Tag: mohen jo daro

  • عالمی کانفرنس برائے موہن جو دارو 2017 کا آغاز ہوگیا

    عالمی کانفرنس برائے موہن جو دارو 2017 کا آغاز ہوگیا

    لاڑکانہ: موہن جوداڑو میں سہہ روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کاآغاز ہوگیا ہے ‘ کانفرنس میں دنیا بھر سے ماہرینِ آثارِقدیمہ اور محققین شرکت کررہے ہیں‘ کانفرنس سے موہن جو دارو پر تحقیق کا ایک نیا باب وا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی وزارتِ ثقافت کے زیرِ اہتمام انٹرنیشنل کانفرنس برائے موہن جو داڑو کا افتتاح آج سائٹ میوزم میں موجود آڈیٹوریم میں کیا گیا‘ سندھ حکومت کی جانب سے ملکی اور غیر ملکی ماہرین کو صوبائی وزیرثقافت سید سردار علی شاہ نے اپنے افتتاحی خطاب سے کیا۔

    موہن جو داڑو مٹی میں ملنے والا ہے

    کانفرنس کے باضابطہ آغاز سے قبل ماہرین کو موہن جو داڑو کی سائٹ کا دورہ کرایا گیا اور میوزیم میں موجود نوادرات دکھائے گئے۔

    moen-jo-daro-post-2

    کانفرنس میں انتیس ملکی اورانیس غیر ملکی ماہرینِ آثارقدیمہ اور تاریخ داں شرکت کررہے ہیں‘ تین روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ملکی اورغیر ملکی ماہرین اپنے تحقیقاتی مقالے پیش کریں گے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل موہن جودارو کے موضوع پر اس سطح کی عالمی کانفرنس سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِحکومت کے بعد اب منعقد کی جارہی ہے۔

    طوفانی بارشوں سے’موہن جو داڑو‘کی حالت مخدوش

    اس موقع کی مناسبت سے سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ‘ وقت آگیا ہے کہ اس عظیم الشان مشترکہ عالمی ورثے کی حفاظت کے لیے ہم سب مل کرکاوشیں کریں‘‘۔

    سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ موہن جو دارو کو اقوام متحدہ عالمی ورثہ قراردے چکی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ موہن جو دارو کو بچایا جائے تاکہ یہ اس خطے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

    وادی سندھ کی تہذیب کی تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ء میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا۔

    moen-jo-daro-post-1

    سن 1921ء کا واقع ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی ، ڈائریکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔

    ہم جب موہنجودڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ اور مظبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں، ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ عجیب بات موہنجودڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔

    موہن جو دارو لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے 686 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہوگیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔

  • آثارِ قدیمہ کی بحالی میں سندھ حکومت کی کروڑوں کی کرپشن آشکار

    آثارِ قدیمہ کی بحالی میں سندھ حکومت کی کروڑوں کی کرپشن آشکار

    کراچی: اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکونے سندھ کے کئی آثارِقدیمہ کی حالت مخدوش قراردے دی جبکہ سندھ حکومت کے محکمہ کلچر میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی بھی منظرِعام پرآگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کے محکمہ کلچرنے آثار قدیمہ کی بحالی کے کئی منصوبوں میں کروڑوں روپے کی خرد برد کی جبکہ 21 کروڑ روپے مالیت کے 10 منصوبے محض کاغذات میں ہی مکمل کئے گئے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ موہن جو داڑو کی بحالی میں دو کروڑ، فرئیرہال کی چھت کی تعمیرمیں 3 کروڑ، پکا قلعہ کی بحالی کے لئے 1 کروڑ 20 لاکھ، مکلی قبرستان کی بحالی میں 1 کروڑ، چٹوری قبرستان میں 1 کروڑ پچاس لاکھ اور نیشنل میوزیم پاکستان کراچی کے مرکزی دروازے کی تعمیر اور لفٹ کی تنصیب میں 50 لاکھ روپے کی کرپشن کی گئی۔

    اس موقع پرہیریٹیج فاوٗنڈیشن کی چیئرمین یاسمین لغاری نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہویے کہا کہ پرانے افراد آثارِ قدیمہ کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں اور نئے لوگوں کو سامنے آنا چاہیئے۔

    ان کا کہناتھا کہ ان کے ادارے نے بھی موہن جو داڑو کی بحالی میں کرپش کے سلسلے میں عدالت سے رجوع کررکھا ہے۔

    یاسمین لغاری نے انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بروقت انتظامات نہ کئے گئے توہمارے قومی آثار برباد ہوجائیں گے اور ایک بار یہ ختم ہوگئے تو ہمارے پاس آئندہ نسلوں کودینے کےلئے کچھ نہیں بچے گا۔

    دوسری جانب ڈائریکٹرکلچرقاسم علی قاسم نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے یونیسکو کی جانب سے ایسی کسی وارننگ کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے 130 مقامات کی بحالی کے لئے پیسے جاری کئے ہیں اور ان پر کام جاری ہے ۔

    قاسم علی قاسم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاق نے کبھی سندھ کے آثارِقدیمہ پرتوجہ نہیں دی، اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت نے آثارقدیمہ کی بحالی کا کام شروع کیا ہے۔

  • طوفانی بارشوں سے’موہن جو داڑو‘کی حالت مخدوش

    طوفانی بارشوں سے’موہن جو داڑو‘کی حالت مخدوش

    موہن جو داڑو:وادیٔ سندھ کے قدیم ترین آثارِ قدیمہ موہن جوداڑوں کو بارشوں کے سبب شدید خطرات لاحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق طوفانی بارشوں نے جہاں سندھ بھر کو نقصان پہنچایا ہے وہیں وادیٔ مہران کی 5000 سال قدیم تہذیب کے آثار موہن جو داڑو میں بھی برسات کا پانی داخل ہوگیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق کھنڈرات کے کئی حصے بارشوں میں بہہ گئے ہیں اور باقی ماندہ کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

    واضح رہے کہ موہن جو داڑو اس خطےکی تہذیب کا امین قومی ثقافتی ورثہ ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری 18 ویں ترمیم کے بعد حکومتِ سندھ پرعائد ہوتی ہے۔

    مقامی افراد کے مطابق حکومت کی جانب سے بے توجہی اورغفلت کے سبب یہ قدیم آثار انتہائی تیزی سے برباد ہورہے ہیں۔

    دوسری جانب حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے شرمیلا فاروقی نے ٹویٹ میں اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھ مشینوں اور 73 افراد پر مشتمل عملے کی مدد سے موہن جو داڑو سے پانی نکالا جارہا ہے اور اس کی حفاظت کے ہر ممکن انتظامات کئے جارہے ہیں۔

  • موہن جو داڑو مٹی میں ملنے والا ہے

    موہن جو داڑو مٹی میں ملنے والا ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) – ماہرین آثار ِ قدیمہ کے مطابق’موہن جو داڑو‘کو ایک بار پھر شدید خطرات لاحق ہیں اورایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ بیس سال میں ماضی کا یہ عجوبہ شہر صفحہٗ ہستی سے مٹ جائے گا۔

    موہن جو داڑو کانسی کے دور کی عظیم یادگار ہےجو کہ پانچ ہزار برس قدیم سندھ کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ مٹی میں دبا ہوا یہ شہر 1922 میں دریافت ہوا تھا۔

    موہن جو داڑو پانچ ہزار برس قدیم فنِ تعمیرکاشاہکار ہے جہاں پختہ اینٹوں سے مکان اور گلیاں تعمیر کئے گئےتھے۔ بیشترگھروں میں بیت الخلاء کی سہولیت میسر تھی اورنکاسی ِآب کا شاندار انتظام تھا۔ گھروں کے علاوہ موہن جو داڑو میں سرکاری عمارات بھی تھیں جن کی تعمیر موہن جو داڑو کے رہائشیوں کے اعلیٰ فن ِتعمیرکا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    موہن جو داڑو سے تقریباً چالیس ہزار نوادرات برآمد ہوئے جن میں مٹی سے بنے برتن، مہریں ، بچوں کے کھلونے اور کانسی سے بنی اشیا شامل ہیں۔ کانسی کی بنی اشیا میں رقاصہ کا مجسمہ انتہائی شاندار ہے اور مجسمہ سازی کے فن کی منہ بولتی تصویرہے۔

    اپنی دریافت کے بعدسے اب تک موہن جوداڑو موسمی اثرات اورحکومتی عدم توجہی کے باعث شکست وریخت کا شکار ہے اور یونیسکو کی جانب سے جاری کئے گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ بیس سال میں مٹی سے برآمد ہوا یہ قدیم شہر صفحہٗ ہستی سے مٹ جائے گا۔

    سندھ کے صوبائی دارالخلافہ کراچی میں بین القوامی ماہرین اورپاکستان کے محکمہٗ آثارِ قدیمہ کے افسران پرمشتمل ایک اجلاس بھی ہوا تھا جس میں قدیم شہر کی تباہی کے اسباب اوربحالی کے لئے ممکنہ اقدامات پرغورکیا گیا تھا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ موہن جو داڑو کے لئے مختص فنڈ فوری طور پرفراہم کئے جائیں گے اور سندھ حکومت، محکمہ آثارِقدیمہ اوربین القوامی ماہرین مل کردنیا کے اس قدیم اور قیمتی ترین ثقافتی ورثے کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔