Tag: mohsin naqvi

  • جیل میں قیدی خواتین سے ناروا سلوک کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کیا گیا: نگران وزیر اعلیٰ پنجاب

    جیل میں قیدی خواتین سے ناروا سلوک کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کیا گیا: نگران وزیر اعلیٰ پنجاب

    لاہور: نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ جیل میں قیدی خواتین سے ناروا سلوک کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کیا گیا، 500 خواتین 9 مئی کے واقعات میں مطلوب تھیں لیکن گرفتاری سے گریز کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے وفد کی ملاقات ہوئی۔

    ملاقات کے دوران نگران وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جیل میں قیدی خواتین سے ناروا سلوک کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کیا گیا، 2، 2 سال کی پرانی ویڈیوز دکھا کر بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے میں ملوث 11 خواتین جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں، پورے پنجاب سے مجموعی طور پر 32 خواتین کو گرفتار کیا گیا جبکہ 21 کو رہا کر دیا گیا۔

    نگران وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ جیل میں خواتین کو جیل مینوئل کے مطابق رکھا گیا ہے۔ 500 خواتین 9 مئی کے واقعات میں مطلوب تھیں لیکن گرفتاری سے گریز کیا گیا۔

    محسن نقوی نے مزید کہا کہ معاشی صورتحال میں بہتری کے حوالے سے جلد اچھی خبریں آئیں گی، نگران حکومت 4 ماہ کا بجٹ پیش کرے گی۔

  • پنجاب میں ہنگامے :  6 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، نگراں وزیراعلیٰ

    پنجاب میں ہنگامے : 6 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، نگراں وزیراعلیٰ

    لاہور : پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ گزشتہ دنوں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں نقصانات کا تخمینہ اب تک 6ارب روپے سے زائد ہے۔

    یہ بات انہوں نے لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ جناح ہاؤس پر مجموعی طورپر 3ہزار800لوگوں نےحملہ کیا اور جلایا،انہوں نے مزید کہا کہ 400 افراد نے جناح ہاؤس کے اندر حملہ کیا جبکہ 34 نے باہر نقصان پہنچایا۔

    محسن نقوی نے کہا کہ ایک ایک حملہ آور کی نشان دہی ہورہی ہے، سب کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، لاہور میں دو میٹرو اسٹیشنوں کو جلایا گیا، ابھی تک 600کروڑ کا نقصان سامنے آیا ہے، مزید تخمینہ لگایا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ثبوت و شواہد موجود ہیں کہ گوجرانوالہ میں آرمی چیک پوسٹ اور پرائیوٹ عمارت کو جلایا گیا، ملتان میں بسیں، پولیس کی کوسٹر کو بھی جلایا گیا، میانوالی میں معمولی لوگ نہیں تھے اکثریت کے پاس اسلحہ تھا۔

    نگراں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ یاسمین راشد اس پورے واقعے کی مرکزی کردار ہیں، خواتین کا احترام کیا جارہا ہے اسی لئے یاسمین راشد کو اسپتال منتقل کیا گیا، ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد کا پاکستان کے اندرونی معاملات سے کوئی تعلقات نہیں۔

    محسن نقوی نے کہا کہ پورے پنجاب میں مجموعی طور پر 108گاڑیاں جلائی گئیں، کور کمانڈر ہاؤس سمیت 23عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا، لاہور میں پولیس کی گاڑیاں،12بسیں، موٹرسائیکلیں 6واسا گاڑیاں جلائی گئیں۔

    اس کے علاوہ ریسکیو1122 کی 8گاڑیاں جلائی گئیں، کار شورم میں بھی ایک گاڑی مکمل جل گئی،
    فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک پرحملہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، 34کے قریب جناح ہاؤس کے باہر حملے میں ملوث تھے،9مئی کو سیف سٹی کے کیمروں کو جلایا گیا اور توڑا گیا۔

  • نگران وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت، 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری

    نگران وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت، 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی جانب سے امراض جگر اور بون میرو کے 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی خصوصی ہدایت پر چیف منسٹر فنڈ سے امراض جگر اور بون میرو کے 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری کردی گئی۔

    52 مستحق مریضوں کے لیے 6 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جاری کی گئی ہے۔

    نگراں وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ مریضوں کے علاج کے لیے وسائل مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، جگر اور بون میرو جیسے امراض میں مبتلا مریض بھرپور توجہ کے مستحق ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ امراض جگر اور بون میرو کا علاج عام آدمی کے بس کی بات نہیں، حکومت تعاون کر رہی ہے، صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں ہوں اور رہوں گا۔

  • محسن نقوی نگراں وزیراعلیٰ پنجاب مقرر

    لاہور : الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کو نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کردیا، وہ کل گورنرہاؤس لاہور میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے تقررکے معاملہ میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے محسن نقوی کونگراں وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کردیا ہے۔

    محسن نقوی کو نگراں وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کرنے کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ انکو آرٹیکل224 کے تحت مقرر کیا گیا۔

    الیکشن کمیشن نے متفقہ فیصلہ دو گھنٹے طویل اجلاس میں کیا، بعد ازاں محسن نقوی کی بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔

    سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے پنجاب اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد صوبے کے نگران وزیراعلیٰ کے لئے احمد نواز سکھیرا اور نوید اکرم چیمہ کے نام تجویز گئے تھے جبکہ اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے احد چیمہ اور محسن نقوی کے نام بھیجے تھے۔

    حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے ناموں پر اتفاق نہ ہونے کے باعث مندرجہ بالا نام چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیئے گئے تھے، جس کا فیصلہ آج کردیا گیا ہے۔

  • معروف شاعر محسن نقوی کی آج 24 ویں برسی منائی جارہی ہے

    معروف شاعر محسن نقوی کی آج 24 ویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو زبان کے معروف غزل گو اور سلام گو شاعر محسن نقوی کی 24 ویں برسی منائی جارہی ہے، جن کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ جھلکتے ہیں۔

    محسن نقوی 5 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان کے محلّے سادات میں پیدا ہوئے تھے، ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن بطور تخلص استعمال کرتے تھے۔

    انہوں نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی اور مسجد کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی قرآن مجید کی تلاوت اور ناظرہ پر توجہ دیتے تھے۔

    محسن نقوی شہید نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو میں ایم اے کیا اور انہیں ایام میں آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ بند قبا شائع ہوا۔

    محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

    محسن نقوی ڈیرہ غازی کے ہفت روزہ شمارے ہلال میں کالم بھی لکھا کرتے تھے جبکہ ملتان سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’امروز‘‘ میں بھی کالم نگار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    محسن نقوی گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ‘الغازی’ کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر بھی تھے۔

    جب انہوں نے ‘فکر جدید’ نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوگیا۔

    کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

    محسن نقوی شہید نے سنہ 1979 میں پاکستان پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرکے سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

    محسن نقوی شہید کا پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماوں میں شمار ہوتا تھا.

    انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ‘یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور’ لکھی تھی۔

    محسن نقوی کے اردو اشعار کے مجموعوں میں "عذابِ دید، خَیمۂِ جاں، برگِ صِحرا، بندِ قبا، مَوجِ ادراک، طُلُوعِ اشک، فُراتِ فکر، ریزۂِ حرف، رختِ شب، رِدائے خواب، حقِ ایلیا” شامل ہیں۔

    اردو شاعری میں محسن نقوی کی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن مرثیہ ان کا خاص موضوع تھا۔

    معروف شاعر محسن نقوی کو 1994ء میں انہیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ) سے نوازا گیا تھا۔

    پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کرکے ہمیں ایسا کرب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہوسکے گا۔

    محسن نقوی نے نامعلوم دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد آخری شعر یہ کہے تھے۔

    لے زندگی کا خمس علی کے غلام سے

    اے موت آ ضرور مگر احترام سے

    عاشق ہوں اگر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے

    شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امام سے

  • نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 23 برس بیت گئے

    نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 23 برس بیت گئے

    آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی غزل گواورسلام گو شاعر ہیں آپ کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ بہت خوبصورتی سے جھلکتے ہیں۔

    محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو پیدا ہوئے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن تلفظ کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر ’محسن نقوی‘کے نام سے مشہور ہوئے۔

    انہوں نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذوو شوق سے پڑھتے تھے۔

    محسن نقوی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم وبیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

    بعد ازاں تعلیم کو خیرباد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہوگئے اورانیس سوسڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

    محسن نقوی گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوگیا۔

    کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔

    چاندنی کارگر نہیں ہوتی
    تیرگی مختصر نہیں ہوتی
    ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
    احتراماً سحر نہیں ہوتی

    انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انہیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

    محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہوگیا۔

    اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
    کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
    نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
    حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟

    ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔

    محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے
    شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے

    پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کرب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہوسکے گا۔

  • نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21 برس بیت گئے

    نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21 برس بیت گئے

    کراچی :آج اردو کے ممتاز شاعر محسن نقوی کا یوم وفات ہے، ان کا اصل نام سید غلام عباس نقوی تھا، اور آپ 5 مئی 1947 کو محلہ سادات ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے ۔

    محسن نقوی نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ  گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذو و شوق سے پڑھتے تھے۔

     انہوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

    بعد ازاں تعلیم کو خیر باد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہو گئے اور انیس سو سڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

    گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہو گیا۔

    کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔

    چاندنی کارگر نہیں ہوتی
    تیرگی مختصر نہیں ہوتی
    ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
    احتراماً سحر نہیں ہوتی

    ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج تک بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی”

    یہ دل یہ باگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی”

    جسے پاکستان کے ہر دلعزیز گلوکار غلام علی نے گا کر ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا۔

    انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انھیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

    محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہو گیا۔

    اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
    کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
    نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
    حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟

    ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔

    محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے
    شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے

    پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کر ب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہو سکے گا۔

  • فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا

    فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
    بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا​

    دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
    ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا​

    تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
    تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا​

    گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
    میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا​

    محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
    کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا​

    **********

  • شکل اس کی تھی دلبروں جیسی

    شکل اس کی تھی دلبروں جیسی
    خو تھی لیکن ستمگروں جیسی

    اس کے لب تھے سکوت کے دریا
    اس کی آنکھیں سخنوروں جیسی

    میری پرواز ِجاں میں حائل ہے
    سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی

    دل کی بستی ميں رونقیں ہيں مگر
    چند اجڑے ہوئے گھروں جیسی

    کون دیکھے گا اب صلیبوں پر
    صورتیں وہ پیمبروں جیسی

    میری دنیا کے بادشاہوں کی
    عادتیں ہیں گداگروں جیسی

    رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن
    دل میں لہریں سمندروں جیسی

    *************

  • پھروہی میں ہوں وہی شہربدرسناٹا

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
    مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا

    دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
    ہجر والوں نے لیا رختِ سفر سناٹا

    کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
    اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا

    تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
    تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا

    اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
    جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا

    حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
    رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا

    قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
    قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا

    جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
    ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

    ***********