اسلام آباد: وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے کہا کہ حکومت کے خرچے زیادہ ہیں جن پر ٹیکس کا پیسہ لگ جاتا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد سے سوال کیا گیا کہ حکومت تو کہتی ہے کہ بیروزگاری کم ہوئی ہے، لیکن وزارت کی رپورٹ تو کچھ الگ ہی کہہ رہی ہے، مہنگائی میں اضافے کی کیا وجہ ہے۔
جس پر وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے کہا کہ حکومت کے خرچے بہت زیادہ ہیں جن پر ٹیکس کا پیسہ لگ جاتا ہے، جس پر مزید بہترین ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔
مشیر خزانہ نے بتایا کہ ایف بی آر کی ازسر نو تشکیل کے نتائج آنا شرو ع ہوگئے ہیں، ایف بی آر کی ڈیجٹلائزیشن سے ٹیکس وصولی میں بہتری ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پنشن کے معاملے میں اصلاحات بڑی پیشرفت ہے، 400 کے قریب محکموں میں رائٹ سائزنگ شروع ہوگئی ہے، وفاقی حکومت کا سال کا بجٹ 876 ارب روپے ہے جسے کم کررہے ہیں۔
مشیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسامیاں جن کی ضرورت نہیں ان کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے اچھی معیشت اور مہنگائی کم ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں، اور بتایا تو یہ جارہا ہے کہ مہنگائی کم ترین سطح چار اعشاریہ ایک فیصد تک آگئی ہے۔
لیکن دکانوں یا مارکیٹوں کا رخ کریں تو کسی چیز کی قیمت میں کمی نہیں آئی اور عوام نے مہنگائی کم ہونے کے حکومتی دعوؤں کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، حیدرآباد سمیت کئی شہروں میں چکن 700 روپے یا اس سے زیادہ میں فروخت کی جارہی ہے، دوائیاں غریب مریضوں کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔
گھی 600 سے 700 روپے تک کلو ہے، پہلے کہا جاتا تھا کہ دال غریبوں کی غذا ہے، لیکن اب تو کوئی دال چار، پانچ سو روپے کلو سے کم نہیں، لیکن صرف حکومتی دعوؤں اور سرکاری کاغذات میں ہی کمی کے دعوے کیے جارہے ہیں۔
اسلام آباد : وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ساڑھے9فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح سے ملک چلانا ہے تو ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگانا ہونگے۔
یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر مہر بخاری کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسز سے بچا کر دونوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی کیلئے فنڈز کہاں سے اٹھا کر کہاں لے گئے ہیں، پہلی مرتبہ کیپسٹی بلڈنگ اور اسکل ڈیویلپمنٹ پرکام کرینگے، ہمیں معیشت سےمتعلق ایک مستحکم راستے پر چلنا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا نفاذ بطور ہنگامی اقدام رکھا گیا ہے، جہاں ریونیو شارٹ فال ہوگا تو تب پی ڈی ایل کا اطلاق ہوگا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ساڑھے9فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح سے یہ ملک نہیں چل سکتا،اگر اسی شرح سے ملک چلانا ہے تو ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگانا ہونگے، ہم نے رواں سال تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز نہیں لگائے۔
نان فائلرز ہونے ہی نہیں چاہئیں
نان فائلر سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ نان فائلرز کو جس طرف لے کر جارہے ہیں انہیں فائلر بننا ہوگا، بڑے فیصلے نہیں کریں گے تو معیشت کو بہتر کرنا مزید مشکل ہوجائے گا،
ملک میں نان فائلرز ہونے ہی نہیں چاہئیں۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ اسٹرکچرل سائٹ پر انکم ٹیکس، سیلزٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ایک سمت میں لے جانا ہے، ریونیو کے حصول کیلئے ہمیں یہ اقدامات لازمی کرنا ہوں گے،
محمد اورنگزیب کے مطابق تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کا استثنیٰ6 لاکھ پر برقرار رکھا گیا ہے،
غیر تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس45فیصد کرنے کی تجویز ہے، ہمیں محدود مدت کیلئے کچھ اقدامات کرنا تھے۔
عوام کی قوت خرید بڑھائیں گے
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح12فیصد پر آچکی ہے،ہم عوام کی قوت خرید بڑھائیں گے، مہنگائی کا ہمیں بھی ادراک ہے، کابینہ ارکان نے کہا ہے کہ ہم تنخواہ نہیں لیں گے۔
تمام چیزیں پرائیویٹ سیکٹر کو دے دینی چاہئیں
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو ہر کاروبار سے نکالنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ تمام چیزیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھ میں دے کر اسی سیکٹر کو آگے رکھا جائے، جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ وزیراعظم نے پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
غیر ضروری محکمے بند کرنے کی تجویز
انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ دے دیں، وزیراعظم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو بااختیار بھی ہوگی، کمیٹی غیر ضروری محکموں اور اداروں کو بند کرنے کی تجاویز دے گی، دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سے ادارے پرفارم کررہے ہیں اور کون سے نہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے صوبوں سے مشاورت شروع کردی ہے سب اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ایک ہی کشتی میں ہم سب سوار ہیں ایسا نہ ہو پوری کشتی ہی ڈوب جائے۔
ٹیکس روینیو مزید بڑھائیں گے
وزیر خزانہ کے مطابق فیصلہ ہوگیا ہے کہ ڈسکوز کے بورڈ ممبران پرائیویٹ سیکٹر سے ہوں گے، رواں سال30فیصد ریونیو بڑھادیا، آئندہ سال38فیصد تک بڑھائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبائی معاملات میں خود سے فیصلے نہیں لیے جا سکتے، ان مشاورت ضروری ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہوگا، صوبوں کیساتھ مشاورت شروع کی ہے اور اسی کو آگے لے کر چلیں گے۔
جاری منصوبوں کیلئے ترقیاتی بجٹ میں رقم رکھی گئی ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی سندھ کی پالیسی سے وفاق کو سیکھنا چاہیے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پرسندھ حکومت کی تعریف کرتا ہوں۔
سرکاری ملازمین کی پنشن
سرکاری ملازمین کی پنشن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پر کام کررہے ہیں، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی جاری ہے، پنشن کھربوں روپے میں ہے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے، کوشش کریں گے پنشن کو فنڈڈ کیا جائے۔
سعودی عرب کے وزیرِ خزانہ محمد عبداللہ الجدعان نے کہا ہے کہ عالمی معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق انڈونیشیا میں وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہوں کے اجلاس میں سعودی وزیرخزانہ محمد الجدعان نے کہا سعودی عرب ضرورت مند ممالک اور افراد کی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے یوکرین کے پڑوسی ممالک میں مقیم پناہ گزینوں کو حال ہی میں بھیجی گئی 10 لاکھ ڈالرز کی امداد ا بطور خاص حوالہ دیا۔
اس اجلاس میں فروری میں ہونے والی G20 میٹنگ کے بعد کے معاشی حالات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں روس اور یوکرین کے تنازعے کے بین الاقوامی معیشت پر اثرات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
سعودی عرب کے مرکزی بینک کے گورنر ڈاکٹر فہد المبارک نے ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے لچک دار پالیسیوں کی اہمیت پر زور دیا اور سرکلر کاربن اکنانومی کی اپروچ سے فائدہ اٹھانے کی جانب توجہ دلائی۔
اس دوران سعودی وزیر خزانہ کی دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ امریکی وزیرخزانہ جنت یلین سے بھی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے سعودی عرب اور امریکہ کے معاشی روابط پر بات چیت کی۔
اسلام آباد: وزیرخزانہ شوکت ترین نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جون تک ایف اےٹی ایف گرے لسٹ سےنکل جائیں گے، زیادہ تر شرائط پوری کر دی ہیں اور اب معاملہ زیادہ تر سیاسی رہ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آبا د میں صحافیوں کیساتھ آئن لائن میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت ملک کا گروتھ ریٹ پانچ فیصداور آئندہ سال چھ فیصد تک جاسکتا ہے، گروتھ ریٹ کو متنازع نہیں بناناچاہیے۔
شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر کے محصولات بڑھنے تک حکومت مقروض رہےگی، ترسیلات زربڑھنے کی ایک بڑی وجہ وزیراعظم عمران خان پراعتماد ہے،پورے ملک سے پیسےجمع ہوتے ہیں اور پچاسی فیصدنو شہروں پرخرچ ہوجاتےہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ورچوئل گفتگو میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ا ین ایف سی کے درمیان دواہم چیزیں تھیں، پہلی یہ کہ اس وقت8.8فیصدجی ڈی پی تھاہم نےکہاتھایہ20فیصد جاناچاہئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف نےاس بارپاکستان کےساتھ سخت رویہ اپنایا، تنخواہ داروں پرٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف کی تجویز قبول نہیں کی، آئی ایم ایف کےساتھ اس تجویزپربات چیت جاری ہے۔
شوکت ترین نے ورچوئل گفتگو میں کہا کہ امیدہےاس بارجون میں ہم فیٹف سےنکل آئیں گے، ہم نےفیٹف سےنکلنےکیلئےتمام کنڈیشن پوری کردی ہیں، سبسڈی کوکم کرناہےزیادہ نہیں، ہم خسارےکوبڑھنےنہیں دیں گے، یہ سب کچھ وقت کیساتھ ساتھ ہوگا۔
اپوزیشن کی جانب سے جاری اعداد وشمار پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی چیز کو چھپانےکی ضرورت ہی نہیں، کسی کو اگر شک ہے تو آکر نمبرزدیکھے، عمران خان وہ شخص ہیں جو نیوٹرل امپائرز لے کر آئےتھے۔
شوکت ترین نے کہا کہ ریونیو کو بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ جوٹیکس نہیں دے رہے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ غریبوں کوآٹےاوربجلی پرسبسڈی دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نےایکسپورٹ انڈسٹری، زراعت اور تعمیرات سیکٹر پر زیادہ توجہ دی، وزیراعظم کی بہترپالیسی کی وجہ سے کرونا کے باعث معیشت کو زیادہ نقصان نہیں ہوا، حکومت کی توجہ اب مہنگائی کم کرنے پر ہوگی۔
شوکت ترین کا ان کا کہنا تھا کہ 12سیکٹرز کی طویل اورقلیل مدتی منصوبوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ زراعت کے حوالے سے قلیل المدتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔
حکومت عام آدمی کیلئےمختلف اسکیمزلےکرآرہی ہے۔ ایکسپورٹ میں مزید اضافے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان میں ریکارڈ پیسے بھجوائے جس نے ملکی معیشت کو سہارا دیا۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ امیر اورغریب کیلئے ایک جیسی گروتھ ہونی چاہیے، ریونیو کو بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ جوٹیکس نہیں دے رہےان کےخلاف کارروائی کریں گے، غریبوں کو آٹے اور بجلی پرسبسڈی دیں گے
اسلام آباد : وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے انکشاف کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ آف شور اسکینڈل کا معاملہ ہے، آئی ایم ایف کی تکلیف دہ شرط نہیں مانیں گے۔
یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی، وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی خبر کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیئں۔
خبر میں آف شور اسکینڈل کا معاملہ ہے، نیب سب سے بڑا تحقیقاتی ادارہ ہے وہی تحقیقات کرے گا، نیب یا ایف آئی اے جس سے چاہیں تحقیقات کراسکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان چین کے دورے پر جا رہے ہیں، دورہ چین میں کے الیکٹرک کی فروخت کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا، کک بیکس پر ہونے والی ڈیل پی ٹی آئی کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یو اے ای میں ابراج گروپ کے خلاف تحقیقات کا علم ہے، ابراج گروپ کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کو دینا چاہتا ہے، شرائط دیکھیں گے پھر کےالیکٹرک کی فروخت کا فیصلہ ہوگا۔
اگر کک بیکس پر ڈیل ہورہی ہے تو یہ غلط ہوگا۔ کک بیکس پر ہونے والی ڈیل پی ٹی آئی کو قبول نہیں، نوید ملک کے بارے میں جانتا ہوں وہ نواز شریف کے بہت قریب ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اسدعمر نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے5سال گزر گئے اور پی آئی اے کی کارکردگی ٹھیک نہ ہوئی تو مجھ سے سوال ہوگا، ایس ای سی پی میں نواز حکومت کے تعینات چیئرمین کو ہٹا دیا گیا،200بلین ڈالرز کی خبر کے پیچھے اسحاق ڈار کا دعویٰ تھا۔
اسحاق ڈارکی 200ارب ڈٖالر کی بات درست نہیں تھی، میرے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے جواب دیا تھا،200ارب ڈالر کے معاملے پر بیرسٹر شہزاد اکبر بہترجواب دے سکتےہیں۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم7نومبر کو مذاکرات کیلئے پاکستان آرہی ہے، حکومت صرف آئی ایم ایف پر انحصارنہیں کررہی، اس کے علاوہ دوسرے آپشنز پربھی کام کررہے ہیں، ہم آئی ایم ایف کی تکلیف دہ شرط نہیں مانیں گے، آئی ایم ایف کی وہ شرط بھی نہیں مانیں گے جس کا معیشت سے تعلق نہ ہو۔
گیس کی قیمت میں اضافے پر اسدعمر نے کہا کہ کمپنیوں کو بند ہونے سے بچانے کیلئے گیس قیمتوں میں اضافہ کیا گیا،2017میں برینٹ آئل کی قیمت37ڈالر تھی اور ڈالر105روپے کا تھا،آج برینٹ آئل کی قیمت81ڈالر ہے، ڈالر اسٹیٹ بینک کے فیصلے کی وجہ سے بڑھا ہے، سینٹرل بینک کرنسی کے ریٹ کو کنٹرول کرتا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے مجھے ایک دن پہلے بتایا کہ ہم یہ کر رہے ہیں، میں اسی رات کو وزیراعظم کو گورنر اسٹیٹ بینک کاپیغام دیا،اچھے فیصلے کروں یابرے لیکن عوام سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔
ملکی فیصلے معیشت کی بنیاد پر کرنے چاہئیں ،سیاست پر نہیں، درآمدات میں اضافے کی وجہ زرمبادلہ کے ذخائرمیں کمی آتی رہی، زرمبادلہ کے ذخائرمیں کمی سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔