Tag: Mohsin Bhopali

  • معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 12ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کلیات محسن بھوپالی کا اجرا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خصوصی شرکت

    کلیات محسن بھوپالی کا اجرا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خصوصی شرکت

    کراچی: نامور پاکستانی شاعر محسن بھوپالی کے کلیات کا اجرا کردیا گیا، تقریب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل کراچی میں کلیاتِ محسن بھوپالی کی تقریب اجرا کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی ، جس کی  صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی جبکہ دیگر معززین میں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری اور شاہانہ جاوید سمیت دیگر شامل تھے۔

    معززین گرامی نے محسن بھوپالی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے شرکا کو آگاہ کیا جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اظہار خیال کیا۔

    اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں دیگر قومیتوں کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ محسن پاکستان کا کہنا تھا شہر قائد میں بسنے والے تمام ہی اکائیوں کے لوگ شائستہ لہجے میں اردو بولتے تھے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں کئی ایسے سندھی رہنماؤں کو جانتا ہوں جو بہت اچھے طریقے سے اردو میں بول چال کرتے تھے علاوہ ازیں لیاری کے مکینوں پر بھی محسن پاکستان نے تبصرہ کیا۔

    ایٹمی سائنسدان نے اپنے بچن کا واقعہ سنایا کہ وہ ایک بار بس میں سفر کررہے تھے جس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر مکرانی (بلوچ) تھے، گاڑی اپنی مخصوص رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھیں کہ اچانک ڈرائیور نے بریک مار دیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’گاڑی کو بریک لگنے کے بعد جب میں نیچے اترا تو دیکھا بس کے آگے ایک بلی کا بچہ ہے جسے کنڈیکٹر نے گود میں اٹھا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا یہ باغ نہیں سڑک ہے اور پھر اُسے فٹ پاتھ پر رکھ دیا‘۔

    ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مزید کہنا تھا کہ لیاری میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں مگر آج انہیں گینگ وار کے نام کی شناخت دے دی گئی۔ اپنی تقریر کے آخر میں محسن پاکستان نے مدعو کرنے پر منتظمین کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    محسن بھوپالی کون تھے؟

    محسن بھوپالی کی پیدائش 29 ستمبر 1932 کو بھارت کے علاقے بھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں ہوئی، آپ کا اصل نام عبد الرحمان جبکہ والد کا نام عبد الرزاق لاڑکانہ تھا۔

    آپ نے ابتدائی تعلیم بھوپال سے حاصل کی، قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہو ا اور پھر آپ کے اہل خانہ نے کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔

    لاڑکانہ منتقلی کے بعد آپ نے 1951 میں ہائی اسکول لاڑکانہ سے میٹرک اور 1954 میں گورنمنٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا، بعد ازاں 1957 میں این ای ڈی سے تین سالہ ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1974 میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔

    آپ نے سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان پاس کیا بعد ازاں 1979 میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو اور 1987 میں اردو کالج سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔

    آپ کو حکومت سندھ کے محکمہ تعمیرات میں 12 جون 1952 کو ملازمت ملی بعد ازاں آپ ترقی کی منازل طے کرتے رہے اور جب 1993 میں ریٹائر ہوئے تو آپ کے پاس ایگزیکٹو انجینئر کا عہدہ تھا۔

    محسن بھوپالی کو شاعری کی وجہ سے شہرت ملی، آپ نے اپنی زندگی میں 10 تصانیف لکھی، آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شکست شب‘ 1961 میں منظر عام پر آیا بعد ازاں دیگر کتابیں بھی آئیں مگر ’گرد مصافت اور پھر ’جستہ جستہ‘، ’نظمانے اور ماجرہ قابل ذکر رہیں۔

    محسن بھوپالی 17 جنوری 2007 کو کراچی میں نمونیا کی بیماری سے لڑتے ہوئے دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ آپ کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس آج بھی نظر آتا ہے۔

    بھوپالی کے شعری موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے البتہ آپ کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے

    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے

    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو

    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    آپ گلے کے سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے جس کا 1988 میں کامیاب آپریشن ہوا مگر اس کے بعد آپ کو بولنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس کے باوجود آپ نے معمولاتِ زندگی جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کر کے اپنے اشعار ادبی لوگوں کی خدمت میں پیش کیے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 11ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا ۔ اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے و محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اورکراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔