Tag: moon

  • سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    ریاض: سعودی عرب کے آسمان پر چاند اور مریخ کے قریب آنے کا منظر دیکھا گیا، ایسا مریخ کی گردش کی وجہ سے ہوا۔

    العربیہ نیوز کے مطابق سعودی عرب اور عرب دنیا کے آسمان میں جمعہ کی نصف شب کے بعد گھٹتا ہوا چاند سیارہ مریخ کے سامنے سے گذرا، اس منظر کو دیکھ کر ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا چاند اور مریخ قریب ہوگئے ہیں۔

    جدہ میں فلکیاتی سوسائٹی کے سربراہ انجینیئر ماجد ابو زاہرہ نے وضاحت کی کہ چاند اور مریخ کو شمال مشرقی افق کی طرف دیکھا جائے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹیلی اسکوپ کے میدان میں ایک ساتھ نظر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے درمیان بظاہر فاصلہ وسیع ہے۔ لیکن یہ دوربین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مریخ کی چمک کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کیسے ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگا۔

    ابو زاہرہ نے مزید کہا کہ مریخ کی چمک زمین کے آسمان میں بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مریخ بہت بڑا نہیں ہے، جس کا قطر صرف 6 ہزار 790 کلو میٹر ہے اور مشتری کے برعکس ہے جو ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مشتری کا قطر 1 لاکھ 40 ہزار کلو میٹر ہے، مریخ کے سائز کے 20 سے زیادہ سیارے مشتری کے سامنے ایک ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں، اس لیے مشتری ہمیشہ روشن دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ بہت بڑا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

    چھوٹے مریخ کے لیے، جس کی چمک اس کی قربت یا زمین سے فاصلے سے متعلق ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مریخ زمین کے مدار سے باہر سورج کے گرد گھومتا ہے اور زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ بدل جاتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات زمین اور مریخ نظام شمسی کے ایک ہی طرف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔

    زیادہ تر 2021 میں مریخ اور زمین ایک دوسرے سے سورج کے تقریباً مخالف سمتوں پر تھے۔

    سرخ سیارے کی چمک کو بعض اوقات زمین کے سورج کے گرد ایک بار گردش کرنے سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں ایک سال لگتا ہے جبکہ مریخ کو ایک بار گردش کرنے میں تقریباً 2 سال لگتے ہیں۔

    جب زمین مریخ اور سورج کے درمیان سے گزرتی ہے تو دونوں کے گرد اس کے گذرنے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے، سورج کے گرد یہ ایک سال میں چکر کاٹتی ہے جبکہ مریخ کے گرد 2 سال اور 50 دن میں اس کی گردش مکمل ہوتی ہے۔

  • ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    آج 24 جون کی رات آسمان پر ایک حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا، یہ نظارہ 158 سال قبل دکھائی دیا تھا۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر اس ہفتے آسمان پر ایک خوبصورت نظارہ آپ کا منتظر ہوگا، جو صدیوں بعد ہی دکھائی دیتا ہے۔ چاند 5 سیاروں کے ساتھ ایک قطار میں دکھائی دے گا۔

    آج سے زمین کا چاند نظام شمسی کے دیگر 5 ستاروں کے ساتھ ایک ترتیب تشکیل دے رہا ہے، جو اہل زمین کے لیے صدیوں بعد ایک دل نشین و محسور کن منظر پیش کرے گا۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق یہ نظارہ اس سے قبل 158 سال قبل دکھائی دیا تھا، چاند کی اس ترتیب میں 5 سیارے عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل ایک قطار میں آجائیں گے اور یہ ترتیب اگلے 2 دن یعنی 25 جون تک برقرار رہے گی۔

    سورج کے ساتھ قربت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ پانچوں ستارے ایک دل نشین پریڈ تشکیل دیں گے جو دیکھنے والوں کو حیرت سے گنگ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    اس حوالے سے خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظام شمسی میں سیاروں کی چاند کے ساتھ یہ ترتیب شاذ و نادر ہوتی ہے، اس سے قبل یہ حیران کن نظارہ 5 مارچ 1864 میں دیکھا گیا تھا۔

    اس مظاہر قدرت میں سب سے شاندار بات تو یہ ہے کہ چاند بذات خود سیارہ نہیں ہے لیکن وہ بھی ان سیاروں کے ساتھ اس قطار کو ترتیب دے گا۔

    جون کے مہنے میں یہ پانچوں سیارے ترتیب پا چکے ہیں تاہم اس ماہ کے آخر تک انہیں واضح طور پر دیکھا جا سکے گا، یہ ترتیب آسمان پر ایک پھیلی ہوئی خم دار کمان کی شکل میں مشرق سے شمال مشرق اور پھر جنوب میں دکھائی دے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دل آویز آسمانی پریڈ میں رات کے وسط تک زحل دکھائی دے گا، پھر بتدریج مشتری اور مریخ، اس کے 30 سے 40 منٹ بعد زہرہ اور طلوع آفتاب سے کچھ دیر قبل عطارد دکھائی دے گا۔

    چاند کی سیاروں کے ساتھ اس ترتیب سے زمین کو بھی اپنی پوزیشن کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

  • چاند سے ایسی امید نہ تھی، سائنس دانوں کا ناقابل یقین انکشاف

    چاند سے ایسی امید نہ تھی، سائنس دانوں کا ناقابل یقین انکشاف

    الاسکا: امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ چاند اربوں سال سے زمین کے ماحول سے پانی کھینچ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف الاسکا فیئربینکس کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند اربوں سال سے زمین سے پانی کھینچ رہا ہے اور اسے برف کی شکل میں گہرے گڑھوں کے اندر جمع کر رہا ہے۔

    یہ تحقیق دراصل یہ جاننے کے لیے کی جا رہی تھی کہ چاند پر موجود پانی کا ماخذ کیا ہے، ٹیم کی قیادت یو اے ایف جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر گنتھر کلیٹچکا نے کی، تحقیق سے پتا چلا کہ پانی بنانے والے آیونز (ہائیڈروجن اور آکسیجن آئنز) جب زمین کے مقناطیسی کرہ کے ایک حصے (دُم) سے گزرتے ہیں، تو چاند کی اپنی کشش ثقل انھیں چاند کی جانب کھینچ لیتی ہے۔

    واضح رہے کہ پلینیٹری سوسائٹی کی ویب سائٹ پر چاند کے پانی کے بارے میں ایک مضمون کے مطابق چاند پر بھیجے جانے والے مشنز نے پانی کی موجودگی کی تصدیق کی ہے، یہ پانی چاند کے قطبوں پر ان گڑھوں میں برف کی صورت میں موجود ہے جن پر سورج کی کرنیں نہیں پڑتیں۔

    سانس دانوں کا ماننا ہے کہ اس میں دیگر مشتبہ عوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں جن میں 3.5 بلین سال قبل ایسٹیرائیڈز کی بمباری، اور آکسیجن اور ہائیڈروجن آئن فراہم کرنے والی شمسی ہوا شامل ہیں۔

    ٹیم کا اندازہ ہے کہ چاند پر 840 کیوبک میل سطح پر پرما فراسٹ یا زیر زمین مائع پانی موجود ہے، جو زمین کے ماحول سے نکل کر وہاں پہنچا ہے، اتنا پانی شمالی امریکا کی جھیل ہورون کو بھرنے کے لیے کافی ہے، جو کرہ ارض کی آٹھویں بڑی جھیل ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر کے سائنس دان اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح چاند پر انسانی رہائش کا حل تلاش کیا جا سکے۔

  • اس بار چودہویں کا چاند زیادہ بڑا اور روشن ہوگا

    اس بار چودہویں کا چاند زیادہ بڑا اور روشن ہوگا

    ریاض: سعودی ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ اس بار چودہویں کا چاند معمول سے بڑا اور روشن دکھائی دے گا کیونکہ یہ زمین کے زیادہ قریب ہوگا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق جدہ میں فلکیاتی انجمن کے سربراہ انجینیئر ماجد ابو زاہرۃ نے کہا ہے کہ اس سال سعودی عرب سمیت عالم عرب میں 14 ویں کا سب سے بڑا چاند نظر آئے گا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کرہ ارض کے معمول سے کچھ زیادہ قریب ہوگا، اس کا حجم زیادہ بڑا نظر آئے گا اور اس کی روشنی بھی زیادہ محسوس ہوگی۔

    انجینیئر ماجد کا کہنا تھا کہ اس موقع پر چاند کا مرکز اور زمین کا مرکز 362.146 کلو میٹر کے درمیان ہوگا، چاند زمین سے 362.127 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ سعودی عرب میں چودہویں کا چاند سورج غروب ہونے پر جنوب مشرق کے افق پر چمکتا ہوا نظر آئے گا، اس کا رنگ نارنجی جیسا ہوگا۔ اس کی وجہ کرہ ارض کے اطراف فضائی غلاف میں گرد آلود تہہ ہوگی۔

    انجینیئر ماجد کا مزید کہنا تھا کہ جیسے جیسے چاند اوپر اٹھے گا ویسے ویسے اس کا رنگ سفید چاندی جیسا ہونے لگے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چودہویں کا چاند رات بھر بڑا ہی رہے گا، چاند سورج سے 180 ڈگری کے زاویے پر ہوتا ہے، تب اسے چودہویں کا چاند کہا جاتا ہے۔

  • چاند پر پانی کی تلاش، روسی سائنس دانوں کی اہم ایجاد

    چاند پر پانی کی تلاش، روسی سائنس دانوں کی اہم ایجاد

    روسی سائنس دانوں نے ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جو چاند کی مٹی سے پانی نکال سکے گا، یہ روبوٹ مستقبل میں چاند کے اسٹیشن کو پانی فراہم کرنے اور راکٹ انجنوں کو ایندھن فراہم کرنے کے قابل بنائے گی۔

    روسی نیشنل ریسرچ سینٹر کرچاتوف انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ایک روبوٹ کا پروجیکٹ تیار کیا ہے جو چاند کی مٹی سے پانی نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    روبوٹ کی تخلیق مستقبل میں چاند کے اسٹیشن کو پانی فراہم کرنے اور راکٹ انجنوں کو ایندھن فراہم کرنے کے قابل بنائے گی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ قمری روورز کے موجودہ ملکی اور غیر ملکی منصوبے ریگولتھ، برف کے جمے ہوئے ٹکڑوں اور چاند کی مٹی کی دیگر اقسام سے پانی نکالنے کی سہولت فراہم نہیں کرتے، روسی سائنسدانوں کی ایجاد کردہ ڈیوائس اس مسئلے کو حل کر دے گی۔

    اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک قمری روور کا وزن تقریباً 1.4 ٹن ہوگا، اس کی لمبائی 4 میٹر اور چوڑائی 2 میٹر تک ہوگی۔

    اس کمپلیکس میں توانائی ذخیرہ کرنے اور کنٹرول کرنے کے نظام کے ساتھ ایک 8 بائی 8 پہیوں والی چیسس، پانی کو جمع کرنے کے لیے گرمی سے موصل کنٹینر اور زمین سے بخارات بننے کے لیے ایک کنٹینر، ایک کٹر، نیز سورج کی شعاعوں کا مرکز اور ایک شمسی بیٹری شامل ہوگی۔

    ایجاد کیے جانے والے اس روبوٹ کی تیکنیکی معلومات کے مطابق یہ ڈیوائس زمین سے اترنے والی گاڑی کے ذریعے چاند کے ایک مخصوص حصے تک پہنچائی جائے گی۔

  • غائب کرنے والے لباس کی تیاری کے لیے امریکا کا حیران کن منصوبہ

    غائب کرنے والے لباس کی تیاری کے لیے امریکا کا حیران کن منصوبہ

    امریکی حکومت کے ایک ایسے سائنسی تحقیقی پروگرام کے بارے میں انکشاف ہوا ہے جس نے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔

    امریکی دفاعی حکام کے اس پروگرام کی تفصیلات کا انکشاف اہم دستاویزات سامنے آنے پر ہوا ہے، جن کا تعلق ایڈوانسڈ ایرو اسپیس تھریٹ آئیڈینٹیفکیشن پروگرام (اے اے ٹی آئی پی) سے ہے جو اب ناکارہ ہو چکا ہے۔

    اس پروگرام کے تحت امریکی دفاعی حکام نے ٹیکس دہندگان کے لاکھوں ڈالر عجیب و غریب تجرباتی ٹیکنالوجیز پر خرچ کیے، جیسا کہ غائب کر دینے والا لباس، کشش ثقل مخالف آلات، ٹریورسیبل ورم ہولز، اور جوہری دھماکا خیز مواد کے ذریعے چاند میں سرنگ بنانا۔

    یہ خفیہ دستاویز وائس ڈاٹ کام نے شائع کیے ہیں، جن کے مطابق ان تجربات پر اے اے ٹی آئی پی کے تحت 2007 اور 2012 کے درمیان لاکھوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔

    اس تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے محکمہ دفاع کے حکام نے ‘ہلکے وزنی مواد’ کی تلاش کے لیے چاند پر سرنگیں بنانے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی تجاویز تیار کی تھیں، رپورٹس میں سے ایک میں ‘منفی ماس پروپلشن’ پر بحث کی گئی تھی، جس میں چاند کی کان کنی کے چونکا دینے والے منصوبے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

    مصنفین لکھتے ہیں کہ اسٹیل سے ایک لاکھ گنا ہلکا لیکن اسٹیل جتنی طاقت والا مادہ ممکنہ طور پر چاند کے مرکز میں پایا جا سکتا ہے، اس مواد تک پہنچنے کے لیے انھوں نے چاند کی پرت کو پھاڑنے کے لیے تھرمو نیوکلیئر دھماکا خیز مواد کا استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

    واضح رہے کہ AATIP کا وجود اس وقت سامنے آیا تھا جب اس کے ڈائریکٹر لوئس ایلیزونڈو نے اڑن طشتریوں کی رپورٹس کے ساتھ منظر عام پر آنے سے پہلے 2017 میں استعفیٰ دے دیا تھا، اگرچہ اس پروگرام کو اب ختم کر دیا گیا ہے، لیکن امریکی حکام چاند کی کان کنی کے خیال سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔

    ناسا کے منتظم جم برائیڈنسٹائن کے مطابق ناسا اب بھی چاند سے خلائی چٹانوں کی کان کنی کے منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ‘سینکڑوں بلین ڈالر کے غیر استعمال شدہ وسائل’ ہیں۔

  • کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا جس میں ہمارے نظام شمسی کے 4 سیارے ایک قطار میں موجود ہوں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کل نظام شمسی کے 4 سیارے ایک سیدھی قطار میں آجائیں گے، اس نایاب قدرتی مظہر کا نظارہ شمالی نصف کرے سے کیا جا سکے گا۔

    سیاروں کے سیدھی قطار میں آنے کا عمل 17 اپریل سے شروع ہو گیا تھا لیکن اس قطار کو بہترین شکل میں کل صبح کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    اس قطار کا نظارہ کل شفق پھوٹنے سے پہلے آسمان پر کیا جا سکے گا۔ 23 اپریل سے زمین کا چاند بھی اس قطار میں شامل ہو جائے گا۔

    24 جون کو نظام شمسی کے دیگر تمام سیارے مزید بڑی سیاراتی ترتیب میں جمع ہو جائیں گے لیکن اس کا نظارہ دوربین یا ٹیلی اسکوپ سے کیا جا سکے گا۔

    واضح رہے کہ آنکھ سے دیکھی جا سکنے والی ترتیب بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، سنہ 2005 سے اب تک صرف تین دفعہ سیاروں کو قطار میں دیکھا گیا ہے۔

  • خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلا میں اس وقت تباہ شدہ راکٹس اور سیٹلائٹس کا ملبہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، ایسے ہی ایک راکٹ کا ٹکڑا چاند کی سطح سے جا ٹکرایا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ناسا کا کہنا ہے کہ خلا میں گھومتے بے قابو راکٹ کا ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا ہے۔

    سائنس دانوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ خلا میں کئی سالوں سے زیر گردش ناکارہ راکٹ کا تین ٹن وزنی ٹکڑا چاند کے اس حصے سے ٹکرا گیا ہے جو کہ خلائی دوربین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    اس حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس تصادم میں چاند پر بہت معمولی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور ہوسکتا ہے اس سے چاند کی سطح پر چھوٹا گڑھا بننے سے گرد و غبار کے بادل پیدا ہوئے ہوں۔

    تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دنوں یا ہفتوں میں سامنے آجائیں گی۔

    سائنس داں اس راکٹ کے ٹکڑے کو کئی سالوں سے ٹریک کر رہے تھے۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ اس کا تعلق ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس سے ہے لیکن بعد میں اس کا تعلق چین کے کسی راکٹ سے جوڑا گیا تھا جس پر چین اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری بھی سامنے آئی۔

    ناسا کے مطابق راکٹ کے اس حصے کو مارچ 2015 میں ناسا کی جانب سے ریاست ایری زونا میں ہونے والے اس سروے کے دوران دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں سائنس دانوں کی اس میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی کیوں کہ وہ ابتدا میں اسے شہاب ثاقب سمجھ رہے تھے۔ اس وقت اسے خلائی کچرا تصور کیا گیا تھا۔

    خلائی کچرا اس وقت ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک محتاط اندازے کے مطابق خلا میں زیر گردش کچرے میں 36 ہزار 500 ٹکڑے جسامت میں 10 سینٹی میٹر (4 انچ) سے بھی بڑے ہیں۔

    جبکہ اس کچرے کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی خلائی پروگرام شروع نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ یہ بہت مہنگا کام ہے۔

  • چاند کا درجہ حرارت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    چاند کا درجہ حرارت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ چاند پر دن کے وقت درجہ حرارت 120 ڈگری سینٹی گریڈ، اور رات کے وقت منفی 130 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوسکتا ہے۔

    ناسا کے مطابق چاند کے خط استوا پر قمری دن کے وقت چاند کا درجہ حرارت 120 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ سکتا ہے۔

    اگست 2019 میں جرنل جیو فزیکل ریسرچ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چاند کا دن کا وقت زمین کے دو ہفتوں کے برابر ہوتا ہے، اور چاند کو اپنا ایک دن مکمل کرنے کے لیے دنیاوی 27.3 دن درکار ہوتے ہیں۔

    ناسا کے مطابق چاند کا رات وقت بھی تقریباً دو ہفتے طویل ہوتا ہے، جس کے دوران چاند کا درجہ حرارت منفی 130 ڈگری سیلسیئس تک گر جاتا ہے۔

    چاند کے قطبین کے قریب کچھ جگہوں پر درجہ حرارت منفی 253 ڈگری سیلسیئس تک گر سکتا ہے۔

    ان ڈرامائی شدتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چاند کے پاس کوئی ایٹماسفیئر نہیں ہے جو گرمائش کو روک سکے۔

    چاند کے اطراف گیسز کی پرت کے نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہاں موجود گڑھے اور اہم نشانات اس طریقے سے ختم نہیں ہوئے جس طرح سے زمین پر ہوئے۔

    ناسا کا لونر ریکنائسنس آربِٹر چاند کے درجہ حرارت کے مطابق بہترین معلومات فراہم کرتا ہےم اس مشن کو سنہ 2009 میں لانچ کیا گیا تھا۔

  • زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر ڈائنوسار سے بھی کروڑوں سال قدیم چاند جیسا گڑھا دریافت ہوا ہے، جس نے ارضیاتی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

    امریکی ریاست ویومنگ کا مطالعہ کرنے والے ماہرینِ ارضیات نے شہابِ ثاقب کے نتیجے میں پڑنے والا ایسا گڑھا دریافت کیا ہے جس کو اس سے قبل زمین پر کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ گڑھا ڈائنو سار کی موجودگی سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آیا، اور اسے شہابی پتھر کا گڑھا کہا جا رہا ہے، جو کسی شہابی پتھر کے گرنے کے نتیجے میں بنا ہے۔

    اس سلسلے میں جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکا بلیٹن نامی جریدے میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جرمن اور امریکی سائنس دانوں کی ٹیم نے ثانوی اثرات کے گڑھوں کا ایک میدان دریافت کیا ہے، جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ میدان تقریباً 280 ملین سال پہلے ایک بڑے اور اصل شہابی پتھر کے گرنے کے بعد اس سے نکلنے والے مواد کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ثانوی گڑھے نظام شمسی کے چٹانی اجسام میں عام ملتے ہیں، یہ وہ سیارے ہیں جہاں یا تو ماحول ہے ہی نہیں یا پھر وہاں باریک ماحول ہے یعنی ٹھنڈا ماحول جہاں زندگی نہیں پنپ سکتی، جیسا چاند اور مریخ۔ تاہم یہ ثانوی گڑھے (Secondary craters) زمین یا وینس جیسے دبیز ماحول والے (یعنی جو گرم سیارے ہیں) اجسام میں نایاب ہیں۔

    محققین نے مقالے میں لکھا کہ یہاں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے کہ زمین پر سیکنڈری کریٹرنگ ممکن ہے، محققین نے 10 سے 70 میٹر قطر کے 31 گڑھوں کی باقاعدہ نشان دہی کر دی ہے، جس کو وہ ویومنگ امپیکٹ کریٹر فیلڈ کہتے ہیں، جنوب مغربی ویومنگ میں اس کا رقبہ 40 بائی 90 کلومیٹر ہے، جو کیسپر، ڈگلس اور لارامی کے شہروں کے قریب ہے۔

    انھوں نے 60 ممکنہ دیگر گڑھوں کی بھی نشان دہی کی ہے، تاہم ان کی تصدیق کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اب تک زمین پر شہابِ ثاقب کی وجہ سے بننے والے صرف 208 گڑھے دریافت ہوئے ہیں۔