Tag: mining

  • سعودی عرب: کان کنی کے شعبے میں اربوں ڈالر کی ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری

    ریاض: سعودی عرب میں سال 2022 کے دوران کان کنی کے شعبے میں 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی وزیر صنعت و معدنیات بندر الخریف کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 کے دوران کان کنی کے شعبے میں 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری لائے ہیں۔

    معدنیات کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس کے دوران وزارت کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بندر الخریف کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس غیر ملکی سرمایہ کاری کے اہداف حاصل کرلیے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر سے تقریباً 20 سرمایہ کاروں کو سعودی عرب لانے میں کامیابی اور ریکارڈ سرمایہ کاری کا ہدف حاصل کیا ہے۔

    سعودی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ افریقہ سے وسطی اور مغربی ایشیا تک کان کنی کے علاقے میں بڑے معدنی وسائل موجود ہیں اور یہ مستقبل میں معدنیات کی طلب کے حوالے سے متوقع خلیج پر کر سکتے ہیں۔

  • سونے، چاندی اور تانبے کی کانوں کے اختیارات وفاق کے حوالے، خفیہ قرارداد منظور

    سونے، چاندی اور تانبے کی کانوں کے اختیارات وفاق کے حوالے، خفیہ قرارداد منظور

    کراچی: صوبوں کے قدرتی وسائل پر وفاق کو ایگزیکٹو پاور دینے کے معاملے پر خفیہ طریقے سے قراردادیں منظور کرلی گئیں جس کے بعد منرل اور مائننگ کے اختیارات وفاق کے سپرد ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں سونا، چاندی اور تانبے کی کانوں کی ایگزیکٹو پاور وفاق کے حوالے کرنے کی قراردادیں منظور کرلی گئیں جس کے بعد ملک کے منرل اور مائننگ کے اختیارات وفاق کے سپرد ہوگئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی سے ایجنڈا مؤخر کر کے خفیہ طریقے سے قراردادیں پاس کی گئیں۔

    ذرائع سندھ حکومت کے مطابق آئین کے آرٹیکل 144 کو بنیاد بنا کر اختیارات وفاق کو دیے گئے، ریکوڈک معاہدے پر شدید دباؤ کی وجہ سے قراردادیں پاس کروائی گئیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ معدنی وسائل پر کام کرنے والی کمپنیاں وفاق کے بغیر معاہدہ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

    ذرائع کے مطابق وفاق کو صوبوں کے معدنی وسائل پر اختیارات کے لیے 2 صوبائی اسمبلیوں کی منظوری درکار ہوتی ہے، پختونخواہ اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں ہونے کے باعث سندھ اور بلوچستان اسمبلی کو استعمال کیا گیا۔

  • سعودی عرب میں تانبے اور چاندی کی کانیں دریافت کرنے کا منصوبہ

    سعودی عرب میں تانبے اور چاندی کی کانیں دریافت کرنے کا منصوبہ

    ریاض: سعودی عرب کے علاقوں ریاض، عسیر اور مدینہ منورہ میں معدنیات کی تلاش کے لیے 5 منصوبے پیش کیے گئے ہیں، ان علاقوں میں تانبے، زنک، چاندی اور سیسے کی کانیں دریافت کی جائیں گی۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی وزیر صنعت و معدنیات بندر الخریف کا کہنا ہے کہ آئندہ برس ریاض، عسیر اور مدینہ منورہ میں معدنیات کی تلاش کے لیے 5 لائسنسز کی نیلامی کا منصوبہ ہے۔

    سعودی وزیر صنعت کا کہنا ہے کہ تانبے، زنک، چاندی اور سیسے کی کانیں دریافت کرنے کے لیے مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو موقع دیا جا رہا ہے۔

    یہ پیشکش 2 سے 4 نومبر تک سڈنی میں معدنیات کی عالمی کانفرنس میں وزارت صنعت و معدنیات کی شرکت کے تناظر میں کی گئی ہے۔

    مدینہ منورہ ریجن میں 187 مربع کلو میٹر سے زیادہ کے رقبے پر مہد الذہب کمشنری میں معدنیات کی تلاش کے لیے پرمٹ جاری ہوں گے، جہاں تانبے اور زنک کی موجودگی کے امکانات ہیں۔

    دوسری جانب ریاض ریجن کی الدوادمی کمشنری کے الردینہ مقام پر 78 مربع کلو میٹر سے زیادہ کے رقبے میں خام زنک اور چاندی کی تلاش کے لیے پرمٹ جاری کیا جائے گا۔

    ریاض کی القویعیہ کمشنری میں ام حدید کے علاقے میں 246 مربع کلو میٹر سے زیادہ کے رقبے میں چاندی، تانبے، زنک اور سیسے کے بڑے ذخائر موجود ہیں، ان پر کام ہوگا۔

    علاوہ ازیں عسیر ریجن کی تثلیث کمشنری میں جبل الصھایبہ میں زنک، سیسہ، تانبہ اور لوہے کے ذخائر 283 مربع کلو میٹر کے رقبے میں تلاش کیے جائیں گے۔ یہاں ان کے خام ذخائر موجود ہیں۔

    ریاض ریجن کی القویعیہ کمشنری میں جبل ادساس کا علاقہ 121 مربع کلو میٹر سے زیادہ بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، یہاں خام لوہے کے ذخائر اچھی خاصی مقدار میں موجود ہیں۔

    سعودی وزارت صنعت و معدنیات پانچوں مقامات پر معدنیات کی تلاش میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں سے ٹینڈر طلب کرے گی۔

  • کرونا کی تباہ کاریاں، کروڑوں بچے جسمانی مشقت پر مجبور

    کرونا کی تباہ کاریاں، کروڑوں بچے جسمانی مشقت پر مجبور

    دنیا بھر میں کم عمر کے بچوں سے مشقت لینے یا انہیں بطور غلام رکھنے کا سلسلہ نیا نہیں، تاہم مختلف معاشروں میں بچوں سے مشقت لینے کے نئے نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں،اقوام متحدہ کی رپورٹ میں چشم کشا انکشافات سامنے آگئے۔

    اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے (یونیسیف) کے مطابق اس وقت دنیا میں کم وبیش سولہ کروڑ بچے جسمانی مشقت پر مجبور ہیں، ان میں سے تقریباً نصف جسمانی طور پر انتہائی محنت والے کام کرتے ہیں، زیادہ تر بچوں کو کان کنی جسیے مشکل کام پر لگادیا جاتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکا کے ملک برازیل میں مویشیوں کے فارمز پر بچوں سے مشقت لینے اور انہیں بطور غلام رکھنے کی فرسودہ روایت آج بھی برقرار ہے، سب سے سنگین صورت حال جنوبی امریکی ملک بولیویا میں ہے جہاں بچوں سے طرح طرح کی مزدوری کروائی جاتی ہے۔Children as young as five make up most of Madagascar's mica mining  workforce | Human rights | The Guardianتاہم سابق صدر، معروف سیاستدان اور ٹریڈ یونین آرگنائزر ایوو مورالس کی قیادت میں بائیں بازو کی حکومت نے دو ہزار چورہ میں ایک ایسا کام کیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

    انہوں نے بچوں کی مزدوری کو چند شرائط کے تحت قانونی حیثیت دے دی، انسانی حقوق کی ایک معروف وکیل بیانکا مینڈوزا کے بقول،” یہ قانون غریب بچوں کی حقیقی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔

    اس قانون کے تحت صرف دس سال کی عمر کے بچوں کو ہی کام کی اجازت دی گئی تھی اور صرف اس شرط پر کہ ان کا پس منظر واقعی بہت ہی غریب ہو، ساتھ ہی ان کی اجرت مقرر کردی گئی تھی۔Child labour and exploitation | UNICEF South Asiaاس سے قبل بولیویا میں بچوں کو سماجی مراعات دی گئی تھیں اور ان پر رات میں کام کرنے پر پابندی تھی ساتھ ہی ان پر کٹھن مشقت اور خطرناک کام جیسے کہ کان کنی وغیرہ یا گنے کی کاشت جیسے کام کرانے کی سخت ممانعت تھی، اس قانون کو ترقی پسند قرار دیا گیا تھا۔

    بولیویا میں بچوں کی محنت و مشقت سے متعلق اس قانون پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن آئی ایل او اور بہبود اطفال کے عالمی ادارے (یونیسیف) کی طرف سے سخت حیرانی کا اظہار کیا گیا۔ یہ تنظیمیں اور ادارے اس ‘چائلڈ لیبر‘‘ کو بچوں کا استحصال تصور کرتے ہیں۔

    دو ہزار اٹھارہ میں بولیویا کی حکومت نے بین الاقوامی دباؤ کے تحت اس قانون کو واپس لے لیا، خاص طور سے اس قانونی مسودے میں شامل وہ اقتباسات حذف کئے گئے جو اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں کے تحفظ کے لیے طے شدہ معیارات کی خلاف ورزی تھی۔

    وکیل بیانکا مینڈوزا کے مطابق پابندی کے باوجود بچوں سے مشقت لینے کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی، اب بھی پانچ سال کی عمر کے بچے کینڈیز، کوکیز، ہیئر بینڈز اور دیگر اشیاء بیچتے نظر آتے ہیں، خاص طور پر رات کے اندھیرے میں کیونکہ ان پر دراصل پابندی تھی۔

    بیانکا مینڈوزا کا کہنا ہے کہ بولیویا کے دارالحکومت لاپاز میں اس کے برعکس کام کرنے والے بچوں کی تعداد جو پہلے آٹھ لاکھ پچاس ہزار تھی بہت تھوڑی کمی آئی، کمی کے بعد یہ سات لاکھ چالیس ہزار ہوئی تھی جس میں کرونا وبا کے دور میں دوبارہ سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔

    اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے سرکاری طور پر تخمینہ لگایا ہے کہ ان دنوں بولیویا میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے طریقہ کار کے پر تنازعہ بھی جاری ہے۔

    چند ممالک میں بچوں سے کرائی جانے والی  مشقت کے اعدادوشمار

    ایکواڈور کے دارالحکومت کیوٹو میں کم عمر بچیاں رات کے اندھیرے میں ڈسکو تھیکس کے سامنے کھڑی غیر ملکی سیاحوں کو سگریٹ فروخت کرتی ہیں اور چھوٹے لڑکے پیسے والے حضرات کے جوتے پالش کرتے ہیں۔

    Children selling cigarettes in Marrakech, a photo from Marrakech, South |  TrekEarth

    کولمبیا کے دار الحکومت بوگاٹا میں گیارہ سال سے کم عمر بچے کئی کلو وزنی مکئی، چاول یا پھلیوں کی بوریاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہوتے ہیں یعنی وہ مال برداری جیسی مشقت پر مجبور ہیں، پیرو میں بھی مزدور بچوں کی کچھ یہی صورتحال ہے۔

    امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کرونا وبا نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے، دیگر ماہرین اس بات پر متفق ہے کہ ”چائلڈ لیبر‘‘ ایک حقیقت ہے جس سے چشم پوشی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس سے مسئلہ اور سنگین ہو سکتا ہے۔