Tag: MILITARY COURT

  • سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے ملٹری کورٹس کے خلاف دائرتمام درخواستیں مسترد کردیں

    سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے ملٹری کورٹس کے خلاف دائرتمام درخواستیں مسترد کردیں

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ملٹری کورٹس کے خلاف دائر کردہ تمام درخواستوں کو رد کرتے ہوئے ان کے قیام کو قانونی اورآئینی قراردے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروزبدھ سپریم کورٹ کے 17 ججز پر مشتمل لارجربنچ نے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں فیصلہ سنایا۔

    ملٹری کورٹس کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں ہونے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ردعمل میں ہونے والی 21 ویں ترمیم کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔

    ملٹری کورٹس کے قیام کے خلاف سپریم کورٹ بار، پاکستان بارکونسل، ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن راولپنڈی، لاہورہائی کورٹ بار، ڈسٹرکٹ بارسانگھڑ، عبدالحفیظ پیرزادہ کنسرنڈ سٹیزن آف پاکستان اوروطن پارٹی سمیت کل 31 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

    درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ ملٹری کورٹس کے قیام سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوگا اور اس سے موجودہ نظامِ عدل کو بھی نقصان پہنچے گا۔

    سپریم کورٹ کے لارجربنچ میں سے 11 ججز نے ملٹڑی کورٹس کے قیام کے حق میں جبکہ 6 ججز نے قیام کے خلاف فیصلہ دیا۔

    ملٹری کورٹس کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے 25 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ کوبھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

    چیف جسٹس ناصرالملک نے کثرتِ رائے کی بنا پر ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں مختصر فیصلہ تحریر کیا۔

    فیصلے کے مطابق ملٹری کورٹس کی جانب سے دی گئی سزائیں جنہیں موخر کیا گیا تھا اب ان پر عملدرآمد ہوگا۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کریں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن ارشد شریف کا ماہرانہ تجزیہ


    پس منظر


    واضح رہے کہ 6جنوری 2015 کو21ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی تھی جس کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں نے کاروائی شروع کی تھی۔

    فوجی عدالتوں کےخلاف دائر کی جانے والی پہلی درخواست کی سماعت 28جنوری کو ہوئی تھی۔

    اعلیٰ عدالت نے 18اور 21 ویں ترامیم پردرخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم دیا اور 3اپریل کومعاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

    16اپریل کوعدالتی احکامات کے ذریعے فوجی عدالتوں کی سزاؤں پرعمل درآمد روکاگیا۔

    بالاخر 5 اگست 2015 کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

    واضح رہے کہ ابتدائی طور پر9 فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں جن میں سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں 3،3، سندھ میں 2جبکہ بلوچستان میں 1 فوجی عدالت قائم کی گئی تھی۔

  • فوجی عدالتوں سے دی گئی 6مجرموں کی سزائےموت پر عمل درآمد معطل

    فوجی عدالتوں سے دی گئی 6مجرموں کی سزائےموت پر عمل درآمد معطل

    اسلام آباد: اٹھارہویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی چھ افراد کی سزائے موت پر عملدر آمد روک دیا، عملدر آمد سپریم کورٹ بار کی درخواست پر عبوری طور پر روکا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم سے متعلق سماعت میں حکم امتناع جاری کیا اور حکومت سے بائیس اپریل تک جواب طلب کرلیا ہے۔

    نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئی فوجی عدالتوں سے 6دہشتگردوں کی سزائے موت کو سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا تھا، سپریم کورٹ میں درخواست معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس زیرِ سماعت ہے ، اس لئے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ فوجی عدالت کی آئینی حیثیت کے تعین تک سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے۔

    سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل  سے سوال کیا کہ حکومت کو ان سزاؤں پر عمل درآمد کی کیا جلدی ہے اور کیوں نہ انھیں کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا جائے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کو آرمی ایکٹ کے شق 133 بی کے تحت اپیل کا حق حاصل ہے، جسے وہ استعمال کر سکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ان افراد کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں اور انھیں سزا ملنے کی خبر بھی میڈیا کے ذریعے پتہ چلی، ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ جو کارروائی ہوئی وہ قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔

    عدالت نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے چھ افراد کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا اور کہا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر حتمی فیصلہ آنے تک یہ سزا معطل رہے گی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ برس 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے بعد شدت پسندی کے مقدمات کے فوری فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ میں 21ویں ترمیم کے تحت دو سال کے لیے ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔

    اس کے بعد ایک فوجی عدالت نے رواں ماہ کے آغاز میں شدت پسندی کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے چھ مجرموں کو موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا  کہ جن افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، اُن میں نور سعید، حیدر علی، مراد خان، عنائت اللہ، اسرار الدین اور قاری ظہیر شامل ہیں جبکہ عباس نامی شخص کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

  • دہشتگردی کیخلاف بل ایک پارٹی کا نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا ہے، نوازشریف

    دہشتگردی کیخلاف بل ایک پارٹی کا نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا ہے، نوازشریف

    اسلام آباد: وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف بل کسی ایک کانہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا بل ہے،جودہشتگردی کے خاتمے میں مددگارثابت ہوگا۔

    سینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں میاں محمد نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کا 21 ویں ترمیم منظور کروانے پر شکریہ ادا کیا ہے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے یہ بل قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی متفقہ طور پر پاس ہو جائے گا، انہوں نے کہا کہ یہ بل ایک پارٹی کا نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا ہے۔

    وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ کہ قومی ایکشن پلان کمیٹی نے 7 دن مسلسل محنت کے بعد اپنا کام مکمل کیا جبکہ 20 نکاتی ایجنڈہ امن قائم کرنے کا ایجنڈہ ہے،انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کمیٹی کے سربراہ کے طور پر کام کیا، جبکہ اس 20 نکاتی ایجنڈے کو آئینی تحفظ دینے کی ضرورت تھی۔

    انہوں نے سیاسی قیادت کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وہ ان کی کال پر پشاور پہنچے اور بل کی حمایت کا اعلان کیا، جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بل کی بہت ضرورت تھی،انہوں نے وضاحت کی کہ اس بل کے تحت فوجی عدالتوں کی مدت 2 سال ہے اور تب تک فوجی عدالتیں دہشت گردی کے خلاف اپنا کام کرتی رہیں گی۔

    قومی اسمبلی کےبعد سینیٹ کےاجلاس میں بھی اکیسویں آئینی ترمیم کا ترمیم شدہ مسودہ منظوری کیلیےپیش کیا گیا جسے بحث کے بعد تمام اراکین کی متفقہ رائےسےمنظورکر لیا گیا۔

  • قوم ایکشن پلان ایکشن میں دیکھناچاہتی ہے، نوازشریف

    قوم ایکشن پلان ایکشن میں دیکھناچاہتی ہے، نوازشریف

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے فیصلہ ساز اجلاس ایوانِ وزیرِاعظم اسلام آباد میں باقاعدہ طور پر  شروع ہوگیا ہے، اجلاس میں شرکت کیلئےملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے رہنما موجود ہیں۔

    اجلاس میں وزیرِاعظم سیاسی رہنماؤں سے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قومی ایکشن پلان پرعملدر آمد کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔

    اجلاس کا آغاز مولانا فضل الرحمٰن نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ ہم ایک اہم مسئلے کے حل کیلئے تیسری بار اکھٹے ہوئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایکشن پلان کے حوالے سے قوم کی نگاہیں اس اجلاس پر لگی ہیں،اور ہم انشاءاللہ قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گے، ان کا کہنا تھا کہ تمام قائدین بھی اس بات پر  متفق ہیں  کہ ملک سے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ ہو، اور اس بل کو منظوری کیلئے جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

    وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ قوم دہشت گردی کےخلاف ایکشن پلان ایکشن میں بھی دیکھناچاہتی ہے، حتمی فیصلے کا وقت آگیا۔ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کام کو کیسے انجام دینا ہے۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ پندرہ دن کی مشاورت کے بعد اب مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے ۔بسم اللہ کریں اور آج ہی یہ بل  قومی اسمبلی میں پیش کرکےا سےمنظور کروائیں ۔

    وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ خواہش ہے کہ جلد خوف کے بادل چھٹ جائیں اور قوم سکھ کا سانس لے۔پندرہ روز میں تیسری بار قومی قیادت کا ایک میز پر مل بیٹھنا قابل ستائش ہے۔

  • مذہب کے خلاف پروپیگنڈہ بین الاقوامی ایجنڈہ ہے، فضل الرحمن

    مذہب کے خلاف پروپیگنڈہ بین الاقوامی ایجنڈہ ہے، فضل الرحمن

    اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مذہب کے خلاف پروپیگنڈہ بین الاقوامی ایجنڈہ ہے اور مدارس رجسٹریشن اور کوائف کے نام پر ایک بار پھر دینی حلقوں کو حراساں کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔

    اسلام آباد میں وفاق المدارس کے علماء کے اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے بات چیت میں جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 2004 تک مدارس کی رجسٹریشن بند تھی اور اس کے بعد حکومت کے مدارس کی رجسٹریشن ،مالیاتی معا ملات اور نظام کے بارے میں حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر علماء قائم ہیں انہوں نے کہا کہ دینی مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں اور علماء آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔

    ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر وہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں نہیں لیکن دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور معروضی حالات کے پیش نظر ان کی حمایت کی جا سکتی ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاپارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں آرمی چیف کی شرکت کوئی غیر معمولی نہیں اور دہشت گردی کے پیش نظز تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رہنا پڑے گا۔

  • بلا امتیاز سزائے موت دی جائے، فضل الرحمن

    بلا امتیاز سزائے موت دی جائے، فضل الرحمن

    اسلام آباد: جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سزائے موت دینے میں امتیازنہ برتا جائے، ملٹری کورٹس کی تشکیل کے لئے قانون کا جائزہ لیا جارہا ہے اگر تشکیل آئینی ہوئی توعلماء کواعتراض نہیں ہوگا۔

    وفاقی دارالحکومت میں آل پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے مجلسِ علماء کے مؤقف کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس ملک کے بہت بڑے تعلیمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو کہ طلبا ء کو مفت رہائش ، کتب اور دیگرتعلیمی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سال 2004 میں مدارس کی رجسٹریشن کا نظام بنایا گیا تھا جس کے تحت مدارس کے مالی معامالات، نصابِ تعلیم اورنظم و نسق کو مربوط کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مغرب اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت مدارس اورمذہب کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سزائے موت پربلا امتیازعملدر آمد ہونا چاہیے اوراس سلسلے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجلسِ علماء نے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کا عزم کیا ہے اور اس سلسلے میں صرف فرقہ ورانہ منافرت پرمبنی لٹریچرپر پابندی عائد کرنے کے بجائے مصنف اورناشر کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔

    ملٹری کورٹس کے قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی ماہرین اس امر کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آئین میں اس کی گنجائش ہے کہ نہیں ، اگر آئین اجازت دیتا ہے تو مجلسِ علماء کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کو پیغام بھجوایا ہے کہ اس وقت نئے محاظ کھولنے سے گریزکریں۔