Tag: Microplastics

  • کیا ہم غذا کے نام پر پلاسٹک کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا ہولناک انکشاف

    کیا ہم غذا کے نام پر پلاسٹک کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا ہولناک انکشاف

    موجودہ دور میں ہر چیز میں پلاسٹک کا استعمال ضرورت سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور بات اس حد تک جا چکی ہے کہ ہم اپنی غذا کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے پلاسٹک کو جسم میں داخل کررہے ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کرّہِ ارض کے ہر حصے میں سرایت کرچکے ہیں۔

    یہ ذرات براعظم انٹارکٹکا کی سمندری برف اور اس سمندر کی گہری کھائیوں میں رہنے والے جانوروں کی آنتوں اور دنیا بھر میں پینے کے پانی میں سرایت کرچکے ہیں۔

    ماہرین صحت کی ایک بڑی تعداد مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے جو انسانی جسم کے تقریباً تمام اعضاء میں پائے گئے ہیں۔

    پلاسٹک پھیپھڑوں سے لے کر گردوں اور پھر خون تک میں پایا گیا ہے، سائنس دان ابھی تک صحت پر ان کے اثرات کے بارے میں یقینی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔

    پلاسٹک ہماری کرہ ارض کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے بہت جلد ہماری زمین پلاسٹک کی ایک دبیز تہہ سے ڈھک جائے گی۔

    چونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا چنانچہ غیر ضروری سمجھ کر پھینکا جانے والا پلاسٹک ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کے بعد یہ دریاؤں، ندی نالوں حتیٰ کہ زمین کی مٹی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے جن کا اوسط وزن 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے، یہ پلاسٹک ہمارے جسم کے اندر بھی جارہا ہے۔

    ہم سانس لینے، کھانے اور پینے کے ساتھ پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو بھی اپنے جسم کے اندر لے کر جارہے ہیں اور اگر جانچ پڑتال کی جائے تو ہمارے جسم کے اندر اچھا خاصا پلاسٹک مل سکتا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک کے ذرات (5 ملی میٹر سے کم) ہوا، پانی، خوراک، پیکیجنگ، مصنوعی ٹیکسٹائل، ٹائر اور کاسمیٹکس میں پائے گئے ہیں۔ ہر روز انسان سانس لیتے ہوئے یا دیگر مادوں کے رابطے میں آنے کے بعد ان ذرات کو نگل رہے ہیں۔

    لی مینز انسٹی ٹیوٹ برائے مالیکیولز اینڈ میٹریلز کے محقق فابین لیگارڈ نے فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران کہا ہے کہ 2024 کے شخص کے جسم کے تقریباً تمام حصوں میں پلاسٹک کا مواد موجود ہے۔

    انہوں نے کہا کہ توقع کی جارہی ہے کہ 2040 میں پیدا ہونے والے بچوں کے حوالے سے صورت حال انتہائی ابتر ہوجائے گی۔ حالیہ برسوں میں سائنسدانوں نے پھیپھڑوں، دل، جگر، گردوں، اور یہاں تک کہ نال اور خون میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات دیکھے ہیں۔

  • زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    لندن: مائیکرو پلاسٹک پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں پایا گیا ہے، یہ انکشاف چند مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا۔

    برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں مائیکرو پلاسٹک آلودگی پائی گئی ہے، اس سلسلے میں جتنے نمونے تجزیے کے لیے لیے گئے تھے، تقریباً تمام نمونوں میں یہ ذرات پائے گئے۔

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کی آلودگی اب پورے کرۂ ارض پر پھیل چکی ہے، جس سے انسان کا بچنا ناممکن نظر آتا ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تشویش بہت بڑھ چکی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے سرجری سے گزرنے والے 13 مریضوں کے ٹشوز سے نمونے لیے تھے، جن میں سے 11 کیسز میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا، لیے گئے نمونوں میں سب سے زیادہ عام ذرات پولی پروپیلین کے تھے، جو پلاسٹک کی پیکیجنگ اور پائپوں میں، اور پولی تھیلین تھیرپٹالیٹ (PET) ذرات جو بوتلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    اس سے قبل 2 تحقیقی مطالعوں کے دوران مردہ افراد کے اجسام کے پوسٹ مارٹم کے دوران بھی پھیپھڑوں کے ٹشوز میں مائکرو پلاسٹک پایا گیا تھا اور اس کی شرح بھی زیادہ تھی۔

    یہ بات پہلے ہی سے علم میں آ چکی ہے کہ لوگ نہ صرف سانس کے ذریعے پلاسٹک کے چھوٹے ذرات اندر لے جاتے ہیں بلکہ کھانے اور پانی کے ذریعے بھی یہ جسم کے اندر جا رہے ہیں، محنت کش افراد سے متعلق بھی یہ معلوم ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کی بڑی مقدار جسم میں جانے سے بیماری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

    مارچ میں پہلی بار انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹکس کا پتا چلا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ذرات جسم کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم سکتے ہیں اور مختلف اعضا میں رہ سکتے ہیں، صحت پر اس کے اثرات ابھی تک نامعلوم ہیں، لیکن محققین کو اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے، کیوں کہ لیبارٹری میں مائیکرو پلاسٹک سے انسانی خلیوں کو نقصان پہنچتے دیکھا گیا، جب کہ یہ تو پہلے ہی معلوم کیا جا چکا ہے کہ فضائی آلودگی کے ذرات سال میں لاکھوں ابتدائی اموات کا سبب بنتے ہیں۔

    اس تحقیقی مطالعے کی ایک سینئر مصنف، برطانیہ کے ہل یارک میڈیکل اسکول کی محقق لارا سڈوفسکی نے کہا کہ ہمیں پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ذرات یا اس سائز کے ذرات ملنے کی امید بالکل نہیں تھی، یہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں ہوا کی نالیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہمیں توقع تھی کہ ان سائز کے ذرات اس گہرائی میں جانے سے پہلے فلٹر ہو جائیں گے یا پھنس جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ اس تحقیقی ڈیٹا کو فضائی آلودگی، مائیکرو پلاسٹک اور انسانی صحت کے میدان میں ایک اہم پیش کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    پلاسٹک کی بے تحاشہ آلودگی نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ ہمارے پینے کے پانی اور غذا میں بھی شامل ہوگیا ہے اور اس کا نتیجہ بالآخر سامنے آگیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا ہے، انہوں نے جن افراد کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی ان میں سے لگ بھگ 80 فیصد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا گیا۔

    اس دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک ذرات خون کے ذریعے پورے جسم میں سفر کرسکتے ہیں اور اعضا میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔

    ابھی صحت پر ان کے اثرات کا تو علم نہیں مگر ماہرین فکر مند ہیں کہ ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جیسا لیبارٹری میں ثابت ہوا۔

    اسی طرح فضائی آلودگی کے ذرات کے بارے میں پہلے ہی علم ہے کہ وہ جسم میں داخل ہو کر ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے 22 افراد کے عطیہ کردہ خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جو کہ سب صحت مند تھے، ماہرین نے 17 افراد کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کو دریافت کیا۔

    50 فیصد نمونوں میں اس پلاسٹک کے ذرات تھے جس کا استعمال پانی کی بوتلوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ ایک تہائی میں پولی اسٹرینی ذرات دریافت ہوئے۔

    یہ قسم فوڈ پیکنگ اور دیگر مصنوعات کے لیے استعمال ہوتی ہے، ایک چوتھائی کے خون کے نمونوں میں پولی تھیلین قسم کو دریافت کیا گیا جس سے پلاسٹک بیگ تیار کیے جاتے ہیں۔

    نیدر لینڈز کی وریجے یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب انسانی خون میں پولیمر ذرات کو دریافت کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں تحقیق کو مزید بڑھانا ہوگا اور زیادہ نمونوں کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور اس حوالے سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ یقیناً تشویشناک ہے، یہ ذرات پورے جسم میں گردش کرسکتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل انوائرمنٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔