Tag: MIGRANTS

  • امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج، چھ سو سے زائد مظاہرین گرفتار

    امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج، چھ سو سے زائد مظاہرین گرفتار

    واشنگٹن: امریکا کی جانب سے تارکین وطن سے متعلق بنائی گئی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے والے چھ سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی دار الحکومت واشنگٹن میں ہزاروں امریکی شہری صدر ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف پرامن مظاہرہ کررہے تھے جن کا مطالبہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ تارکین وطن اور ان کے بچوں کے ساتھ ہونے والے نارواں سلوک اور استحصال کو فوری طور پر روکیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر ممالک سے تارکین وطن کی غیر قانونی طور پر امریکا آمد کے خلاف ’صفر برداشت‘ کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے جس کے باعث امریکا میں آئے دن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔


    امریکا: تارکین وطن بچوں کو علیحدہ کرنے کا حکم، عدالتوں میں چلینج


    گرفتار مظاہرین میں اکثریت خواتین کی ہے جو غیر قانونی طور پر امریکا داخل ہونے والے تارکین وطن سے اظہار یکجہتی بھی کر رہی تھیں، جن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ تارکین وطن کے بچوں کو ان کے والدین سے ملایا جائے۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں امریکا کی جانب سے تارکین وطن سے جبری سلوک پر تشویش پائی جاتی ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس عمل کے خلاف گذشتہ دنوں امریکا میں احتجاج بھی کیا گیا تھا۔


    تارکین وطن کو قانونی کارروائی کے بغیر ملک بدر کردیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ


    خیال رہے کہ آئندہ ہفتے امریکا میں تارکین وطن کی نمائندہ کئی تنظیموں، شہریوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کئی اداروں نے ٹرمپ انتظامیہ کی تارکین وطن سے متعلق سیاست کے خلاف واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کر رکھا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تارکین وطن کے بحران پر یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس

    تارکین وطن کے بحران پر یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس

    برسلز: تارکین وطن کے بحران پر یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں مہاجرین کے مسئلے کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہوا جس میں 28 یورپی یونین ریاستوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جس کا مقصد یورپ کو تارکین وطن کے بحران سے نکالنا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپ میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا جو موجودہ رکن یورپی یونین ریاستوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اگر یورپ اس بحران سے نہ نکلا تو معاملہ مزید سنگین ہوسکتا ہے۔۔

    اجلاس میں اٹلی کی جانب سے مزید مہاجرین کو اپنے خطے میں قبول نہ کرنے پر بات کی گئی ساتھ ہی موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    خیال رہے کہ جنگ اور غربت کے شکار ممالک سے فرار ہونے والے ہزاروں افراد یورپی ممالک خصوصاًﹰً اٹلی اور یونان کا رخ کر رہے ہیں اور اس دوران سینکڑوں افراد اس کوشش میں بحیرہ روم کی موجوں کی نذر بھی ہو چکے ہیں، جس کے باعث یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا جارہا ہے۔


    تارکین وطن قبول نہ کرنے والی یورپی ریاستوں پر پابندی ہونی چاہیے: فرانسیسی صدر


    دوسری جانب اطالوی حکومت نے ایک طرف تو مہاجرین کے ملک میں داخلے پر ایک طرح سے پابندی عائد کر دی ہے اور دوسری جانب یورپی یونین سے بھی زیادہ تعاون کا مطالبہ کررہی ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ وہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں جو مہاجرین کے مسئلے پر یونین کا ساتھ نہیں دے رہیں ان پر مالیاتی پابندی ہونی چاہیے۔


    یورپین مائیگریشن فورم کا چوتھا اجلاس، تارکین وطن اور پناہ گزینوں‌ کے مسائل پرغور


    انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایسے ممالک یورپی یونین کے ممبر ہیں اور ساتھ ہی مراعات بھی حاصل کررہے ہیں لیکن ذاتی مفاد کی خاطر مہاجرین کو اپنے خطے میں جگہ نہیں دے رہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • میلانیا ٹرمپ کو ’مجھے کسی کی پرواہ نہیں‘ الفاظ والی جیکٹ ملبوس کرنے پر تنقید کا سامنا

    میلانیا ٹرمپ کو ’مجھے کسی کی پرواہ نہیں‘ الفاظ والی جیکٹ ملبوس کرنے پر تنقید کا سامنا

    واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ کی اہلیہ نے ٹیکساس سینٹر میں تارکین وطن کے بچوں سے ملاقات کے دوران ’مجھے کسی کی پرواہ نہیں‘ درج الفاظ کی جیکٹ ملبوس کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کو ٹیکساس سینٹر میں تارکین وطن بچوں سے ملاقات کے دوران متنازع الفاظ کی پرنٹنگ والی جیکٹ پہننے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ نے جہاز میں سوار ہوتے وقت جو جیکٹ پہنی ہوئی تھی اس کی پشت پر لکھا تھا ‘مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، آپ کو ہے‘۔

    میلانیا ٹرمپ کی خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی اہلیہ کے جیکٹ پر لکھے ہوئے الفاظ میں ’کوئی پوشیدہ پیغام نہیں ہے‘۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر پیغام دیا ہے کہ ’میلانیا ٹرمپ کی جیکٹ پر لکھے ہوئے الفاظ فیک نیوز والوں کے لیے تھے، جنہیں غلط رُک دیا جارہا ہے‘۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ فیک نیوز بنانے والوں کی غلط خبروں سے میلانیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ٹویٹر استعمال کرنے والے صارفین نے میلانیا ٹرمپ کی ان الفاظ ’مجھے کوئی پرواہ نہیں، آپ کو ہے‘ والی جیکٹ میں تصاویر اور جیکٹ پر درج الفاظ میں ’کوئی پوشیدہ پیغام نہیں ہے‘ کا ٹویٹ دیکھا تو انہیں خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔

    ٹویٹر استعمال کرنے والے ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ اگر میلانیا ٹرمپ کسی اور موقع پر یہ جیکٹ پہنی ہوتی تو اس فوٹو کو 80 ہزار لوگ ان ہی الفاظ کے ساتھ ٹویٹ کرتے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خاتون کو ٹیکساس جاتے ہوئے جیکٹ پہنے ہوئے نہیں دیکھا تھا مگر جب وہ واپس واشنگٹن آئی تو انہوں نے جیکٹ پہنا ہوا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • اٹلی اور فرانس کے درمیان مہاجرین کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ

    اٹلی اور فرانس کے درمیان مہاجرین کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ

    روم : اٹلی کے وزیر داخلہ نے دھمکی دی ہے کہ پیرس حکومت مہاجرین کے مسئلے پرمعافی مانگے وگرنہ ایمنیئول مکرون اور اطالوی وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات ملتوی کردی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس کی انسانی حقوق کے لیے خدمات انجام دینے والی تنظیم ایس او ایس میڈیٹرینی کے بحری کو اطالوی بندر گاہ کر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دینے پر فرانس اور اٹلی کے درمیان سفارتی کشیدگی میں‌ پھر اضافہ ہونے لگا۔

    اٹلی کے وزیر داخلہ نے اطالوی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر معافی نہ مانگی توفرانسیسی صدر ایمینئول مکرون اور اطالوی وزیر اعظم کے مایبن 15 جون کو ہونے والی ملاقات منسوخ کردی جائے گی.

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مہاجرین کے بحری جہاز کو لنگر انداز کرنے کے معاملے کے بعد اطالوی وزیر اقتصادیات اور فرانسیسی ہم منصب کے درمیان گذشتہ روز ہونے والی ملاقات میں ملتوی ہوگئی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اٹلی میں موجودہ حکومت عوامیت پسند ہے، جس نے جہاز میں حاملہ خواتین، اور سینکڑوں بچوں سمیت 629 افراد ہونے کے باوجود بحری جہاز کو لنگز انداز نہیں ہونے دیا تھا۔

    فرانس کی امدامی تنظیم ایس او ایس کا کہنا تھا کہ مذکورہ تارکین وطن کو بحیرہ روم سے ریسکیو کیا تھا، لیکن اٹلی کے اجازت نہ دینے پر انہیں اسپین روانہ کیا گیا۔

    یورپی نیوز ایجنسیوں کے مطابق اٹلی کی نئی حکومت کی جانب سے مہاجرین سے متعلق سخت رویہ اختیار کرنے پر فرانسیسی حکومت سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اطالوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    اطالوی حکومت کی جانب سے مہاجرین ملک میں پناہ نہ دینے پر فرانسیسی صدر تنقید نے موجودہ اطالوی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اٹلی حکومت کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فرانسیسی حکومت کی جانب سے اٹلی پر تنقید کیے جانے کے بعد اٹلی نے روم میں تعینات فرایسیسی سفیر کو طلب کرکے بیانات پر وضاحت مانگی ہے۔

    اطالوی حکومت کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’رومی حکومت فرانسیسی صدر کے مذکورہ بیانات کو قابل قبول نہیں سمجھتی‘ ایسے بیانات فرانس اور اٹلی کے درمیان ڈراڑ ڈال دیں گے۔

    اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے فرانسیسی حکومت کی جانب سے دیئے گئے بیانات کے جواب میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’پیرس حکومت مہاجرین کو کسی اور ملک میں بھیجنے کے بجائے فرانس میں پناہ دے اور سرکاری سطح پر معافی مانگے‘۔

    فرانسیسی وزیر خارجہ نے اطالوی حکومت کے سخت رویے کے بعد رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’فرانس مہاجرین کے باعث اٹلی پر آنے والے دباؤ سے آگاہ ہے اور ہماری حکومت اس حوالے تعاون کرنے کے لیے بھی تیار ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ٹرمپ انتظامیہ نے ہزاروں تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوببہ بنالیا

    ٹرمپ انتظامیہ نے ہزاروں تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوببہ بنالیا

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 20 سالوں سے مقیم ہزاروں ہنڈوران تارکین کو سنہ 2020 میں زبردستی ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرلیا.

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا میں موجود 57 ہزار ہنڈورن تارکین وطن کو 5 جنوری 2020 تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دے دیا۔

    واضح رہے کہ براعظم امریکا کے وسط میں واقع ملک ہونڈوراس میں سنہ 1998 میں آنے والے میچ نامی سمندری طوفان کے بعد ہنڈوراس کے متاثرہ شہریوں کو امریکا میں پناہ دی گئی تھی۔

    امریکا کے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہنڈوراس میں طوفانی آفت کے بعد سے ملک کے حالات میں کافی بہتری آئی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہنڈوران تارکین وطن کو آئندہ 2020 تک کی مہلت کی دی گئی ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جانے کا بندوبست کریں یا اس کے متبادل قانونی امیگریشن دیکھیں‘۔

    ہنڈوران حکام کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ہنڈوراس مہاجرین کے لیے پناہ کی سہولت ختم کرنے پر ’بہت زیادہ افسوس‘ ہے۔

    امریکا میں تعینات ہنڈوران کے سفیر مارلون تابورا کا کہنا تھا کہ ’ہنڈوران ایسی حالت میں نہیں ہے کہ ہزاروں افراد کی اچانک وطن واپسی کو سنبھال سکے‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ ’ہنڈوران تارکین وطن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ 20 برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں، اچانک ان خاندانوں کی اچانک وطن واپسی مشکل ہے‘۔

    خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے قبل قدرتی آفات کے بعد امریکا آنے والے ہیٹی اور ایل سلواڈور کے تارکین وطن کی بھی پناہ گزینی کے منصوبے کو ختم کیا تھا۔

    ناقدین کا خیال ہے کہ امریکی حکومت اپنے اقدامات کے سبب گھریلو ممالک سے کی جانب سے مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کو نظرانداز کررہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یونان میں ہزاروں شہریوں کا غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف احتجاج

    یونان میں ہزاروں شہریوں کا غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف احتجاج

    ایتھنز : یونان کے جزیرے لیسبوس کے ہزاروں شہری غیر قانونی تارکین کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، پولیس کا مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا.

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کا رکن ملک یونان کے جزیرے لیسبوس کی عوام نے جمعرات کے روز غیر قانونی طریقوں سے یونان آنے والے تارکین وطن کی مسلسل آمد کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

    جرمن خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز ہونے والا مظاہرہ جب شدت اختیار کرنے لگا تو یونانی پولیس نے شرکائے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فلیش گرینیڈ کا آزادانہ استعمال کیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرے کے دوران پولیس کی جانب سے کی جانے والی آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ایک گھنٹہ تک جھڑپیں ہوتی رہیں، تاہم جھڑپوں کے باعث کسی کے زخمی یا گرفتار ہونے کی اطلاع نہیں آئی۔

    پولیس حکام کا کہنا تھا کہ شرکائے احتجاج نے دوران مظاہرہ سیکیورٹی اہلکاروں کی بس کو بھی الٹانے کی کوشش کی تھی، جرمن میڈیا کے مطابق لیسبوس میں ایسے وقت میں مظاہرہ کیا گیا ہے جب یونانی صدر ایک کانفرنس میں خطاب کرنے کےلیے لیسبوس پہنچے تھے۔


    مسلمان پناہ گزینوں کی آبادکاری کے خلاف ہنگری کی حکمران جماعت آئین میں ترمیم کرے گی


    یونان پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لیسبوس کے تقریباً 2500 شہریوں نے سنہ 2016 یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ یونان آنے والے تقریباً 1500 سے زائد تارکین وطن یونان کے جزیوں لیسبوس، چیوس، سموس اور لیروس میں مقیم ہیں جبکہ مہاجرین کی یونان میں پناہ لینے کی درخواستوں پر کام جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسرائیل: افریقی مہاجرین کی ملک بدری کا منصوبہ منسوخ ہوگیا

    اسرائیل: افریقی مہاجرین کی ملک بدری کا منصوبہ منسوخ ہوگیا

    تل ابیب: اسرائیلی حکام نے اقوام متحدہ سے معاہدے کے بعد غیرقانونی طریقوں سے اسرائیل میں داخل ہونے والے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ منسوخ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ اسرائیلی عدالت عالیہ نے حکومت کی جانب سے ہزاروں افریقی تاریکین وطن کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کو متنازع قرار دے کر معطل کردیا تھا۔

    اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کا اقوام متحدہ سے معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت 16000 افریقی تارکین وطن کو کینیڈا، اٹلی، جرمنی، سمیت دیگر مغربی ممالک میں منتقل کیا جائے گا، جس کے بعد ہم نے ملک بدر کرنے کا منصوبہ منسوخ کردیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ 16000 افریقی مہاجرین کو مغربی ممالک میں منتقل کرنے کے بعد دیگر سولہ ہزار افراد کو اسرائیل میں مستقل بنیادوں پر رہنے کے اجازت نامے دے دیے جائیں گے۔

    نیتن یاہو نے کہا کہ افریقی ممالک یوگنڈا اور راوانڈا کے متعدد شہری اسرائیل ہجرت کرکے آئے تھے، عدالتی فیصلے کے بعد نئے منصوبے پر آئندہ پانچ سالوں میں عمل درآمد کیا جائے گا۔


    افریقی مہاجرین کی ملک بدری کا فیصلہ اسرائیلی عدالت نے مسترد کردیا


    یاد رہے کہ اسرائیلی حکام نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ اسرائیل میں موجود افریقی مہاجرین مارچ کے اختتام تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں۔

    رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے والے افراد کو حکومت نے 3500 ڈالر اور جہاز کا ٹکٹ دینے کی پیشکش بھی کی تھی، ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ مقررہ مدت تک اسرائیل نہ چھوڑنے والے تارکین وطن کو گرفتاری اور جبراً ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • افریقی مہاجرین کی ملک بدری کا فیصلہ اسرائیلی عدالت نے مسترد کردیا

    افریقی مہاجرین کی ملک بدری کا فیصلہ اسرائیلی عدالت نے مسترد کردیا

    تل ابیب: اسرائیل کی عدالت عظمیٰ نے حکومت کی جانب سے غیر قانونی طریقے سے اسرائیل میں رہنے والے ہزاروں افریقی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے بنایا گیا متنازع منصوبہ مسترد کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیلی سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے غی قانونی طریقوں سے چند سال قبل اسرائیلی حدود میں داخل ہونے والے ہزاروں افریقی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے بنائے گئے متنازع منصوبے کو معطل کردیا ہے، اور اسرائیلی حکومت کو 26 مارچ تک اس منصوبے کے حوالے سے مزید تفصیلات جمع کروانے کا حکم جاری کیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی ایجنسی نے اسرائیلی حکومت کے ان اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    اسرائیل نے افریقی مہاجروں کو مارچ کے اختتام تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے والے لوگوں کو حکومت نے 3500  ڈالر اور جہاز کا ٹکٹ دینے کی پیشکش بھی کی ہے، اور ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ اس کے باوجود اسرائیل میں رہ جانے والے تارکین وطن کو گرفتاری اور جبراً ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    سپریم کورٹ نے ملک بدری کے منصوبے کو سوڈان اور ارتریا کے مہاجرین کی جانب سے اسرائیلی حکومت کے ان اقدامات کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر معطل کیا گیا ہے اور حکم صادر کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت عدالت عظمیٰ کو اضافی معلومات ملنے سے پہلے افریقی تارکین وطن کو ہرگز ملک بدر نہیں کرے گی۔

    اسرائیلی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں اِس وقت چالیس ہزار سے زائد افریقی مہاجرین موجود ہیں جو غیرقانونی طریقے سے اسرائیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔

    اسرائیل میں مقیم افریقی پناہ گزین

    ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں موجود افریقی مہاجرین گذشتہ چند سال قبل اسرائیل اور مصر کی سرحد پر غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات سے پہلے اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن سرحد پر لگائی گئی باڑ سے غیر قانونی نقل و حرکت میں واضح کمی آئی ہے۔

    اسرائیلی حکام نے واضح کیا ہے کہ ملک بدری کے اس منصوبے میں انسانی اسمگلنگ اور غلامی سے متاثرہ بچوں، عورتوں اور والدین کے لیے رعایت ہے۔ اعلیٰ حکام کا مزید کہنا تھا کہ مہاجرین انسانی اور رضاکارانہ طریقے سے واپس اپنے ملک لوٹ جائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • لیبیا: مسافر کشتی الٹنے سے پاکستانیوں سمیت 90 افراد ہلاک

    لیبیا: مسافر کشتی الٹنے سے پاکستانیوں سمیت 90 افراد ہلاک

    ترپولی: غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی خواہش تارکین وطن کےلیے آخری سفر بن گئی، کشتی سمندر برد ہونے سے 90 افراد جان سے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق لیبیا کے قریب بحیرہ احمر میں مسافروں سے بھری کشتی ڈوب گئی جس کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک ہوگئے، دس افراد کی لاشیں نکال لی گئیں ہیں جن میں سے آٹھ کا تعلق پاکستان سے ہے۔

    آئی او ایم (انٹرنیشنل آرگنائیزیشن فار مائگریشن) کے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل ایسے بیشتر واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں مختلف ممالک کے افراد ہلاک ہوئے لیکن اس بار ڈوبنے والوں میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔

    اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ سینکڑوں ڈوبنے والے افراد میں سے تین کو زندہ نکال لیا گیا ہے، کشتی میں سوار افراد غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کررہے تھے۔

    یار رہے گزشتہ برس یورپی یونین نے لیبیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت لیبیا کے ساحلی علاقوں پر محافظ کڑی نگرانی کریں گے اور کسی بھی تارکین وطن کو یورپ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

    واضح رہے مختلف ممالک سے تارکین وطن کی بڑی تعداد نوکریوں کی غرض سے ترکی، یونان اور یورپی ممالک کا غیر قانونی سمندری سفر کرتی ہے اور اس کوشش کے دوران اکثر و بیشتر کشتی ڈوبنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جن میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئر کریں۔

  • ہزاروں مسلمان سپاہی یورپ میں‘ حملے کی تیاری؟

    ہزاروں مسلمان سپاہی یورپ میں‘ حملے کی تیاری؟

    ہنگری کے ایک انٹیلی جنس تجزیہ نگار نے خبردار کیا ہے کہ ’ہزاروں مسلمان سپاہی ‘ یورپ میں داخل ہوچکے ہیں اور حملے کی تیاری کررہے ہیں۔

    یہ انکشاف ہنگیرین انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائیریکٹر آپریشن لیزلو فولڈی نے ایک ٹی وی شو میں دیے چشم کشا انٹرویو میں کیا۔

    فولڈی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ آور روایتی قسم کی دہشت گردی کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں بلکہ ان کا مقصد یورپ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا ‘ یہاں سیاسی جماعتیں تشکیل دینا اور ان کے ذریعے براعظم میں شرعی نظام نافذ کرانا ہے۔

    migrants

    ان کا کہنا تھا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے اور اس کا سبب مہاجرین کے لئے سرحدیں کھلی رکھنے کی پالیسی ہے ‘ انہوں نے کہا کہ یورپ میں مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے بحران سے بڑا مسئلہ ان مہاجرین کی شناخت کا ہے‘ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ لاکھوں افراد کون ہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج سے دو ڈھائی سال قبل یہ کہنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا کہ مہاجرین کے ساتھ دہشت گرد بھی آسکتےہیں لیکن ایسا ہوا۔

    قیامت سے متعلق 7مشہور ترین پیش گوئیاں

    خواتین‘ حجاب کھینچے جانے پرکیا کریں؟

     ٖفولڈی نے ایک ٹی وی شو کا نام نہ لیتے ہوئےکہا کہ’’ اس شو کے رپورٹر کے خیال میں یہ ایک احمقانہ خیال ہے کہ دہشت گرد مہاجرت کی مشکلات جھیل کر کشتیوں کے ذریعے یورپ آئیں گے جب کہ وہ جہازوں کے ذریعے آسکتے ہیں‘‘۔ ایسا ہرگز نہیں ہزاروں کی تعداد میں سپاہی آچکے ہیں۔

    migrants-2

    ان کے مطابق ان سپاہیوں کے دو مقاصد ہیں‘ ایک تو کثیر تعداد میں یورپ میں جگہ بنانا اور دوسرا مقامی مسلمان آبادی تک با آسانی رسائی حاصل کرنا۔

    انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ یہ افراد تیل کی دولت سے مالا مال ان ممالک میں کیوں نہیں جاتے جو کہ ان کے پڑوس میں واقع ہیں ‘ اس کے بجائے اتنی مشقت برداشت کرکے یورپ تک پہنچ رہے ہیں۔

    migransdts2

    ان کا کہناتھا کہ مہاجرین میں 50 فیصد سے زائد افراد مقامی ثقافت کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہنا چاہتے اور یہی افراد مستقبل کی ممکنہ مسلمان آرمی کے سپاہی ثابت ہوں گے۔