Tag: Mirza Ghalib

  • مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی 150ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی علم نہ تھا کہ ان کی شاعری اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتی رہے گی۔

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

    آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

    نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورقرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے شاہی قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔

    شاعری میں روز مرہ محاوروں سے دل میں اتر جانے والی سادگی کے کمال نے غالب کو زمانے میں یکتا کر دیا، وہ بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

    غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

    کثرت شراب نوشی کے باعث ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی انتقال سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔

  • مرزاغالب کی 220ویں سالگرہ پرگوگل کا خراجِ تحسین

    مرزاغالب کی 220ویں سالگرہ پرگوگل کا خراجِ تحسین

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220ویں سالگرہ پر پرانہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے گوگل نے اپنا ڈوڈل تبدیل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ہر اہم دن کے موقع پراپنا ڈوڈل تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل نے اردو کے عطیم شاعرمرزا غالب کی 220ویں سالگرہ پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیےڈوڈل بنادیا۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔


    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے


    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔


    اردو کے 100 مشہور اشعار


    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا

    دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
    ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

    سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
    یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

    میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
    وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

    دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
    گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا

    ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
    گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

    کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجیے
    ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

    وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے
    مجھ سا کافرکہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

    مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
    ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا

    ***********

  • جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

    جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
    کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
    جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

    ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
    یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

    موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
    آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

    عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
    مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
    کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

    *********

  • میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

    میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
    تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

    غیر کی مرگ کا غم کس لئے، اے غیرتِ ماہ!
    ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی

    تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
    تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی

    حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی
    آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی

    تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا
    کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی

    کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!
    خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب
    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    مجھ کو وہ دو، کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
    زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی

    مجھ سے غالبؔ یہ علائی نے غزل لکھوائی
    ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی

    **********

  • درد منت ِکش دوا نہ ہوا

    درد منت ِکش دوا نہ ہوا
    میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

    جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
    اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

    ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
    تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

    کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
    گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

    ہے خبر گرم ان کے آنے کی
    آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

    کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
    بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

    جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
    حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

    زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
    کام گر رک گیا روا نہ ہوا

    رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
    لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا

    کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
    آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

    *********

  • نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریرکا

    نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا

    آتشیں پا ہوں، گداز ِوحشتِ زنداں نہ پوچھ
    موے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یہاں زنجیر کا

    شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے
    دام، سبزے میں ہے، پروازِ چمن تسخیر کا

    لذّتِ ایجاد، ناز، افسونِ عرض۔، ذوق ِ قتل
    نعل، درآتش ہے تیغِ یار سے نخچیر کا

    کاو کا وِ سخت جانیہاے تنہائی نہ پوچھ
    صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

    خشت پشتِ دستِ عجزو قالب آغوشِ وداع
    پُر ہوا ہے سیل سے، پیمانہ کس تعمیر کا؟

    وحشتِ خوابِ عدم، شورِ تماشا ہے اسد
    جز مژہ، جوہر نہیں آئینہ تعبیر کا

    **********

  • یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​


    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​
    اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​

    تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​
    کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​

    تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا​
    کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا​

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیم کش کو​
    یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​

    یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح​
    کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا​

    رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا​
    جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​

    غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے​
    غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا​

    **********