Tag: moon

  • چاند پر لینڈنگ کے بارے میں تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

    چاند پر لینڈنگ کے بارے میں تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

    آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی ر ہے ہیں جہاں کسی بھی خبر کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں چند منٹ لگتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ہی گھنٹوں میں اس سے متعلق مثبت اور منفی تبصرے زبان  ِزدِ عام ہوتے ہیں ۔ مگر0 5برس قبل جب امریکہ نے اپنا پہلاانسانی مشن چاند کی جانب بھیجا اور نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر خود کو تاریخ میں امر کیا ، اس وقت آج کی طرح نہ تیز تر مواصلاتی ذرا ئع تھے اور نہ ہی سوشل میڈیا مو جود تھا ۔لہذا ابتدا میں اس مشن کے متعلق جو چہ مگوئیاں ہوئیں اور شکوک وشبہات اٹھائے گئے وہ اخبارات کی سرخیوں تک محدود رہے جن میں بغیر ثبوت کے صرف سنی سنائی باتوں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم اصلی نہیں بلکہ کسی سٹوڈیو میں فلمائی گئی ایک فلم تھی۔

    پچاس برس قبل عوام کے پاس تیز تر مواصلاتی ذرائع نہیں تھے لہذاٰاس دور میں مستند معلومات کا حصول محض کتابوں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ چاند کے سفر کے بارے میں شکوک و شبہات پہلی دفعہ 1974 میں بل کیسنگ کی کتاب ‘ وی نیور وینٹ ٹو مون” یا "انسان کبھی چاندپر نہیں گیا ” میں منظر ِ عام پر آئے۔ اگرچہ بل کیسنگ 1950 میں راکٹ ڈائن سے باحیثیت تکنیکی لکھاری وابستہ تھے اور اس حوالے سے کافی معلومات رکھتے تھے مگر پھر بھی انھوں نے کتاب میں سر سری حوالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اپولو الیون دراصل ایریا الیون نامی پروڈکشن سٹو ڈیو کی تیار کردہ ایک فلم تھی جسے ناسا نے لائیو نشریات کے طور پر دکھایا۔ کتاب کے جلد ہی مشہور ہوجانے کے بعد جب کیسنگ کو اس حوالے سے بحث کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اعتراف کیا کہ انکی نا صرف اپولو مشن بلکہ راکٹ کا بارے میں بھی معلومات سرسری ہیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی کتاب میں برملا لکھا کہ اس مشن کے حقیقت ہونے کے امکانات محض 0.0017 فیصد ہیں ۔

    کیسنگ کی کتاب شائع ہوتے ہی اپولو مشن کو جعلی ریکارڈنگ سمجھنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی کیونکہ اس دور میں ویت نام کی جنگ اور واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے امریکی حکومت عوام کا اعتبار پہلی ہی کھو چکی تھی۔ 1971میں نائٹ نیوز پیپر کی جانب سے ایک سروے کراوا یا گیا تو مون لینڈنگ پر یقین کرنے والے امریکیوں کی تعداد 30 فیصد تھی۔ جبکہ 1976 میں کیئے جانے والے ایک مستند پول میں یہ تعداد 28فیصد تھی۔ یعنی اس دوران ناسا یا امریکی حکومت کی جانب سے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں تھیں اور عوام ہنوز اسے متنا زع سمجھتے تھے۔

    اس کے کچھ عرصے بعد اپولو مشن ایک دفعہ پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا جب فلیٹ ارتھ سوسائٹی کی جانب سے لینڈنگ پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لینڈنگ کی جو فلم ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی وہ والٹ ڈزنی کے مالی تعاون سے تیار کی گئی تھی جس کا سکرپٹ آرتھر سی کلارک نے لکھا تھا۔ واضح رہے کہ فلیٹ ارتھ سوسائٹی ایسے اراکین پر مشتمل ہے جو زمین کے گول ہونے پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا دعویٰ ہے کہ زمین ہموار ہے۔اس شدید تنقید کی ایک بڑی وجہ 1978 میں منظرِ عام پر آنے والی مریخ کے سفر پر بنائی گئی فلم "کیپریکون ون ” تھی جس میں دانستہ ایسے مناظر فلمائے گئے جو اپولو لینڈنگ سے کافی زیادہ مماثلت رکھتے تھے۔ اس فلم کو امریکی حکومت کی مخالف لابی نے سپانسر کر کے بنوایا تھا تا کہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کو کچھ اور زیادہ بڑھایا جا سکے ۔ یعنی وہ عوام کی فلاح کے لیئے کام کرنے کے بجائے اس طرح کے جعلی لینڈنگ مشن دکھا کر عوام کو بے وقوف بنا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہذا ایسے افرراد جو زیادہ سا ئنسی معلومات نہیں رکھتے تھے وہ اپولو الیون مشن کو جعلی سمجھنے لگے اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا چلا گیا۔

    اپولو الیون مشن کو جعلی قرار دینے کے لیئے سوویت یونین کی جانب سے ایک باقاعدہ منظم مہم بھی چلائی گئی جس میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت سائنسدانوں نے اپولو مشن کو جعلی قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس مقصد کے لیئے مشن کی جاری کی جانے والی ویڈیو پر بے شمار تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے جیسے امریکی جھنڈے کا ہوا میں لہرا نا ، تصاویر میں آسمان پر ستاروں کی عدم موجودگی اور نیل آرم سٹرانگ کی سپیس واک میں تکنیکی نقائص شامل ہیں ۔ صرف اپولو الیون ہی نہیں اس کے بعد چاند کی جانب بھیجے جانے والے اپولو سلسلے کے تمام مشنز کو بھی جعلی قرار دیا گیا اگرچہ عوام امریکہ اور روس کے درمیان عشروں سے جاری سپیس وار سے ناواقف نہیں تھے اور سائنسی معلومات رکھنے والے افراد جانتے تھے کہ سپیس ٹیکنالوجی میں روس امریکہ سے کافی آگے تھا۔ اور اپولو الیون سے پہلے چاند پر انسان بردار مشن بھیجنے کے لیئے پوری طرح پر عزم بھی مگر حیرت کی بات ہے کہ اس کے بعد روس نے چاند کی جانب اپنا مشن خود ہی ختم کر دیا مگر وہ امریکہ کے چاند مشن کو جعلی قرار دینے کے لیئے ہمیشہ لابنگ کرتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    دنیا بھر میں عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس مشن کو جعلی ہی سمجھتی اور پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک میں یہ آج بھی ہاٹ تاپک سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں سائنس میں بے رغبتی اور ملکی میڈیا کی جانب سے سائنسی خبروں کو اہمیت نہ دینے کے باعث اس طرح کی متنازع خبریں ہر دور میں پھیلتی رہی ہیں اور تعلیم یافتہ حلقوں کے انھیں رد کرنے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جاتی ۔ حالانکہ ہمارا ہمسایہ اور حریف ملک بھارت 22 جولائی کو اپنا مشن "چندریان2″چاند کی جانب روانہ کرنے وا لا ہے اور چین نے بھی اسی برس چاند کی تاریک ترین سطح پر اپنا خلائی مشن بھیجا ہے مگر ہماری عوام آج بھی اپولو الیون کو جعلی قرار دینے میں جتی ہوئی ہے ۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو ایک واضح لائحہ عمل کے ساتھ پاکستان کا خلائی پروگرام مضبوط بنیادوں پر شروع کرے۔جس سے عوام میں بھی سائنسی شعور بیدار ہوگا اور و روزمرہ زندگی میں خلائی سائنس کی اہمیت کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ سٹھیا گئے، چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ سٹھیا گئے، چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے دیا

    واشنگٹن : امریکی صدر نے چاند سے متعلق ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ ناسا کو چاند پر جانے کی بات نہیں کرنی چاہیے، ہم 50 سال پہلے یہ کرچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے کر دنیا بھر کے ماہر فلکیات کو اچھنبے میں ڈال دیا۔ گزشتہ روز انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اتنے پیسے خرچ کرنے کے بعد ناسا کو چاند پر جانے کی بات نہیں کرنی چاہیے، ہم 50 سال پہلے یہ کرچکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ناسا کو اس سے بڑی چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جیسے کہ مریخ (چاند جس کا حصہ ہے)، دفاع اور سائنس سے متعلق ٹرمپ کی ٹوئٹ پر دنیا بھر کے ٹوئٹر صارفین نے حیرت کا اظہار کیا جس کی سیدھی وجہ یہ ہے کہ چاند مریخ کا حصہ نہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایک نظریہ یہ ہے کہ بہت سالوں قبل زمین اور کسی سیارے کے درمیان ہونے والے ٹکراؤ کے باعث چاند کا جنم ہوا تھا۔

    خلائی ماہرین کا کہنا تھا کہ مریخ چاند سے تقریباً 140 ملین میل دور ہے، امریکی میڈیا نے ناسا سے اس حوالے سے رابطہ کیا تاہم تاحال ادارے کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔

  • ناسا نے خاتون کو چاند پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا

    ناسا نے خاتون کو چاند پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا

    واشنگٹن : ناسا نے 5 برس بعد ارٹمیس پروگرام میں ایک مرد اور ایک ایک خاتون کو چاند پر ایک اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق چاند کی سطح پرانسان کو قدم رکھے پانچ عشرے ہونے والے ہیں، اب تک چاند پراترنےوالوں میں مرد ہی شامل رہے ہیں مگرامریکی خلائی ایجنسی ناسا نے پہلی بار سنہ 2024ء میں ایک خاتون کو چاند پر اتارنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ناسا کے خلائی مشن کے لیے بجٹ میں اضافے کے بعد کیا گیا ہے۔

    ‘ناسا’ کے ڈائڑیکٹر مواصلات ‘بیٹینا انکلین’ نے بتایا کہ اب تک چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے کل 12 خلائی سائنسدان سب امریکی مرد تھے تاہم ایجنسی پہلی بار ایک امریکی خاتون خلانورد کو بھی چاند پر اتارنے کی تیاری کررہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ سوموار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناسا کے بجٹ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا تھا، ہم زیادہ اور بڑے پیمانے پر خلائی تحقیقات کی طرف واپس پلٹنا چاہتے ہیں۔

    صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ناسا کی عظمت رفتہ کی بحالی اور چاند پر اپنے تحقیقاتی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مریخ کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔

    خیال رہے کہ ناسا نے دوبارہ چاند کی سطح پر اپنی سرگرمیوں اور تحقیقات کے لیے 21 ارب ڈالر کے بجٹ کا مطالبہ کیا تھا۔

    امریکی خلائی تحقیقاتی ایجنسی (ناسا) کے ڈائریکٹر جیم بریڈنشائن نے کہا ہے کہ یہ بجٹ ایجنسی کو نئے منصوبوں کے ڈیزائن، ڈویلپمنٹ اور دریافتوں کےمیں مدد فراہم کرے گا۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سوموار کو ناسا نے چاند کے جنوبی حصے میں 2024ء کو خاتون خلان ورد کو اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ناسا کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ چاند پر خاتون کو اتارنے کے مشن کو قدیم یونانیوں میں چاند کےمعبود ‘ارٹمیس’ کے نام سے موسوم اور اپالو کی جڑواں بہن کیا گیا ہے، اس سے قبل ناسا نے اپالو11 نامی مشن کے تحت 20 جولائی 1969ء کو پہلی بار ایک زندہ انسان کو چاند کی سطح پر اتارا تھا۔

    برڈنشائن کا کہنا ہے کہ 50 سال کے بعد ارٹمیس پروگرام میں ایک مرد اور ایک ایک خاتون کو چاند پر ایک ساتھ اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • نیل آرمسٹرانگ کا چاند پر جانے کے لیے ہدایاتی مینوئل نیلامی کے لیے پیش

    نیل آرمسٹرانگ کا چاند پر جانے کے لیے ہدایاتی مینوئل نیلامی کے لیے پیش

    نیویارک: خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بزآلڈرین کی جانب سے چاند پر جانے کے لیے استعمال کیا گیا ہدایاتی مینوئل اس سال جولائی میں نیلام کے لیے پیش کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق 44 صفحات پر مشتمل خلائی جہاز اپولو 11 سے متعلقہ ہدایاتی مینوئل میں چاند پر جانے سے متعلق تمام تفصیلات درج ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہدایاتی مینوئل میں بتایا گیا کہ خلاباز نیل آرم سٹرانگ اور آلڈرین چاند پر کیسے اتریں گے اور کیسے خلائی جہاز اپولوایگل کو اس کے کولمبیا میں موجود کمانڈ ماڈیول سے منسلک کریں گے۔

    نیویارک کے آکشن ہاس کرسٹی کا کہنا ہے کہ چاند پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے انسانوں کی جانب سے استعمال کیے گئے مینوئل کی نیلامی 9 سو ملین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

    آکشن ہاس کرسٹی کے بک اینڈ مینوسکرپٹس سیکشن کی ہیڈ کرسٹینا گیگر کا کہنا تھا کہ اس مینوئل میں اپولو 11 ایگل فلائیٹ سے متعلق تمام ہدایات ترتیب واردرج ہیں۔

    اس کتاب میں تکنیکی ڈیٹا کے علاوہ تقریبا 150 ڈرائینگز، اور تشریحات بھی شامل ہیں جنہیں نیل آرم سٹرانگ اور آلڈرین نے لکھے تھے۔

    البتہ اپولو 11 ایگل کے کاک پٹ میں ہونے والے واقعات کی کوئی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ نہیں ہے اس لیے اس مینوئل کو خلائی تاریخ کی ایک اہم شہادت تصور کیا جاتا ہے۔

  • شعبان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    شعبان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    کراچی : شعبان کا چاند دیکھنے کےلیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا، چیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن چاند نظر آنے یا ناں آنے کا اعلان کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مفتی منیب الرحمان کی سربراہی میں کراچی میں منعقد ہوگا۔

    مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس محکمہ موسمیات کے دفتر کراچی میں ہوگا جبکہ زونل رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس مقررہ مقامات پر ہوں گے اور چیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن چاند نظر آنے یا ناں آنے کا اعلان کریں گے۔

    خیال رہے اسلامی، ہجری یا قمری کلینڈرز میں شعبان آٹھواں مہینہ ہے، جسے شعبان المعظم بھی کہا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھے جاتے ہیں۔

    بعض احادیث کے مطابق حضور نبی کریم پورے شعبان روزے رکھا کرتے تھے اور انہیں رمضان المبارک کے روزوں سے ملادیا کرتے تھے، اس ماہ کی پندرہویں رات کو شب برات آتی ہے جو بہت بابرکت رات ہے، جس میں فرزندان توحید رات بھر جاگ کر اپنے اللہ کو راضی کرنے کیلئے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    اس رات جس میں نئے سال کے لیے رزق، موت، پیدائش اور دیگر اہم معاملات سے متعلق حکم خداوندی سے فیصلے لکھے اور تبدیل کیے جاتے ہیں۔

  • خونی چاند کے خوبصورت نظارے

    خونی چاند کے خوبصورت نظارے

    گزشتہ شب سپر بلڈ وولف مون یعنی خونی چاند طلوع ہوا جس نے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا۔ خونی چاند کل شب 1 گھنٹہ 2 منٹ تک آسمان پر موجود رہا۔

    ایک مکمل چاند گرہن اس وقت رونما ہوتا ہے جب زمین اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے کچھ وقت کے لیے سورج اور چاند کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔

    زمین کا جو سایہ چاند پر پڑتا ہے فلکیاتی اصطلاح میں اسے ’امبرا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی کے باعث گرہن کے دوران بعض اوقات چاند سرخی مائل، اورنج یا خونی دکھائی دیتا ہے اور مکمل گرہن کے وقت بھی چاند پوری طرح نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔

    فلکیات کی اصطلاح میں اسے بلڈ مون کہا جاتا ہے۔

    گزشتہ سال 31 جنوری 2018 کی شب کو جو سرخی مائل چاند دنیا بھر میں دیکھا گیا تھا وہ اس حوالے سے منفرد تھا کہ اس روز سپر مون بھی تھا۔

    گزشتہ رات ہونے والے چاند گرہن کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں گرہن کے دوران چاند کا رنگ کچھ دیر کے لیے نارنجی یا سرخی مائل دہکتا ہوا نظر آیا، اس لیے اسے سپر بلڈ وولف مون کا نام دیا گیا۔

    پاکستان سمیت ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں رہنے والے افراد اس گرہن کا نظارہ کرنے سے محروم رہے کیونکہ اس وقت یہاں علی الصبح کا وقت تھا۔ مگر شمالی یورپ، شمالی و جنوبی امریکا، اور شمال مغربی افریقہ کے ساحلوں پر یہ سپر بلڈ مون واضح طور پر دیکھا گیا۔

    ترکی
    برطانیہ
    لاس اینجلس، امریکا
    نیویارک، امریکا
    اسپین
  • ذی الحج کا چاند دیکھنےکےلیےرویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    ذی الحج کا چاند دیکھنےکےلیےرویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    کراچی : ذی الحج کا چاند دیکھنے کے لیے پاکستان میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس مفتی منیب الرحمان کی زیرصدارت آج کراچی میں ہوگا۔

    کراچی میں رویت ہلال کمیٹی کے مرکزی اجلاس کے علاوہ اسلام آباد،لاہور، پشاوراورکوئٹہ میں زونل کمیٹیوں کےاجلاس ہوں گے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آج چاند نظر آنے کا قوی امکان ہے تاہم چاند کی رویت کا حتمی اعلان مرکزی رویت ہلال کمیٹی شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد کرے گی، چاند نظرآنے کی صورت میں عیدالاضحیٰ 22 اگست بدھ کو ہوگی۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب میں حجاج کی خدمت کے لیے ہزاروں اہلکارتعینات

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں ذی الحج کا چاند نظرآگیا جس کے بعد ان ممالک میں عیدالاضحیٰ 21 اگست کو ہوگی۔

    دوسری جانب انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی، سنگاپور میں یکم ذی الحج 13 اگست بروز پیر کو گی جبکہ عیدالاضحیٰ 22 اگست کو منائی جائے گی۔

    واضح رہے کہ عید الاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جانب سے اللہ رب العزت کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے دی جانے والی قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے۔

  • سعودی عرب: ذوالحج کا چاند نظر آگیا، عید قرباں 21 اگست کو ہوگی

    سعودی عرب: ذوالحج کا چاند نظر آگیا، عید قرباں 21 اگست کو ہوگی

    ریاض: سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سمیت میں ذو الحج 1439 ہجری کا چاند نظر آگیا جس کے بعد حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ 20 اگست  کو جبکہ عید قرباں 21 اگست کو  منائی جائے گی۔

    عرب میڈیا کے میڈیا کے مطابق ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے سعودی سپریم کونسل کا اجلاس ہوا جس نے اب سے کچھ دیر قبل رویت کا اعلان کیا۔

    عرب میڈیا کے مطابق کل یعنی 12 اگست کو یکم ذوالحج ہوگی اورفرزندان اسلام حج کا رکن اعظم پیر 20 اگست کو ادا کریں گے جبکہ عید قرباں کا پہلا روز  21 اگست کو ہوگا۔

    دریں اثناء سعودی سپریم کونسل نے شہریوں سے چاند دیکھنے کی درخواست کی تھی، جس کے بعد عوام کی جانب سے شہادتیں موصول ہوئیں تو سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عید الاضحیٰ کی چھٹیوں‌ کا اعلان کردیا گیا

    علاوہ ازیں خلیجی ممالک، آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک میں بھی چاند ذوالحج نظر آگیا ہے۔

    دوسری جانب ملائیشیا، انڈونیشیا، برونائی، یونان سمیت مختلف ممالک کی حکومتوں نے چاند نظر نہ آنے کا اعلان کردیا جس کے بعد وہاں یکم ذوالحجۃ 13 اگست بروز پیر اور عید الضحیٰ 22 اگست کو منائی جائے گی۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے حج اور عید قرباں کے پیش نظر 11 روزہ سرکاری تعطیلات کا اعلان پہلے ہی کررکھا ہے جبکہ دبئی حکومت نے سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کو 5 روز کی چھٹیاں دینے کی منظوری دی ہے۔

  • عید الفطر اور رویتِ ہلال کے مسائل

    عید الفطر اور رویتِ ہلال کے مسائل

    رمضان کی آمد کے ساتھ ہی چاند دیکھے یا نہ دیکھے جانے کے حوالے سے مختلف بحثیں جنم لینے لگتی ہیں۔ یہ سلسلہ عید تک جاری رہتا ہے اور اکثر اوقات قوم رویت ہلال کے مسئلے کی وجہ سے دو عیدیں منانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

     دیگر اسلامی مہینوں کی طرح شوال کے آغاز کا تعین  بھی عیسوی کلینڈر کے برعکس قمری کلینڈر کے ذریعے ہوتا ہے جس میں چاند کی تاریخوں کے مطابق مہینہ انتیس یا تیس دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

    ہلالِ شوال ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ رمضان کا مہینہ ختم اور شوال کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ جب تک ہلال اچھی طرح سے نہ دیکھ لو رمضان کا روزہ نہ رکھو، اسی طرح مہینے کے اختتام پر ہلال دیکھنے کے بعد ہی روزہ رکھنا چھوڑو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان تب سےآج تک بالخصوص رمضان کے روزوں اورعید کے سلسلے میں چاند پر نگاہ جمائے رکھتے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ چاند کیسے دیکھا جائے؟ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ہر سال متنازعہ صورت حال سامنے آتی ہے۔ تاہم آج کے جدید دورمیں اس کے تین طریقے ہیں: ایک ٹیلی اسکوپ، دوم علم فلکیات اور سوم چند علاقوں میں انسانی آنکھ سے براہ راست دیکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

    اس سلسلے میں سعودی عرب کے سینئر علما کے کونسل کے رکن شیخ عبداللہ بن سلیمان المنائی کا کہنا ہے کہ اسلامی مہینے کے آغاز کا ثبوت ہلال دیکھنے تک محدود نہیں ہے، اور بھی طریقے ہیں جو ہمارے ہاں ذرائع ہیں جن سے مہینے کے آغاز کا تعین ہوسکتا ہے، جن میں علم فلکیات بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علم فلکیات درحقیقت ہلال دیکھنے سے زیادہ درست اور قابل بھروسا طریقہ ہے کیوں کہ ہلال دیکھنے کا طریقہ قیاسی ہے جب کہ علم فلکیات حتمی اور درست ہے۔

    اسکالر شیخ عبداللہ بن سلیمان کے مطابق علم فلکیات میں ماہر مسلمان مشاہیر کی تحقیقات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ رویتِ ہلال کی تصدیق کا ثابت شدہ ذریعہ ہے۔ اپنے انصاف کے لیے مشہور شخص کی چاند دیکھنے کی گواہی کو بھی تسلیم نہیں کرنا چاہیے اگر وہ ماہر فلکیات کی رائے کے برعکس ہو۔

    ہلال کی اسکریننک کا طریقہ چاند کے ظہور کے دوران کیا جاتا ہے۔ جب یہ زمین کے گرد اپنا ایک چکر پورا کرلیتا ہے اور نیا چکر شروع کرتا ہے تو اس کا ثبوت مہینے کے پہلے غروب آفتاب سے قبل ہلال کے ظہور کی صورت میں ملتا ہے۔ جب سورج غروب ہوکر نگاہ سے اوجھل ہوجاتا ہے تو ہلال غروب آفتاب کے مقام پر تب بھی چمک رہا ہوتا ہے کیوں کہ یہ غروب آفتاب کے بعد بھی کم از کم تیس منٹ تک آسمان پر نظر آتا ہے۔

    زمین کے گرد چاند کا چکر شروع ہوتا ہے تو پندرہ گھنٹے سے پہلے نئے چاند کو براہ راست انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا، جب کہ چکر شروع ہونے کے بارہ گھنٹےبعد  صرف ٹیلی اسکوپ سے دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔ ہلالی چاند کو واضح طور پر دیکھنے کے لیے اسے کسی بلند مقام سے دیکھنا چاہیے اور ایسی جگہ سے دور جو گنجان آباد ہو جیسے شہر جہاں انسانی تعمیرات اس کے مشاہدے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ یہ مقام پہاڑوں اور بلند و بالا عمارات سے دور ہو اور فضا صاف ہو یعنی دھول وغیرہ نہ ہو۔

    علما اور تجربہ کار ماہرین فلکیات ہی اس کا تعین کرسکتے ہیں کہ ہلال نمودار ہوگیا ہے یا نہیں، جوکہ رمضان کے بعد عید کا باضابطہ اعلان ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود ہیں لہٰذا انہیں زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    لیکن اگر یہی سیارے زمین سے اس قدر قریب ہوتے کہ چاند کی طرح ہمارے آسمان پر نظر آتے تو کیسے دکھائی دیتے؟

    ایک علم فلکیات دان نک ہومز نے اینی میشن کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیارے زمین سے کیسے نظر آسکتے ہیں۔

    اس اینی میشن کی بنیاد اس نقطے پر ہے کہ اگر تمام سیارے زمین سے صرف اتنے فاصلے پر ہوتے جتنا کہ چاند ہے یعنی کہ زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 4 سو کلومیٹر کے فاصلے پر تو وہ کس طرح دکھائی دیتے۔

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    یاد رہے کہ نظام شمسی میں واقع تمام سیارے زمین سے کروڑوں اربوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

    اس اینی میشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر چاند زمین سے صرف اتنا دور ہوتا جتنا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے دور ہے، تو وہ کس طرح دکھائی دیتا۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔