Tag: Mohtarma Fatima Jinnah

  • وزیراعظم کا محترمہ فاطمہ جناحؒ کو زبردست خراج عقیدت

    وزیراعظم کا محترمہ فاطمہ جناحؒ کو زبردست خراج عقیدت

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سینئر سیاست دان، تجربہ کار اور قابل احترام خاتون سیاسی رہنما، دانتوں کی سرجن اور پاکستان کے معروف بانیوں میں سے ایک تھیں، جن کا یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

    اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو ان کی پاکستان کیلئے بے پناہ خدمات کے اعتراف میں 130ویں یوم پیدائش پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ محترمہ فاطمہ جناح ایک عظیم بھائی کی عظیم بہن تھیں، فاطمہ جناح قوم کیلئے ماں کا درجہ رکھتی ہیں، قوم پر ان کے بہت سارے احسانات ہیں۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ محترمہ فاطمہ جناح بابائے قوم کے لئے حوصلے اور ہمت کا ذریعہ تھیں،
    مادر ملت آمریت کیخلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئیں، انہوں نے عوام، جمہوریت اور ملک کی بقاء کیلئے باہمت کردار ادا کیا۔

    شہباز شریف نے کہا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے تحریک پاکستان اور ملک کیلئے زندگی کے آخری سانس تک بے مثال کردار ادا کیا اور لازوال قربانیاں دیں۔

    انہوں نے کہا کہ محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت آج ملک بھر کی بچیوں اور خواتین کے لئے مشعل راہ ہیں، قوم مادر ملت کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے اور ہمیشہ ان کے احسانات کی مقروض رہے گی۔

  • مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 53ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 53ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 53 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 1910 میں میٹرک اور 1913 میں سینئر کیمبرج کا امتحان پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا۔ سنہ 1922 میں محترمہ نے دندان سازی کی تعلیم مکمل کی۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے 1929 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زوجہ کے انتقال کے بعد اپنی زندگی بھائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے ان کی زندگی کا مقصد بھائی کی خدمت اور ہر میدان میں ان کا ساتھ دینا بن گیا تھا۔

    انہوں نے نہ صرف نجی زندگی بلکہ سیاسی زندگی میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا اور ہر سیاسی موقع پر ان کے ساتھ رہیں۔

    سنہ 1940 میں جب قائد اعظم تقسیم ہند کی تاریخ ساز قرارداد میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تو محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

    محترمہ نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کا جس طرح ساتھ دیا، اسی کا اعجاز تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں اور قیام پاکستان کے خواب کو تکمیل تک پہنچایا۔

    فاطمہ جناح 7 اگست 1947 کو 56 سال کے بعد دہلی کو الوداع کہہ کر کراچی منتقل ہوگئیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے کئی برسوں تک بھائی کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔

    ضعیف العمری کے باوجود مادر ملت فوجی آمر ایوب خان کے خلاف منصب صدارت کے مقابلے میں اتریں، تاہم سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کی محبت کو نکال سکے۔

    محترمہ فاطمہ جناح ہر مقام اور ہر میدان میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ دیکھنے کی خواہاں تھیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں تب تک انہوں نے خواتین کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔

    مادر ملت فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو 73 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔

    فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے آخری قیام کراچی میں واقع موہٹہ پیلیس میں گزارے جو حکومت پاکستان نے انہیں بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کیا تھا۔

    اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔ آج اگرچہ وہ ہم میں نہیں مگر ان کی بے مثال جدوجہد اور قربانیاں آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے۔

  • مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 51 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 1910 میں میٹرک اور 1913 میں سینئر کیمبرج کا امتحان پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا۔ سنہ 1922 میں محترمہ نے دندان سازی کی تعلیم مکمل کی۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے 1929 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زوجہ کے انتقال کے بعد اپنی زندگی بھائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے ان کی زندگی کا مقصد بھائی کی خدمت اور ہر میدان میں ان کا ساتھ دینا بن گیا تھا۔

    انہوں نے نہ صرف نجی زندگی بلکہ سیاسی زندگی میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا اور ہر سیاسی موقع پر ان کے ساتھ رہیں۔

    سنہ 1940 میں جب قائد اعظم تقسیم ہند کی تاریخ ساز قرارداد میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تو محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

    محترمہ نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کا جس طرح ساتھ دیا، اسی کا اعجاز تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں اور قیام پاکستان کے خواب کو تکمیل تک پہنچایا۔

    فاطمہ جناح 7 اگست 1947 کو 56 سال کے بعد دہلی کو الوداع کہہ کر کراچی منتقل ہوگئیں۔

    قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے کئی برسوں تک بھائی کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔

    ضعیف العمری کے باوجود مادر ملت فوجی آمر ایوب خان کے خلاف منصب صدارت کے مقابلے میں اتریں، تاہم سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کی محبت کو نکال سکے۔

    محترمہ فاطمہ جناح ہر مقام اور ہر میدان میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ دیکھنے کی خواہاں تھیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں تب تک انہوں نے خواتین کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔

    مادر ملت فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو 73 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔

    فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے آخری قیام کراچی میں واقع موہٹہ پیلیس میں گزارے جو حکومت پاکستان نے انہیں بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کیا تھا۔

    اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

    آج اگرچہ وہ ہم میں نہیں مگر ان کی بے مثال جدوجہد اور قربانیاں آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔