Tag: Mir Taqi Mir

  • میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے 209 برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہرطرح

    پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
    ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح

    ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی
    اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح

    یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ
    ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح

    جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے
    ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر طرح​

     چُھپ، لگ کے بام و دَر سے، گلی کوُچے میں سے، میرؔ
    مَیں دیکھ لوُں ہُوں یار کو ، اِک بار ہر طرح

    ********
  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
    ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
    بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

    کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
    کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

    شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مئے خانے میں
    جُبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا

    ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
    بُھولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا

    کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
    استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا

    ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
    سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

    *********

  • دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا

    دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
    مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا

    دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی
    آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا

    کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں
    وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا

    پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر اپنی ہم نے رکھے
    یہ دیکھا نہ رنگِ کفک پر ہنگامہ کیا برپا ہو گا

    جاگہ سے بے تہ جاتے ہیں دعوے وے ہی کرتے ہیں
    ان کو غرور و ناز نہ ہو گا جن کو کچھ آتا ہو گا

    روبہ بہی اب لاہی چکے ہیں ہم سے قطعِ امید کرو
    روگ لگا ہے عشق کا جس کو وہ اب کیا اچھا ہو گا

    دل کی لاگ کہیں جو ہو تو میرؔ چھپائے اس کو رکھ
    یعنی عشق ہوا ظاہر تو لوگوں میں رسوا ہو گا

    *********

  • عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا

    عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
    تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا

    میں جو گدایانہ چلّایا در پر اس کے نصفِ شب
    گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا

    آگے عالم عین تھا اس کا اب عینِ عالم ہے وہ
    اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا

    مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں
    جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا

    خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
    اب سر خاک بھی ہوجاوے تو سر سے کیا احسان گیا

    ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
    رفتہ رفتہ ہندوستاں سے شعر مرا ایران گیا

    کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقامِ حیرت ہے
    چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا

    **********

  • عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا​

    عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا​
    جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا​

    عشق کا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا​
    دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا​

    کس کس اپنی کل کو رو دے ہجراں میں بیکل اسکا​
    خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا​

    آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل​
    آج گیا یا کل جاؤے گا صبح گیا شام گیا​

    ہائے جوانی کیا کیا کہئےشور سروں میں رکھتے تھے​
    اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا​

    گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں​
    لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا​

    لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں مُدت سے​
    اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا​

    نالہِ میر سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا​
    شاید شہر سے ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا​

    **********

  • تھا شوق مجھے طالبِ دیدارہوا میں

    تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
    سو آئینہ سا صورت ِدیوار ہوا میں

    جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
    کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں

    اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
    پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں

    کب ناز سے شمشیر ستم ان نے نہ کھینچی
    کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں

    بازار وفا میں سرسودا تھا سبھوں کو
    پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں

    ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
    تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں

    کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
    سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں

    تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
    عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں

    اس نرگس مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
    افراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں

    رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میرؔ
    اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں

    ********