Tag: Mosul

  • ویڈیو: عراق میں پرانا غرق شدہ گاؤں نمودار ہوتے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے

    ویڈیو: عراق میں پرانا غرق شدہ گاؤں نمودار ہوتے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے

    موصل: عراق میں برسوں پرانا غرق شدہ گاؤں زومر پھر سے نمودار ہو گیا ہے، جس نے لوگوں کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق عراق میں خشک سالی نے تاریخ کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے، موصل ڈیم کی سطح کم ہونے پر دہائیوں پہلے ڈوبا گاؤں سطح پر آ گیا ہے۔

    ڈیم میں پانی نیچے اترنے پر گاؤں کے کھنڈرات اور گلیوں کے آثار نمایاں ہو گئے ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دریائے دجلہ و فرات آبی بحران سے دوچار ہیں۔

    ایک طرف حکام آبی ذخائر کم ہونے سے پریشان ہیں تو دوسری طرف سیاحت کے شعبے میں جان پڑ گئی ہے، سیاح کھنڈرات کا نظارہ کرنے دور دور سے پہنچ رہے ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ 45 برس پہلے اس ڈیم کی تعمیر کے بعد زومر گاؤں زیر آب چلا گیا تھا۔


    لاس اینجلس میں ڈرائیور نے قطار میں کھڑے لوگوں پر گاڑی چڑھا دی


    سطح پر پھر سے ابھرنے والے کھنڈرات میں سابقہ اسکولوں اور گھروں کے ڈھانچے بھی شامل ہیں جو 1980 کی دہائی میں ڈیم کی تعمیر کے دوران ڈوب گئے تھے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم کے سکڑتے ہوئے ذخائر کا براہ راست تعلق خطے کو متاثر کرنے والے خشک سالی کے حالات سے ہے، جس سے عراق میں پانی کے بحران کی شدت کا پتا چلتا ہے، زومر واٹر ڈائریکٹوریٹ کا کہنا تھا کہ پانی کی مسلسل گرتی سطح کی وجہ سے پانی کے کئی اہم منصوبے معطل کرنے پڑے۔

    پرانا گاؤں سطح آب پر نمودار ہونے کے بعد مکین ایک طرف اس زیر آب علاقے سے وابستہ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کر رہے ہیں، اور دوسری طرف پانی کے غائب ہونے کے خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

  • عراق کا تباہ حال شہر موصل موسیقی کے سروں سے گونج اٹھا

    عراق کا تباہ حال شہر موصل موسیقی کے سروں سے گونج اٹھا

    موصل: عراق کے جنگ سے شدید متاثر تباہ حال شہر موصل میں وائلن کی پرفارمنس پیش کی گئی جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ امڈ آئے۔

    عراق کے معروف وائلن ساز کریم واصفی نے کھنڈرات میں تبدیل ہو جانے والے شہر موصل میں اپنی پرفارمنس پیش کی۔ اپنی اس پرفارمنس کو انہوں نے ’امن‘ سے منسوب کیا۔

    کنسرٹ میں کریم واصفی کے ساتھ ایک مقامی میوزک بینڈ نے بھی شرکت کی اور موصل کا ملبہ شدہ شہر موسیقی کے سروں سے گونج اٹھا۔

    واصفی کا کہنا تھا کہ یہ موسیقی موصل کی طرف سے دنیا کے لیے امن کا پیغام ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ موصل میں جنگ ختم ہوچکی، اب آئیں اور موصل کی تعمیر نو میں عراقیوں کا ساتھ دیں۔

    خیال رہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے سنہ 2014 میں موصل پر حملہ کرنے کے بعد 3 سال تک یہاں اپنا قبضہ جمائے رکھا۔

    اس دوران داعش اور ان کے خلاف برسر پیکار فوجوں کے درمیان خونریز جھڑپوں میں شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا جبکہ سینکڑوں افراد نے اپنی جانیں گنوائیں۔

    ان 3 سالوں میں 10 لاکھ افراد نے یہاں سے ہجرت کی۔

    سنہ 2017 میں عراقی اور اتحادی افواج نے بالآخر داعش کو شکست دی اور شہر کو ان کے قبضے سے چھڑانا شروع کیا جس کے بعد یہاں سے جانے والے واپس لوٹنا شروع ہوگئے۔

    جنگ ختم ہونے کے بعد عراق کا یہ خوبصورت شہر اب ملبے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عراق: موصل میں 11 ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کا انکشاف

    عراق: موصل میں 11 ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کا انکشاف

    بغداد: عراق کے شہر موصل میں داعش تنظیم کے قبضے کے بعد سے 11 ہزار سے زائد افراد کے لاپتہ ہونے کا انکشاف، جن کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔

    تفصیلات کے مطابق عراق کے شہر موصل میں پولیس کے ایک افسر نے انکشاف کیا ہے کہ 2014 میں شہر پر داعش کی تنظیم کے قبضے کے بعد سے 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہوئے جن کے انجام کے بارے میں اب تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔

    موصل میں جاری آپریشن کے اختتام کے بعد داعش تنظیم کے مراکز کی تلاشی کے باوجود عراقی حکام لاپتہ افراد کے بارے میں کچھ معلوم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق لاپتہ افراد کے لواحقین نے وزیر اعظم حیدر العبادی اور ان کی حکومت کو اپنے متعلقین کے غائب ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

    لاپتہ ہونے والے تین افراد کے والد صادق امین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کے تین بیٹوں کو اپریل 2015 کو حراست میں لیا تھا، جن کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان کے بیٹوں کو بازیاب کرایا جائے۔

    دوسری جانب عراقی فوج کی انٹیلی جنس کے افسر نے میڈیا کو بتایا کہ عراقی فورسز نے موصل شہر میں داعش تنظیم کے میڈیا ونگ اعماق ایجنسی کے مرکزی ذمے دار عثمان خالد امین کو گرفتار کرلیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل عراق میں ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹریٹ کا کہنا تھا کہ موصل میں داعش تنظیم کے ایک سیل کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے اہم فائلیں برآمد کرلی گئی ہیں، یہ سیل پارلیمانی انتخابات کے دوران حملوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سعودی ولی عہد کی امریکی وزیرِ دفاع کو موصل کی فتح پر مبارک باد

    سعودی ولی عہد کی امریکی وزیرِ دفاع کو موصل کی فتح پر مبارک باد

    ریاض : سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے اتوار کو امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس کو ٹیلی فون کر کے انہیں موصل میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف کامیابی پر مبارک باد پیش کی۔

    العربیہ ٹی وی کے مطابق سعودی ولی عہد نے اس تنظیم کے خلاف لڑنے اور اس پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اتحاد میں امریکا کے قائدانہ کردار کو سراہا۔

    انہوں نے باور کرایا کہ دہشت گردی اور اس کی حمایت اور فنڈنگ کرنے والوں کے خلاف جنگ کو پورے عزم کے ساتھ جاری رکھنا نا گزیر ہے۔

    ٹیلیفونک رابطے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور شدت پسندی کے انسداد کے واسطے دونوں ملکوں کے درمیان کو رابطہ کار کو بہتر بنانے کے علاوہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان عسکری اور دفاعی تعاون پر بھی بات چیت ہوئی۔


    داعش دہشت گردتنظیم ہے، پاکستان کا دشمن عراق کا دشمن


     یاد رہے کہ دو روز قبل عراقی سفیر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب عراقی سفیر کا کہنا تھا کہ داعش ایک خطرناک ترین بین الاقوامی تنظیم ہے، جس نے موصل پر 10 جون 2015 میں قبضہ کیا، عراقی عوام نے مذ ہب، نسل اور فرقہ سے بالا تر ہو کر داعش کو شکست دینے میں مدد کی، داعش کے دہشت گرد دنیا میں ایک سو سے زائد ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • ملالہ یوسفزئی کی عراق میں جنگ سے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات

    ملالہ یوسفزئی کی عراق میں جنگ سے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات

    موصل : ملالہ یوسفزئی عراقی شہر موصل پہنچ گئیں، جہاں انھوں نے جنگ سے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات کی اور کہا کہ موصل کی طالبہ تعلیم اور امن کی آواز بن سکتی ہیں۔

    نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اپنی سالگرہ منانے عراقی شہر موصل پہنچ گئیں، مہاجرکیمپ میں جنگ سے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات کی اور ان کے ہمراہ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا۔

    ملالہ اپنے دورے میں جنگ سے متاثرہ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اقدامات کاجائزہ لے رہی ہیں۔

    ملالہ یوسف زئی نے جنگ سے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم کے فروغ کیلئے ان کا ساتھ دینے کے لیے موصل کی طالبہ تعلیم اور امن کی آواز بن سکتی ہیں۔

    خیال رہے کہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اپنے والد ضیاالدین یوسفزئی کے ہمراہ ان دنوں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے دورے پر ہیں۔

    اس سے قبل ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملالہ یوسف زئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا اکاؤنٹ بنایا ،جس کے بعد منٹوں میں فالووور کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی تھی۔

    ملالہ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ میں جانتی ہوں کہ دنیا بھر میں لاکھوں لڑکیاں جو اسکول نہیں جاتیں اور انکو کبھی اپنی تعلیم کو پورا کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔

    واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی کو اکتوبر 2012 میں طالبان نے اسکول وین کے اندر نشانہ بنا کر گولی ماری دی تھی ، جس کے بعد
    انھیں علاج کیلئے برطانیہ منتقل کیا گیا تھا ، وہ اس کے بعد سے وہیں مقیم ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • موصل میں اتحادی طیاروں کی بمباری‘ 230افراد ہلاک

    موصل میں اتحادی طیاروں کی بمباری‘ 230افراد ہلاک

    موصل : عراق کےشہر موصل میں اتحادی طیاروں کی بمباری نتیجے میں 230افراد ہلاک جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق موصل کے مغربی علاقے الجدیدہ میں ایک بلڈنگ پر اتحادی طیاروں کی جانب سے بمباری کی گئی جس میں 130افراد جان کی بازی ہارگئے جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔

    4

    اتحادی طیاروں کی جانب سےموصل کےمغربی حصے میں دو گھروں پر شدید بم باری کی گئی۔ جس کے نتیجے میں تقریبا 100 افراد ہلاک ہوگئےجن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

    عرب ٹی وی کے مطابق امدادی ٹیمیں ملبے کے نیچے سے لاشوں کو نکالنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔اتحادی طیاروں کی جانب سےمغربی موصل میں فضائی بمباری داعش کے ساتھ لڑائی کےنتیجے میں کی گئی ہے۔

    3


    مزید پڑھیں:عراقی فورسز نے موصل یونیورسٹی کا کنٹرول سنبھال لیا


    خیال رہےکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مغربی موصل میں چار لاکھ افراد محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

    2


    مزید پڑھیں:موصل آپریشن : اجتماعی قبرسے40افراد کی لاشیں برآمد


    یاد رہےکہ عراقی فوج نےگزشتہ ماہ 19 فروری کومغربی موصل کو آزاد کرانے کے لیےآپریشن کا آغاز کیاتھاجس میں اسے امریکہ کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحاد کی مدد حاصل ہے۔

    واضح رہےکہ عراقی فوج نے گزشتہ سال اکتوبر میں داعش کے خلاف موصل میں فیصلہ کن آپریشن کا اعلان کیاتھا۔

    1

  • عراق: داعش نے حضرت یونس علیہ السلام کا مزار شہید کر دیا

    عراق: داعش نے حضرت یونس علیہ السلام کا مزار شہید کر دیا

    موصل: عراقی شہر موصل میں شدت پسند تنظیم داعش نے حضرت یونس علیہ السلام سے منسوب مزاردھماکہ خیز مواد سے اڑا کر شہید کردیا۔

    میڈیا رپورٹس کے عراقی شدت پسند تنظیم داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل میں واقع حضرت یونس علیہ السلام سے منسوب مزار کودھماکے سے اڑا کر شہید کردیا، عراقی حکام کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے مشرقی موصل میں حضرت یونس کے مزار اور اس سے ملحقہ مسجد پر مکمل قبضے کے بعد مسجد کو نمازیوں کے لیے بند کر دیا جبکہ مزار کو بارود سے اڑا دیا ہے۔

    .حکام کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران داعش کی جانب سے پینتالیس مزارات اور مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے

  • نوے سال بعد! کیا خلافت قائم ہوگئی؟

    لگ بھگ دس سے ساڑھے دس بجے کا وقت تھا دفتر میں بیٹھے خبر کی تلاش جاری تھی کہ ایک چینل پر ٹکر چلا "داعش نے شام و عراق میں خلافت کا اعلان کردیا”۔ ٹکرل پڑھنے کی دیر تھی کہ کچھ ہی دیر میں تبصرے شروع ہوگئے۔ کسی کا ردعمل انتہائی حیران کن تھا تو کوئی دل کی خوشی زباں سے بیان کرنے لگا۔ کسی نے یاد دلایا کہ نوے برسوں بعد آج دوبارہ خلافت قائم ہوگئی۔ اس کیفیت کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جائے تو بہتر ہے کہ اُس چیز کا اعلان ہوچکا تھا جس کا بے چینی سے انتظار تھا۔

    عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کی جانب سے خلافت کے اعلان پر جہاں کہیں جشن کا سماں ہے تو وہیں کچھ انگلیاں بھی اٹھی ہیں ۔۔ کسی نے اس دعوے کو من وعن قبول کیا تو کسی نے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جشن کی وجوہات اوردعوے کی تنقید کی بنیاد دونوں ایک طرف، عراق میں باغیوں کی حالیہ پیش قدمی اور محض آٹھ سوباغیوں کے آگے تیس ہزار سرکاری فورسز کابغیر مزاحمت ہتھیار ڈالنا اور مغربی میڈیا کی جانب سے صرف ایک ہی گروہ پر توجہ مرکوز رکھنا قابل تشویش امر ہے۔

    عراق میں جاری حالیہ لڑائی کا باقاعدہ آغاز7جون سے ہوتا ہے جس روز باغیوں نے انبار یونیورسٹی پر حملہ کرکے درجنوں اساتذہ اور طلبا کو یرغمال بنالیا۔۔ تاہم حملے میں تمام اساتذہ اورطلبا محفوظ رہے۔ 11جون کو اہم ترین کارروائی میں عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضے کے ساتھ ہی صوبہ نینوا کے 85 فیصد علاقے پر باغیوں نے کنٹرول حاصل کیا اور حملے کے نتیجے میں تین ہیلی کاپٹر، کئی بکتربند گاڑیاں اور چالیس کروڑ ڈالرز بھی ہاتھ لگے۔ اسی روز صوبہ صلاح الدین پردھاوا بولا گیا اور تکریت شہر کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی بیجی آئل ریفائنری کے بیشتر حصہ پربھی قبضہ مکمل ہوا۔ 12جون تک باغیوں نے صوبہ صلاح الدین کے 70فیصد رقبے پر بھی قبضہ مکمل کرلیا  ۔۔ جب کہ بغداد پر سخت حملے کو اپنا اگلا ہدف بھی قرار دیا گیا (جس کا تاحال انتظار ہے)۔ 13جون کو صوبہ دیالا کے دو قصبوں جلولا اور سعدیہ پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا مگراٹھارہ جون کو ہی کرد جنگجوؤں نے قبضہ چھین لیا۔

    اس تمام تر سنگین صورتحال کے پیش نظر برطانوی حکومت نے عراقی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر تیس لاکھ پاؤنڈ امداد کی پیشکش  کی جب کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی عراقی حکومت کی مدد کا فیصلہ کرتے ہوئے دو ہزار فوجی اہلکار عراق بھیج دیے۔17جون تک باغی دارالحکومت بغداد کےشمال سے صرف 37 میل کی دوری پر پہنچے تو امریکا نے بغداد میں سفارتخانے کے تحفظ کے لیے275سے زیادہ امریکی فوجی تعینات کردیے۔۔باغیوں نے 21جون کو  شامی سرحد سے ملحقہ عراق کے مغربی صوبے انبار کے اہم ترین قصبے القائم پر جب کہ 23جون کواردن سے ملحقہ سرحد تربیل پربھی قبضہ کرلیا۔۔24جون کو  باغیوں نے ملک کی سب سے بڑی بیجی آئل ریفائنری پر مکمل قبضے کا دعویٰ کیا مگر صرف دو ہی روز کے اندر سیکیورٹی فورسز نے تمام دعوؤں پر پانی پھیر دیا  ۔۔۔ 28 جون سے سیکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر صف بندی کرکے باغیوں کے زیرانتظام علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کی۔  اور ایک ہی دن میں تکریت شہر کے متعدد علاقوں پردوبارہ قبضہ جمالیا ۔۔اور اسی نفسہ نفسی ۔۔ ہار جیت  کے عالم میں  خبر ملی کہ عراق اور شام کے زیرقبضہ علاقوں پر خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔

    1924میں خلافت  کا انہدام ہونے کے بعد پورے 90برسوں بعد 29جون 2014کو دوبارہ خلافت کےقیام کے اعلان اتنی عجلت اور جلدبازی  میں کیوں لیا گیا اس پر ہزاروں سوال اٹھائے جاچکے ہیں ۔۔  سوال کرنے والے کہتے ہیں ابھی تو عراقی سرکاری فورسز سے لڑائی جاری ہے ۔۔ کہیں ہار ہے تو کہیں جیت ہے ۔۔ ابھی تو باغیوں کے پاس صوبہ انبار میں شامی فضائیہ کی بمباری کو روکنے کی بھی اہلیت نہیں کہ جس میں  ستاون شہری جاں بحق ہوگئے ۔۔ ریاست کی سرحدوں کی حفاظت تو دور کی بات ۔۔ بیجی آئل ریفائنری پر دو دن بھی قبضہ برقرار رکھنا محال تھا۔  تکریت بھی ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔۔تو پھر شامی صوبے حلب سے عراقی صوبے دیالہ تک ریاست خلافت کا اعلان کیسے؟ کیوں؟ کسی نے کہا کہ یہ تو بالکل ایسا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اُٹھے ۔۔ پشاور اور کوئٹہ سمیت خیبرپختو خوا اور بلوچستان کے دیگر شہروں پرجزوی قبضہ کرے اور خلافت کا اعلان کردے۔

    2004میں "جماعت  توحید و جہاد "۔۔  کچھ ہی عرصے بعد  "تنظيم قاعدہ  جہاد بلاد الرافدين ” اور پھر 2006میں "دولۃ اسلامیہ عراق "۔۔  سات برس بعد "دولۃ اسلامیہ عراق و شام "(داعش نہ پڑھا جائے ۔۔ کوڑے مارنے کی سزا طے کی جاچکی ہے)اور اب  بالآخر دولۃ اسلامیہ  کی جانب سے خلافت کے اعلان اور إبراہيم بن عواد ابن ابراہیم بن علی بن محمد البدری السامرائی‎ عرف ابوبکر البغداد ی کی بطور خلیفہ تقرری  کے دعوے پر  جہاں دولۃ اسلامیہ کو عالمی میڈیا   میں خاصی پزیرائی ملی وہیں ۔۔ عالمی اسلامی  تنظیموں نے بھی  اس اعلان پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ۔۔ شام میں  مصروف عمل  جہادی تنظیموں جبهة النصر ۔۔ انصار الاسلام اور جبھۃ الاسلام سمیت دیگر اہم تنظیموں نے اس اعلان کی شدید مخالفت کی ہے ۔۔ جب کہ اخوان المسلمون کے سابق فکری قائدین میں شمار کیے جانے والے يوسف القرضاوی ۔۔ مصری مذہبی رہنما ہانی السباعی ۔۔ معروف مذہبی عالم عبداللہ بن محمد المحيسنی اور سلفی مسلمانوں کے سب سے بااثر رہنما شیخ ابو محمد المقدسی نے بھی ابوبکرالبغدادی کے خلافت کے دعوے کی سخت ترین مذمت کی ۔۔ چیچن جہادی لیڈر شیخ ابو محمد نے بھی شام میں لڑنے والے چیچن جہادیوں کو دولۃ اسلامیہ سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے ۔۔ تاہم اس حوالے سے سب سے مفصل اور جامع جواب 1953سے خلافت راشدہ کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے عالمی اسلامی تنظیم حزب التحریر کی جانب سے پریس ریلیز کی صورت میں موصول ہوا جس میں تنظیم کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ نے معاملے کی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ خلافت کا اعلان کرنے والے کسی بھی گروہ کے لیے ضروری ہے کہ اُسے زمین پر نظرآنے والا واضح اختیار حاصل ہو تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے ۔۔ اور اس جگہ ایک ریاست کی تمام خصوصیات (متعین سرحدیں، سیاسی خودمختاری، حکومتی عملداری)موجود ہوں ۔۔

    کیا ‘دولۃ اسلامیہ’ کو حلب سے دیالہ تک وہ ریاستی اتھارٹی حاصل ہے جو آپ ﷺ کو ریاست مدینہ کے قیام کے وقت حاصل تھیں؟ کیا ابو بکر البغدادی کو مقامی قبائل سمیت دیگر اہل حل و عقد سے بیعت کا شرف حاصل ہوچکا ہے جیسے اوس و خزرج نے آپ ﷺ کے لیے تن من دھن کی قربانی کا عہد کیا؟ کیا ‘دولۃ اسلامیہ کو اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت حاصل ہے؟

    مگر اب جب  ماضی میں مختلف عسکری و غیر عسکری اسلامی تنظیموں کی طرح دولۃ اسلامیہ عراق و شام نے بھی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر ہی دیا ہے  تو اسے ثابت بھی کرنا ہوگا  ۔۔ کیوں کہ اسلامی ریاست  کوئی جمہوری ریاست تو ہے نہیں کہ جس کا حسن  خود بخود اعلان  کے فوری بعد ہی  سے جھلکنا شروع ہوجائے ۔۔اور نہ ہی یہ کوئی جمہوری تماشہ ہے کہ کبھی پانچ سال ایک حاکم تو اگلے کچھ سال دو سرا جمہوری آمر۔۔

      "دولۃ  اسلامیہ” تب ہی حقیقت  میں دولۃ اسلامیہ  کہلائے جانے کی مستحق ہوگی جب وہ ثابت کرے  کہ ریاست میں  اسلام مکمل  طور پر نافذ العمل ہے ۔۔ اور ریاست کی امان بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں ہو ۔۔ خلیفہ کا منسب سنبھالنے کی سات بنیادی شرائط (مسلمان،مرد،بالغ،عاقل،عادل،آزاد)میں سے  ایک شرط  اہلیت بھی ہے ۔۔ چنانچہ "دولۃ اسلامیہ کو جلد از جلد اسلامی ریاست کی پالیسیز کا اجراء کرنا لازم ہے۔۔ معاون تفویض  اور معاون تنفیذ ۔۔ والی ۔۔ امیر جہاد  کی تقرری۔۔ محکمہ داخلی سلامتی ۔۔ محکمہ خارجہ امور  ، مالیات ،القضاء   اور مجلس امت سمیت دیگر انتظامی اداروں کے قیام میں  تیزی یا سست روی  اہلیت اور  نااہلیت دونوں کا ثبوت فراہم کرے گی۔۔   ۔

    مگر ابھی تک  کی خبروں پر نظر ڈالیے  تو  وہی سننے کو ملتا ہے جو ریاست کے قیام کے دعوے سے پہلے سنتے تھے ۔۔ کبھی شام میں  کسی باغی گروہ سے لڑائی  تو کبھی عراق میں کسی علاقے سے پسپائی ۔۔  کہیں درگاہیں تباہ ہونا شروع ہوگئی ہیں  تو  کہیں پہلے ہی روز سے    ہاتھوں پر تلواریں چل رہی ہیں ۔۔  ترجیح  بشار الاسد سے دمشق کا   ۔۔ اور نوری المالکی  سے بغداد کا قبضہ  چھڑانے پر ہونی چاہیے مگر ابھی تک زیادہ تر توانائی آپسی لڑائیوں میں ہی  صَرف ہوتی نظرآئی ہے ۔۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا ۔۔ تو خلافت کے قیام کا نعرہ محض جذباتی نعرہ ہی تصور کیا جائے گا ۔۔ بالکل ویسا ہی جیسا کہ  اس سے پہلے بھی لوگ اپنی تسکین کے لیے  بغیر کسی وزن کے  ریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔  اور بے شک  آپ ﷺ کے  فرمان کے مطابق خلافت تو نبوت کے نقش قدم پر ہی دوبارہ قائم ہوکررہے گی ۔۔  اور مشرق سے مغرب تک غلبہ اسلام ہی کا ہوگا ۔۔