Tag: MOSQUITO

  • مچھروں سے چھٹکارا پانے کے نہایت آسان طریقے

    مچھروں سے چھٹکارا پانے کے نہایت آسان طریقے

    کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ وہ ہر وقت ہاتھ سے مچھروں کو مارتا رہےاگر آپ بھی ان آرام میں خلل ڈالنے والے مچھروں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو وہ طریقہ بتائیں گے کہ جس پر عمل کرنے سے آپ اس تکلیف سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

    کورونا کے کیسز کم ہوتے ہی ملیریا اور ڈینگی کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں، ایسے میں مچھروں سے بچنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔

    سیدتی میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کچھ ایسے مشورے دیے گئے ہیں کہ گھر سے باہر اور اندرمچھروں سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

    جڑی بوٹیاں
    رپورٹ میں ایسی جڑی بوٹیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو اگر کمرے میں موجود ہوں تو بو مچھروں کو باہرنکلنے پر مجبور کرتی ہیں، ان ہی میں سے ایک تلسی ہے۔

    اس کے پتے کھڑکیوں اور گھر کے داخلی راستوں پر پھیلانے کے علاوہ بالکونی میں رکھ دیں تو اس کے بعد باہر سے مچھر گھر میں داخل نہیں ہونگے۔

    اسی طرح پودینہ بھی ایک تیز خوشبودار پودا ہے جس کی خوشبو تیزی سے ہوا میں پھیلتی ہے۔ اس کے سبز یا خشک پتوں کو ٹی بیگز کی طرح کاغذی تھیلیوں میں رکھ کر کھڑکیوں اور داخلی دروازوں پر لٹکادیں تو مچھر وہاں نہیں آئیں گے۔

    بے لارل نامی پودا بھی جہاں لگا ہو وہاں مچھر نہیں جا سکتے۔ اس لیے اس کو باغیچے میں لگا لیا جائے تو اس کا فائدہ ہو سکتا ہے اسی طرح اس کے پتوں کو بھی گھر کے مختلف حصوں رکھ کر مچھروں سے بچا جاسکتا ہے۔

    لیونڈر بھی ایسا خوشبودار پودا ہے جو مچھروں کو دور رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے گھر کے مختلف حصوں میں رکھا جائے تو ایک تو ایئر فریشنر کا کام دیتا ہے، دوسرا دلکش دکھائی دیتا ہے اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ مچھروں کو وہاں سے جانے پر بھی مجبور کرتا ہے۔

    جڑی بوٹیوں کے علاوہ بھی کچھ ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو مچھروں سے بچانے مدد دیتی ہیں۔

    مچھر دانی
    کچھ مچھر دانیاں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے اندر مچھر نہیں گھس سکتے اور اس کے اندر موجود افراد محفوظ رہتے ہیں، یہ مچھر دانیاں بازاروں میں دستیاب ہیں۔ اسی طرح ایسی مچھر دانیاں بھی بعض ممالک میں مل جاتی ہیں جن کو چھوتے ہی مچھر ان سے چپک جاتا ہے اور مر جاتا ہے۔

    کریم کا استعمال
    مچھروں سے بچانے میں اینٹی موسکیٹو لوشن کا بھی اہم کردار ہے، یہ جسم کے ان حصوں پر لگایا جاتا ہے جو عام طور پر کھلے ہوتے ہیں اور مچھر بھی انہی مقامات پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے چہرہ، ہاتھ اور پاؤں، اس کی بو سے مچھر آپ کے قریب نہیں آتے۔

    ہینڈ یا سٹن ریکٹس
    یہ ریکٹس بھی بازار میں عام دستیاب ہوتے ہیں جن کا بٹن دباتے ہی اس کی تاروں میں ہلکا سا کرنٹ پیدا ہوتا ہے اور اس سے مچھر کو مارا جائے تو وہ فوراً مر جاتا ہے اگرچہ یہ بھی مؤثر ہے تاہم ان مچھروں سے بچانے میں کارگر نہیں جو آپ کے سونے کے بعد نمودار ہوتے ہیں۔

    اس کے علاوہ نیم کے تیل کو ناریل کے خالص تیل میں یکساں مقدار میں ملائیں اور اپنے جسم کے کھلے حصوں پر لگادیں، اس مکسچر کی تیز بو مچھروں کو کم از کم 8 گھنٹوں تک آپ سے دور رہنے پر مجبور کردے گی۔

     

  • سائنسدانوں نے "ڈینگی” کے سد باب کیلئے بڑی کامیابی حاصل کرلی

    سائنسدانوں نے "ڈینگی” کے سد باب کیلئے بڑی کامیابی حاصل کرلی

    ڈینگی کا مرض کیسے پھیلتا ہے، اس کے لیے احتیاطی تدابیر کیا ہیں، یہ کتنا خطرناک ہے اور مرض کی روک تھام کیلئے کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے طبی ماہرین نے اس پر تحقیق کی جس کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں۔

    ڈینگی بخار دنیا بھر میں مچھروں سے سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے اور اس کی روک تھام کے لیے اہم پیشرفت ہوئی ہے، ایک بڑے کلینکل ٹرائل میں وائرس سے لڑنے والے بیکٹریا کی مدد سے ڈینگی کے کیسز کی روک تھام میں77 فیصد تک کمی لانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔

    طبی جریدے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ بیکٹریا "وولباچیا پائپینٹس” ہے جو متعدد حشرات الارض میں پایا جاتا ہے اور ان کو امراض پھیلنے سے روکتا ہے مگر یہ قدرتی طور پر ڈینگی پھیلانے والے مچھروں میں نہیں پایا جاتا۔

    ورلڈ موسکیوٹو پروگرام کی اس تحقیق میں انڈونیشیا کے ایک شہر یوگیارتا میں کلینیکل ٹرائل کیا گیا جہاں ڈینگی بہت تیزی سے پھیل رہا تھا، ٹرائل میں بیکٹریا سے متاثر مچھروں کی افزائش 2017 میں 9 ماہ تک کی گئی اور پھر آدھے شہر میں ان کو چھوڑ دیا گیا۔

    ٹرائل کے دورانیے کے دوران وہاں ڈینگی بخار کے کیسز کی شرح میں 77 فیصد کمی آئی جبکہ ہسپتال جانے والے مریضوں کی تعداد 86 فیصد تک گھٹ گئی، ٹرائل میں کامیابی کے بعد مچھروں کو پہلے پورے شہر اور پھر گردونواح کے علاقوں میں چھوڑا گیا۔ محققین نے بتایا کہ یہ اس انڈونیشین شہر کے رہائشیوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا میں ہر سال ڈینگی کے 70 لاکھ سے زیادہ کیسز سامنے آتے ہیں اور ٹرائل کی کامیابی سے ہم نے اپنا کام پورے شہر اور نواحی علاقوں تک پھیلایا، ہمارے کیال میں مستقبل میں انڈونیشین شہر ڈینگی سے پاک ہوجائیں گے۔

    کیڑوں کو کنٹرول کرنے کے دیگر طریقوں کے برعکس اس حکمت عملی کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کے اثرات طویل المعیاد ہوتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ "وولباچیا پائپینٹس” اپنے میزبان پر اثرانداز ہوتا ہے اور ان کی افزائش کی شرح کو بدل کر وہ اثرات اگلی نسل تک منتقل کردیتا ہے۔ نتائج ڈینگی کو کنٹرول کرنے کے لیے پرجوش پیشرفت ہے جس سے ہر سال دنیا بھر میں 40 کروڑ سے زیادہ افراد بیمار ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس محفوظ، دیرپا اور مؤثر طریقہ کار کی عالمی برادری کو ضرورت ہے جبکہ اس طریقہ کار کو مچھروں کے دیگر امراض کی روک تھام کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

  • دنیا کا مہلک ترین جانور آپ کے گھر میں موجود

    دنیا کا مہلک ترین جانور آپ کے گھر میں موجود

    ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا جانور جو نہایت مہلک ہو اور ہم اسے اپنے گھر میں پالنے لگیں؟ لیکن تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اس جانور کو پالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، یہ تو خود ہی بن بلائے گھر میں گھسا چلا آتا ہے اور آپ چاہے کہیں بھی چھپ جائیں یہ آپ کو ڈھونڈ کر اپنا وار کردیتا ہے۔

    یہاں دراصل بات ہورہی ہے ننھے سے دکھائی دینے والے مچھر کی جسے عالمی ادارہ صحت نے دنیا کا مہلک ترین جانور قرار دیا ہے۔

    مچھر بلاشبہ ایک خطرناک کیڑا ہے اور ہلاکت خیزی میں یہ بڑے بڑے جانوروں کو مات کردیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ افراد مچھر کے کاٹنے (اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں) سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سانپ کے کاٹے سے ہر سال 50 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ خطرناک ترین شارک بھی سال میں بمشکل 10 افراد کا شکار کر پاتی ہے۔

    اور تو اور، دنیا بھر میں ہلاکت خیز ہتھیار بناتے اور مہلک ترین کیمیائی تجربات کرتے انسان بھی سال میں 4 لاکھ 75 ہزار اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ (جنگوں اور قدرتی آفات میں ہونے والی انسانی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔)

    لیکن مچھر مذکورہ بالا تمام شکاریوں سے چار ہاتھ آگے ہے۔

    مچھر کا عالمی دن

    سنہ 1897 میں ایک برطانوی ڈاکٹر سر رونلڈ روز نے اس تاریخ کو دریافت کیا تھا کہ مادہ مچھر انسانوں میں ملیریا پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ سر رونلڈ روز نے ہی تجویز دی کہ اس دن کو مچھروں کا عالمی دن منایا جائے جس کے بعد سے دنیا بھر میں یہ انوکھا دن منایا جانے لگا۔

    مچھروں اور ان کی ہلاکت خیزی سے بچنے کے لیے ان سے احتیاط ضروری ہے، جن میں سر فہرست گھر کے اندر اور باہر پانی جمع نہ ہونے دینا اور گھر میں ہوا کی آمد و رفت کو بہتر کرنا ہے۔

    گھر کے دروازے کھڑکیوں میں پولیسٹر کی جالیاں لگوانے سے ایک طرف تو مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف ہوا اور روشنی کی آمد بھی برقرار رہتی ہے۔

  • ایسی ویکسین جو مستقبل میں آنے والی ’تمام وباؤں‘ کو روک سکتی ہے

    ایسی ویکسین جو مستقبل میں آنے والی ’تمام وباؤں‘ کو روک سکتی ہے

    کمبوڈیا میں مچھر کے تھوک سے بنائی جانے والی ویکسین کو، انسانی آزمائش کے حیران کن نتائج کے بعد کامیاب قرار دیا جارہا ہے۔

    5 سال قبل امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیئس ڈیزیز کی ایک محقق جیسیکا میننگ نے مچھر کے تھوک سے ویکسین بنانے کا خیال پیش کیا تھا۔

    جیسیکا کا خیال تھا کہ مچھر کے تھوک میں موجود پروٹین ایک طاقتور ویکسین ثابت ہوسکتا ہے اور یہ ویکسین ایسی بیماریوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرسکتی ہے جو کسی کیڑے سے انسان میں منتقل ہوتی ہیں جیسے ملیریا، ڈینگی، چکن گونیا، زیکا، زرد بخار، ویسٹ نائل وغیرہ۔

    گزشتہ 5 سال سے جیسیکا کے اپنی ٹیم کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرنے کے بعد اب دا لینسٹ نامی جریدے میں اس تحقیق، اور اس ویکسین کے پہلے انسانی ٹرائل کے نتائج شائع کیے گئے ہیں۔

    ویکسین کے انسانی ٹرائل سے علم ہوا ہے کہ یہ ویکسین نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس کی بدولت انسانی جسم میں خلیات اور اینٹی باڈیز فعال ہوئیں جنہوں نے مختلف بیماریوں کو حملہ آور ہونے سے روکا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کے کام کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کے اندر جا کر قوت مدافعت کو اس پروٹین سے آگاہ کرے گی جو مچھر کے کاٹنے کی صورت میں جسم میں داخل ہوتا ہے اور بیماری پیدا کرتا ہے۔

    اس طرح قوت مدافعت اس پروٹین سے مطابقت کرلے گی اور مچھر کا کاٹا اس کے لیے بے اثر ہوجائے گا۔

    مائیکل مک کرین نامی ایک محقق کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق نہایت اہم ہے اور طب کی دنیا میں ایک اہم پیشرفت ثابت ہوگی۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق مچھر بلاشبہ ایک خطرناک ترین جانور ہے جو انسانوں کو سنگین امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔ مچھر کے کاٹے سے پیدا ہونے والی بیماری ملیریا ہر سال دنیا بھر میں 4 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

    یہ اموات زیادہ تر غریب ممالک میں ہوتی ہیں جہاں طبی سہولتوں کا فقدان، دواؤں اور ویکسینز کی عدم دستیابی تشویشناک صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ویکسین نہایت کم قیمت ہوسکتی ہے جس کے باعث غریب ممالک میں بھی اس کی دستیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

  • خون چوسنے والے مچھروں کا عالمی دن

    خون چوسنے والے مچھروں کا عالمی دن

    ہر روز شام ہوتے ہی بے شمار مچھر بھرا مار کر گھر کے اندر گھس آتے ہیں اور کھلی جگہوں پر بیٹھنے والوں کا کاٹ کاٹ کر برا حشر کردیتے ہیں۔

    ویسے تو یہ ڈینگی اور ملیریا کا سبب بن سکتے ہیں اور اگر کسی کی جلد حساس ہو تو اسے خارش اور سوجن میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں، لیکن اگر یہ کسی بیماری میں نہ بھی مبتلا کریں تب بھی ان کا کاٹنا نہایت الجھن میں مبتلا کردیتا ہے۔

    اور کیا آپ جانتے ہیں آج اس خون چوسنے والی مخلوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے؟ لیکن مچھر کوئی ایسی خوش کن چیز تو نہیں جس کا دن منایا جائے تو پھر یہ دن منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

    آئیں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    سنہ 1897 میں ایک برطانوی ڈاکٹر سر رونلڈ روز نے اسی تاریخ کو دریافت کیا تھا کہ مادہ مچھر انسانوں میں ملیریا پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ سر رونلڈ روز نے ہی تجویز دی کہ اس دن کو مچھروں کا عالمی دن منایا جائے جس کے بعد سے دنیا بھر میں یہ انوکھا دن منایا جانے لگا۔

    مچھر نہ صرف ملیریا بلکہ ڈینگی، چکن گونیا، اور زیکا وائرس بھی پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا مچھروں سے خود کو بچانا ازحد ضروری ہے۔

    مچھروں کے سیزن میں ان سے بچنے کے لیے سخت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر اگر گھر میں چھوٹے بچے موجود ہیں تو انہیں مچھروں سے بچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

    یہاں ہم آپ کو ایسے ہی کچھ طریقے بتارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ خود کو اور اپنے اہل خانہ کو مچھروں کے کاٹے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

    ہلکے رنگوں کا استعمال

    گہرے یا سیاہ رنگ کے کپڑے مچھروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں کہ آیا یہ ان کا آسان شکار ثابت ہوسکے گا یا نہیں، چنانچہ وہ ہلکے رنگ کی طرف جھپٹنے سے گریز کرتے ہیں۔

    جڑی بوٹیوں کا تیل

    مختلف جڑی بوٹیوں سے کشید کیا ہوا تیل مچھروں کو دور بھگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ان میں پودینہ، لیونڈر، یوکلپٹس، لیمن گراس وغیرہ کا تیل شامل ہے۔ ان اجزا کو ملا کر بنایا جانے والا تیل بھی یکساں نتائج دے گا۔

    لمبے آستین پہنیں

    مچھر کھلے بازوؤں کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ ان کے کاٹے سے بچنا چاہتے ہیں تو لمبی آستینوں کا استعمال کریں۔

    کھڑے پانی سے حفاظت

    اپنے گھر میں، یا گھر کے آس پاس کھڑے پانی سے پہلی فرصت میں چھٹکارہ حاصل کریں۔ یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں مقام ہے۔ گھر میں ذخیرہ کیے گئے پانی کو بھی ڈھانپ کر رکھیں۔

    باہر نکلنے سے گریز

    مچھروں کے سیزن میں اندھیرا ہونے کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں، یہ وقت مچھروں کے حملے کا ہوتا ہے۔ گھر کے اند رہیں اور گھر میں جالی دار دروازوں اور کھڑکیوں کا اضافہ کریں۔

    ہوا کی آمد و رفت میں اضافہ

    گھر کو ہوا دار بنائیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی ہو۔ دن کے وقت کھڑکیاں کھلی رکھیں، پردے ہٹا دیں، تاکہ دھوپ اندر آسکے۔ بند جگہوں پر مچھر گھس آئیں تو انہیں باہر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔

  • مچھروں کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟

    مچھروں کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں آج مچھروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے؟

    لیکن مچھر کوئی ایسی خوش کن چیز تو نہیں جس کا دن منایا جائے تو پھر یہ دن منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

    آئیں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    سنہ 1897 میں ایک برطانوی ڈاکٹر سر رونلڈ روز نے اسی تاریخ کو دریافت کیا تھا کہ مادہ مچھر انسانوں میں ملیریا پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔

    سر رونلڈ روز نے ہی تجویز دی کہ اس دن کو مچھروں کا عالمی دن منایا جائے جس کے بعد سے دنیا بھر میں یہ انوکھا دن منایا جانے لگا۔

    مچھر نہ صرف ملیریا بلکہ ڈینگی، چکن گونیا، اور زیکا وائرس بھی پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا مچھروں سے خود کو بچانا ازحد ضروری ہے۔

    مچھروں کے سیزن میں ان سے بچنے کے لیے سخت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر اگر گھر میں چھوٹے بچے موجود ہیں تو انہیں مچھروں سے بچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈینگی وائرس سے بچیں

    یہاں ہم آپ کو ایسے ہی کچھ طریقے بتارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ خود کو اور اپنے اہل خانہ کو مچھروں کے کاٹے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔


    ہلکے رنگوں کا استعمال

    گہرے یا سیاہ رنگ کے کپڑے مچھروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں کہ آیا یہ ان کا آسان شکار ثابت ہوسکے گا یا نہیں، وہ ہلکے رنگ کی طرف جھپٹنے سے گریز کرتے ہیں۔


    جڑی بوٹیوں کا تیل

    مختلف جڑی بوٹیوں سے کشید کیا ہوا تیل مچھروں کو دور بھگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    ان میں پودینہ، لیونڈر، یوکلپٹس، لیمن گراس وغیرہ کا تیل شامل ہے۔ ان اجزا کو ملا کر بنایا جانے والا تیل بھی یکساں نتائج دے گا۔


    لمبے آستین پہننا

    مچھر کھلے بازوؤں کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ ان کے کاٹے سے بچنا چاہتے ہیں تو لمبی آستینوں کا استعمال کریں۔


    کھڑے پانی سے حفاظت

    اپنے گھر میں، یا گھر کے آس پاس کھڑے پانی سے پہلی فرصت میں چھٹکارہ حاصل کریں۔ یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں مقام ہے۔

    گھر میں ذخیرہ کیے گئے پانی کو ڈھانپ کر رکھیں۔


    باہر نکلنے سے گریز

    مچھروں کے سیزن میں اندھیرا ہونے کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں۔ یہ وقت مچھروں کے حملے کا ہوتا ہے۔ گھر کے اند رہیں اور گھر میں جالی دار دروازوں اور کھڑکیوں کا اضافہ کریں۔


    ہوا کی آمد و رفت میں اضافہ

    گھر کو ہوا دار بنائیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی ہو۔ دن کے وقت کھڑکیاں کھلی رکھیں، پردے ہٹا دیں، تاکہ دھوپ اندر آسکے۔

    بند جگہوں پر مچھر گھس آئیں تو انہیں باہر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔

  • ملیریا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد نصف رہ گئی

    ملیریا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد نصف رہ گئی

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ عالمی پیمانے پر ملیریا کے خلاف کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں اس مرض کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد نصف ہو گئی ہے۔

    رپورٹ میں پاکستان کو مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں شامل کیا گیا ہے، اور وہاں بھی سنہ 2000 کے بعد سے ملیریا سے ہونے والی اموات کی شرح آدھی رہ گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس خطے میں ملیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد سنہ 2000 میں 2166 تھی، جو 2013 میں کم ہو کر 1027 رہ گئی۔ خطے کے دو سب سے متاثرہ ملکوں میں سوڈان اور پاکستان شامل ہیں، جہاں اس خطے کی 90 فیصد اموات واقع ہوئیں: سوڈان میں 688 اور پاکستان میں 244۔

    اس خطے میں ملیریا کے کل مریضوں کا 27 فیصد حصہ رہتا ہے۔

    تاہم رپورٹ میں لکھا ہے کہ غیر معیاری ڈیٹا کی ترسیل کے باعث پاکستان میں سال بہ سال رجحان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔

    قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں مرض پیدا کرنے والا جرثومہ پلازموڈیم فیلسی پیرم نہیں، جو افریقہ میں بڑی تعداد میں اموات کا باعث بنتا ہے، بلکہ یہاں پلازموڈیم وائویکس ملیریا پیدا کرتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔