Tag: Ministry of Law

  • کلبھوشن کو ریلیف : عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں آرڈیننس نافذ کیا، وزارت قانون

    کلبھوشن کو ریلیف : عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں آرڈیننس نافذ کیا، وزارت قانون

    اسلام آباد : وزارت قانون کے ترجمان نے کہا ہے کہ کلبھوشن یادیو کو عارضی ریلیف کیلئے دیئے گئے آرڈیننس کا اجرا غیرقانونی نہیں، عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں آرڈیننس نافذ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان وزارت قانون و انصاف نے وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو عارضی ریلیف دینے کے لئے خفیہ آ رڈیننس کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

    ہفتہ کو اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ بھارتی حکومت نے بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کے ٹرائل اور قید کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس کو پاکستان کی فوجی عدالت نے اپریل 2017میں سزائے موت سنائی تھی۔

    وزارت قانون کے مطابق عالمی عدالت انصاف کی ہدایات کے تناظر میں کلبھوشن یادیو کے معاملے پر دوبارہ غور کیلئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ریکنسیڈریشن آ رڈیننس2020 کے تحت پاکستان کی مرضی کے مطابق نافذ کیا گیا۔

    آئین پاکستان کے آ رٹیکل 89کے تحت پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں آ رڈیننس کا اجراء صدر مملکت کا اختیار ہے، یہ آرڈیننس اس وقت جاری کیا گیا جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا۔

    حکومت کے آرڈیننس کے اجراء پر دشنام طرازی پاکستان کی سلامتی کی صورتحال اور عالمی معاہدوں کے بارے میں ناسمجھی کا اظہار ہے اور لوگوں کو الجھن میں ڈالنے کی کوشش ہے ۔

    ماضی میں ما ضی کی حکومتوں نے کئی آ رڈیننس جاری کئے ۔اس آ رڈیننس کے اجراء کا طریقہ ان سے مختلف نہیں ہے ۔آرڈیننس کے غیر قانونی ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    یاد رہے کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو را کا جاسوس تھا۔ جس نے پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ جس میں درجنوں بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے ۔عالمی عدالت انصاف نے 17 جولائی 2019میں اپنا فیصلہ سنا یا۔

    جس میں کہا گیا کہ پاکستان کلبھوشن یادیو کو فیصلہ اور سزا کے خلاف موئثر جائزہ اور دوبارہ غور کا حق دینے کا پابند ہے جو کہ ویانا کنونشن کی شق 36میں حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے اس کے حق کو یقینی بناتاہے جبکہ فیصلہ کا پیرانمبر 139، 145اور146 اسی تناظر میں ہے ۔

  • انسداد اسمگلنگ کا آرڈیننس تیار

    انسداد اسمگلنگ کا آرڈیننس تیار

    کراچی: وزارت قانون نےانسداداسمگلنگ کا آرڈیننس تیارکرلیا ، جس کے تحت اسمگلنگ کرنےوالےکو14سال قید، سامان ضبط اور50فیصد جرمانہ ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت قانون نےانسداد اسمگلنگ کیلئے آرڈیننس تیار کر لیا، جس میں ان ڈکلیئرڈروٹس سےڈالرز، گندم،چینی ،چاول کی ترسیل اسمگلنگ قرار دی گئی ہے

    وزارت قانون کا کہنا ہے کہ ہینڈ سینیٹائزرز،ماسک سمیت ضرورت کی اشیا کی ترسیل بھی اسمگلنگ ہوگی، کسٹمزایکٹ کے تحت ڈکلئیرڈ روٹس سے ہی اشیا کی ترسیل قانونی طور پرجائز ہو گی.

    وزارت قانون کے مطابق اسمگلنگ کرنےوالےکو14سال قید، سامان ضبط اور50فیصد جرمانہ ہو گا اور کسٹم حکام نےشکایت کے باوجود ایکشن نہ لیا تو سیکریٹری قانون کارروائی کریں۔

    یاد رہے گذشتہ روز وفاقی حکومت نے اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ ملکی معیشت کے لیے ناسور ہے، ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوری کے خلاف سخت ایکشن ہوگا،ایسی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے، قانون کے مطابق سخت ترین سزا ئیں دی جائیں گی۔

    وزیراعظم نے کہا  تھا کہ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کا بوجھ غریب عوام برداشت کرتے ہیں، اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا،  متعلقہ محکمے دیانت دار ،فرض شناس افسران کی خدمات لیں،افسران وہاں تعینات کریں جہاں اسمگلنگ،ذخیرہ اندوزی کاخدشہ ہو۔

    ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کے ساتھ کوآرڈینیشن کو مزید مؤثر بنایا جائے،صورتحال کی روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ کی جائے،کسی قسم کی انتظامی رکاوٹ نہ آنے دی جائے۔

  • وزارت قانون کی فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز

    وزارت قانون کی فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز

    اسلام آباد: وزارت قانون نے فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف واضح کی جائے تاکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کم ہو۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت قانون نے فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز ارسال کی ہیں۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اصلاحات اور ان کی عملدر آمد کے لیے 100 دن سے زائد کا وقت درکار ہے۔

    وزارت قانون کا کہنا ہے کہ فوجداری قوانین کے حوالے سے مشکلات زیادہ ہیں، بہتر تفتیش نہ ہونے سے ملزم ریلیف لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تھانہ محرر، ایس ایچ او کی ایف آئی آرز میں قانونی سقم عمومی ہوتا ہے، کیسز کی تفتیش میں بھی سقم پائے جاتے ہیں۔

    وزارت قانون کی جانب سے ارسال کی گئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ تفتیش جامع اور مؤثر نہ ہونے سے چالان پیش کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ پراسیکیوشن کی عدالتوں میں عدم حاضری بھی کیسز التوا کا باعث ہے۔ وفاقی سطح پر پولیس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے جبکہ پولیس کی بہتر تربیت، قوانین سے مکمل آگاہی بھی اصلاحات میں شامل ہیں۔

    وزارت قانون نے تجویز دی ہے کہ قانون سازی کی اجازت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ دفعہ 22 اے ایف آئی آر کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے سے متعلق ہے۔ دفعہ 22 اے کے باعث ریگولر کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ دفعہ کے خاتمے سے سیشن کورٹ کا 70 فیصد وقت بچ سکتا ہے۔

    دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وقت میں بچت کے باعث ریگولر کیسز پر پیش رفت تیز ہو سکے گی۔

    وزارت قانون نے دہشت گردی کی تعریف بھی واضح کرنے کی تجویز دے دی۔ دہشت گردی کی تعریف تبدیل ہونے سے عام عدالتیں روزمرہ کے کیس سنیں گی اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کم ہوگا۔