Tag: model town incident

  • سانحہ ماڈل ٹاون کے مرکزی کردار گلوبٹ پر فرد جرم عائد

    سانحہ ماڈل ٹاون کے مرکزی کردار گلوبٹ پر فرد جرم عائد

    لاہور:  انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاون کے مرکزی کردار گلوبٹ پر فرد جرم عائد کردی ہے۔

    عدالت کی جانب سے گلوبٹ پر عائد کی گئی فرد جرم میں دہشت پھلانے ، توڑ پھوڑ اور اقدام قتل کا ملزم ٹھرایا گیا ہے، گلوبٹ کی جانب سے صحت جرم سے انکار کیا گیا، جس کے بعد عدالت نے استغاثہ کے گواہان کو شہاداتوں کے لیے طلب کرلیا ہے۔

    گلوبٹ کے خلاف پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں بھی اسے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

    پولیس کے مطابق گلوبٹ کی توڑ پھوڑ سے پورے ملک میں دہشت کی لہر پھیلی، لہذا اس کے خلاف دہشت گردی کی دفعات عائد کی گئی جو قانون کے مطابق ہیں۔

    گلوبٹ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس کے خلاف مقدمے میں عائد تمام دفعات معمولی نوعیت کی تھیں مگر پولیس نے بعد میں بدنیتی سے اس میں دہشت گردی اور اقدام قتل کی دفعات شامل کیں ، جس کا پولیس کے پاس نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی گواہ ، گلوبٹ کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاون کے دوران گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور دہشت پھلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کا اندراج، باقاعدہ تحقیقات کا آغاز

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کا اندراج، باقاعدہ تحقیقات کا آغاز

    لاہور: سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم اوروزیراعلٰی سمیت 21 افراد کے خلاف درج مقدمے کی تفتیش کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے ، سی آئی اے پولیس انوسٹی گیشن پولیس کے ساتھ مقدمے کی تفتیش کررہی ہے۔

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ انوسٹی گیشن پولیس کے ساتھ ساتھ سی آئی اے پولیس اس کیس کی تفتیش میں کررہی ہے، سی آئی اے پولیس کے ڈی ایس پی خالد ابوبکر نے انچارج انوسٹی گیشن فیصل ٹاؤن انسپکٹر اعجاز کے ساتھ منہاج القرآن سیکرٹریٹ جا کر حکم نامہ طلبی وصول کرایا۔

    انچارج سیکورٹی منہاج القرآن سیکرٹریٹ امتیاز اعوان نے بتایا کہ اس کیس کے مدعی ڈاکٹر جواد حامد اسلام آباد میں ہیں، حکم نامہ طلبی وہ ہی وصول کرینگے ، جب جواد حامد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے وکیل سے رابطہ کرنے کا کہا، دونوں پولیس افسران نے مقامی ہوٹل میں بیٹھ کر اس کیس کی دو ضمنیاں لکھ ڈالیں۔

    ایک ضمنی میں یہ لکھا گیا ہے کہ مدعی کیس میں پیش نہیں ہورہا، دوسری جانب منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے وکیل منصور الرحمن آفریدی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کورٹ میں دفعات 7 کے اندراج کی درخواست دے رکھی ہے۔ اس کے بعد ہی بیانات قلم بند کروائے جائیں گے۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن: گلوبٹ کیخلاف مقدمے کی سماعت5ستمبر تک ملتوی

    سانحہ ماڈل ٹاؤن: گلوبٹ کیخلاف مقدمے کی سماعت5ستمبر تک ملتوی

    لاہور : سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار گلو بٹ کیخلاف مقدمے کی سماعت پانچ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار گلو بٹ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کرکے پولیس نے گلو بٹ کیخلاف چالان پیش کیا گیا ، پولیس کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ امن و امان کے خدشے اور گلو بٹ کی جان کو خطرے کے باعث اسے نظر بند کر رکھا ہے، پولیس نے عبوری چالان میں گلو بٹ کو دہشت پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

    پولیس نے عدالت کو بتایا کہ گلو بٹ نے منہاج القرآن کے باہر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کر کے دہشت پھیلائی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دے دیا، آئندہ سماعت پر استغاثہ کے گواہوں کی شہادتیں قلمبند کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

    اس سے قبل انسداد دہشتگردی کی عدالت نے گلو بٹ کی جانب سے چار لاکھ کے مچلکے اور دو شخصی ضمانتیں جمع کرنے پر رہائی کے احکامات جاری کیے تھے، ملزم گلو بٹ پرعوامی ملکیتوں کو توڑ پھوڑ کے ذریعے نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔

    سترہ جون کو ماڈل ٹاؤن لاہورمیں عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے دوران ٹی وی چینلز پر گلو بٹ کو گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ بائیس جولائی کو لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے گلو بٹ کی ضمانت کی درخوست مسترد کردی تھی۔

  • تحریک انصاف کی انقلاب مارچ کے شرکاء سے ڈیڈلائن میں توسیع کی اپیل

    تحریک انصاف کی انقلاب مارچ کے شرکاء سے ڈیڈلائن میں توسیع کی اپیل

    اسلام آباد : پاکستان تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری سے ملاقات کے بعد انقلاب مارچ کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں اتناصبرکیا ہےوہاں تھوڑا صبر اورکرلیں، ہم عمران خان کی ایماء پرڈاکٹرطاہرالقادری سے اپیل کرنے آئیں ہیں کہ ڈیڈلائن میں توسیع کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری اور آپ کی منزل ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ نواز شریف کو جانا ہوگا، قومی اسمبلی میں ان کی غلط بیانی کے بعد ان کے وزیر اعظم بنے رہنے کا اخلاقی جوازختم ہوگیا ہے۔

    انہوں نے حکومت کا ساتھ دینے والی جماعتوں کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ پارلیمنٹ میں ڈھٹائی سے جھوٹ بولا گیا لہذا اب نواز شریف کی حمایت کا اخلاقی جواز بھی ختم ہوگیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عوام کی ان تکالیف کا بخوبی احساس ہے جو کہ آپ 17 جون سے برداشت کرہے ہیں اور آپ سب کی امن پسندی بھی قابل ِ داد ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کی سوچ بھی مثبت ہےاورہماری بھی سوچ مثبت ہے اور ہم جمہوری قافلے کو رواں دواں رکھنا چاہتے ہیں اور اخلاقی فتح چاہتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ سیشن کورٹ نے جس طرح عوام کے حق میں فیصلہ دیا اور پھر جس طرح ہائی کورٹ نے حکومتی اپیل کو رد کیا یہ آپ کی اور ہم سب کی بہت بڑی فتح ہے۔

    انہوں اس امر پرافسوس کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہے اور آج جو انہوں نے یو ٹرن لیا ہے وہ ان کی اخلاقی شکست کی نشاندہی کررہا ہے۔

    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمیں آئینی مسائل کا بھی احساس ہے، حکومت کے ساتھ ہر نشست میں مسئلے کو سلجھانےکی کوشش کی لیکن حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہیں آیا لیکن ہم نے صبرکادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

    انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے سانحہ ِ ماڈل ٹاؤن کی درست ایف آئی آر درج کرنے کے مطالبے کی انتہائی شدو مد سے حمایت کی۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن:انکوائری سپریم کورٹ سےکرانے کی درخواست

    سانحہ ماڈل ٹاؤن:انکوائری سپریم کورٹ سےکرانے کی درخواست

    لاہور: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری سپریم کورٹ سےکروانے کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نےسماعت لارجر بینچ میں کرنے کی سفارش کردی۔

    درخواست گزار نےموقف اپنایا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے تحقیقات بھی کرائی جاتی ہیں اور تفتیشی افسر تفتیش بھی کرتے ہیں، تحقیقاتی ٹربیونل کسی پر ذمہ داری عائد نہیں کرسکتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون میں سقم ہے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹربیونل کی رپورٹ نامکمل ہے،سپریم کورٹ سے انکوائری کاحکم دیا جائے۔

    دوسری جانب پنجاب حکومت نے سانحے سے متعلق کمیشن کی رپورٹ میں موجود قانونی سقم دور کرنے کے لئے کمیٹی قائم کردی ہے۔

    جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمان کی زیر صدارت چار رکنی کمیٹی نےکمیشن رپورٹ کا از سرنو جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ صوبائی سیکرٹری داخلہ، محکمہ قانون کے اعلیٰ افسران بھی کمیٹی میں شامل ہیں، یہ کمیٹی قانونی سقم سے متعلق حکومت کوآگاہ کرے گی۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج نہ ہوسکی

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج نہ ہوسکی

    لاھور: عدالتی حکم کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر درج نہ ہوسکی ، ادارہ منہاج القران کے وکلا فیصل ٹاؤن تھانے میں گھنٹوں بیٹھ کر مایوس لوٹ گئے۔

     ڈکٹرعلامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب مارچ اور وہاں بیٹھے لاکھوں افراد کا احتجاج اور مطالبہ بھی ایف آئی آر درج نہ کرواسکا، ادارہ منہاج القرآن کے وکیل منصور الرحمان آفریدی کی قیادت میں وکلاء بدھ کی شام چھ بجے لاہور ہائیکورٹ کےا حکامات لیکر مقدمے کے اندراج کے لیے پہنچے مگر تھانہ فیصل ٹاؤن کے ایس ایچ او شریف سندھو اور دیگر پہلے ہی غائب ہوگیا۔

    ایس ایچ او شریف سندھو نے وکیل منہاج القرآن کو ایک گھنٹہ انتظارکرنے کے لئے کہا تاہم رات گئے تک ایس ایچ اوپولیس اسٹیشن نہیں پہنچے اور مقدمے کا اندراج نہ کیا گیا۔

      اس دوران کچھ ن لیگی کارکن تھانہ پہنچے اور حکومت کے حق میں نعرہ بازی شروع کردی، منہاج القرآن کے وکلاء اور کارکنوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی، جس پر پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور کارکنوں کو تھانے سے بھیج دیا گیا۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن: ٹھوس ثبوت نہ دینے پر وزرا کی درخواست خارج

    سانحہ ماڈل ٹاؤن: ٹھوس ثبوت نہ دینے پر وزرا کی درخواست خارج

    لاہور: وزیراعظم، وزیراعلی پنجاب سمیت اکیس افراد پر مقدمہ درج کیا جائے، لاہور ہائیکورت نے سیشن عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی۔

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس محمود مقبول باجوہ نے چار وفاقی وزراء کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمے کا حکم برقرار رکھا، عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جس میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اکیس افراد کیخلاف مقدمے کے سیشن کورٹ کے حکم کی توثیق کی گئی۔

    لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے ایف آئی آر درج ہونے پر کوئی ملزم مجرم نہیں بن جاتا۔ یہ تاثر غلط فہمی پر مبنی ہے کہ ایف آئی آردرج ہونے کے ساتھ ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جائے اگر تفتیشی افسر کسی کو گناہ گار قرار دے تو ہی اسے گرفتار کیا جائے۔ اور جب تک کسی ملزم کے خلاف ٹھوس شہادت موجود نہ ہواسے گرفتار نہ کیا جائے۔

    چار وفاقی وزراء کے وکلاٗ کا موقف تھا منہاج القرآن انتظامیہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تفتیش کا حصہ بننے اور عدالتی ٹربیونل کے سامنےبیان قلمبند کرانے کےبجائے اکیس افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست لے کربراہ راست تھانے سے رجوع کر کیا۔

    منہاج القرآن کےوکیل منصور آفریدی نے کہا ٹھوس ثبوت ، گواہوں اورجاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی موجودگی کے باوجود پولیس مدعیت میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ساٹ عدالت نے آبزرویشن دی کہ سیشن کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست میں چار وفاقی وزراء ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکے۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن:ایف آئی آرکاٹنے کےحکم کیخلاف درخواست کی سماعت پرفیصلہ محفوظ

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کاٹنے کے حکم کے خلاف وفاقی وزراء کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

    سماعت شروع ہوئی تو فاضل جج کے طلب کرنے پر جے آئی ٹی کے سربراہ عارف مشتاق عدالت میں پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل نے بیان میں کہا کہ سیشن عدالت نے جےآئی ٹی اور پولیس رپورٹ کی جانچ پڑتال کے بغیر فیصلہ دیا۔

    وفاقی وزراء کے وکیل نے معاملےکی سماعت کے لئے لارجر بینچ تشکیل دینےکی استدعا کی جبکہ منہاج القرآن کے وکیل نے کہا کہ مقتولین کے ورثاء کی درخواست پر مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا، سیشن جج کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے، وفاقی وزراء کی درخواستیں مسترد کی جائیں۔

    عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، آج وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی سیشن کورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ مقدمے کے لئے درخواست میں اُن کا نام بھی شامل کیا گیا لیکن سانحے سے نہ انکا کوئی تعلق ہے نہ ہی اس متعلق کوئی علم ہے، سیشن کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔

  • شریف برادران سمیت اہم شخصیات کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست دائر

    شریف برادران سمیت اہم شخصیات کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست دائر

    لاہور: منہاج القرآن کے وکلاء  نےعدالتی حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے کے لئے تھانے میں درخواست جمع کرادی جبکہ شریف برادران سمیت اہم شخصیات کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔

    لاہورکی سیشن عدالت نے ہفتے کے روز منہاج القرآن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے شریف برادران سمیت اکیس شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا، منہاج القرآن کے وکلا مقدمہ درج کرانے لاہور کے فیصل ٹاؤن تھانے پہنچے تو ایس ایچ او شریف سندھو موقع سے غائب تھے، جس پر وکلا نے سیشن جج کے آرڈر کی کاپی محرر کے حوالے کردی۔

    لاہورکی سیشن عدالت میں شریف برادران، چوہدری نثار، مریم نواز سمیت اہم شخصیات کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھی دائر کردی گئی ہے۔

    جس میں کہا گیا ہے عدالت نے وزیراعظم سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے، یہ تمام اہم حکومتی شخصیات ہیں، جو ملکی دستاویزات لے کر بیرون ملک فرار ہو سکتے ہیں، لہذا اِن کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔

  • میری آخری تحریر۔ میں انقلاب کے لئے نکلا ہوں

    موت سے اسکو ڈرایا جاسکتا ہے جس کے دل میں موت کا خوف ہو۔ جس کے دل میں جذبہ شہادت ہو اسے نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ دھمکایا جاسکتا ہے اور نہ ہی  مذموم حرکات سے مشن سے پیچھے ہٹایا جاسکتا ہے۔
    میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کارکن ہوں اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں جناح کا پاکستان بنانے کیلئے ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں۔

    جناح! اتحاداور تنظیم کا درس دیتے رہے اور ہمارے نظام نے قوم کو منتشر اور پارہ پارہ کردیا ، ہم ایک قوم نہیرہے بلکہ18کروڑ سروں کا ہجوم بن کر رہ گئے۔

    جناح! پارلیمنٹ کے اجلاس میں چائے پینے کے بھی مخالف تھے جبکہ یہاں پارلیمنٹ لارجز میں شراب کھلے عام چلتی ہے۔ بیرون ملک سے لائی گئی لڑکیاں کرپٹ نظام کی پیداوار حرام اشرافیہ کی راتوں کو رنگین بناتی ہیں۔

    جناح! ایک کرسی سرکاری خرچے میں اپنے گھر کیلئے خریدنے سے منع فرمادیتے مگر آج سرکاری خرچ پر پورے کے پورے خاندان عیاشیاں کررہے ہیں۔ شہنشاہ کا بیٹا ہیلی کاپٹر سے نیچے پاﺅں نہیں رکھتا۔ بیٹی سرکاری خرچ کو اپنا بینک بیلنس سمجھتی ہے اور رشتہ دار اپنا حق۔ بیرون ملک دوروں میں پٹواریوں کی پوری ٹیم کے ہمراہ اربوں ڈالر اڑا دئیے جاتے ہیں۔

    جناح! انتہاپسندی کو مہلک مرض سمجھتے تھے مگرآج مساجد، امام بارگاہیں، تبلیغی مراکز، بازار، گلی کوچے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔اس آگ میں نہ جانے کتنے بچے اپنے باپ کی شفقت ، ماں کی محبت سے محروم ہوئے۔ نہ جانے کتنی بہنیں بھائیوں کے سائے سے محروم ہوئیں اور نہ جانے کتنی مائیں ہیں جن کا کلیجہ اپنے بچے کے بچھڑ جانے کے غم میں چھلنی چھلنی ہے۔

    جناح کے پاکستان میں کرپشن، طبقاتیت، رشوت، سفارش ، اقرباءپروری اور خاندانی بادشاہت کی گنجائش نہیں
    سماج دشمنوں ،بھتہ خوروں، لٹیروں، دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ جناح کا پاکستان بکے ہوئے صحافیوں، بے ضمیر سیاستدانوں، کرپٹ اشرافیہ، دین فروش ملاﺅں اور جعلی پیروں کیلئے بھی تنگ ہے۔

    میں جناح کے پاکستان کا حامی ہوں لیکن نظام کا دشمن ہوں۔ اس فرسودہ نظام نے ان تمام برائیوں کو تحفظ فراہم کیا، چونکہ یہ نظام جناح کے پاکستان کی موجودہ مسخ شدہ تصویر کا ذمہ دار ہے اسلئے میں یقینا طاہرالقادری کے ساتھ فرسودہ نظام کی تعفن زدہ عمارت کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کررہا ہوں۔ میں جناح کے پاکستان کوان کی عظیم فکر کے تابع دیکھنا چاہتا ہوں۔

    میں وقت کے فرعون صفت حکمرانوں، بے ضمیرمقتدر طبقے اور یزیدوں سے مخاطب ہوں۔

    میری شناخت کرلو !! مجھے جی بھر کے دیکھ لو۔

    میں طاہرالقادری کا کارکن ہوں۔

    میں سینہ تانے کھڑا ہوں۔ تم ڈرا نہیں پائے ہو نہ ڈرا پاﺅ گے۔

    تم ہمیں مشن سے ہٹا نہیں سکے ہو نہ ہٹا سکو گے۔

    یہ وہ کارکن ہیں کہ جہاں طاہرالقادری کا پسینہ گرے وہاں خون بہا دیں، وہ اشارہ کریں تو گردن کٹا دیں اور اسے کی طرف میلی آنکھ اٹھے تو آنکھیں نکال دیں جی ہاں یہ وہ کارکن ہیں اور میں ان کارکنوں میں سے ہوں جن پر تمہارے بھیجے ہوئے زر خرید غلاموں اور پالتو کتوں نے رات کی تاریکی میں گولیاں برسائیں، ظلم کیا۔۔۔ میں سلام پیش کرتا ہوں سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں اپنے خون شہادت سے انقلاب کی بنیاد رکھنے والے14سپوتوں کو جن میں میری دو عفت مآب بہنیں بھی شامل ہیں، وہ یزیدی لشکر کے سامنے جھکے نہیں ، پیچھے ہٹے نہیں اور ان کے مذموم مقاصد کو بالاخر ناکام بنایا۔ نہتے رہ کر مقابلہ کیا۔ عقل سے عاری کالے بیلوں نے اپنے مالک کے ہانکنے پرجب گولیاں برسا دیں تو انہوں نے سینے پیش کردیئے۔ جذبوںاورولولوں، شجاعت و بہادری کی وہ تاریخ لکھ دی کہ ہمیشہ وہ یاد کیے جائیں گے اور شرافت کا لباس پہنے ہوئے فرعونوں پر لعن طعن ہوتا رہے گا۔

    اے تخت لاہور کے بادشاہ
    اے 14انقلابیوں کے لہو سے اپنی پیاس بجھانے والے ہلاکو خان

    اے غریب کی عزتیں لوٹ کر تماشہ کرنے والے اداکار۔

    اے جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ قتل کروانے والے بدمعاش۔

    اے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور نرسز پر لاٹھی چارج کروانے والے نامرد۔

    سنو !! تمہاری تاریک راتوں میں اگر کسی روز میں بھی مارا گیا تو ایسا کرنا کہ

    میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔

    پھر جلی ہوئی راکھ کو اپنی غرور کی تسکین کیلئے ہوا میں پھینک دینا۔

    مجھے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم ۔ پھر لاہور کی فضا میں میری راکھ کے ذروں کا انقلابی رنگ دیکھنا۔
    تمہارے دیئے ہوئے لیپ ٹاپ کی رشوت نوجوان تمہارے محل پر دے ماریں گے اور تمہیں لاہور کی سڑکوں پرگھسیٹیں گے۔

    تمہارے دکھائے ہوئے خواب نوجوان اپنے زور بازو سے پورے کریں گے اور تمہاری آنکھیں نکال دیں گے۔
    ہا ں سن سکتے ہو تو سنو۔۔ جذبے ابھی زندہ ہیں۔۔ ولولے ابھی زندہ ہیں۔

    جیالے ابھی زندہ ہیں۔۔ رکھوالے ابھی زندہ ہیں۔۔

    یہ تحریر ایک انقلابی کی ہے اور انقلابیوں کے جذبے بھی طلاطم اور زلزلے بپا کردیا کرتے ہیں یہ پھر بھی الفاظ ہیں۔ ۔۔ یہ زندہ وجاوید لفظ ہیں ۔۔۔ اگر تم انقلاب سے قبل بھی یہ لفظ پڑھ لو تو میرا ایمان ہے کہ روز انقلاب تک بھی تمہیں ہر روز پاگل پن کے دورے پڑھیں گے۔ میرے کالم کی کوئی ترتیب نہیں ۔ یہ بے ترتیب الفاظ کا مجموعہ ہے ۔ یہ لفظ نہیں جذبے ہیں ۔۔ انقلاب سے قبل یہ میرے آخری الفاظ ہیں۔ میں اگر شہید نہ ہوا تو انقلاب کے بعد لکھوں گا۔ اگر شہید ہوگیا تو یہ تحریر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر صدیوں پڑھی جاتی رہے گی۔
    میں چلنے سے قبل بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے انقلاب کے راستے کو کیوں اپنایا۔ میں نے اپنی زندگی عیاشیوں میں گزارنے پر راہ انقلاب پر سفر کو ترجیح کیوں دی؟ اور میں نے ستمبر2013سے لیکراگست2014تک 40ہزار کلومیٹر کا سفر کراچی تا خیبر کیوں کیا ؟ میں نے طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کیوں کیا ؟ بتانے کو تو اتنا ہی کافی ہے کہ گجرات کے ایک زمیندار نے معصوم بچے کے بازو کاٹ دئیے اسلئے میں انقلاب کیلئے نکلا ہوں مگر میں قوم کے تمام زخموں کے پیچھے چھپی تمہاری شرافت کے پردے چاک کرنا چاہتا ہوں۔ میں انقلاب کیلئے نہیں نکلوں گا اگرتم انصاف کے درج ذیل تقاضے پورے کردو۔

     میلسی میں مہنگائی اور حالات کی ستم ظریفی سے تنگ آکر نہر میں کود کر جان دینے والی پانچ بہنوں کا قصور بتادو؟
    میری عفت مآب بہن تنزیلہ امجد شہید سمیت14بے گناہ شہریوں کے قتل کا جواز بتادو؟
    کراچی کی فٹ پاتھوں پر روزانہ بے گناہ ہلاک ہونے والے شہریوں کو انصاف اور بسنے والوں کو امن دیدو
    ہزارہ وال برادری کی نسل کشی کرنے والے عناصر کو ننگا کرو اور انہیں عدالتوں میں پیش کرکے منطقی انجام تک پہنچادو
    پانچ سالہ فاطمہ کیساتھ زیادتی کرنے والے شیطان صفت درند ہ کو پکڑ کر کٹہرے میں لے آﺅ۔
    شہید بینظیر بھٹو اور حکیم سعید کے قاتلوں کو گرفتار کرکے چوک پر پھانسی کی سزا دو۔
    سیالکوٹ میں کچھ سال قبل دن دیہاڑے درندگی سے قتل ہونے والے دو بھائیوں کی ماں کو عدل دو۔
    خودکش دھماکوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں کے لواحقین کو انصاف دو اور ان کے قاتلوں ، قاتلوں کے معاونین اور سربراہان کو عبرت کا نشان بنادو، ان کے تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو، اندرون و بیرون ملک ان کے فنڈز کے ذرائع تلاش کرکے ختم کردو۔
    ان محرکات کو تلاش کرکے ختم کردو جس کی وجہ سے ایک ماں نے اپنے بچوں کے گلے کاٹ دئیے۔
    جاگیرداروں سے جاگیریں چھین کر مزارعوں میں بانٹ دو جو ظلم اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔
    اپنی ملوں سمیت پبلک سیکٹر اور تمام پرائیوں ملوں اور فیکٹریوں کے ملازمین کو فیکٹری کے منافع کا حصہ دار بنادو۔
    جعلی پولیس مقابلے ختم کروا ﺅ، پولیس سیکٹر میں تمام سفارشی اور سیاسی بھرتیوں کا خاتمہ کرکے میرٹ پر بھرتیاں کرو۔
    ملک کے تمام نونہالوں کو ایک نظام تعلیم دو۔
    طبقاتیت کا ہر سطح پر خاتمہ کرکے عام مخلص اور پڑھے لکھے شخص کو اسمبلی میں نمائندگی کیلئے قوانین وضع کرو۔
    تم نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ یہی میرا نقلاب کیلئے صف آراءہونے کا جواز ہے۔ یہ سب کچھ شروع کرنے میں24 گھنٹے لگتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ کرنا تمہارے اورتمہاری بکاﺅ کابینہ کیلئے پاﺅں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

    تاریخ کے صفحات میری ان سطور پر گواہی دیں گے کہ طاہرالقادری کیساتھ نکلنے والے کیوں نکلے ہیں۔ کون سی تڑپ ، کون سا جذبہ انہیں سڑکوں پر لے آیا۔
    جی ہاں مزدور اور مزدوروں کے بیٹے، بیٹیاں اپنے حصے کی تاریکیوں کو اجالے میں بدلنے نکلے ہیں۔
    وطن کے قابل فخر اور محنتی کسان ، مزارعین اور ان کے بیٹے ، بیٹیاں غلامی کی زنجیریں توڑنے نکلے ہیں۔
    چھوٹے تاجر ، سرکاری ملازمین اور کم تنخواہ والے پاکستانی عوام اس بے انصافی اور استحصال کو جڑ سے اکھاڑنے نکلے ہیں۔
    طالب علم جن کے ہاتھ میں قلم اور کتابیں ہیں وہ طبقاتیت کے خاتمے اور ایک نظام تعلیم کیلئے نکلے ہیں۔
    قوم کے جوان بیروزگاری سے مایوس ہوکر امید کے دئیے جلانے نکلے ہیں۔
    اقلیتی برادری قائد اعظم کے وعدے جس کے مطابق برابر حقوق دیئے جانے کا وعدہ ہے اس کی تکمیل کیلئے نکلے ہیں۔
    وکلا، قانون دان آئین کی اپنی اصل روح کیساتھ بحالی کیلئے نکلے ہیں۔ مشائخ ، علمائے کرام اسلام کو پاکستان میں نافذ کرنے نکلے ہیں۔ گویا بچے ، بوڑھے، جوان، ۔خواتین اور ہر عمر کے پاکستانی پاکستان بچانے نکلے ہیں

    میرا آخری کالم ایک اذان ہے۔ بیداری شعور و احساس کیلئے ننھے ابابیل کی طرح کی ایک کوشش ہے۔ ہم نے ہمیشہ شب ظلمات کے شکوﺅں اور شکایات پر ہی زور دیا ، ہم نے اپنے حصے کے دیپ جلانے کی سعی نہ کی۔ طاہرالقادری ہو یا کوئی بھی جو ظلم کیخلاف اپنی آواز کو بلند کرے اس کا ساتھ دینا ایسا ہی ہے جیسے اپنےحصے کی شمعیں روشن کرنا۔اپنے حصے کے دیپ جلانا۔

    آخر کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟
    آخر کب تک بھوک سے نڈھال بچے مرتے رہیں گے؟
    آخر کب تک وطن کی گلیاں اندھیروں میں رہیں گی؟
    آخر کب تک فٹ پاتھوں پر خون بہتا رہے گا؟
    آخر کب تک بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی؟
    یاد رکھیں معاشرے برائی کیساتھ قائم رہ سکتے ہیں مگرظلم کیساتھ نہیں۔ اگر ہم نے بڑھ کر ظلم کا بازو نہ توڑا تو ہمیں معاشرے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ظلم کیخلاف خاموش رہنے والی قومیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں۔لہذا اٹھیں اس ہمہ گیر ظلم کے خلاف انقلاب برپا کردیں۔
    انقلاب ہی بے گھروں کو گھر دے گا۔
    انقلاب ہی بیروزگاروں کو روزگار دے گا۔
    انقلاب ہی استحصال کا خاتمہ کرے گا۔
    انقلاب ہی پاکستان کو عالمی سطح پر ایک خود مختار ریاست بنائے گا۔
    انقلاب ہی پاکستان کو ایسی قیادت فراہم کرے گا جو بڑی سے بڑی طاقت کو نا کہہ سکے۔
    انقلاب ہی مجھے اور آپ کو سرخرو کرے گا اور ہم اپنی نسلوں کو ایک آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان دے سکیں گے ۔
    میں انشاءاللہ پاکستان کیلئے نکلا ہوں۔ کشتیاں جلا کر نکلا ہوں ۔ زندہ رہا توپاکستان میں حقیقی جمہوری سیاسی رویوں کے فروغ پا جانے کے بعد اور نئے سیاسی و   انتخابی نظام میں ایک کامیاب سیاستدان بنوں گا۔ اللہ میرا اور آپ کا! ہم سب کا حامی و ناصرہو۔