Tag: moon

  • ایلون مسک کی کمپنی کا بے قابو راکٹ چاند سے ٹکرانے والا ہے

    ایلون مسک کی کمپنی کا بے قابو راکٹ چاند سے ٹکرانے والا ہے

    ایلون مسک کی خلائی تحقیقی کمپنی اسپیکس ایکس کی طرف سے لانچ کیا گیا ایک راکٹ جلد ہی چاند پر گر کر پھٹنے والا ہے۔

    فالکن 9 نامی اس بوسٹر کو 2015 میں لانچ کیا گیا تھا، لیکن اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد اس کے پاس اتنا ایندھن نہیں بچا تھا کہ وہ زمین کی طرف لوٹ سکے، اس لیے یہ واپس آنے کی بجائے خلا میں ہی رہا۔

    ماہر فلکیات جوناتھن میک ڈوویل نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ یہ کسی بے قابو راکٹ کا چاند کے ساتھ پہلا تصادم ہوگا، تاہم اس کے اثرات معمولی نوعیت کے ہوں گے۔

    اس راکٹ کو خلائی موسمی سیٹلائٹ بھیجنے کے مشن پر 7 سال قبل ایک ملین میل کے سفر پر روانہ کیا گیا تھا، جس کی تکمیل پر اسے مدار ہی میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

    یہ راکٹ ایلون مسک کے خلائی تحقیق کے پروگرام SpaceX کا حصہ تھا، جو کہ ایک تجارتی کمپنی ہے اور جس کا مقصد دوسرے سیاروں پر انسانوں کی رہائش کے امکانات تلاش کرنا ہے۔

    امریکا میں قائم ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے پروفیسر میک ڈوویل بتاتے ہیں کہ 2015 سے اس راکٹ کو زمین، چاند اور سورج کی مختلف کشش ثقل کی قوتوں نے اپنی طرف کھینچا ہے، جس کی وجہ سے اس کا راستہ کچھ گڈمڈ ہو گیا ہے، اس میں جان نہیں رہی، یہ بس کشش ثقل ہی پر اب حرکت کر رہا ہے۔

    یہ راکٹ بھی خلائی ردی کے لاکھوں دوسرے ٹکڑوں میں شامل ہو گیا ہے، یہ ٹکڑے ان مشینریوں پر مشتمل ہیں جو مشن کی تکمیل کے بعد زمین پر واپس جانے کے لیے کافی توانائی نہ ہونے کے بعد خلا ہی میں چھوڑی دی جاتی ہیں۔

    یہ تصادم 4 مارچ کو ہونے والا ہے، راکٹ چاند کی سطح سے ٹکراتے ہی پھٹ جائے گا۔ پروفیسر میک ڈوویل کے مطابق یہ بنیادی طور پر ایک 4 ٹن کا خالی دھاتی ٹینک ہے، جس کی پشت پر ایک راکٹ انجن لگا ہوا ہے، لیکن اگر آپ اسے 5 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی چٹان پر پھینکیں گے تو اس سے یقیناً ایک بڑا دھماکا ہوگا، اس سے چاند کی سطح پر ایک چھوٹا مصنوعی گڑھا بن جائے گا۔

  • زلزلوں کا سبب زمین کی حرکت نہیں، چاند کی کشش ہے: نئی تحقیق

    زلزلوں کا سبب زمین کی حرکت نہیں، چاند کی کشش ہے: نئی تحقیق

    اب تک سمجھا جاتا رہا تھا کہ زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹس جن کی حرکت زلزلوں کا سبب بنتی ہے، زمین کی حرکت کی وجہ سے ہلتی ہیں، تاہم اب اس حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹس کا سخت خول ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے اور زمین اور اس کے اوپر بسنے والی زندگی کو متعدد طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔

    یہ بڑی پلیٹیں شاید آہستہ حرکت کرتی ہیں لیکن یہ زمین کے منظر پر منفرد چیزوں کی تخلیق کا سبب ہوتی ہیں جیسے کہ پہاڑ، کھائیاں، انفرادی جزیرے، آرکیپیلیگو (سمندر میں جزیروں کا سلسلہ) اور سمندری خندقیں۔ یہ سب برِ اعظموں کے پیمانے پر ہوتا ہے۔

    تاہم، زلزلے، آتش فشاں اور سونامی بھی زمین کے مرکز کی بیرونی چٹانی پرت، جس کو لیتھو سفیئر کہتے ہیں، کی مستقل حرکت کے نتیجے میں آتے ہیں۔

    ٹیکٹونک پلیٹ فی سال اوسطاً 40 ملی میٹر حرکت کرتی ہے، یہ رفتار ناخن بڑھنے کی رفتار کے برابر ہی ہے۔

    جنوبی امریکا کی مغرب میں نازکا پلیٹ سب سے تیزی سے یعنی 160 ملی میٹر فی سال کی رفتار سے حرکت کرتی ہے، یہ رفتار بال کے بڑھنے کی رفتارکے قریب ہے۔

    پلیٹوں کی حرکت کے متعلق اتفاق رائے کے مطابق زمین کے مرکز میں موجود بڑے پیمانے پر گرم توانائی پلیٹوں کا حرکت کا سبب ہوتی ہے۔

    لیکن سینٹ لوئس میں موجود واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی نئی تحقیق کے مطابق زمین کے اندر اتنی توانائی موجود نہیں کہ وہ ٹیکٹونک پلیٹوں کو ہلا سکیں، اس کے بجائے زمین، چاند اور سورج کے درمیان غیر متوازی کششِ ثقل ایک ساتھ پورے مرکز کی گردش کا سبب بنتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی پلیٹیں شاید اس لیے ہلتی ہوں کہ سورج چاند پر طاقتور کششِ ثقل کا کھنچاؤ ڈالتا ہو جو زمین کے گرد چاند کے مدار کو طویل کرتا ہو۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ بیری سینٹر کی پوزیشن زمین کی سطح سے قریب ہوئی ہے، بیری سینٹر زمین اور چاند کے سینٹر آف ماس کو کہا جاتا ہے۔ یہ اب زمین کے مرکز کی نسبت 600 کلو میٹر فی ماہ آگے پیچھے حرکت کرتا ہے۔

    زمین کے گردش جاری رکھنے پر یہ عمل اندرونی دباؤ کو بھی بڑھاتا ہے۔

  • چین مصنوعی چاند بنائے گا

    چین مصنوعی چاند بنائے گا

    بیجنگ: چین بہت جلد مصنوعی چاند کو متعارف کروا دے گا جس میں زمین کے سیٹلائیٹ جیسی کشش ثقل اور ماحول موجود ہوگا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق چین کی جانب سے شوژو نامی شہر میں ایک ایسا تحقیقی مرکز تعمیر کیا جارہا ہے جہاں چاند جیسا ماحول تشکیل دیا جائے گا، یہ اپنی طرز کا پہلا تحقیقی ادارہ ہوگا جہاں مقناطیس کو استعمال کر کے چاند جیسے ماحول کو بنایا جائے گا۔

    اس مرکز کے اندر ایک ویکیوم چیمبر ایک چھوٹے چاند کا گھر ہوگا جہاں چاند کی سطح جیسی چٹانیں وغیرہ موجود ہوں گی۔

    چائنا یونیورسٹی آف مائننگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدان لی ریولین نے بتایا کہ اس مرکز سے چین کے خلائی منصوبوں کو تقویت ملے گی اور ماہرین کو مختلف باتوں کی کھوج کرنے مین مدد مل سکے گی، جیسے چاند پر انفراسٹرکچر کی تعمیر وغیرہ۔

    چین کی جانب سے خلائی پروگرامز پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جارہے ہیں اور متعدد مشنز روانہ کیے گئے ہیں جیسے چاند کے تاریک حصے پر دنیا کا پہلا مشن بھیجنا اور 2021 میں مریخ پر پہلے مشن کا کامیابی سے پہنچنا۔

    چین نے 2021 میں روس کے ساتھ مل کر چاند پر ایک مشترکہ تحقیقاتی مرکز کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان بھی کیا تھا جبکہ وہ 2030 تک چاند پر اپنے خلا بازوں کو بھیجنے کا بھی خواہش مند ہے۔

    چینی سائنس دانوں کو توقع ہے کہ مصنوعی چاند مستقبل میں چاند پر بھیجے جانے والے مشنز میں اہم کردار ادا کرسکے گا جبکہ خلا بازوں کو کم کشش ثقل کے لیے تیار ہونے کا موقع مل سکے گا۔

    لی ریولین نے بتایا کہ اس سے یہ تعین کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کہ مہنگی اور بھاری مشینری کو وہاں پہنچانے سے قبل چاند کی سطح پر تھری ڈی پرنٹنگ ممکن ہے یا نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ چاند جیسے ماحول میں کچھ تجربات سے ہمیں چند اہم اشارے بھی مل سکیں گے جیسے چاند کی سطح کے اندر کہاں پھنسے ہوئے پانی کو دیکھنا چاہیئے وغیرہ۔

    مگر چاند جیسے ماحول کے لیے تیار ہونے والے کمرے میں مقناطیسی کشش کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے سائنسدانوں کو ابھی متعدد ٹیکنالوجیز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

  • چاند پر موجود آکسیجن سے متعلق بڑا انکشاف

    چاند پر موجود آکسیجن سے متعلق بڑا انکشاف

    چاند کی مٹی اور پتھروں پر تحقیق کرنے والے خلائی سائنس کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ چاند پر موجود آکسیجن دنیا کے انسانوں کے لیے ایک لاکھ سال تک کافی ہوگی۔

    گزشتہ ماہ اکتوبر میں، آسٹریلوی خلائی ایجنسی اور ناسا نے آرٹیمس پروگرام کے تحت چاند پر آسٹریلوی ساختہ روور بھیجنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مقصد چاند کی چٹانوں کو جمع کرنا ہے، ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ چاند پر سانس لینے کے قابل آکسیجن فراہم کر سکتے ہیں۔

    اس سلسلے میں چھپنے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ چاند پر موجود مٹی، پتھروں اور چٹانوں پر اتنی آکسیجن موجود ہے کہ وہ دنیا کے 8 ارب انسانوں کے لیے ایک لاکھ سال تک بھی کم نہیں ہوگی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سائنس دان چاند کی مٹی اور چٹانوں سے آکسیجن لے کر انسانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کا طریقہ وضع کر لیں تو چاند پر انسانوں کی بستیاں بسائی جا سکتی ہیں، کیوں کہ یہ آکسیجن مرکبات کی شکل میں ہے، جب کہ چاند پر ہوا کا تناسب نہ ہونے کا برابر ہے، اور ہوا میں زیادہ مقدار ہیلیم، نیون اور ہائیڈروجن کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدنیات جیسا کہ سیلیکا، ایلومینیم، آئرن اور میگنیشیم آکسائیڈز چاند کی زمین کی سطح پر بڑی مقدار میں موجود ہیں، اور یہ تمام معدنیات آکسیجن پر مشتمل ہوتی ہیں، لیکن اس شکل میں نہیں جس تک ہمارے پھیپھڑے رسائی حاصل کر سکیں۔

    یہ مواد ان گنت ہزار سالوں سے چاند کی سطح پر ٹکرانے والے شہابیوں کے اثرات کے نتیجے میں آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چاند کی چٹانوں میں 45 فی صد تک آکسیجن موجود ہے، لیکن ان مرکبات کو توڑ کر آکسیجن کو خالص شکل میں لانے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں توانائی صرف کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

    اس لیے اگر چاند پر توانائی کا انتظام کر کے آکسیجن حاصل کی جائے، یا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر لیا جائے کہ کم توانائی کے استعمال سے ہی آکسیجن کو مرکبات سے الگ کیا جا سکے، تو چاند پر انسانی زندگی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

  • مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی

    مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی ٹیلی اسکوپ ہبل نے سیارہ مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنسدانوں نے سیارہ مشتری کے خوبصورت چاند جینی میڈ پر آبی بخارات کی دریافت کا اشارہ دیا ہے۔

    پانی کے بخارات اس وقت وجود پاتے ہیں جب چاند کی سطح سے برفیلے ذرات ٹھوس سے گیس میں بدل جاتے ہیں۔ یہ تحقیق ہبل خلائی دوربین کی بدولت ممکن ہوئی ہے جس سے حاصل شدہ غیر معمولی ڈیٹا اب بھی سائنسدانوں کے زیرِ مطالعہ ہے۔

    جینی میڈ نہ صرف سیارہ مشتری بلکہ نظام شمسی کا بھی سب سے بڑا چاند ہے، اس سے قبل کہا گیا تھا کہ اس پر زمین کے تمام سمندروں سے زائد پانی موجود ہے۔ لیکن درجہ حرارت اتنا سرد ہے کہ وہ پانی منجمد ہوچکا ہے۔ لیکن جینی میڈ کا سمندر لگ بھگ 100 میل گہرائی میں موجود ہے جو قشرِ جینی میڈ کے نیچے پایا جاتا ہے۔

    ماہرینِ فلکیات گزشتہ بیس برس سے ہبل کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے جینی میڈ پر پانی کے بخارات کی تلاش میں ہیں۔ سنہ 1998 میں ہبل خلائی دوربین نے عکسی طیف نگاروں کی بدولت جینی میڈ کی اولین تصاویرلی تھیں۔ ان میں دو تصاویر بہت مقبول ہوئیں جن میں برق ذدہ گیس کی رنگین پٹیوں نما ساخت دیکھی جاسکتی ہے جبکہ ایک اور تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند کا کمزور مقناطیسی میدان بھی ہے۔

    اگرچہ بعض تصاویر وہاں آکسیجن کے سالمے او 2 کو ظاہر کرتی ہیں لیکن بعض تصاویر یک ایٹمی آکسیجن کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ پھر مزید تحقیق کی گئی تو 2018 میں ناسا کے جونو مشن کے مشاہدات اور ہبل کی تصاویر کا باہم موازنہ کیا گیا ۔ یہ کام کے ٹی ایچ رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سوئیڈن کے سائنسدانوں نے کیا۔ اس میں 1998 سے 2010 تک ہبل کا ڈیٹا بھی پڑھا گیا جس میں زیادہ تر تصاویر شامل تھیں۔

    ماہرین پر انکشاف ہوا کہ جینی میڈ کا درجہ حرارت بدلتا رہتا ہے اور دن کے اوقات میں خط استوا پر اتنی گرمی ضرور ہوتی ہے کہ منجمد برف کا کچھ حصہ پگھل کر بھاپ کی شکل اختیار کرلیتا ہے،بعد ازاں اس کی مزید تصدیق بھی ہوگئی۔

    اس طرح سالماتی آکسیجن کی تصدیق ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ درجہ حرارت میں تبدیلی سے پانی کے بخارات بن رہے ہیں۔

    سنہ 2022 میں ایک جدید ترین خلائی جہاز اسی مقصد کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی کا یہ جہاز جوس کے نام سے مشہور ہے اور 2029 میں مشتری اور اس کے چاندوں تک پہنچے گا، توقع ہے کہ اس کے تفصیلی مشاہدے سے اولین نتائج کی تصدیق ہوسکے گی۔

  • اگر چاند کہیں غائب ہوجائے تو کیا ہوگا؟

    اگر چاند کہیں غائب ہوجائے تو کیا ہوگا؟

    کیا کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر چاند اچانک غائب ہو جائے تو ہمارا کیا ہوگا؟ اس سوال سے مختلف سوال پیدا ہوں گے، کیا ہماری راتیں مکمل اندھیری ہو جائیں گی؟ سمندری لہروں اور موسموں پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا چاند کی عدم موجودگی ہماری نیند کو بھی متاثر کرے گی؟ یا نتائج اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے؟

    آئیں ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔

    دراصل ہماری زمین کے اس قریبی ترین آسمانی پڑوسی کی بھی اپنی کشش ثقل ہے، جو زمین سے کہیں کمزور ہے لیکن اس پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔ اسی کشش کا رد عمل ہوتا ہے کہ سمندر میں جوار بھاٹا یا مد و جزر آتا ہے اور اس کی لہریں کہیں آگے بڑھتی اور کہیں پیچھے ہٹتی ہیں۔ ان لہروں کو توانائی تو ہوا سے ملتی ہے لیکن انہیں صورت یہی جوار بھاٹا دیتا ہے۔

    پھر یہ چاند کی کشش ثقل کا اپنی جانب کھینچنا ہی ہے کہ زمین سورج کے مقابلے میں اپنے محور پر 23.5 کا جھکاؤ رکھتی ہے۔ یہ جھکاؤ ہی ہمیں چار موسم دیتا ہے اور ایسی آب و ہوا کہ جس میں ہم رہ سکتے ہیں۔ یعنی چاند نہ ہو تو زمین رہے کے قابل نہ رہے۔

    اگر چاند نہ ہو تو زمین پر دن بھی صرف 6 سے 8 گھنٹے کا رہ جائے گا۔ کروڑہا سالوں میں سمندری مد و جزر میں آنے والی تبدیلیاں اور ان کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے زمین کی گردش سست ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں 24 گھنٹے کا دن ملتا ہے۔ اگر چاند باقی نہ رہے اور اس کی کشش موجود نہ ہو تو زمین اپنے محور پر موجودہ رفتار سے تین سے چار گنا زیادہ تیزی سے گھومے گی اور یہ بہت ہی بھیانک صورتحال ہوگی۔

    اپنے محور پر اتنی تیزی سے گردش کرنے کی وجہ سے زمین پر 480 کلومیٹرز فی گھنٹے تک کی رفتار رکھنے والی ہوائیں چلیں گی۔ پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے بچنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں رہے گا اور پودے بھی وہی بچیں گے جو بہت گہری جڑیں رکھتے ہوں اور جانور بھی ایسے جو بہت چھوٹے اور بہت سخت جان ہوں۔

    زیادہ تر سمندری مخلوق بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ بحری مخلوقات کی بقا کا انحصار سمندری کرنٹ پر ہوتا ہے۔ یہ کرنٹ پانی میں موجود غذائیت کو سمندری فرش سے اوپر کی سطح پر لاتی ہیں اور آکسیجن سے بھرپور سطح کے پانی کو گہرائی میں لے جاتی ہیں۔ مد و جزر تب بھی ہوگا لیکن اس پر اثر صرف سورج ہی ڈالے گا، جو 93 ملین میل کے فاصلے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ جوار بھاٹا صرف ایک تہائی ہی رہ جائے گا۔

    سمندری تبدیلیوں کی وجہ سے ساحلی علاقے بری طرح متاثر ہوں گے اور بیشتر علاقے زیرِ آب آجائیں گے۔ کیونکہ بغیر چاند کی دنیا میں خط استوا پر موجود سمندری پانی گرم اور قطبین یعنی پولز پر موجود پانی مزید ٹھنڈا ہو جائے گا، یہی اثرات زمینی علاقوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

    زمین کے اپنے محور پر جھکاؤ میں تبدیلی آنے سے مزید موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور کئی علاقے انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں بچیں گے، بیشتر فصلوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور درجہ حرارت میں تبدیلی سے ایسے برفانی دور کا آغاز ہوگا، جس کا انسان نے کبھی سامنا نہیں کیا۔

  • کیا واقعی چاند اتنا قریب ہے؟ وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

    کیا واقعی چاند اتنا قریب ہے؟ وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

    گزشتہ چند روز سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں قطب شمالی میں چاند کو ابھرتا اور پھر ڈوبتا ہوا دکھایا گیا ہے، متعدد فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس نے اسے جعلی ثابت کردیا۔

    فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر وائرل ہونے والی 30 سیکنڈز کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاند طلوع ہورہا ہے اور اس کا حجم بہت بڑا ہے، ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ روس اور کینیڈا کے درمیان قطب شمالی کی ویڈیو ہے جہاں سے چاند اتنا ہی بڑا دکھائی دیتا ہے۔

    اسے پوسٹ کرنے والے ایک صارف نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب شمالی میں 30 سیکنڈز کے لیے چاند اتنا بڑا دکھائی دیتا ہے، اس کے بعد 5 سیکنڈز کے لیے سورج کے سامنے آ کر اسے گرہن لگا دیتا ہے اور پھر غروب ہوجاتا ہے۔

    تاہم جلد ہی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معلوم ہوگیا کہ یہ ویڈیو اینی میشن کا کمال ہے، اسے ایک ٹاک ٹاکر نے بنایا تھا جو اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کی اینی میٹڈ ویڈیوز بناتا رہا ہے۔

    البتہ اس سے پہلے ہی اس ویڈیو کی حقیقت کسی فیکٹ چیک کے بغیر کامن سینس کے ذریعے پہچانی جاسکتی ہے۔

    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چاند اور زمین ایک دوسرے سے اس قدر فاصلے پر یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلومیٹر دور واقع ہیں کہ زمین کے کسی بھی حصے سے چاند کا اتنا بڑا دیکھا جانا ممکن نہیں۔ ویڈیو میں چاند اتنا قریب دکھائی دے رہا ہے جیسے ایک جست لگا کر اس تک پہنچا جاسکے۔

    ماہرین نے اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی چند مزید غیر معمولی چیزوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو اس ویڈیو کو جعلی ثابت کرتی ہیں۔ جیسے کہ زمین پر گھاس کا ہونا، جبکہ قطب شمالی برفانی علاقہ ہے جہاں سال کے 12 ماہ زمین پر برف رہتی ہے۔

    علاوہ ازیں ویڈیو میں دکھائی دینے والی جھیل میں چاند کا سایہ بھی نہیں پڑ رہا جبکہ چاند بھی بہت تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کے گرد گھومنے والا چاند کا مدار اس قدر مکمل دائرے میں نہیں جیسے کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاند پرفیکٹ دائرے کی صورت میں حرکت کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس کا مدار کسی حد تک بیضوی ہے۔

    اس جعلی ویڈیو کو گزشتہ چند روز میں لاکھوں صارفین نے شیئر کیا –

  • سعودی عرب: رمضان کے چاند کے حوالے سے اہم خبر

    سعودی عرب: رمضان کے چاند کے حوالے سے اہم خبر

    ریاض: سعودی عرب کی سپریم کورٹ نے لوگوں سے چاند دیکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے والے اپنی گواہی ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کی سپریم کورٹ نے اتوار کی شام رمضان کا چاند دیکھنے کی اپیل کردی ہے، عدالت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جو بھی رمضان کا چاند دیکھے اپنی گواہی ریکارڈ کروا سکتا ہے۔

    جمعے کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ام القریٰ کیلنڈر کے مطابق شعبان کا چاند 29 رجب کو دکھائی نہیں دیا تھا، جس کا سبب مملکت میں موسم کا غبار آلود ہونا بتایا گیا۔ اس کے بعد ام القریٰ کے کیلنڈر کے مطابق تاریخ کا تعین کیا گیا۔

    عدالت نے اس حوالے سے مزید کہا کہ اتوار کو مملکت کے تمام علاقوں میں رمضان کا چاند دیکھنے کی اپیل کی جاتی ہے۔

    عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی کو رمضان کا چاند دکھائی دے تو وہ اپنی گواہی کو ریکارڈ کروائے، اتوار کو چاند دکھائی نہ دینے کی صورت میں پیر جو کہ ام القریٰ کیلنڈر کے مطابق 30 شعبان، جبکہ عدالتی فیصلے کے مطابق 29 شعبان ہے، کی شام کو چاند دیکھا جائے۔

  • سعودی عرب: پہلا روزہ کب ہوگا؟

    سعودی عرب: پہلا روزہ کب ہوگا؟

    ریاض: سعودی ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ فلکیاتی مطالعے کے مطابق سعودی عرب میں پہلا روزہ 13 اپریل بروز منگل جبکہ عید الفطر 13 مئی کو متوقع ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ماہر فلکیات ڈاکٹر خالد الزعاق کا کہنا ہے کہ فلکیاتی مطالعے سے کیے جانے والے تجزیے کے مطابق سعودی عرب میں پہلا روزہ 13 اپریل بروز منگل کو متوقع ہے۔

    ڈاکٹر خالد کا کہنا ہے کہ امسال 30 روزے اور ماہ رمضان المبارک میں 4 جمعہ ہوں گے جبکہ عید الفطر 13 مئی کو متوقع ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فلکیاتی مطالعے کے مطابق اتوار کی شام غروب آفتاب کے بعد چاند کی پیدائش کا دور دور تک امکان نہیں، چاند پیر کی شام غروب آفتاب کے بعد دیکھا جا سکے گا۔

    فلکیاتی مطالعے اور تجزیے کی رو سے ڈاکٹر خالد نے توقع ظاہر کی ہے کہ پہلا روزہ منگل کے دن ہوگا۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں ہلال کمیٹی کے فیصلے پر چاند کا اعلان کیا جاتا ہے، اس حوالے سے مملکت کے طول و عرض سے موصول ہونے والی شہادتوں کی بنیاد پر کمیٹی چاند دکھائی دینے کا اعلان کرتی ہے۔

  • کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہوئی تو کیا اس وقت زمین پر موجود تمام جاندار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے؟ شاید ماہرین نے اب اس سوال کا جواب نفی میں دے دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں پائے جانے والے 67 لاکھ جانداروں کے ڈی این اے نمونے کشتی نوح کی طرح چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔

    سائنسدانوں نے اسے ماڈرن گلوبل انشورنس پالیسی قرار دیا ہے جس کے تحت تمام جانداروں کے بیج، اسپرمز اور بیضے چاند کی سطح کے نیچے ایک والٹ میں محفوظ کیے جائیں گے۔

    امریکا کی ایری زونا یونیورسٹی کے 6 سائنسدانوں نے یہ منصوبہ مارچ کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجنیئرز ایرو اسپیس کانفرنس کے دوران پیش کیا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچانے مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کو لونر آرک کا نام دیا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہو تو یہ منصوبہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کو معدوم ہونے سے بچا سکے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا ماحول قدرتی طور پر کمزور ہے، مگر چاند پر زمینی حیات کے ڈین این اے نمونوں کو محفوظ کرنے سے کسی بہت بڑے سانحے سے جانداروں کی اقسام معدوم ہونے پر بچایا جاسکے گا۔

    ویسے تو یہ خیال کسی سائنس فکشن ناول یا فلم کا لگتا ہے، مگر اسے پیش کرنے والے سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 67 لاکھ جانداروں کے اسپرم، بیضے اور بیجوں کو چاند پر محفوظ کرنا قابل عمل آپریشن ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان نمونوں کو ڈھائی سو خلائی پروازوں کے ذریعے چاند پر پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 40 پروازوں کی ضرورت ہوگی۔

    ان نمونوں کو چاند کی سطح کے نیچے منجمد ہونے یا ایک دوسرے سے جڑنے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس والٹ کو سولر پینلز سے پاور فراہم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبوں سے انسانیت کو خلائی تہذیب بنانے میں پیشرفت ہوگی اور مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر انسانوں کے بیسز ہوں گے۔

    اس طرح کے منصوبے کے لیے چاند پر مرکز بنانا بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے چاند پر بھیجے جانے والے مشنز سے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کے لیے کھربوں ڈالرز درکار ہوں گے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داری سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس منصوبے کو 10 سے 15 سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔