Tag: military courts

  • جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں، سراج الحق

    جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں، سراج الحق

    پشاور: سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہ سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی مذکرات کامیاب ہوں لیکن اس کے لیے کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔

    سراج الحق کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں چوہے اور بلی کا کھیل جاری ہے، کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے، لڑائی کی بجائے مذاکرات ہی بہترین راستہ ہے۔

    انھوں نے کہا جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہے، سویلین عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں، فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف اپیلیں ہوں گی، اور یہ کیسز چلتے رہیں گے۔

    سراج الحق کا کہنا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم مفروضہ ہے، اس وقت کوئی چیز سامنے نہیں آئی، ترامیم کی تجویز صرف حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے ہے، بری حکمرانی کو تسلسل دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی تجویز دی جا رہی ہے۔

  • سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی اور کہا صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانےکی مشروط اجازت دے دی اور کہا کہ صرف ان کیسزکےفیصلےسنائےجائیں جن میں نامزدافرادعید سے پہلے رہاہوسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نےیقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کوقانونی رعایتیں دی جائیں گی تاہم فیصلےسنانےکی اجازت اپیلوں پرحتمی فیصلےسےمشروط ہوگی۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمل درآمد رپورٹ رجسٹرارکوجمع کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے آخری ہفتے میں ہوگی، جس پر ،فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔

    سپریم کورٹ نے خیبرپختونخواحکومت کی اپیلیں واپس لینےکی استدعا منظور کر لی ، کےپی حکومت نےسویلنز کاٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلیں واپس لینےکی استدعا کی تھی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل، سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل، سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوگی

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے حوالے سے کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے کیس میں درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ آج سماعت کرے گا۔

    وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق وزیر قانون فروغ نسیم کی خدمات حاصل کر لی ہیں، عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، اٹارنی جنرل اور چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیے تھے۔

    آج ہونے والی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے فروغ نسیم لارجر بینچ کے سامنے پیش ہوں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف کی نمائندگی عرفان قادر کریں گے، جب کہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی طرف سے شاہ خاور وکیل ہوں گے۔

  • فوجی عدالتیں : اعتزازاحسن نے اضافی دستاویز عدالت میں جمع کروا دیں

    فوجی عدالتیں : اعتزازاحسن نے اضافی دستاویز عدالت میں جمع کروا دیں

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے حوالے سے اضافی دستاویزات جمع کرادیئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواست سے متعلق درخواست گزار اعتزاز احسن نے اضافی دستاویزات جمع کروا دیں۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ اضافی دستاویزات متفرق درخواست کے ذریعے جمع کروائی گئیں، اضافی دستاویزات میں ملٹری کورٹس قوانین، فوجی عدالتوں میں کارروائی کے طریقہ کار سے متعلق آرٹیکلز شامل ہیں۔

    درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کا کیس 26جون کو سماعت کیلئے مقرر ہے، زیر سماعت کیس کو جلد نمٹانے کیلئے مذکورہ دستاویزات اہمیت کی حامل ہیں، لہٰذا استدعا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

  • تاجربرادری نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کردی

    تاجربرادری نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کردی

    اسلام آباد : تاجر رہنما شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے، اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کریں۔

    ان خیالات کا اظہار اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے سرپرست شاہد رشید بٹ نے اپنے ایک جاری بیان میں کیا۔ شاہد رشید بٹ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے فوجی عدالتیں ضروری ہیں اور ملک بھر کے تاجر ان کی مدت میں توسیع کے حکومتی فیصلے کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ملک کو سنگین خطرات درپیش ہیں اس لئے اہم معاملات پر سیاست نہ کی جائے، اس اہم مسئلے پر اپوزیشن جماعتوں کی ہچکچاہٹ ملکی سلامتی کو خطرہ میں ڈال دے گی۔

    شاہد رشید بٹ کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں جن سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تھی وہ اب اپنے معمولی مفادات کے لئے مخالفت کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی: آئی ایس پی آر

    ملک بھر میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمہ اور امن کے یقینی ہونے تک فوجی عدالتوں کی موجودگی ضروری ہے۔

  • فوجی عدالتیں قومی ضرورت تھیں، توسیع کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، میجرجنرل آصف غفور

    فوجی عدالتیں قومی ضرورت تھیں، توسیع کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، میجرجنرل آصف غفور

    راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ فوجی عدالتیں آرمی کی خواہش نہیں، یہ قومی ضرورت تھیں، پارلیمنٹ نے فیصلہ کیاتو مدت میں توسیع ہوگی۔

    یہ بات انہوں نے ایک انٹرویو میں کہی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد اتفاق رائے سے فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، ملک میں دہشت گردی کی ایک لہرتھی، یہ آرمی کی خواہش یا ضرورت نہیں بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔

    اس سے قبل پارلیمنٹ نے دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کو توسیع بھی دی، اب پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تو ان عدالتوں میں توسیع ہوگی، ہم وہ کریں گے جو ہمیں پارلیمنٹ بتائے گی، فوجی عدالتوں کا تعلق لاپتہ اور دیگر ایسےمعاملات سے نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملک کے کرمنل جسٹس سسٹم میں بہتری کی ضرروت ہے، فوجی عدالتوں نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر خوف طاری کیا، جس سے دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی، دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا فوجداری نظام مؤثر ہوگیا؟ کیا ہمارا فوجداری نظام اب دہشت گردوں سے نمٹ لے گا؟

    ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ چار سال کے دوران فوجی عدالتوں میں717مقدمات آئے، اس دوران ان عدالتوں میں646کیسز کے فیصلے کیے گئے اور345دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی، فوجی عدالتوں سے سزا ملنے کے بعد56دہشت گردوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔

    میجرجنرل آصف غفور کا مزید کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں قانونی تقاضے پورے کیےجاتے ہیں، ان عدالتوں میں ملزمان کو صفائی کا پورا موقع ملتا ہے۔

  • ن لیگ کا فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت کا فیصلہ: ذرائع

    ن لیگ کا فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت کا فیصلہ: ذرائع

    لاہور: مسلم لیگ ن نے اصولی طور پر فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت کا فیصلہ کر لیا.

    تفصیلات کے مطابق قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے آج پارٹی رہنماوں سے غیر رسمی مشاورت کی، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔

     ملاقات میں شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، برجیس طاہر اور رانا ثنا اللہ بھی ہوئے شریک ہوئے، اس موقع پر مریم اورنگزیب، مرتضیٰ جاوید، طارق فضل چوہدری بھی موجود تھے.

    ن لیگ ذرائع کے مطابق مشاورت میں قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت طے کی گئی، منی بجٹ، مہنگائی، گیس، بجلی لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل پربھی تبادلہ خیال ہوا.

    ن لیگ نے ایوان میں عوامی مسائل پر بھرپور آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، ملاقات میں فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا.

    پارٹی ذرائع کے مطابق ن لیگ کا اصولی طور فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے.

    مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کی توسیع، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو مذاکرات کا ٹاسک سونپ دیا گیا

    یاد رہے کہ گزشتہ دونوں وزیر اعظم کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کو اس ضمن میں اہم ٹاسک سونپا گیا تھا.

    دونوں رہنما فوجی عدالتوں میں‌توسیع سے متعلق اپوزیشن سے مشاورت کریں گے اور اس ضمن میں وزیر اعظم کو مسلسل باخبر رکھیں گے.

  • فوجی عدالتوں کی توسیع، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع  کو مذاکرات کا ٹاسک سونپ دیا گیا

    فوجی عدالتوں کی توسیع، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو مذاکرات کا ٹاسک سونپ دیا گیا

    اسلام  آباد:  حکومت نے فوجی عدالتوں کی توسیع سے متعلق اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے حکمت عملی تیار کر لی.

    ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں کی توسیع کے مذاکرات کا ٹاسک وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو سونپا گیا ہے.

    [bs-quote quote=”پہلے مرحلے میں بڑی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    شاہ محمودقریشی اورپرویز خٹک اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کریں گے، اپوزیشن جماعتوں کو فوجی عدالتوں میں توسیع پر قائل کیا جائے گا.

    موصولہ اطلاعات کے مطابق مذاکرات سے متعلق ٹیم وزیراعظم کو تمام صورت حال سے آگاہ رکھے گی، پہلے مرحلے میں بڑی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا.

    اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات آئندہ ہفتے سےشروع کیے جائیں گے، مذاکراتی ٹیم سے متعلق پارلیمانی پارٹی کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا.

    یاد رہے کہ آج وزیر اعظم کے ترجمان افتخار درانی نے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع سیاسی نہیں قومی معاملہ ہے، انصاف کے قانون میں اصلاحات پی ٹی آئی کا منشور ہے.

    خیال رہے کہ 16 دسمبر 2018 کو آئی ایس پی آر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ  فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک 717 دہشت گردوں کے کیسز بھیجے گئے جن میں سے 546 کے فیصلے سنا دیے گئے، فوجی عدالتوں میں 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی، جن میں سے 56 کی سزا پر عملدرآمد ہوچکا ہے

  • فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی: آئی ایس پی آر

    فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی: آئی ایس پی آر

    اسلام آباد: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک 717 دہشت گردوں کے کیسز بھیجے گئے جن میں سے 546 کے فیصلے سنا دیے گئے، فوجی عدالتوں میں 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے 56 کی سزا پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق آرمی پبلک اسکول واقعے کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ فوجی عدالتیں ابتدا میں 2 سال کے لیے قائم کی گئی تھیں، 2 سال مکمل ہونے پر ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتوں کی مدت میں توسیع کی گئی۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق گزشتہ 4 سال میں فوجی عدالتوں کے کام سے دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی۔

    فوجی عدالتوں سے سنگین دہشت گردی میں ملوث دہشت گردوں کو سزائیں سنائی گئیں۔

    سزا سنائے جانے والے دہشت گردوں میں اے پی ایس حملہ، جی ایچ کیو حملہ، میریٹ ہوٹل حملہ، پریڈ لائن ایریا حملہ، 4 ایس ایس جی جوانوں پر حملہ، بنوں جیل حملہ، آئی ایس آئی کے سکھر و ملتان کے دفاتر پر حملے اور چوہدری اسلم، سبین محمود اور امجد صابری کے قتل میں ملوث مجرمان شامل ہیں۔

    فوجہ عدالت سے سزا پانے والے مجرمان میں کراچی ایئر پورٹ حملہ، سانحہ صفورا، باچا خان یونیورسٹی حملہ اور نانگا پربت پر غیر ملکیوں پر حملے میں ملوث دہشت گرد بھی شامل ہیں۔

    آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو قیام سے اب تک 717 دہشت گردوں کے کیس بھیجے گئے، 717 کیسوں میں سے 546 کے فیصلے سنا دیے گئے۔

    546 کیسوں میں 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 234 دہشت گردوں کو مختلف مدت کی سزائیں سنائی گئیں۔ فوجی عدالتوں سے 2 ملزمان بری بھی کیے گئے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق سزائے موت پانے والے 310 دہشت گردوں میں سے 56 کو پھانسی دی جاچکی ہے، 254 دہشت گردوں کی سزائے موت قانونی چارہ جوئی کے باعث زیر التوا ہے۔

    خیال رہے کہ آج آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث مزید 15 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی ہے۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سزائے موت پانے والے مجرمان کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے، سزا پانے والے مجرمان میں پشاور کرسچن کالونی حملے اور تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچانے کے ذمے دار دہشت گرد شامل ہیں۔

    مذکورہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں مسلح افواج، شہریوں سمیت 34 افراد شہید اور 19 زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گردوں سے اسلحہ و بارود بھی تحویل میں لیا گیا تھا۔

  • صدر مملکت نے فوجی عدالتوں کی توسیع کے بل پر دستخط کردیے

    صدر مملکت نے فوجی عدالتوں کی توسیع کے بل پر دستخط کردیے

    اسلام آباد: صدر مملکت ممنون حسین نے فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق بل پر دستخط کر دیے جس کے بعد فوجی عدالتوں کو 2 سال کی توسیع مل گئی۔ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر کو بھجوایا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین نے آئین پاکستان میں 23 ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو 2 سال کے لیے قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔

    مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں‌ میں توسیع کا بل منظور

    قومی اسمبلی سے منظوری کے دوران مذکورہ ترمیم کو 28 ویں آئینی ترمیم کہا گیا کیونکہ قومی اسمبلی میں آئین میں متعدد ترامیم کے بل پیش ہوئے تھے، تاہم پاکستانی آئین میں اب تک 22 آئینی ترامیم ہوچکی ہیں اور یہ 23 ویں آئینی ترمیم ہے۔

    صدر مملکت نے انکوائری کمیشن بل 2017 پر بھی دستخط کر دیے جس کے بعد یہ بل بھی قانون کاحصہ بن گیا۔

    یاد رہے کہ 21 مارچ 2017 کو قومی اسمبلی نے 28 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں میں 2 سالہ توسیع کی منظوری دی تھی۔

    قومی اسمبلی میں آئین میں 28 ویں بار ترمیم کا بل وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیا تھا جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کیا۔ بل کی حمایت میں 255 ارکان نے ووٹ ڈالے جبکہ صرف 4 ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی جن میں محمود خان اچکزئی اور جمشید دستی بھی شامل تھے۔

    مذکورہ ترمیم کے لیے ایوان میں ہونے والی رائے شماری میں جمعیت علمائے اسلام ف (فضل الرحمٰن گروپ) نے حصہ نہیں لیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سینیٹ میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا بل منظور

    بعد ازاں بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا جہاں اسے 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔ بل کےحق میں 78 اور مخالفت میں 3 ووٹ ڈالے گئے۔

    سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے بل کی مخالفت کی جبکہ جے یو آئی (ف) نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

    آئین پاکستان میں 23 ویں ترمیم

    حالیہ آئینی ترمیم کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

    یہ ترمیم 7 جنوری 2017 سے لاگو ہوگی۔

    ایکٹ کے تمام احکامات تاریخ آغاز سے اگلے 2 سال تک نافذ العمل ہوں گے۔

    مدت کے اختتام کے بعد ترمیم کے تمام احکامات از خود منسوخ تصور ہوں گے۔

    ریاست مخالف اقدامات کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

    سنگین اور دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔

    مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے مقدمات بھی فوجی عدالتیں دیکھیں گی۔

    آرمی ایکٹ 2017

    آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترامیم یہ ہیں:

    دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزم کو اس کا جرم بتایا جائے گا۔

    ملزم کو 24 گھنٹے کے دوران فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    ملزم کو مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہوگی۔

    قانون شہادت کا اطلاق ہوگا۔

    یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کی خصوصی اختیارات کے ساتھ قیام کی منظوری دی تھی۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق 2 سال کے دوران فوجی عدالتوں کے ذریعے 274 مقدمات میں 161 مجرموں کو پھانسی اور 113 مجرموں کی قید کی سزا سنائی گئی۔