Tag: monkeypox

  • برطانیہ میں منکی پاس کے کیسز میں اضافہ

    برطانیہ میں منکی پاس کے کیسز میں اضافہ

    لندن: برطانیہ میں منکی پاکس کے کیسز میں اضافہ ہو گیا ہے، 36 نئے کیس سامنے آنے کے بعد مجموعی تعداد 57 ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں منکی پاکس کے مزید چھتیس کیسز کی تشخیص ہوئی ہے، جس سے کل تعداد ستاون ہوگئی ہے، تمام نئے انفیکشن برطانیہ میں سامنے آئے ہیں، جب کہ اسکاٹ لینڈ نے آج اپنے پہلے کیس کا اعلان کیا۔

    صحت کے حکام نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ وبا قابل ذکر اور تشویش ناک ہے، لیکن برطانیہ کی آبادی کے لیے خطرہ کم ہے، برطانوی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ نایاب وائرس انسانوں سے پالتو جانوروں اور پھر جنگلی حیات میں منتقل ہو، اور یہ یورپ میں مقامی بھی بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں ‘منکی پاکس’ کے حوالے سے ہائی الرٹ جاری

    برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ منکی پاکس اب تک مہلک ثابت نہیں ہوا، ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی منکی پاکس کو دیکھ رہی ہے۔

    واضح رہے کہ 15 سے 23 مئی کے درمیان یورپی یونین کے 8 ممالک بیلجیئم، فرانس، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، پرتگال، اسپین اور سویڈن میں کم از کم 85 تصدیق شدہ کیسز کی نشان دہی ہو چکی ہے، دوسری طرف عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ منکی پاکس کو کنٹرول کرنا ممکن ہے۔

  • منکی پاکس کیا ہے؟

    منکی پاکس کیا ہے؟

    منکی پاکس ایک ایسا وائرس ہے جو جنگلی جانوروں خصوصاً زمین کھودنے والے چوہوں اور بندروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے۔

    اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقا کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے جہاں یہ بہت تیزی سے پھیلتا تھا۔

    پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958 میں اس وقت ہوئی تھی جب ایک تحقیق کے دوران کچھ سائنس دانوں کو بندروں کے جسم پر ’پاکس‘ یعنی دانے نظر آئے تھے، اسی لیے اس بیماری کا نام ’منکی پاکس‘ رکھ دیا گیا تھا۔

    انسانوں میں اس وائرس کے پہلے کیس کی شناخت 1970 میں افریقی ملک کانگو میں ایک 9 سالہ بچے میں ہوئی تھی۔

    وائرل انفیکشن

    برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق یہ ایک نایاب وائرل انفیکشن ہے جو اثرات کے اعتبار سے عام طور پر ہلکا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ تر لوگ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں، یہ وائرس لوگوں کے درمیان آسانی سے نہیں پھیلتا اور اس لیے اس کا، بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے حوالے سے خطرہ بہت کم بتایا جاتا ہے۔

    یہ بیماری منکی پاکس نامی وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے، جو چیچک جیسے وائرس کی شاخ میں سے ہے، اس وائرس کی دو اہم اقسام ہیں مغربی افریقی اور وسطی افریقی۔

    جنسی طور پر منتقلی

    متعدی بیماریوں کے ماہر ڈبلیو ایچ او کے اہل کار ڈیوڈ ہیمن نے کہا ہے کہ اب یہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کی طرح پھیل رہا ہے اور دنیا بھر میں اس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ گیا ہے، انھوں نے کہا کہ (انسانوں کا) قریبی رابطہ اس وائرس کی منتقلی کا ذریعہ ہے، کیوں کہ اس بیماری کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص گھاؤ متعدی ہوتے ہیں۔

    بیمار بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین اور طبی عملے کے افراد خطرے میں ہیں، روئٹرز کے مطابق بہت سے کیسز کی نشان دہی جنسی صحت کے کلینکس میں کی گئی ہے۔

    علامات؟

    ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر میں درد، پٹھوں میں درد اور عام طور کسی بھی چیز کا دل نہ چاہنا شامل ہیں۔ ایک بار جب بخار جاتا رہتا ہے تو جسم پر دانے آ سکتے ہیں جو اکثر چہرے پر شروع ہوتے ہیں، پھر جسم کے دوسرے حصوں، عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوے تک پھیل جاتے ہیں۔

    یہ دانے انتہائی خارش والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں، دانے میں بدلنے سے قبل یہ مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بعد میں یہ دانے سوکھ کر گر جاتے ہیں لیکن زخموں سے داغ بھی پڑ سکتے ہیں، انفیکشن عام طور پر خود ہی ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دنوں کے درمیان رہتا ہے۔

    کرونا وائرس سے مشابہت؟

    ڈیوڈ ہیمن نے کہا ہے کہ یہ حیاتیاتی طور پر سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ یہ وائرس ان ممالک سے باہر بھی پھیل رہا تھا جہاں یہ عام طور پر پایا گیا تھا، لیکن کووڈ لاک ڈاؤن، سماجی فاصلے اور سفری پابندیوں کے باعث یہ زیادہ نہیں پھیل سکا۔

    انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ منکی پاکس کرونا وائرس سے مشابہت نہیں رکھتا کیوں کہ یہ اتنی آسانی سے منتقل نہیں ہوتا، تاہم انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ جن لوگوں کو شک ہے کہ وہ اس کا شکار ہو چکے ہیں یا جن کے جسم میں میں دھبوں اور بخار جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، انھیں دوسروں کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کرنا چاہیے۔

    کیسے پھیل سکتا ہے؟

    جب کوئی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے میں ہوتا ہے تو اس میں منکی پاکس پھیل سکتا ہے، یہ وائرس ٹوٹی اور پھٹی ہوئی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو سکتا ہے، اسے پہلے جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کے طور پر بیان نہیں کیا گیا تھا، لیکن یہ جنسی تعلقات کے دوران براہ راست رابطے سے منتقل ہو سکتا ہے۔

    یہ بندروں، چوہوں اور گلہریوں جیسے متاثرہ جانوروں کے رابطے میں آنے سے بھی پھیل سکتا ہے یا وائرس سے آلودہ اشیا، جیسے بستر اور کپڑوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔

    علاج یا ویکسین

    فی الحال، منکی پاکس وائرس کے انفیکشن کا کوئی ثابت شدہ، محفوظ علاج نہیں ہے، منکی پاکس کے لیے کوئی مخصوص ویکسین بھی موجود نہیں ہے، لیکن چیچک کا ٹیکہ 85 فیصد تحفظ فراہم کرتا ہے کیوں کہ دونوں وائرس کافی ایک جیسے ہیں۔

    امریکا میں منکی پاکس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے مقاصد کے لیے، چیچک کی ویکسین، اینٹی وائرلز، اور ویکسینیا امیون گلوبلین (VIG) کا استعمال کیا جاتا ہے۔

  • ڈبلیو ایچ او نے نئی وبا کے پھیلاؤ میں تیزی کا خدشہ ظاہر کر دیا

    ڈبلیو ایچ او نے نئی وبا کے پھیلاؤ میں تیزی کا خدشہ ظاہر کر دیا

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے نئی وبا منکی پاکس کے پھیلاؤ میں تیزی کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ مختلف ممالک میں منکی پاکس کے مزید کیسز سامنے آ سکتے ہیں، اس خدشے کے پیش نظر ان ممالک کی نگرانی بھی بڑھا دی گئی ہے، جہاں ابھی تک یہ بیماری رپورٹ نہیں ہوئی۔

    روئٹرز کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ہفتے کو 12 رکن ممالک سے منکی پاکس کے 92 مصدقہ اور 28 مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں جہاں یہ وائرس پہلے سے موجود نہیں تھا۔

    ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ وہ آئندہ دنوں میں منکی پاکس کے پھیلاؤ سے روکنے سے متعلق رہنمائی اور مشورے بھی فراہم کریں گے، دستیاب معلومات کے مطابق یہ وائرس انسانوں سے دوسرے انسانوں کو قریبی جسمانی رابطے کے باعث لاحق ہو رہا ہے۔

    نئی وبا کے حوالے سے سعودی وزارت صحت کا اہم بیان

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلنے لگا ہے اور اس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہو رہی ہے جو کبھی افریقی ممالک گئے ہی نہیں۔

    واضح رہے کہ منکی پاکس ایک ایسا وائرس ہے جو جنگلی جانوروں خصوصاً زمین کھودنے والے چوہوں اور بندروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے، اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقہ کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے جہاں یہ بہت تیزی سے پھیلتا تھا۔

  • نئی وبا کے حوالے سے سعودی وزارت صحت کا اہم بیان

    نئی وبا کے حوالے سے سعودی وزارت صحت کا اہم بیان

    ریاض: سعودی وزارت صحت نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت میں منکی پاکس وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

    سعودی وزارت صحت کے مطابق مملکت میں منکی پاکس سے پھیلنے والی نئی وبا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، وائرس سے نمٹنے کے لیے مملکت پوری طرح تیار ہے۔

    وزارت سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ متعدد ممالک میں منکی پاکس وائرس کے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے، وبا کے سلسلے میں سعودی صحت حکام ڈبلیو ایچ او کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

    وزارت نے یہ بھی کہا کہ تمام ضروری طبی اور لیبارٹری ٹیسٹ مملکت میں دستیاب ہیں، اور اس سلسلے میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں۔

    کرونا کے بعد دنیا پر نئی خطرناک وبا کا خطرہ منڈلانے لگا

    واضح رہے کہ دنیا ابھی کرونا وبا کے برے اثرات سے پوری طرح نکلی نہیں ہے کہ منکی پاکس کا ایک اور خطرناک وبا کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے۔

    منکی پاکس وسطی اور مغربی افریقا کے دور دراز علاقوں میں پائی جانے والی ایک متعدی بیماری ہے، جس میں انفیکشن کا خطرہ صرف اس وقت رہتا ہے جب کسی متاثرہ مریض سے بہت قریبی رابطہ ہو، اس سے متاثرہ مریض کو ہلکا بخار ہوتا ہے، زیادہ تر لوگ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں، کچھ بڑی علامات میں بخار، جسم میں درد، سوجن، سر درد، تھکاوٹ اور چھالے شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 11 ممالک میں منکی پاکس کے تقریباً 80 کیسز کی تصدیق کی جا چکی ہے، کیسز میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

  • برطانیہ: ایک اور قسم کا وائرس لوگوں کو متاثر کرنے لگا (خوفناک تصاویر بچے نہ دیکھیں)

    برطانیہ: ایک اور قسم کا وائرس لوگوں کو متاثر کرنے لگا (خوفناک تصاویر بچے نہ دیکھیں)

    لندن: کرونا وائرس کے ہنگامی حالات کے دوران ایک اور قسم کا وائراس منظر عام پر آ گیا ہے، جسے منکی پاکس کا نام دیا گیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں نارتھ ویلز میں کمیاب بیماری منکی پاس کے 2 کیسز سامنے آئے ہیں، جس کے حوالے سے شمالی ویلز کے صحت حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مریضوں کا خصوصی نگرانی میں علاج کیا جا رہا ہے، جب کہ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ اگر اب نہیں تو مستقبل میں یہ نیا خطرہ پھیل سکتا ہے، تاہم فی الوقت حکام نے کہا ہے کہ مریضوں سے صحت مند افراد تک اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا اس بیماری سے متعلق کہنا ہے کہ منکی پاکس ایک زونوٹک وائرس کی بیماری ہے، یعنی یہ وائرس متاثرہ جانوروں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے، اور اس کے زیادہ تر کیسز وسطی اور مغربی افریقا کے بارانی جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق منکی پاکس وائرس ایک متاثرہ جانور کے خون، پسینے یا تھوک کے ذریعے انسانوں میں پھیلتا ہے، اور اس وائرس کا تعلق چیچک (اسمال پاکس) کے گروپ سے ہے، اس لیے علامات بھی ویسی ہی ہیں۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی کو بخار، سر درد، کمر درد، پٹھوں میں درد اور تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ چھالوں اور جلدی امراض کا سامنا ہے تو وہ ہوشیار ہو، کہ یہ علامات منکی پاکس (Monkeypox) کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انفیکشن کے ایک سے پانچ دن کے بعد جلد پر آبلے اور گھاؤ بن جاتے ہیں، اس کا آغاز چہرے سے ہوتا ہے، اور آہستہ آہستہ جسم کے دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے، جلد پر بننے والے چھالوں میں سیال بھی بھر جاتا ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق منکی پاس کے کیس میں موت کا خطرہ 11 فی صد ہے، اس سے بچاؤ کے لیے بھی اسمال پاکس کی ویکسین استعمال کی جاتی ہے۔

  • بندروں کی مہلک بیماری انسانوں میں پھیلنے لگی

    بندروں کی مہلک بیماری انسانوں میں پھیلنے لگی

    لندن: انگلینڈ سے تعلق رکھنے والا شہری ’منکی پوکس‘ کی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا، ڈاکٹرز کے مطابق یہ بیماری بندروں سے انسانوں میں منتقل ہورہی ہے۔

    برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شہری کا ماننا ہے کہ اسے منکی پوکس ’بندر کی چیچک‘ کی بیماری افریقی ملک نائیجیریا جانے کی وجہ سے لاحق ہوئی، برطانیہ میں اس مرض کی وجہ سے اب تک چار افراد متاثر ہوچکے ہیں۔

    انگلینڈ کے پبلک ہیلتھ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ منکی پوکس کی بیماری خطرناک ہے کیونکہ دس میں سے ایک مریض زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

    انگلینڈ کے جنوب مغربی علاقے سے تعلق رکھنے والے شہری کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا گیا البتہ ڈاکٹرز نے یہ تصدیق ضرور کی بندروں میں پھیلنے والی چیچک کا ایک مریض لندن کے تھامس اسپتال میں زیر علاج ہے۔

    متاثرہ شخص کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا گیا جہاں ڈاکٹرز اُس کی نگرانی کررہے ہیں۔ مریض سے صرف قریبی رشتے داروں کو ملنے کی مشروط اجازت ہے۔

    پبلک ہیلتھ کے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ شخص کے جسم پر پانی والے بڑے بڑے دانے نکل آئے ہیں، ہم پہلے مرحلے میں انفیکشن پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈاکٹرز نے امید ظاہر کی ہے کہ متاثرہ شہری چند ہفتوں میں روبہ صحت ہوگا جس کے بعد اُسے گھر جانے کی اجازت دی جائے گی۔

    علامات

    ڈاکٹرز کے مطابق یہ بیماری بندر کے جسم میں موجود وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے جبکہ بخار ، سر میں شدید درد ، پٹھوں میں درد ، کمر میں درد ، سوجن، سردی لگنا، بہت زیادہ تھکن کا احساس اور جلد پر دانے ابھرنا ہے۔

    کیفیت

    برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ انسان اور بندر دونوں کو مرض لاحق ہونے کے بعد ایک جیسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔