Tag: mount everest

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران 2  کوہ پیما ہلاک

    ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران 2 کوہ پیما ہلاک

    نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران دو غیرملکی کوہ پیما زندگی کی بازی ہار گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والوں میں بھارت سے تعلق رکھنے والے سبھراتا گھوش اور فلپائن کے فلپ دوم سانتیاگو شامل ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق 45 سالہ سبھراتا گھوش نے دنیا کی بلند ترین چوٹی (8،849 میٹر اور 29 ہزار 32 فٹ) سر کرنے کے بعد واپسی کے دوران ہیلری اسٹیپ پر آخری سانس لی۔

    نیپالی ٹریکنگ کمپنی سنوئی ہورائزن ٹریکس اینڈ ایکسپیڈیشن کا کہنا ہے کہ وہ نیچے آنے سے انکار کر رہے تھے اور اسی دوران ہلاک ہوگئے۔

    ہیلری اسٹیپ ’ڈیتھ زون‘ میں واقع ہے یہ وہ علاقہ ہے جو 8,000 میٹر سے بلند ہوتا ہے، جہاں آکسیجن بہت کم دستیاب ہوتی ہے اور انسانی جسم طویل وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ سبھراتا گھوش کی لاش کو بیس کیمپ تک لانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں، موت کی حتمی وجہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔

    فلپائن کے فلپ دوم سانتیاگو بھی 45 سال کے تھے اور وہ چوٹی سر کرنے کے راستے میں جنوبی کول (South Col) پر جان کی بازی ہار گئے۔

    نیپالی محکمہ سیاحت کے اہلکار کے مطابق سانتیاگو جب چوتھے ہائی کیمپ تک پہنچے تو بہت تھکے ہوئے تھے، وہ اپنے خیمے میں آرام کرتے ہوئے دم توڑ گئے۔

    نیپال نے رواں سیزن میں ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کے لیے 459 پرمٹ جاری کیے ہیں، اب تک تقریباً 100 کوہ پیما اور ان کے گائیڈ کامیابی سے چوٹی سر کر چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ پاکستان کے نوجوان اور باہمت کوہ پیما ساجد علی سدپارہ نے بغیر آکسیجن کے 7ویں بلند ترین چوٹی دھولاگیری Dhaulagiri سر کرکے ایک اور تاریخی کارنامہ سر انجام دیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق پاکستانی کوہ پیما نے جس چوٹی کو سر کیا ہے وہ نیپال میں واقع ہے اور کوہ پیمائی کی دنیا میں اسے ایک خطرناک اور چیلنجنگ پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sajid Ali Sadpara (@sajidalisadpara)

    سدپارہ کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ الحمدللّٰہ دھولاگیری سر کرلی ہے، بغیر آکسیجن اور بغیر کسی مدد کے، اس مہم کو 10 مئی کو کامیابی سے مکمل کیا۔

  • کوہ پیماؤں کے لیے بڑی خوش خبری

    کوہ پیماؤں کے لیے بڑی خوش خبری

    بلند چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کے تحفظ کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے، تاہم اب اس مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلی ڈرون ڈیلیوری کامیاب ہو گئی ہے، نیپالی ڈرون سروس کمپنی نے بیس کیمپ سے 3 آکسیجن سلنڈر کوہ پیماؤں تک پہنچائے۔

    ماؤنٹ ایورسٹ نے تقریباً 20,000 فٹ کی بلندی پر کوہ پیماؤں نے دنیا کی پہلی ڈرون ڈیلیوری حاصل کی، ڈرون واپسی پر کچرا لانے کے کام بھی آئے گا، یہ ڈرون انتہائی بلندی پر 15 کلو وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    اس کامیابی کو بلند چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کی بہتر حفاظت اور پائیداری کے ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، یہ ڈیلیوری رواں برس اپریل میں کی گئی تھی۔ کوہ پیماؤں کو سامان پہنچانے کے لیے ڈرون کا استعمال کرنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا مشن تھا، اپریل میں ہونے والی پہلی ڈرون ترسیل دراصل اس خیال کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کی گئی تھی کہ یہ قابل عمل ہے یا نہیں۔

    اس ترسیل میں فلائی کارٹ 30 نامی ڈرون کا استعمال کیا گیا، جسے ٹیکنالوجی کمپنی DJI نے تیار کیا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ لمبی دوری تک پندرہ کلو گرام وزن کے ساتھ اڑان بھر سکتا ہے۔

  • ویڈیو: ماؤنٹ ایورسٹ کا 360 ڈگری منظر دیکھ کر ہر کوئی حیران

    ویڈیو: ماؤنٹ ایورسٹ کا 360 ڈگری منظر دیکھ کر ہر کوئی حیران

    ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے 360 ڈگری کا نظارہ دکھانے والی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہے جس نے صارفین کو حیران کر دیا ہے۔

    اگر زمین پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے ہر چیز چھوٹی نظر آتی ہے، تو اسے ماؤنٹ ایورسٹ کہا جاسکتا ہے، جو دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے، ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے 360 ڈگری کا منظر دکھانے والی ویڈیو وائرل ہے۔

    سابقہ ٹوئٹر(ایکس) پر ایک صارف نے یہ دل دہلادینے والی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ماہر کوہ پیماؤں کی ٹیم کو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہت سے ٹویٹر صارفین ماؤنٹ ایورسٹ کے اس منظر سے متاثر نظر آئے۔ کیمنٹ سیکشن میں، جہاں کچھ صارفین نے کوہ پیماؤں کی ہمت کی تعریف کی، وہی دوسروں نے ان خطرات اور چیلنجوں کے بارے میں لکھا جن کا سامنا کوہ پیماؤں کو دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی پر کرنا پڑتا ہے۔

    اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والا 2 سالہ بچہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک پہنچنے والا سب سے کم عمر شخص بن گیا۔

  • پاکستانی خاتون کوہ پیما نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی

    پاکستانی خاتون کوہ پیما نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی

    پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی نے دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرلی، انہوں نے دو سال میں پانچ چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

    پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

    نائلہ کیانی کا تعلق صوبہ پنجاب میں راولپنڈی شہر کے علاقے گوجر خان سے ہے۔ رواں سال 2023 میں نائلہ کیانی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی بین الاقوامی کوہ پیما ہیں۔

    نائلہ کیانی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا کہ 14 مئی کی صبح 8 بج کر 2 منٹ پر وہ شرپا پاسنگ ٹمبا کے ہمراہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچیں۔

    الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق نائلہ کیانی نہ صرف گاشر برم ٹو کو فتح کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں بلکہ انہوں نے اپنی پہلی مہم میں ہی 8 ہزار میٹر کی چوٹی فتح کی۔

    وہ اس سے قبل گیشربرم 1، گیشربرم 2، کے ٹو اور اناپورنا کو بھی سر کر چکی ہیں۔ نائلہ کیانی اس سیزن میں ماؤنٹ لوٹسے بھی سر کریں گی۔

  • وہ مشہورِ زمانہ مہم جس میں ایک غریب نیپالی نوجوان نے سَر ایڈمنڈ ہلاری کا ساتھ بھرپور دیا

    وہ مشہورِ زمانہ مہم جس میں ایک غریب نیپالی نوجوان نے سَر ایڈمنڈ ہلاری کا ساتھ بھرپور دیا

    1953ء میں کوہ پیما ایڈمنڈ ہلاری (Sir Edmund Hillary) اور ان کے نیپالی مددگار تینزنگ نورگے (Tenzing Norgay) نے ایورسٹ کی چوٹی سَر کی تھی، اور بعد میں برطانوی کوہ پیما ایڈمنڈ ہلاری نے اس خطرناک مہم کا احوال رقم کیا تھا جس کے چند پاروں کا ترجمہ مشہور ہفت روزہ ‘آئینہ’ (نئی دہلی) میں شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    27 مئی کو صبح میں جلدی ہی اٹھ بیٹھا، سخت سردی کے باعث تمام رات مشکل سے ہی نیند آئی تھی، اور میری حالت بہت ہی خستہ ہو رہی تھی۔

    میرے ساتھی لو، جارج اور تینزنگ مخروطی خیمہ میں پڑے ہوئے کروٹیں بدل رہے تھے تاکہ سخت سردی کے احساس میں کچھ کمی ہو سکے۔ ہوا بہت تیز تھی اور پوری طاقت سے چل رہی تھی۔ ہوا کی زور دار آواز کے باعث تمام رات گہری نیند سونا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ بستر میں سے ہاتھ نکالنے کو دل تو نہیں چاہتا تھا، لیکن بادلِ ناخواستہ ہاتھ نکالا اور گھڑی دیکھی صبح کے چار بجے تھے۔ دیا سلائی جلائی اور اس کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں تھرما میٹر دیکھا۔ درجۂ حرارت 35 ڈگری تھا، یعنی نقطۂ انجماد سے 25 ڈگری کم، ہمارا کیمپ کوہِ ایورسٹ کے جنوبی درّہ میں تھا۔

    ہمیں امید تھی کہ ہم اس دن جنوب مشرقی پہاڑی بلندی پر اپنا کیمپ قائم کر سکیں گے، لیکن سخت ہوا کے باعث اس مقام سے روانہ ہونا ہی ناممکن تھا، لیکن ہمیں تیار رہنا تھا تاکہ جوں ہی ہوا کا زور ختم ہو ہم اپنے سفر پر روانہ ہو سکیں۔ میں نے تینزنگ کو بلایا اور اس سے کھانے پینے کے متعلق چند باتیں کہیں، تینزنگ کی عجیب عادت یہ ہے کہ اس کو کبھی کوئی شکایت کرتے ہوئے نہیں سنا گیا، تینزنگ سے باتیں کرنے کے بعد پھر میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ جلد ہی اسٹوو جلنے کی آواز آئی اور خیمہ کی ہوا میں گرمی پیدا ہوگئی۔ ہم اٹھ بیٹھے۔ ہمارے اندر تازگی پیدا ہوگئی اور ہم بسکٹ کھانے اور گرم پانی پینے لگے جس میں شکر اور لیموں ڈالا گیا تھا۔ گریگوری اور میں اپنے دن کے پروگرام کے متعلق گفتگو کرنے لگے، لیکن ہم پر مایوسی کی ایک کیفیت چھائی ہوئی تھی۔

    9 بج چکے تھے، لیکن ہوا کا زور و شور بدستور تھا۔ میں اپنے گرم کپڑے پہنے ہوئے خیمہ سے باہر نکلا اور اس چھوٹے سے خیمہ کی طرف چلا تھا جس میں جان ہنٹ چارلس ایون اور ٹام بورڈیلن تھے۔ ہنٹ نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ ایسے خراب موسم میں آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ آنگ ٹیمبا بیمار ہو چکا تھا اور اس کو آگے لے جانا بظاہر ممکن نہیں آتا تھا، اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ایونس اور بورڈ ویلن کے ساتھ نیچے کیمپ میں بھیج دیا جائے۔ دوپہر کے قریب یہ لوگ ساتویں کیمپ کے لیے روانہ ہو گئے۔ آخری لمحے ہنٹ نے بورڈ ویلن کی کمزور حالت کے باعث اس جماعت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اور وہ ان لوگوں کی مدد کے لیے درّہ کے اوپر تک گئے اور وہاں کھڑے ہوکر ہم نے ان لوگوں کو ساتویں کیمپ کے لیے نیچے جاتے ہوئے دیکھا۔

    تمام دن ہوا کا زور نہیں ٹوٹا اور ہم نے مایوس ہوکر اگلے دن درّہ سے نکل کر اوپری حصہ میں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ اگر ہم اس درّہ میں پڑے رہتے تو نتیجہ حالات کے اور زیادہ خراب ہونے اور ہماری کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا۔

    دوسرے دن صبح بھی ہوا کا وہی زور تھا لیکن آٹھ بجے کے قریب اس کے زور میں کمی ہو گئی اور ہم نے روانہ ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن ایک اور مصیبت آن پڑی۔ پیمبا سخت بیمار ہوگیا، وہ آگے نہیں جا سکتا تھا۔ اب صرف ایک قلی رہ گیا ، جو ہمارا سامان لے جا سکتا تھا وہ تھا آنگ نائمبا۔ ہمارے ساتھ تین قلی تھے، اب ان میں سے صرف ایک رہ گیا تھا۔ لیکن ہم آگے بڑھنے کی کوشش کو ترک بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہم نے خیمہ خود ہی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سامان باندھ لیا، البتہ غیر ضروری چیزوں کو وہیں چھوڑ دیا، یہاں تک کہ بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ہمیں آکسیجن کے ذخیرے میں بھی کمی کرنی پڑی۔

    پونے نو بجے گریگوری، آنگ نائمبا روانہ ہوگئے، ہر ایک کے پاس چالیس پونڈ وزن تھا اور ہر شخص چار لیٹر فی منٹ کے حساب سے آکسیجن سانس کے ساتھ جذب کر رہا تھا، تینزنگ اور میں بعد کو روانہ ہونے والے تھے تاکہ ہم اس راستے پر جو ہم سے آگے جانے والے بنائیں آسانی سے چل سکیں اور اس طرح ہماری طاقت بھی برقرار رہے اور ہم آکسیجن کا استعمال بھی کم کریں۔ ہم نے اپنے کپڑے، بستر، خوراک اور آکسیجن سیٹ باندھے اور دس بجے روانہ ہوگئے۔

    ہم آہستہ آہستہ طویل ڈھالوں پر چڑھتے رہے، اور برفانی چشمے کے نچلے حصہ تک پہنچ گئے، اس کے بعد ہم اس زینہ پر چڑھنے لگے جو لو نے برف کے چشمہ کے ڈھال پر بنایا تھا، جب ہم اس زینہ پر چڑھ رہے تھے تو برف کے ٹکڑے ہمارے اوپر گر رہے تھے، کیوں کہ ہم سے اوپر لو اور گریگوری برف کو کاٹ کر سیڑھیاں بنا رہے تھے، ہم دوپہر کے وقت جنوب مشرقی پہاڑی پر پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں اپنی جماعت کے وہ لوگ مل گئے جو ہم سے آگے جا چکے تھے۔ قریب ہی ہمیں ٹوٹا پھوٹا خیمہ نظر آیا جو سوئزر لینڈ کے کوہ پیماؤں نے گزشتہ سال قائم کیا تھا اور جہاں سے تینزنگ اور لیمبرٹ نے چوٹی پر پہنچنے کی بہادرانہ کوشش کی تھی۔

    یہ جگہ بہت ہی حیرت انگیز تھی۔ چاروں طرف خوب صورت مناظر تھے۔ ہم نے اس مقام پر بہت سے فوٹو لیے، یہاں ہم بہت خوش تھے اور ہمیں یقین تھا کہ ہم جنوب مشرقی پہاڑی پر اپنا خیمہ نصب کرسکیں گے۔ ذخیرہ 27350 فٹ بلندی پر تھا لیکن چوٹی کے مقابلہ میں پھر بھی بہت نیچے تھا اور ہمیں زیادہ اوپر جانا تھا، اس لیے اپنے سامان کے علاوہ ہم نے اس ذخیرے سے بھی کچھ سامان لیا۔ گریگوری نے کچھ آکسیجن بھی لی، لو نے خوراک اور تیل وغیرہ لیا اور میں نے ایک خیمہ لیا، آنگ نائمبا کے پاس تقریبا چالیس پونڈ وزن تھا لیکن ہمارے پاس 35 یا 36 پونڈ وزن تھا۔ ہم آہستہ آہستہ پہاڑی پر چڑھتے رہے، وزن کے باوجود ہم برابر آہستہ آہستہ اوپر چڑھ رہے تھے۔ چٹان بہت ڈھلوان تھی اور لو نے پچاس فٹ تک زینہ بنادیا تھا۔

    تین بجے ہم تھک گئے اور کیمپ قائم کرنے کے لیے جگہ کی تلاش کرنے لگے۔ لیکن کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی اور ہم اوپر چڑھنے پر مصروف ہوئے۔ ہم آہستہ آہستہ چڑھتے رہے لیکن ہمیں پھر بھی کیمپ کے واسطے مناسب جگہ نہیں ملی۔ ہم ناامید ہوتے جارہے تھے کہ تینزنگ کو یکایک خیال آگیا کہ اس مقام پر گزشتہ سال اس نے کہیں کوئی چوڑ اخطہ دیکھا تھا چنانچہ اس نے ہم کو بائیں طرف چلنے کو کہا اور ہم بالآخر ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں کیمپ قائم کیا جا سکتا تھا۔

    ڈھائی بج چکے تھے۔ ہم نے یہاں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، تمام دن لوہسٹے کی شان دار چوٹی کو دیکھتے رہے تھے لیکن اب یہ چوٹی ہمیں اپنے نیچے نظر آرہی تھی، اس وقت ہم 27900 فٹ کی بلندی پر تھے۔ لو، گریگوری اور آنگ نائمبا نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے وزن زمین پر ڈال دیے۔ وہ تھکے ہوئے تھے لیکن انہیں یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کافی بلندی تک پہنچ چکے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے دن کی کام یاب چڑھائی ان کی ہی کوششوں کے باعث عمل میں آئی، انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا اور وہ جنوبی درّہ کے عقب میں چلے گئے۔

    ہم نے اپنے ساتھیوں کو خوش خوش واپس جاتے ہوئے دیکھا، گو ہم تنہا رہ گئے۔ پھر بھی ہمیں اس کام یابی پر مسرت تھی، ہمیں بہت کام کرنا تھا، ہم نے آکسیجن سیٹ علیحدہ کردیے اور کدالوں سے اس جگہ کو صاف کرنے لگے۔ ہم تمام برف کھودنے میں کام یاب ہوگئے، چٹان نظر آنے لگی اور ہم خیمہ کے نصب کرنے کے لیے دو گز لمبے اور ایک گز چوڑے دو ٹکڑے بنا سکے۔ لیکن ان دونوں کی سطح میں ایک فٹ کا فرق تھا، یہاں ہم نے اپنا خیمہ نصب کر دیا، سورج غروب ہونے پر ہم اپنے خیمہ میں داخل ہوگئے، تمام گرم کپڑے پہن لیے اور بستروں میں گھس گئے۔

    چار بجے ہوا خاموش تھی۔ میں نے خیمہ کا دروازہ کھولا اور باہر دیکھا۔ وہاں نیپال کی وادیاں نظر آئیں۔ برفیلی چوٹیاں ہمارے نیچے صبح کی ہلکی روشنی میں چمک رہی تھیں، تینزنگ نے تھیانگ بوش کے بت خانے کی طرف اشارہ کیا۔ جو ہم سے 16 ہزار فٹ نیچے دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔

    ساڑھے چھے بجے صبح ہم خیمہ سے نکل کر برف پر آئے، آکسیجن سیٹ اپنی پیٹھ پر لادا اور آکسیجن جذب کرنے لگے۔ چند گہری سانسیں لینے کے بعد ہم پھر چلنے کو تیار ہوگئے۔

    ہم آہستہ آہستہ مستقل بڑھتے چلے جارہے تھے ہمیں رک کر سانسیں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں راستہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور تینزنگ میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔

    جس مقام سے ہم گزر رہے تھے وہ نہایت خطرناک تھا۔ آٹھ ہزار فٹ نیچے ہمیں چوتھا کیمپ نظر آرہا تھا۔ لیکن ہم نے نہ محنت میں کمی اور نہ احتیاط کو ہاتھ سے چھوڑا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا تینزنگ کے قدم آہستہ پڑنے لگے اور اس کے لیے سانس لینا مشکل ہورہا ہے، تینزنگ کو آکسیجن کے اثرات کا بہت کم احساس تھا، میں نے اس کی حالت دیکھ کر محسوس کیا کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی، میں نے اس کی آکسیجن ٹیوب دیکھی تو اس کو برف سے بند پایا، میں نے اس ٹیوب کو صاف کیا اور تینزنگ آکسیجن سانس کے ذریعہ جذب کرسکا، میں نے اپنی ٹیوب دیکھی وہ بھی برف کے باعث بند ہوگئی تھی اس کو بھی میں نے صاف کیا۔

    اسی طرح ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہمیں ایسی مشکل پیش آئی جو بظاہر حل ہوتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی تھی، ہمارے سامنے تقریباً چالیس فٹ اونچی ایک چٹان کھڑی تھی جس پر چڑھنا بالکل ناممکن معلوم ہوتا تھا، اس چٹان کو میں ہوائی جہاز کے ذریعے لیے ہوئے فوٹو میں دیکھ چکا تھا، نیز اس کو اپنی دور بین کے ذریعے بھی دیکھ چکا تھا۔ میں نے ہمّت کی اور تینزنگ کو نیچے چھوڑ کر اس نکلی ہوئی برف کو پکڑ کر اور اس شگاف میں اپنے پاؤں کاندھے اور ہاتھ جماتا ہوا آگے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ اوپر چڑھتے ہوئے میں یہ دعا بھی کرتا جاتا تھا کہ یہ برف کے چھجے ٹوٹیں نہیں ورنہ سوائے موت کے اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔

    آخر کار میں چٹان کے اوپر پہنچ گیا، تینزنگ بھی اسی طرح اوپر آیا، میں نے پھر سیڑھیاں بنانی شروع کر دیں۔ ایک دوسرا موڑ آیا اور جب میں برف کاٹنے لگا تو میں سوچنے لگا کہ ہم اس طرح کہاں تک بڑھتے چلے جائیں گے اس وقت چوٹی پر پہنچنے کا ہمارا جوش ختم ہوچکا تھا، اور ہم اپنے آپ کو موت سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ میں نے اوپر دیکھا اور ایک تنگ حصہ چوٹی تک جاتا ہوا نظر آیا، سخت جمی ہوئی برف میں میں نے تھوڑی دیر اور راستہ بنایا اور ہم دونوں چوٹی پر پہنچ گئے۔

    چوٹی پر پہنچ کر مجھے بڑا سکون محسوس ہوا، ہمارا سفر ختم ہوچکا تھا۔ اب ہمیں نہ برف کو کاٹنا تھا، نہ چٹانوں کو عبور کرنا تھا اور نہ ٹیلوں کو پار کرنا تھا، میں نے تینزنگ کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ آکسیجن نقاب اور برف سے چھپا ہوا تھا۔ پھر بھی وہ مجھے چمکتا ہوا نظر آیا۔ وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا، ہم دونوں نے ہاتھ ملائے، تینزنگ نے اپنے ہاتھ میرے گلے میں ڈال دیے، ہم دونوں نے ایک دوسرے کو تھپتھپایا، یہاں تک کہ ہم تھک گئے، ساڑھے گیارہ بجے تھے اور ڈھائی گھنٹہ میں ہم نے پہاڑ کے اس ابھرے ہوئے حصہ کو طے کیا تھا جو چوٹی سے نیچے واقع تھا۔

    میں نے آکسیجن سیٹ اتار دیا، میرے پاس کیمرہ تھا جس میں رنگین فلم چڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کو نکالا اور تینزنگ کو کھڑا کر کے اس کا فوٹو لیا۔ تینزنگ کے ہاتھ میں کدال تھی جس پر جھنڈے لہرا رہے تھے، یہ جھنڈے برطانیہ، نیپال ،اقوامِ متحدہ اور ہندوستان کے تھے۔

    تب میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا چوٹی سے اردگرد کا ملک صاف نظر آرہا تھا۔ مشرق میں مکالو کی چوٹی تھی، جس پر ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا تھا۔ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر میری ہمتیں بڑھ گئی تھیں اور میں یہ دیکھنے لگا کہ مکالو کو جانے والا کوئی راستہ موجود ہے یا نہیں۔ بہت دور پہاڑوں میں کنچن جنگا کی چوٹی افق پر دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں سے نیپال کا علاقہ صاف نظر آرہا تھا۔ شمال کی طرف وہ مشہور راستہ دکھائی دے رہا تھا جس پر سے میں 1920 اور 1930 میں ایورسٹ پر چڑھنے کی کوشش کی گئی تھی۔

    میں نے اپنے آکسیجن سیٹ کی پھر جانچ کی اور اس کے مطابق واپسی کے سفر کا حساب لگایا۔ اور بالآخر واپس ہو گئے۔

    جب ہم کام یابی سے ڈھلوان حصہ سے اتر کر چٹانی حصہ پر پہنچ گئے تو ہم دونوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہم بہت تھک چکے تھے۔ ہمیں اب جنوبی درّے تک پہنچنا تھا۔

    یہاں ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے جانے کے بعد جو سخت ہوا چلی تھی اس کے باعث ہماری بنائی ہوئی سیڑھیاں ختم ہوچکی تھیں۔ برف بغیر کسی نشان کے تھی، اس لیے ہمیں مجبوراً پھر راستہ بنانا پڑا، بڑی ناخوش گواری سے میں نے پھر برف کاٹنی شروع کی۔ ہوا سخت تیز تھی اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ ہمیں اڑا کر لے جائے گی، دو سو فٹ تک میں نے راستہ بنایا، پھر تینزنگ راستہ بنانے لگا۔ سو فٹ تک اس نے یہ کام کیا۔ کچھ دور کے بعد نرم برف آگئی جس میں چلنا نسبتاً آسان ہوگیا اور ہم جنوبی درّہ پہنچ گئے۔

    ہم ایورسٹ کی چوٹی پر صرف 15 منٹ ٹھہرے، اس وقت ہم پر اپنے سفر کا رد عمل شروع ہو چکا تھا، ہم تیزی کے ساتھ پہاڑوں سے نکل جانا چاہتے تھے۔ ہمارا کام ختم ہو چکا تھا، لیکن ہمیں واپس ہونا تھا اور ان ہی خطرات سے پھر گزرنا تھا، جن سے گزر کر ہم چوٹی تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے تھے۔

  • کورونا وائرس دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر بھی جا پہنچا

    کورونا وائرس دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر بھی جا پہنچا

    کھٹمنڈو : دنیا میں شاید ہی اب کوئی ایسی جگہ بچی ہو جہاں کورونا وائرس نے اپنی موجودگی کا احساس نہ دلایا ہو، سمندروں اور صحراؤں کے بعد اب یہ دنیا کے سب سے بلند ترین مقام پر بھی پہنچ گیا۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ وائرس دنیا کے بلند ترین مقام پر بھی پہنچ سکتا ہے تاہم اب دنیا کے بلند ترین مقام ماؤنٹ ایورسٹ پر کوویڈ 19 کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق  نیپالی حکام نے بتایا ہے کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے کے خواہشمند کوہ پیماؤں میں سے ایک میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی ہے۔

    ماؤنٹ ایورسٹ کو کوہ پیماؤں کے لیے حال ہی میں سخت پابندیوں کے ساتھ کوہ پیماؤں کے لیے کھولا گیا تھا۔ مارچ 2021 میں طویل عرصے بعد ماؤنٹ ایورسٹ کو کوہ پیماؤں کے لیے کھولا گیا تھا اور ان پر ٹیسٹ اور سماجی دوری جیسی پابندیوں کا اطلاق بھی کیا گیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق بیشتر کوہ پیماؤں نے ان پابندیوں کی کوئی پروا نہیں کی، فیس ماسک یا سماجی دوری جیسی تدابیر پر بیس کیمپ میں قیام کے دوران اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

    نیپال کے سی آئی ڈبلیو ای سی اسپتال کی میڈیکل ڈائریکٹر پراتویا پانڈے نے بتایا کہ بیس کیمپ کے حکام نے کوہ پیماؤں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارت صحت کے ساتھ مل کر کوہ پیماؤں اور دیگر عملے کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کی کوشش کی تھی۔ نیپال کے محکمہ سیاحت کے سربراہ رودرا سنگھ نے بتایا کہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں اور ہمیں کوہ پیمائی معیشت کو بچانا ہے۔

    پہلا کوہ پیما گزشتہ ہفتے بیمار ہوا تھا اور یہ خیال کیا گیا تھا کہ اتنی اونچائی کے نتیجے میں لاحق ہونے والی بیماری سے متاثر ہے مگر جب اسے بیس کیمپ سے کھٹمنڈو ہیلی کاپٹر سے منتقل کیا گیا تو ٹیسٹ سے کوویڈ کی تشخیص ہوئی۔

    یاد رہے کہ نیپال بھارت کا پڑوسی ملک ہے جہاں اس وقت کورونا وائرس کی دوسری لہر اپنے عروج پر ہے۔

    نیپال میں جنوری 2021 میں ایسٹرا زینیکا ویکسین سے ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا تھا جو بھارت نے فراہم کی تھی مگر مارچ میں سپلائی نہ ملنے سے اسے روکنا پڑا۔

    ابھی کوئی باضابطہ اعلان تو نہیں ہوا مگر بیس کیمپ پر کوویڈ کیس کی تشخیص کے بعد امکان ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر کوہ پیمائی کا سیزن آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

  • دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے متعلق اہم خبر

    دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے متعلق اہم خبر

    کھٹمنڈو: دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی میں اضافہ ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی نئی پیمائش کی گئی ہے، جس میں یہ حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کی اس مشہور ترین چوٹی کی اونچائی میں 3 فٹ کا اضافہ ہو گیا ہے۔

    نئی پیمائش نیپال اور چین نے کی ہے، اور اب ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8848.86 میٹر (29,031.69 فٹ) ہو گئی ہے۔

    گزشتہ پیمائش کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8848 میٹر تھی، چینی اور نیپالی صدور نے اس پیمائش پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی ہے۔

    اس منصوبے کی قیادت کرنے والے اور نیپال کے چیف سروے آفیسر سوشیل ڈانگول نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اب تک حاصل ہونے والی یہی ایورسٹ کی سب سے درست اونچائی ہے، یہ ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی، اور یہ ہمارے لیے بڑے فخر کا لمحہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیمائش ممکن ہے ایورسٹ کی اسٹینڈرڈ اونچائی بن جائے، کولراڈو یونی ورسٹی کے ماہر ارضیات روگر بلہم کا کہنا ہے کہ یہ بہت مشکل ہوگا کہ اس نئی پیمائش میں بھی بہتری لائی جائے، نیپال کی یہ پیمائش قابل ذکر ہے۔

    دوسری طرف ماہرین ارضیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایورسٹ کی درست بلندی ایک متحرک ہدف ہے، یعنی ٹیکٹونک پلیٹوں اور زلزلوں کی وجہ سے اس میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    کھٹمنڈو: نیپالی حکومت نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم کا آغاز کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق پہاڑ پر کوہ پیماؤں کا پھینکا گیا ٹنوں کچرا وہاں موجود ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے بلند ترین کچرا گھر کا نام بھی دیا جارہا ہے۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ میں موجود ماؤنٹ ایورسٹ نیپال اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 8 ہزار 8 سو 48 میٹر ہے۔ ہر سال درجنوں کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

    ماؤنٹ ایورسٹ سے اس سے قبل 3 ہزار کلو گرام کچرا اٹھایا جا چکا ہے، اس کچرے میں آکسیجن کے خالی ٹینکس، الکوحل کی بوتلیں، خراب شدہ خوراک، اور خیمے شامل تھے۔ اب ایک بار پھر یہاں کی صفائی مہم شروع کی گئی ہے۔

    گزشتہ ماہ 14 اپریل سے شروع کی جانے والی اس صفائی مہم کا اختتام 29 مئی کو ہوگا، یہ وہ تاریخ ہے جب اس چوٹی کو پہلی بار سر کیا گیا۔

    حکام کو امید ہے کہ 45 دنوں میں یہاں سے 10 ہزار کلو گرام کچرا صاف کرلیا جائے گا۔ اس بلند ترین مقام پر کی جانے والی صفائی مہم پر 2 لاکھ ڈالر اخراجات آرہے ہیں۔

    نیپال نے سنہ 2014 کے بعد سے کوہ پیماؤں پر اپنے ہمراہ کچرا واپس نہ لانے پر جرمانہ بھی عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قبل کچرا اکٹھا کی جانے والی مہم میں کچرے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نیچے لایا گیا تھا۔

    حکام کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر سخت موسم کے باعث وہاں ہلاک ہوجانے والے مہم جوؤں کی لاشیں بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد کم از کم 200 ہے، تاہم ان لاشوں کو فی الحال نیچے نہیں لایا جارہا۔

    ماہرین کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر کچرے کی وجہ صرف کوہ پیماؤں کا کچرا چھوڑ جانا نہیں۔ جس طرح سے ہم اپنی زمین کو کچرے سے آلودہ کر رہے ہیں اور یہ کچرا اڑ اڑ کر سمندر کی تہوں اور دور دراز برفانی خطوں تک جاپہنچا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی کچرے سے اٹ چکی ہے۔

  • کوہ پیماؤں پرماؤنٹ ایورسٹ اکیلےسرکرنےپرپابندی

    کوہ پیماؤں پرماؤنٹ ایورسٹ اکیلےسرکرنےپرپابندی

    کٹھمنڈو: نیپال حکومت نے کوہ پیمائی میں حادثات کو کم کرنے کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دیگر چوٹیوں پرکوہ پیماؤں کے اکیلے جانے پرپابندی لگادی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیپال حکومت نے ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دیگر چوٹیوں کو اکیلے سر کرنے پر پابندی عائد کردی، نیپال حکومت کی جانب سے نئے قواعد کے مطابق غیرملکی کوہ پیما کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی گائیڈ حاصل کریں۔

    محکمہ سیاحت کے حکام کا کہنا ہے کہ قواعد میں تبدیلی کوہ پیمائی کو محفوظ بنانے اور اموات میں کمی کے لیے کی گئی ہے۔

    نیپال کی جانب سے نئے قواعد کے تحت معذور اور نابینا کوہ پیماؤں کو بھی پہاڑ سر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک ان کے پاس میڈیکل سرٹیفیکیٹ نہیں ہوگا۔

    خیال رہے کہ نیپال کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق رواں برس کوہ پیمائی میں ہونے والی اموات کی تعداد 6 ہے جن میں 85 سالہ بہادر شیرچن بھی شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ 1920 سے ایورسٹ کو سر کرنے کی کوشش میں 200 افراد ہلاک ہوچکے ہیں ان میں سے زیادہ ترہلاکتیں 1980 کے بعد ہوئی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • پاکستانی کوہ پیماہ علی سدپارہ  کا دنیا کی بلند ترین چوٹی بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا اعلان

    پاکستانی کوہ پیماہ علی سدپارہ کا دنیا کی بلند ترین چوٹی بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : پاکستانی کوہ پیماہ علی سدپارہ نے دنیاکی خطرناک اور بلند ترین چوٹی بغیر آکسیجن سر کرنے کا اعلان کردیا، وہ کھٹمنڈو کے ذریعے ماؤنٹ ایورسٹ کا سفر شروع کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی کوہ پیماہ نے ملک کا جھنڈا دنیا کی خطرناک اور بلند ترین چوٹی پر لہرانے کا اعلان کر دیا، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماہ محمد علی سد پارہ کل سے بغیر آکسیجن ماونٹ ایورسٹ کی طرف سفر شروع کریں گے۔

    ان کا یہ سفر خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ منفی 55 ڈگری سینٹی گریڈ میں آکسیجن کی غیر موجودگی کسی بھی ہنگامی صورت حال کا باعث بن سکتی ہے۔

    محمد علی سدپارہ نے بتایا کہ مہم میں اسپین کا کوہ پیما ساتھ ہوگا، غیرملکی جھنڈا لہراتے تھے تو خواہش اٹھتی تھی پاکستان کا جھنڈا لہراؤں، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نےانعام دینے کاوعدہ کیا تھا لیکن نہیں دیا۔

    علی سدپارہ نے کہا کہ چوٹی سرکرنےکاسفرکل سےشروع کروں گا، دسمبر سے 21مارچ تک چوٹی سرکرنے کی کوشش کرینگے، چوٹی سرکرنے کے دوران درجہ حرارت منفی50سے55ہوگا۔

    اگر محمد علی سدپارہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو موسم سرما میں یہ چوٹی سرکرنے والے دنیا کے پہلے کوہ پیما بن جائیں گے۔

    خیال رہے کہ علی سدپارہ کوموسم سرمامیں نانگاپربت چوٹی سرکرنےکااعزازبھی حاصل ہے، اس کے علاوہ دیگر چوٹیاں جس میں براد پیک، سپیندیک پیک ، جی ون ، جی ٹو بھی سر کر چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل گلگت بلتستان کے سپوت حسن سدپارہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤئنٹ ایورسٹ کو بغیر آکسیجن کے سرچکے ہیں، معروف کوہ پیما گذشتہ سال دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔