Tag: money laundering

  • ‘ایف آئی اے نے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا’

    ‘ایف آئی اے نے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا’

    اسلام آباد : مشیرداخلہ و احتساب شہزاداکبر کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا، شوگر ملز کے غریب ملازمین کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے منتقل کیے۔

    تفصیلات کے مطابق مشیرداخلہ و احتساب شہزاداکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بےنامی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ کیس کا چالان پیش کردیاگیا، کیس سابق وزیراعلیٰ اور ان کے خاندان کےخلاف تھا، کیس میں کچھ ملزمان باہر ہیں تاہم حتمی چالان جمع نہیں کرایا گیا۔

    مشیرداخلہ و احتساب کا کہنا تھا کہ اس چالان میں جو چیزیں سامنے آئیں وہ حیران کن ہے، ہائی آفس میں بیٹھے لوگوں نے وہ کچھ کیا جس کی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔

    شہزاداکبر نے بتایا کہ ٹرانزیکشن کی4ہزار300دستاویزہیں، شہبازشریف منی لانڈرنگ کےمرتکب پائے گئےہیں، ایف آئی اے چالان کے مطابق شہبازشریف منی لانڈرنگ کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ دوسروں کے ڈاکیومنٹس استعمال کرکےوارداتیں کی گئیں، اسحاق ڈار نے بے نامی اکاؤنٹس کھلوائے، 28 اکاؤنٹس کے ذریعے 16ارب سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی،28 اکاؤنٹس اس وقت استعمال ہوئے جب شہبازشریف وزیراعلیٰ تھے۔

    مشیرداخلہ نے کہا کہ رمضان شوگر ملز کے چھوٹے ملازمین کے نام اکاؤنٹس کھلوائے گئے، اکاؤنٹس کھلوانے کےلیے ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ملازمین کی تنخواہیں 5 ہزار سے30ہزار کےدرمیان تھیں، کم تنخواہ والےملازمین کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے آئے۔

    شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ شریف خاندان نے ایف آئی اے تحقیقات میں تعاون نہیں کیا، ان اکاؤنٹس کی ٹرانزیکشن کاتعلق شوگرکےکاروبار سے نہیں، چپڑاسی گلزار احمد خان کے اکاؤنٹ کے اندر 5ملین کا چیک جمع ہوا، گلزاراحمدخان رمضان شوگرملز میں چپڑاسی تھے، ان کےاکاؤنٹ میں ایک ارب کی ٹرانزیکشن ہوئیں۔

    انھوں نے بتایا کہ اگرپارٹی فنڈکےلیےپیسےدیےگئےتو گلزاراحمدکےاکاؤنٹ میں کیوں گئے؟، مسرور انور پیسے کیش نکلوا کر شہباز شریف اور حمزہ کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتا ہے، گلزاراحمدخان2015 میں فوت ہوا اس کے بعد 2017 تک چلتا رہا کسی نے نہیں پوچھا،اس اکاؤنٹ سے مسرور انور پیسے نکلواتا رہا۔

    منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے مشیرداخلہ کا کہنا تھا کہ چپڑاسی گلزاراحمدخان کی تنخواہ 12ہزار 800روپے ماہانہ تھی، ان کےاکاؤنٹ ایک اعشاریہ 8 ارب روپے آئے جبکہ مسرورکےاکاؤنٹ سے 3اعشاریہ 7ارب کی ٹرانزیکشن ہوئی ، مسرورکی ماہانہ تنخواہ 25ہزارروپے تھی۔

    انھوں نے کہا کہ مسرور انورذاتی کیشئرتھاجو اکاؤنٹس سےپیسے نکلواتا تھا، اسی طرح ملازم ظفراقبال کےاکاؤنٹ میں 52کروڑروپے آئے۔

    شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ ہمیں ان غریب ملازمین سےہمدردی ہے، ایف آئی اے نےتمام لوگوں سے تفتیش کی، مختلف دکانوں اور کاروبار کے نام پر16ارب روپے لیےگئے، ایف آئی اے نےان تمام لوگوں سے تفتیش کی، جن کےنام پررقم لی گئی تو ان کو اس کا پتا ہی نہیں تھا۔

    مشیرداخلہ نے مزید کہا کہ جب ان کےاقتدارکاوقت پوراہواتو یہ تمام بے نامی اکاؤنٹس بند ہوگئے، جب تک اچھی تفتیش نہیں ہوگی اچھی پراسیکیوشن نہیں ہوگی، اچھی تفتیش کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چالان کےبعد کافی حد تک ذمہ داری عدالتوں پر چلی جاتی ہے، ماضی میں دیکھاگیاحکمرانوں نے تاخیری حربے استعمال کیے، مجرمان تاخیری حربے استعمال کرکے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    شہزاداکبر نے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ ان مقدمات کی روز کی بنیادپرسماعت کریں، حکومت ان کیسز میں مکمل تعاون کرے گی، لوگوں جاننا چاہتے ہیں ان مقدمات میں ہے کیا، ان کیسز میں جوقصوروار ہو ان کو سزائیں ملنی چاہیے۔

    مشیرداخلہ نے کہا چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ سے کیس کی روز کی بنیاد پرسماعت کی گزارش ہے، ان تمام مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام کیسز کا تعلق بیرون ملک سے بھی ہے، ایک ملزم بیرون ملک بیٹھا ہے، شریف خاندان سےمتعلق 4کیسز ہیں۔

    اسحاق ڈار کے حوالے سے شہزاداکبر نے کہا کہ اسحاق ڈار کیس سے متعلق برطانیہ اور پاکستان کےدرمیان ایم اویوپردستخط ہوا، اسحاق ڈار نےبرطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے، برطانیہ قانون کےمطابق نہیں بتا سکتا ہمیں ذرائع سےمعلوم ہوا ہے۔

    نواز شریف سے متعلق مشیرداخلہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کیس میں ہم نے برطانیہ سے درخواست کی ہے، نوازشریف کا کیس سب سے مختلف ہے، وہ ملزم نہیں بلکہ مجرم ہیں اور برطانیہ میں مجرم کو ویزٹ ویزے کی اجازت نہیں ملتی۔

    انھوں نے بتایا کہ نوازشریف کے ویزے کی میعاد بھی ختم ہوگئی ہے، ان کا پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہوچکا ہے، نوازشریف کے پاس پاسپورٹ حاصل کرنے کااختیار نہیں۔

    شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ ٹریبونل میں نوازشریف سےمتعلق کیس زیرسماعت ہے، ٹریبونل میں سیکریٹری ہوم کے خلاف فیصلہ آیا تو نوازشریف کو برطانیہ چھوڑنا پڑے گا۔

    مشیرداخلہ نے مزید کہا کہ نوازشریف کو پاکستان لانے کےلیے ایک بار کی خصوصی اجازت دی جائےگی، روزکی بنیاد پرسماعت کا مطالبہ پاکستان کی عوام کا ہے، عوام جاننا چاہتے ہیں ان مقدمات کا انجام کیا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسا نظام کیوں نہیں بنا سکتے کہ مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں ہوجائے، پاکستا ن میں جس حساب سےآبادی بڑھی اس حساب سے عدالتیں نہیں بڑھیں، پاکستان میں کیسز کے جلد فیصلوں کے لیے کام کرنا ہوگا اور نظام کی بہتری کےلیے ہمیں اقدام اٹھانا ہوگا۔

    کرپشن کے حوالے سے شہزاداکبر نے کہا کرپشن ختم نہیں ہوئی تو اس کے خلاف ہمیں جنگ کرنی ہوگی، ہمارامعاشرہ وہاں تک پہنچا کہتے تھے کھاتا ہےتولگاتا بھی ہے، کرپشن ہر شعبےمیں آچکی ہے،معاشرےکا برا حال ہوچکا ہے، کرپشن کےخلاف جنگ کرنی پڑےگی یہ اتنی جلدی ختم نہیں ہوگی۔

    مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نظام صحیح طریقے سے کام کرتاتوفیک اکاؤنٹس نہیں کھل سکتے تھے، نظام موجود ہے،معاملہ نظام کی ناکامی کا ہے، مثال قائم کرنے کےلیے سخت سزائیں دینی پڑیں گی۔

    انھوں نے بتایا کہ نوازشریف علاج کے غرض سے گئے مگر علاج نہیں کروایا، نوازشریف نے پاسپورٹ کی درخواست کی جو مسترد کی گئی تھی، نوازشریف کے ویزے کی میعاد بھی ختم ہوگئی ہے، نوازشریف نے ویزے میں مزیدتوسیع نہ ملنے پر اپیل دائر کررکھی ہے۔

  • منی لانڈرنگ کیس : شہبازشریف فیملی کیخلاف  100 گواہوں کی فہرست سامنے آگئی

    منی لانڈرنگ کیس : شہبازشریف فیملی کیخلاف 100 گواہوں کی فہرست سامنے آگئی

    لاہور : منی لانڈرنگ کیس میں شہبازشریف فیملی کیخلاف ایف آئی اے کے 100 گواہوں کی فہرست سامنے آگئی، کباڑیہ، ہارڈوئیر، ڈرائی فروٹ، سینیٹری اسٹورز مالکان گواہ ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہبازشریف فیملی کیخلاف شوگر کاروبار کے ذریعے منی لانڈرنگ چالان کے معاملے پر ایف آئی اے کی100گواہوں کی فہرست سامنے آگئی۔

    گواہوں کی فہرست میں کباڑیا،ہارڈوئیر،ڈرائی فروٹ، سینیٹری اسٹورزمالکان ، اسکریپ ڈیلر،کنسٹرکشن کمپنیاں گواہوں ، ڈیری فارم، جنرل اسٹور، آکسیجن سیلنڈروینڈرز شامل ہیں۔

    دستاویزات کے مطابق انجینئرز،وکیل، بینکرز، ڈاکٹرز،ایس ای سی پی، ایف آئی اے اہلکار ، رائس ڈیلر،ڈینٹل پارٹس ڈیلر،جیولرز،پراپرٹی ڈیلر بھی گواہوں کی لسٹ میں شامل ہیں۔

    گواہان کے شناختی کارڈمنی لانڈرنگ اور اکاؤنٹ کھلوانےکےلیےاستعمال ہوئے، تمام گواہان عدالت کے روبرو ایف آئی اے کے موقف کی تائید کریں گے۔

    ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کے دستاویزی شواہد چالان کا حصہ بنائے ہیں۔

  • منی لانڈرنگ کے44کیسوں کی تحقیقات مکمل

    منی لانڈرنگ کے44کیسوں کی تحقیقات مکمل

    اسلام آباد : ایف بی آر حکام نے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کے44کیسوں کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں، کل پشاور میں ٹیکس کرائم پر پہلی سزا ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں فیض اللہ کموکا کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ایف بی آر حکام نے شرکاء کو بریفنگ دی۔

    چیئرمین ایف بی آر نے اجلاس کوبریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ محکمہ نے منی لانڈرنگ کے44کیسوں کی تحقیقات مکمل کرلیں، سزائیں نہیں ہوئیں لیکن قانون بننے کے بعد خوف پیدا ہوا ہے۔ ایف بی آر حکام نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں اب تک کل 170 تحقیقات ہوئی ہیں۔

    چیئرمین خزانہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ تاجر برادری کو اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون پر تحفظات ہیں، پاکستان میں دستاویزی معیشت سے غیردستاویزی معیشت زیادہ ہے، ٹیکس چوری کو منی لانڈرنگ سے جوڑنا غلط ہے۔

    چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ایف بی آر ریونیو ایجنسی ہے، ہمارا بنیادی فوکس اسی پر ہونا چاہیے، حکومت نے ذمہ داری لگائی کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے سائےمنڈلا رہے ہیں۔

    چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ہمارے پاس افرادی قوت کی کمی کا بھی کمیٹی کو علم ہے، پارلیمان نے ہمیں اختیارات دیے اور ہم اس پر کام کررہے ہیں۔

    ایف بی آر حکام کے مطابق ٹیکس رول پر2 لاکھ کی انکم دکھانے والے کی اربوں کی ٹرانزیکشنز ہیں، بزنس مین کہتا ہے کہ ٹیکس دینے کو تیار ہوں، منی لانڈرنگ میں نہ پکڑیں، کل پشاور میں ٹیکس کرائم پر پہلی سزا ہوئی ہے۔

    چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس وقت بھی 100 سے زائد پٹیشنز تیار ہیں، اب تک 215 ایف آئی آر 267 افراد پر درج کی گئی ہیں،76ارب ٹیکس 300 ارب سے زائد کی جائیدادوں پر چوری کیا گیا۔

    ایف بی آرحکام کا مزید کہنا تھا کہ لینڈ ریونیو کے95 کیسز کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں، حکم امتناع کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ہے۔

  • منشیات فروشوں کے  منی لانڈرنگ میں  ملوث ہونے کے انکشاف، کراچی پولیس کا بڑا فیصلہ

    منشیات فروشوں کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے انکشاف، کراچی پولیس کا بڑا فیصلہ

    کراچی : ایف آئی اے نے منشیات فروشوں کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد کراچی پولیس سے منشیات کے اہم کیس کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق منشیات فروشوں کے منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہونے کا انکشاف سامنے آیا ،جس کے بعد ایف آئی اے نے کراچی پولیس سے منشیات کے اہم کیس کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پولیس نے منشیات فروشوں کیخلاف منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ کی تحقیقات کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات فروشوں کے تمام کیسزکا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ منظم منشیات فروشوں کےکرمنل ریکارڈسمیت دیگرتفصیل دی جائیں گی، جس پر پولیس نے منشیات فروشوں کا ریکارڈ جمع کرنا شروع کردیا ہے۔

    خیال رہے کراچی میں پولیس افسران بھی منشیات فروشی میں ملوث نکلے تھے ، منشیات فروشوں کو چھوڑنے کے لیے 18 لاکھ رشوت لینے والے سچل پولیس افسران کے خلاف رپورٹ تیار کر لی تھی۔

  • شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ ، العریبیہ اور رمضان شوگر ملز کے منی لانڈرنگ کے ثبوت سامنے آگئے

    شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ ، العریبیہ اور رمضان شوگر ملز کے منی لانڈرنگ کے ثبوت سامنے آگئے

    لاہور : اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف25ارب روپےکی منی لانڈرنگ کیس میں العریبیہ ،رمضان شوگر ملز کے منی لانڈرنگ کے ثبوت سامنے آگئے، شوگر ملز کے چپڑاسی، کلرکس ودیگر ملازمین کے نام پر کروڑوں روپے منتقل کئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف25ارب روپےکی منی لانڈرنگ کیس میں رمضان ملز کے چپڑاسی، کلرکس ودیگر ملازمین کے نام 57 مشکوک اکاؤنٹس سامنے آگئے۔

    ملازمین کے نام پر اکاؤنٹ ،رقوم کی تفصیلات اے آر وائی نیوزنےحاصل کرلی ، انکوائری میں العریبیہ ،رمضان شوگر ملز کے منی لانڈرنگ کے ثبوت سامنے آگئے۔

    دستاویز میں کہا گیا ہے کہ رمضان شوگر ملز کے کم تنخواہ دار20ملازمین کے اکاؤنٹس میں25 ارب روپے آئے، ٹی بوائے کے اکاؤنٹ میں 3ارب 70 کروڑ روپے ٹرانسفر کئے گئے۔

    دستاویز کے مطابق فرنیچر دکان مالک حاجی نعیم کے اکاؤنٹ میں 2ارب 80 کروڑ روپے وصول ہوئے، حاجی نعیم شہبازشریف فیملی کا فرنٹ مین مشتاق چینی کا قریبی دوست ہے جبکہ مشتاق چینی کے ڈرائیور وارث کے اکاؤنٹ میں ڈھائی ارب روپے آئے۔

    حاصل کردہ تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ رمضان شوگر ملزکے چپڑاسی اسلم کے اکاؤنٹ میں 1ارب 75کروڑروپے ، کلرک کے اکاؤنٹ میں 1ارب 67کروڑ روپے اور کلرک غلام شبر کے نام پر 1ارب 57 کروڑ روپے آئے۔

    دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ گنا فراہم کرنیوالے چھوٹے کاشتکارکےاکاونٹ میں ایک ارب 55کروڑ ، رمضان شوگر ملز کلرک خضر حیات کے نام پر اکاونٹ میں 1ارب 42کروڑ ، رمضان شوگر ملز ملازم قیصر عباس کے اکاؤنٹ میں 1ارب 37کروڑ اور رمضان شوگر ملزکے 2015 میں فوت کیشیئرکےاکاونٹ میں 1ارب 28کروڑ آئے۔

    دستاویز میں کہنا ہے کہ مشتاق چینی کی جعلی کمپنی اکبر ٹریڈرز کے اکاؤنٹ سے 1ارب 25کروڑ روپے اور رمضان شوگر ملزکلرک اقرار حسین کے اکاؤنٹ میں 1ارب 18کروڑ روپے منتقل کئے گئے۔

  • منی لانڈرنگ کے پیسوں سے200 بے نامی گاڑیاں خریدنے کا انکشاف

    منی لانڈرنگ کے پیسوں سے200 بے نامی گاڑیاں خریدنے کا انکشاف

    اسلام آباد : نیب راولپنڈی نے منی لانڈرنگ کے پیسوں سے200بے نامی گاڑیاں خریدنے کے انکشاف کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا اور نادرا سے مدد مانگ لی۔

    تفصیلات کے مطابق منی لانڈرنگ کے پیسوں سے 200بے نامی گاڑیاں خریدنے کا انکشاف سامنے آیا ، جس کے بعد نیب راولپنڈی نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی خریداری میں جعلی طریقے سےشناختی کارڈاستعمال کرنے کا بھی انکشاف ہوا ، جس پر نیب راولپنڈی نےنادرا سےمدد طلب کرلی اور تمام افراد سے تفتیش کا فیصلہ کیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق گاڑیاں عام لوگوں کے ناموں پرمنگوائی گئیں، گاڑیوں کو ڈرائی پورٹ لاہور پر روک دیا گیا، گاڑیوں میں لینڈ کروزراور پراڈوز شامل ہیں ، جن کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی خریداری میں بڑی نیٹ ورک کےشواہد نیب نے حاصل کر لیے جبکہ کسٹم حکام کے بھی بڑے نیٹ ورک سے رابطے کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے۔

    یاد رہے چند روز قبل نیب راولپنڈی نے کراچی کے رہائشی محمد اکبر نامی مزدور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔

    نوٹس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ 2016 اور 2017 کےدرمیان جاپان سےچوری شدہ دو سو گاڑیاں خریدی گئیں، گاڑیوں کی خریداری کیلئے منی لانڈرنگ کے ذریعے رقم کی ادائیگی کی گئی۔

  • ایف بی آر  نے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے نیا ضابطہ جاری کردیا

    ایف بی آر نے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے نیا ضابطہ جاری کردیا

    اسلام آباد : فیڈرل بورڈ آف ریونیو( ایف بی آر ) نے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے نیا ضابطہ جاری کرتے ہوئے کہا اکاؤنٹ کمپنیوں، پراپرٹی ایجنٹس،جیولرز کو 3قسم کا ریکارڈ فراہم کرنا ہوگا اور اپنی اعلیٰ انتظامیہ کا کریمنل ریکارڈ بھی پیش کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو( ایف بی آر ) نے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے نیا ضابطہ جاری کردیا، نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اکاؤنٹ کمپنیوں، پراپرٹی ایجنٹس، جیولرز کو 3قسم کا ریکارڈ فراہم کرنا ہوگا جبکہ بزنس کے بینیفشل اونر کا پورا نام اور پتہ بتانا ہوگا۔

    ایف بی آر کا کہنا ہے کہ بزنس کی شروعات سے بینک اکاؤنٹس میں ترسیلات کی تفصیلات دینا ہوگی جبکہ خریدوفروخت اورفیس وصول کرنےکی تفصیلات بھی فراہم کرنا ہوگی اور کلائنٹ سے بزنس اور اکاؤنٹس کی تفصیلات دینا ہوں گی۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اپنی اعلیٰ انتظامیہ کا کریمنل ریکارڈ بھی پیش کرنا ہوگا، رقوم کی ترسیلات میں ملوث کرنسی اور خریدار کا نام بتانا ہوگا۔

    ایف بی آر نے تمام امور کا کاغذی یا الیکٹرانک ریکارڈ رکھنا لازمی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ کلائنٹس شناختی دستاویز،خط وکتابت اور درخواست کا فارم پیش کرنا ہوگا اور تمام بزنس ریکارڈ 5 سال تک رکھنا ہوگا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ طلب کرنے پرریکارڈ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کوپیش کرناہوگا اور جیولرزکو 20 لاکھ روپے سے زائد ہر خریداری کاریکارڈ دینا ہوگا جبکہ 20 لاکھ تک خریداری کیش کے ذریعے ہونے پر رسیدیں دینا ہوں گی۔

    ایف بی آر نے شناختی کارڈ، نائیکوپ کی تفصیلات فراہم کرنا لازمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطے کی خلاف ورزی پراینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔

  • منی لانڈرنگ : شہبازشریف اور ان کی فیملی کے بارے میں اہم انکشافات

    منی لانڈرنگ : شہبازشریف اور ان کی فیملی کے بارے میں اہم انکشافات

    لاہور : اپوزیشن لیڈر شہبازشریف اور ان کی فیملی کے بارے میں اہم انکشافات سامنے آئے ، جس میں کہا گیا شہبازشریف نے فیملی کی مدد سے منی لانڈرنگ کے ذریعے اثاثے بنائے، منی لانڈرنگ میں حمزہ ، سلیمان اور خاندان کے دیگر افراد ملوث ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کیخلاف نیب ریفرنس کی تفصیلات سامنے آگئیں ، نیب کی رپورٹ میں شہبازشریف اور ان کی فیملی کےبارےمیں اہم انکشافات کئے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا شہبازشریف نے فیملی کی مدد سے منی لانڈرنگ کے ذریعے اثاثے بنائے، منی لانڈرنگ میں شہبازشریف،حمزہ ،سلیمان،خاندان کے دیگر افراد ملوث ہے ، 1990میں بطورایم این اے شہبازشریف نے 2.121 ملین اثاثے ظاہرکئے، 2003 میں شہبازشریف کے ظاہر اثاثے 2اعشاریہ524ملین روپے تھے ، انھوں نے1996 سے2003تک آمدنی 11.213ملین اور اخراجات16.866 ملین ظاہرکئے۔

    نیب رپورٹ کے مطابق یہ اخراجات آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، 2009میں شہبازشریف کے اثاثوں میں 22گنااضافہ ہوا اور ان کے اثاثے 55اعشاریہ 516 تک پہنچ گئے ، اثاثوں میں 52اعشاریہ 992 ملین اضافہ ہوگیا۔

    نیب کا کہنا ہے کہ 2010میں شہبازشریف نے209ملین سےزائداثاثےظاہرکئے اور 2018میں شہباز شریف کے اثاثے 66.480 ملین تک پہنچ گئے، انھوں نے 2009 سے 2018 کے دوران 165.425 ملین اخراجات اور کاروبار سے 114.676ملین روپے کی آمدنی ظاہر کی جبکہ زرعی آمدنی کی مد میں78.105 ملین روپے ظاہر کئے، فیملی کے نام پر منی لانڈرنگ میں سب سے زیادہ فائدہ شہباز شریف کو ہوا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا شاہدرقیق منی چینجر نے گرفتاری کے دوران4غیرملکی جعلی ترسیلات زر کا انکشاف کیا ، 2.430ملین ڈالر کی 4 جعلی ترسیلات زر برطانیہ سے کی گئیں، جعلی ترسیلات زر عثمان انٹرنیشنل منی ایکس چینج کے ذریعے کی گئیں، ترسیلات زر نصرت، حمزہ ، سلمان، رابعہ کے اکاؤنٹس میں کرنے کا کہا گیا۔

    ریفرنس میں شہبازشریف، اہلخانہ کی منی لانڈرنگ طریقہ کار کی تفصیل سامنے آگئیں ، نیب ریفرنس میں کہا گیا شہباز شریف کے بےنامی داروں میں فیملی اراکین، 3 کمپنیاں جبکہ بے نامی داروں میں خفیہ بینک اکاؤنٹس اور شیئر بھی شامل ہیں۔

    نیب کا کہنا ہے کہ سلمان شہباز، منی لانڈرنگ نیٹ ورک کی تفصیلات والیمزکی صورت میں ظاہر کی جبکہ شہباز شریف کے بے نامی داروں میں نصرت، سلمان ، حمزہ، رابعہ اور جوریہ شامل ہیں۔

  • ذرائعِ آمدنی سے زائد اثاثے،  شہباز شریف کاروبار کی آمدن بتانے میں ناکام

    ذرائعِ آمدنی سے زائد اثاثے، شہباز شریف کاروبار کی آمدن بتانے میں ناکام

    لاہور : نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کاروبار کی آمدن بتانے میں ناکام رہے ہیں، ذرائعِ آمدنی سے ان  کے اثاثے زیادہ ہیں ، انھوں نےمنی لانڈرنگ کے پیسے سے ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک میں گھر خریدا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی عبوری ضمانت کیس میں نیب کا ممکنہ جواب سامنے آگیا، نیب ذرائع نے کہا ہے کہ شہبازشریف کےلندن میں 4ذاتی فلیٹس ہیں، تفتیش میں اس حوالے سے شہباز شریف نے نیب میں کوئی جواب نہیں دیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے اپنی آمدنی کے 3 ذرائع ظاہر کیے، زرعی آمدن، کاروبار اورتنخواہ ذرائع آمدنی میں ظاہر کی گئی، ذرائعِ آمدنی سے شہباز شریف کے اثاثے زیادہ ہیں، زرعی آمدن سے 18کروڑ کی وصولی ظاہرکی گئی جبکہ پٹواری رپورٹ کے مطابق زرعی آمدن 3کروڑ سے زائد نہیں بنتی۔

    نیب کے مطابق شہباز شریف کاروبار کی آمدن بتانے میں ناکام رہے ہیں، کیا کاروبار کرتے ہیں نیب کو نہیں بتایا گیا، شہباز شریف کی اہلیہ کو 18کروڑ روپے بذریعہ ٹی ٹی موصول ہوئے جبکہ ان کی اہلیہ کو خاندانی جائیداد وراثت میں نہیں ملی۔

    نیب ذرائع نے بتایا کہ منی لانڈرنگ کے پیسے سے ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک میں گھرخریدا گیا، اسی گھر کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کادرجہ دیاگیا، ایچ بلاک والے گھر کے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیےگئے۔

    ذرائع کے مطابق سلمان شہباز کے پاس صرف 40لاکھ روپے تھے، اب سلمان شہباز شریف کے اثاثے 4ارب سےزائدہیں، ان معاملات کی تفتیش نہیں ہوسکی کیونکہ ملزم بیرونِ ملک فرارہوگیا۔

    خیال رہے لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں پیر تک توسیع کردی ہے اور آئندہ سماعت پر شہبازشریف کے وکلا کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

  • جرمنی : ایک سال کے دوران منی لانڈرنگ میں 50 فیصد ریکارڈ اضافہ

    جرمنی : ایک سال کے دوران منی لانڈرنگ میں 50 فیصد ریکارڈ اضافہ

    برلن : جرمنی کی مالیاتی تفتیشی ایجنسی کے مطابق ملک میں منی لانڈرنگ میں گزشتہ برس ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، کالے دھن کو سفید بنانے کے واقعات میں پچاس فیصد اضافہ دیکھا گیا اور زیادہ تر سرمایہ کاری جائیدادیں خریدنے میں کی گئی۔

    جرمن حکومت کے قائم کردہ مالیاتی تفتیشی یونٹ ایف آئی یو نے سال 2019ء کے لیے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پچھلے سال یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں ناجائز رقوم کو قانونی شکل دینے کے واقعات میں تقریبا50 فیصد کا اضافہ ہوا۔

    یہ منی لانڈرنگ مشکوک مالیاتی منتقلیوں کی شکل میں کی گئی اور اس طرح ناجائز مالی وسائل کی ترسیل دہشت گردانہ مقاصد کے لیے بھی کی گئی۔

    برلن سے شائع ہونے والے اخبار ٹاگیس اشپیگل نے لکھا ہے کہ وفاقی جرمن ادارے فنانشنل انٹیلیجنس یونٹ کے مطابق 2019ء میں ملک میں منی لانڈرنگ کے لیے رقوم کی منتقلی کے کُل 114,914 واقعات رجسٹر کیے گئے۔

    یہ تعداد 2018ء میں ایسے کیسز کی تعداد کے مقابلے میں تقریباﹰ ڈیڑھ گنا بنتی ہے، جو سالانہ بنیادوں پر ایک ریکارڈ ہے۔ رقوم کی مشکوک منتقلی کے ان واقعات کا پتا جرمن بینکوں، مالیاتی اداروں اور جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے اداروں کی مدد سے چلایا گیا۔ ان واقعات میں مجموعی طور پر 355,000 مرتبہ رقوم کی منتقلی عمل میں آئی۔

    ایف آئی یو کے سربراہ کرسٹوف شُلٹے نے اخبار ‘ٹاگیس اشپیگل‘ کو بتایا، ”ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی میں منی لانڈرنگ سے متعلقہ معاملات میں قصور وار افراد کو سزائیں دلوانے کا عمل اب تک ایک پختہ قانونی روایت نہیں بن سکا۔‘‘

    زیادہ سرمایہ کاری جائیدادیں خریدنے میں

    فنانشل انٹیلیجنس یونٹ نے گزشتہ برس بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ کالے دھن کے ذریعے طے پانے والے زیادہ تر مشکوک کاروباری معاہدے پراپرٹی مارکیٹ میں کیے جاتے ہیں۔

    2018ء میں جرمنی میں منی لانڈرنگ کے77 ہزار واقعات رجسٹر کیے گئے تھے۔ ناجائز رقوم کی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے جرمنی میں اب تک جو اقدامات کیے جا چکے ہیں، ان میں ایک ایسا نیا قانون بھی شامل ہے، جو ملکی پارلیمان نے گزشتہ برس نومبر میں منظور کیا تھا۔ اس کا مقصد منی لانڈرنگ سے متعلق جرمن قوانین کو یورپی یونین کے ضوابط سے ہم آہنگ کرنا تھا۔

    س قانون کے تحت جائیداد کی خرید و فروخت میں معاونت کرنے والے پراپرٹی ایجنٹوں، قانونی ماہرین، قیمتی دھاتوں کے تاجروں اور نیلام گھروں تک کو پابند بنایا جا چکا ہے کہ وہ حکام کو اپنے ہاں سرمائے کی ہر قسم کی مشکوک منتقلی کی اطلاع دیں۔

    تیس بلین یورو کی بلیک منی سے خریدی گئی جائیدادیں

    بدعنوانی اور مالیاتی بے قاعدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی جرمن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کی مؤثر روک تھام کے لیے قانونی اصلاحات متعارف کرائے۔

    اس تنظیم نے یہ بات خاص طور پر اس انکشاف کے بعد کہی کہ 2017ء میں جرمن پراپرٹی مارکیٹ میں 30 بلین یورو (34 بلین ڈالر) کے کالے دھن کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

    ٹرانسپیرنسی کے مطابق منظم جرائم پیشہ گروہ، جیسا کہ اطالوی مافیا گروپ، جرمن قوانین میں موجود سقم استعمال کرتے ہوئے ملک میں اس طرح جائیدادیں خریدتے ہیں کہ یوں ان کے لیے ناجائز رقوم کو جائز ظاہر کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

    اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل کردہ رقوم کا 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک حصہ غیر منقولہ املاک کی خریداری میں لگا دیا جاتا ہے۔

    جرمن ایجنسی ایف آئی یو کا صدر دفتر مغربی شہر کولون میں ہے اور قانوناً یہ تفتیشی ادارہ جرمنی میں کسٹمز کے محکمے کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔