Tag: mistakes

  • اس تصویر میں کیا غلطیاں چھپی ہیں؟

    اس تصویر میں کیا غلطیاں چھپی ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو جتنا زیادہ کام پر مجبور کریں گے اتنا ہی وہ فعال ہوتا جائے گا۔ کم کام کرنے والا دماغ آہستہ آہستہ سست اور غیر فعال ہوتا جاتا ہے جس کا نتیجہ غیر دماغی کی صورت میں نکلتا ہے۔

    دماغ کو فعال کرنے کے لیے ماہرین چھوٹی چھوٹی مشقیں بتاتے ہیں جن میں سب سے آسان مشق حساب کے سوالات حل کرنا یا کوئی پہیلی بوجھنا ہے۔

    اسی لیے آج ہم آپ کو ایک آسان سی پہیلی بتانے جارہے ہیں جس کا جواب تو نہایت آسان ہے تاہم اسے بوجھنے میں آپ کے دماغ کو محنت کرنی پڑے گی۔

    ویڈیو گیم کھیلتی اس بچی کی تصویر میں 3 غلطیاں ہیں اور وہ غلطیاں آپ کو ڈھونڈنی ہوں گی۔

    کیا آپ کو جواب مل گیا؟ ایک بار پھر غور سے دیکھ لیں۔

    صحیح جواب یہ ہے۔

  • وہ غلطیاں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کرتے ہیں

    وہ غلطیاں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کرتے ہیں

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے، ان پر اپنے بچے کی تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی معاشرے میں ایک اچھے یا برے شخص کا اضافہ کرے گی۔

    تاہم بعض والدین انجانے میں اپنے بچوں کی تربیت میں ایسی غلطیاں کردیتے ہیں جو بچوں کے لیے اور مستقبل میں خود والدین کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین نے ان سات غلطیوں کی نشاندہی کی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔

    دوسروں کے ساتھ مسلسل موازنہ

    جب آپ بچے کو ہر وقت کہتے رہیں گے کہ فلاں کو دیکھو، وہ بھی آپ کی عمر کا ہے، اس کے نمبر آپ سے اچھے آتے ہیں، وہ زیادہ ذہین ہے وغیرہ، تو دراصل آپ بچے کا وہ اعتماد چھین رہے ہوتے ہیں جو اس کے پاس ویسے ہی کم ہوتا ہے۔ اس سے بچہ خود کو کمتر اور ناقابل قبول سمجھتا ہے۔

    بچے کو اس کی کمزوریاں گنوانے سے بہتر ہے کہ اس کے پاس بیٹھیں، اس کی مدد کریں، پڑھائی کو اس کے لیے دلچسپ بنائیں، اسے اعتماد دیں اور بتائیں کہ وہ بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ موازنے سے گریز کریں۔

    ذمہ داری نہ اٹھانے دینا

    اکثر لوگ اپنے بچے کو بہت چھوٹا اور معصوم سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان پر ہلکی سی بھی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے اسی لیے اس کو پڑھائی کے علاوہ کچھ نہیں کرنے دیا جاتا۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو چھوٹے موٹے کام کرنے دینا چاہیئے جیسے والدین کا ہاتھ بٹانا وغیرہ، اس سے بچے میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتا جاتا ہے اور آگے چل کر زندگی میں کام آتا ہے۔

    بچے کو نئی چیزیں دریافت کرنے کی اجازت نہ دینا

    کھیل بچے کی زندگی کا دلچسپ اور پسندیدہ ترین حصہ ہوتے ہیں، ان کو کھیلنے کودنے، نئی چیزیں آزمانے، غلطیاں کرنے سے مت روکیں بلکہ غلطی کے بعد اس سے سیکھنے کا طریقہ سکھائیں۔

    اہم ترین بات یہ ہے کہ بچے کو کبھی سوال کرنے سے نہ روکیں، بلکہ حوصلہ افزائی کریں۔ جس بچے میں تجسس زیادہ ہو وہی سوال پوچھتا ہے، جس سے اس کی ذہانت بڑھتی ہے، اسی طرح دیگر چھوٹے موٹے مسائل کا بھی سامنے کرنے دیں۔

    چیخنا چلانا اور دھمکانا

    بچوں پر چیخنا چلانا اور بات بات پر دھمکانا ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، اگرچہ والدین ایسا اچھی نیت کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے مضر اثرات بہرحال بچے پر پڑتے ہیں۔

    اگر بچہ کوئی غلطی کرے یا آپ اس کو قواعد پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو یہ کام پیار سے یا جسمانی اور زبانی نقصان پہنچائے بغیر بھی ہو سکتا ہے، بچے کو یہ سمجھانا کہ کچھ باتیں خوفناک نتائج کا باعث بن سکتی ہیں اچھی بات ہے لیکن نظم و ضبط سکھانے اور سزا میں بہت فرق ہے۔

    نظم و ضبط بچے کو اعتماد دیتا ہے اور وہ مستقبل کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرتا ہے سزا اسے خود سے بددل کرتی ہے اور اس کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔

    زیادہ لاڈ کرنا

    جس طرح کچھ لوگ بچے پر چیخ چلا کر اور دھمکا کر غلطی کرتے ہیں اسی طرح ایسے والدین بھی ہیں جو بچے کو کچھ زیادہ ہی لاڈ پیار کرتے ہیں اور ایسی غلطیاں بھی نظر انداز کر جاتے ہیں جو دیگر لوگوں کو بھی متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خود ان کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کی غلطیوں کو چھپانا انہیں مستقبل میں بڑی غلطیاں کرنے کی ترغیب دینا ہے، بچے کو غلط کام پر ٹوکنا اور اچھے انداز میں سمجھانا چاہیئے تاکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اسے غلطی کے نتائج برداشت کرنا پڑیں گے۔

    اسکول لائف کو نظر انداز نہ کریں

    بچہ اپنے دن کا بیش تر وقت اسکول میں گزارتا ہے جہاں اس کو تجربات حاصل ہوتے ہیں جو اچھے بھی ہو سکتے اور برے بھی، اس لیے والدین کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے ان کے بچے سکول میں کیا کر رہے ہیں۔

    بچے کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیئے کہ والدین اس کی اسکول کی زندگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ کو اسے یہ بات سمجھانی چاہیئے کہ وہ کوئی بھی ایسی بات چھپانے کی کوشش نہ کرے جو اسکول میں یا کہیں اور اسے پریشان کرتی ہے۔

    بچوں کے سامنے لڑائی نہ کریں

    میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جایا کرتا ہے تاہم کوشش کی جانی چاہیئے کہ اس پر بچوں کی موجودگی میں بات نہ ہو، خصوصاً جارحانہ انداز تو قطعی نہیں اپنانا چاہیئے، اس سے بچے کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے اور یہ رویہ انہیں دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی طرف لے جا سکتا ہے۔

  • چہل قدمی کے دوران کی جانے والی غلطیاں

    چہل قدمی کے دوران کی جانے والی غلطیاں

    چہل قدمی اچھی صحت او رموٹاپے سے نجات کے لیے بے حد ضروری ہے مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ واک کرتے ہوئے معمولی چیزوں کا اکثر خیال نہیں رکھتے جس کے باعث اُن کی یہ کاوش سود مند ثابت نہیں ہوتی۔

    تفصیلات کے مطابق طبی ماہرین اچھی صحت کے لیے روزانہ چہل قدمی کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کسی بھی شخص کی فٹنس بہتر رہے اور  انسان چاک و چوبند رہے، بالخصوص موٹاپے سے عاجز افراد کو بھی ڈاکٹرز روزانہ واک کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔

    چہل قدمی کے دوران ہم کچھ ایسی معمولی غلطیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے واک کے اثرات ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتے نظر نہیں آتے اور موٹاپہ جیسا کا تیسا ہی رہتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق چہل قدمی کے دوران عام طور پر چار چیزوں کا خیال رکھے جانا بے حد ضروری ہے۔

    پہلی غلطی: ہاتھوں کا حرکت نہ کرنا

    اکثر لوگ چہل قدمی کرنے کے دوران اپنے ہاتھوں کو مصروف رکھتے ہیں، جب تک واک کرنے کے دوران  دونوں ہاتھ اور پیر حرکت نہ کرے تو اس کا اثر صحت پر بالکل نہیں پڑتا۔ ڈاکٹرز کا کہنا  ہے کہ چہل قدمی کے دوران ہاتھوں کی کوہنیوں  کا 90 ڈگری زاویے تک حرکت کرنا ضروری ہے۔

    دوسری غلطی: چھوٹے قدموں سے چہل قدمی

    چہل قدمی کے دوران بہت زیادہ رفتار  اچھی نہیں کیونکہ ماہرین کے مطابق ایسا کرنے سے قدم چھوٹے اٹھتے ہیں، اگر آپ تیز واک کرنے کے عادی ہے تو قدموں کے درمیان فاصلے کا خیال ضرور رکھیں۔

    تیسری غلطی: قدم جما کر نہ چلنا

    بعض اوقات چہل قدمی کے دوران کچھ لوگ قدم رگڑھ رگڑھ کر چلتے دکھائے دیتے ہیں جو اچھی عادت نہیں، عام طور پر اس کی وجہ بڑے جوتے، سستی ہوتی ہے، اسی طرح اگر قدم جما کر زمین پر نہ رکھے جائیں تو چہل قدمی بے اثر ہی رہتی ہے۔

    چوتھی غلطی: کپڑوں اور جوتے کا خیال نہ رکھنا

    چہل قدمی کے دوران ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کے ساتھ آرام دہ جوتوں کا پہننا بھی بہت ضروری ہے، اگر آپ چست کپڑوں میں واک کریں گے تو خون کی تیز روانی متاثر ہوگی جس کے باعث پٹھوں اور اعصاب پر اس کے مضر اثرات پڑتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • صارفین کے ڈیٹا کاغلط استعمال، فیس بک کے بانی نے غلطی تسلیم کرلی

    صارفین کے ڈیٹا کاغلط استعمال، فیس بک کے بانی نے غلطی تسلیم کرلی

    مینلوپارک : صارفین کے ڈیٹا کے غلط استعمال پرفیس بک نے غلطی تسلیم کرلی، بانی فیس بک مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے صارفین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی،  اگر ہم عوام کے ڈیٹا کی حفاظت نہیں کر سکتے تو کام چھوڑ  دینا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق صارفین کے ڈیٹا کے غلط استعمال کے بعد فیس بک کو تنقید اور تحقیقات کا سامنا ہے، فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں، جس سے صارفین کے اعتماد کوٹھیس پہنچی، اگر ہم عوام کے ڈیٹا کی حفاظت نہیں کر سکتے تو کام چھوڑ دینا چاہیے۔

    مارک زکربرگ نے فیس بک کے حوالے سے متعدد تبدیلیوں کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ جو کچھ ہوا بچنے کیلئے کئی سال پہلے اقدامات کئے تھے، کیمبرج انالیٹیکا کے سلسلے میں بھی ہم نے ٹھوکر کھائی۔ فیس بک کو ایک قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

    اپنے فیس بک صفحے پر مارک زکربرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فیس بک میں نے شروع کی تھی اور اس پلیٹ فارم پر جو کچھ ہوتا ہے اس کا ذمہ دار میں ہی ہوں۔

    یاد رہے کہ فیس بک کے پانچ کروڑ صارفین کے ڈیٹا کا سیاسی مشاورتی ادارے کی جانب سے غلط استعمال سامنے آنے پر تحقیقات جاری ہیں، صارفین کے ڈیٹا کا مبینہ طور پر امریکی صدارتی انتخاب میں استعمال کیا گیا تھا۔

    برطانیہ میں بھی ڈیٹا حاصل کرنے والے سیاسی مشاورتی ادارے کیخلاف تحقیقات جاری ہیں جبکہ فیس بک بانی مارک زکربرگ کو برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے وضاحت کے لئے طلب کرلیا ہے۔

    برطانوی اور امریکی میڈیا کے مطابق سال 2014 میں کیمبرج اینالیٹیکا نے مبینہ طور پر ایک سافٹ ویئر کے ذریعے فیس بک استعمال کرنے والے 5 کروڑ صارفین کا ڈیٹا چوری کیا۔

    دوسری جانب واٹس ایپ کے شریک بانی نے ڈیلیٹ فیس بک کا پیغام دے دیا جبکہ ٹوئٹرپربھی ڈیلیٹ فیس بک کی مہم چلائی جارہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔