Tag: mohsin naqvi

  • اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
    ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا

    اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
    زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

    موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
    ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

    تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
    ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

    آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
    راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا

    زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
    اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا

    کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
    دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

    ***********

  • اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

    اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
    دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا

    کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے
    خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا

    پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
    اس کا اندازِ تغافل تھا خداؤں جیسا

    کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل
    پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا

    کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
    جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا

    پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
    پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

    بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
    اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

    **********

  • آج محسن نقوی کی اٹھارویں برسی ہے

    آج محسن نقوی کی اٹھارویں برسی ہے

    آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی غزل گواورسلام گو شاعر ہیں آپ کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ بہت خوبصورتی سے جھلکتے ہیں۔

    محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو پیدا ہوئے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن تلفظ کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر ’محسن نقوی‘کے نام سے مشہور ہوئے۔

    انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا اسی دوران ان کا پہلا مجموعہٗ کلام منظرِعام پرآیا۔

    بعد ازاں وہ لاہورمنتقل ہوگئے اورادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے جس کے سبب انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔

    اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
    اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا

    ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اوردنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔

    سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں​
    حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ​

    ان کے کئی مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔

    غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
    پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے

    لاہورمیں قیام کے دوران محسن نقوی اک خطبیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکرِاہلبیتؑ اورواقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیتِؑ اطہار کی شان میں کی گئی شاعری بیان کیا کرتے تھے اوراسی سبب سے 15 جنوری 1996ء کو ایک مذہبی انتہاپسند دہشت گرد تنظیم کے دہشت گردوں نےانہوں گھات لگا کرشہید کردیا گیا۔

    یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
    سرسناں، کوئی سرسجاؤ! اُداس لوگو