے ان جلتے پتھروں کی بارش دیکھنے کا موقع ملا‘ یہ ایونٹ اس حوالے سے منفرد رہا کہ چاند کی ابتدائی تاریخوں کے باعث افق پر زیادہ روشنی نہ تھی ، یوں گرتے ہوئے میٹی یور کا با آسانی مشاہدہ کیا گیا ۔ 21 اور 22 اکتوبر کی رات مشا ہدہ کی جانے وال پتھروں کی بارش کو ’اورینائڈ میٹی یور شاور‘ کا نام دیا گیا تھا کیونکہ یہ’اورین کانسٹی لیشن ‘ کی جانب سے تھی ۔ اور دنیا بھر سے کروڑوں شائقین نا صرف اس انوکھی بارش سے لطف اندوز ہوئے بلکہ ’ایسٹروگرافرز‘ نے اسے اپنے کیمروں میں ہمیشہ کے لیئے مقید بھی کیا ۔

    لیکن اگر کسی وجہ سے آپ اس دلفریب منظر کو دیکھنے اور اپنے کیمرے میں مقید کرنے سے قاصر رہے تو فکر کی چنداں ضرورت نہیں ، اگلے ماہ نومبر اور دسمبر میں آپ کو یہ موقع دوبارہ حاصل ہونے والا ہے۔ سال 2017 کے لیے ناسا کی جانب سے جاری کردہ فلکیاتی کیلنڈر کے مطابق اس برس کے اختتام تک تین مختلف کانسٹی لیشنز کی جانب سے یہ میٹی یور شاور مزید دیکھنے کو ملے گی ،جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ واضح رہے کہ ناسا ہر برس کے آغاز میں سال بھر میں رونما ہونے والے اہم فلکیاتی عوامل اور ایونٹس کا ایک کیلنڈر جاری کرتا ہے ۔

    ٹورڈ میٹی یور شاور : فلکیات کے شائقین 10-11 نومبر کی درمیانی شب اس بارش کانظارہ کر سکین گے جو دراصل دم دار ستارے ’اکی‘ کی دم سے خارج ہونے والی دھار کے باعث نظر دکھائی دے گی ۔ چونکہ یہ ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے زمین کی طرف گریں گے اس وجہ ا سے
    ٹورڈ میٹی یور شاور کا نام دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ یورپ اور بر طانیہ میں دیکھا جاسکے گا اور ا س میں گرنے والے پتھر بھی نسبتا ََ سست رفتار ہوں گے اور مکمل چاند کی وجہ سے یہ ز یادہ واضح بھی نہیں ہوگا ۔

    لیو نائڈ میٹی یور شاور : شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں، گیارہ نومبر کے صرف چند دن بعد 16-17 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ میٹی یور شاور وقوع پزیر ہوگا جسے ابتدائی چاند کی تاریخوں کے باعث بہت واضح دیکھا جا سکے گا۔

    فلکیاتی پتھروں کی یہ بارش دم دار ستارے ٹیمپل ٹٹل کی دم سے اخراج شدہ دھار کے باعث ہوگی اور فی گھنٹہ پندرہ میٹی یور گرتے ہوئے دکھائی دیں گے یہ دم دار ستارہ 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

    جیمی نائڈ میٹی یور شاور : ایک ماہ کے وقفے کے بعد سال 2017 کی آخری میٹی یور شاور سے آپ 14-15 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے جسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور 12 اگست یا 21 اکتوبر کی راتوں کی طرح فلکیاتی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور ’لائٹ پولوٹڈ ‘ علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ،میٹی یور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعادور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔