Tag: mubarak village

  • زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    آپ نے علامہ اقبال کا وہ شعر تو ضرور سنا ہوگا

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

    یہ نظریہ قوم و ملت سے لے کر انفرادی طور پر ہر شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہیں اور اسے بدلنا چاہتے ہیں تو رونے دھونے اور شکوے شکایات کرنے کے بجائے اسے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک باعزم شخص سے ملوانے جارہے ہیں جس نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا اور خدا نے اس کا ساتھ دیا۔

    مبارک گوٹھ جسے عموماً مبارک ویلج کہا جاتا ہے، کراچی کے باسیوں کے لیے پسندیدہ ترین تفریح گاہ ہے، لیکن شاید بہت کم لوگ یہاں آباد ان کچی بستیوں سے واقف ہیں جو آج کے جدید دور میں بھی سترہویں صدی کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    کچے پکے، ٹوٹے پھوٹے مکانات بلکہ زیادہ تر جھونپڑیوں میں رہائش پذیر یہ لوگ پاکستان کے ہر اس گاؤں کی طرح جدید دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں جو گزشتہ 70 سال سے گاؤں ہی رہے اور کسی حکومت نے انہیں جدید دور کی سہولیات تو دور، بنیادی انسانی ضروریات تک فراہم کرنے کی زحمت نہ کی۔

    یہ گاؤں ابھی تک فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے لہٰذا یہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نہیں نظر آئی۔

    یہیں ہماری ملاقات حاتم سے ہوئی۔ پیشہ وارانہ امور کے سلسلے میں مبارک گوٹھ جانے پر یہی شخص ہمارا میزبان تھا اور گاڑی سے اترتے ہی سب سے پہلی شے جو ہمارا مرکز نگاہ بنی، وہ ایک جھونپڑی پر لگا ہوا شمسی توانائی سے بجلی بنانے والا سولر پینل تھا۔

    ایک ایسا گاؤں جہاں بجلی و باتھ روم کی بنیادی سہولت تک میسر نہ تھی، اور نہ وہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نظر آتی تھی، وہاں بھلا سولر پینل کیسے آسکتا تھا، اور تب ہی حاتم کے بارے میں علم ہوا کہ بظاہر بدحال سا دکھنے والا یہ شخص اپنی قسمت پر رو دھو کر صابر ہوجانے والا نہیں، بلکہ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہے۔

    دریافت کرنے پر وہی پرانی سی کہانی سننے کو ملی، کہ جہاں سورج ڈھلا وہیں گاؤں میں اندھیرے اور خوف کے بادل چھا جاتے تھے۔ گاؤں والے مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹینوں سے ضروری کام نمٹا لیا کرتے تھے۔ گویا یہاں دن سورج ڈھلنے تک کا تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد یہاں صرف اندھیرا تھا، ناامیدی تھی اور شاید کہیں کسی دل میں اپنے دن بدلنے کی خوش فہمی کی مدھم سے ٹمٹماتی لو۔۔

    لیکن حاتم نے اس خوش فہمی کو پہلے امید اور پھر حقیقت میں بدل دیا۔ ایک دفعہ کسی کام سے جب وہ شہر (کراچی) آیا تو اسے ان سولر پینلز کے بارے میں پتہ چلا جو دن بھر سورج سے بجلی بناتے ہیں، اور شام میں ان میں نصب بیٹریاں سورج کی روشنی کو بکھیر کر دن کا سا اجالا پھیلا دیتی ہیں۔

    حاتم نے سوچا کہ اگر اس کے گاؤں میں بھی یہ سہولت آن موجود ہو تو ان لوگوں کی زندگی کس قدر آسان ہوجائے۔ لیکن سرمایے کی کمی اس کی راہ کی رکاوٹ تھی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اس نے مکمل معلومات حاصل کیں تو ایک چھوٹا سا سولر پینل اسے 8 ہزار روپے میں پڑ رہا تھا جو صرف گاؤں کے کسی ایک گھر کو روشن کرسکتا تھا۔ مزید برآں اس میں کسی خرابی کی صورت میں نہ صرف شہر سے کسی ماہر کو بلوانا پڑتا بلکہ اس پر خرچ کی جانے والی رقم الگ ہوتی۔

    لیکن حاتم اس عزم کے ساتھ واپس لوٹا کہ وہ بجلی کی اس نعمت کو ضرور اپنے گھر لائے گا۔

    اس کے بعد اس نے اپنی محنت مزدوری کے کام میں اضافہ کردیا اور اضافی حاصل ہونے والی آمدنی کو جمع کرنے لگا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں رہتے ہوئے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوئے کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 8 ہزار روپے کا حصول کسی کی زندگی کا مقصد بھی ہوسکتا ہے؟ اتنی رقم تو شاید شہر کراچی کے لوگ ایک وقت کے کھانے یا شاپنگ پر خرچ کردیا کرتے ہیں۔

    بہرحال حاتم کے پاس رقم جمع ہونے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ 8 ہزار روپے جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اس سے قبل وہ ایک اور کام چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سولر پینل کی تنصیب کے بعد اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو تو اسے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑا، اور وہ خود ہی اسے درست کر سکے۔

    سولر پینل کے سسٹم کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اسے کراچی آنے اور مزید کچھ رقم کی ضرورت تھی اور وہ جلد ہی وہ بھی حاتم نے حاصل کرلی۔

    پھر ایک دن وہ بھی آیا جب وہ شہر سے واپس آیا تو اس کے ساتھ یہ سولر پینل اور ایک شخص تھا جو ایک جھونپڑی پر اس کی تنصیب کر کے چلا گیا۔

    اتنی محنت اور مشقت سے حاصل کیا جانے والا یہ سولر پینل حاتم نے اپنی جھونپڑی پر نصب نہیں کروایا، بلکہ جس جھونپڑی پر یہ سولر پینل نصب کیا گیا ہے اسے اس گاؤں کے اوطاق کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

    سولر پینل لگنے کے بعد اب اس اوطاق میں سر شام خواتین کی محفل جمتی ہے، جبکہ رات میں مرد اکٹھے ہو کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ بیان کرتے ہیں۔ سولر پینل سے آراستہ یہ جھونپڑی اندر سے نہایت خوبصورت ہے اور اس میں جا بجا روایتی کڑھائی سے مزین فن پارے اور طغرے آویزاں ہیں جو خواتین کی اس جھونپڑی سے محبت کا ثبوت ہیں۔

    ذرا سے فاصلے پر واقع چند گھروں پر مشتمل مختلف گاؤں دیہاتوں میں اس جھونپڑی کے علاوہ ایک اور جھونپڑی بھی ایسی ہے جس پر سولر پینل نصب ہے۔

    یہ گھر بھی تقریباً اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں باقاعدہ کسی کی رہائش نہیں ہے۔

    حاتم چاہتا ہے کہ اس کے گاؤں کو بجلی سے روشن کرنے کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ مخیر حضرات بھی آگے آئیں تاکہ ان کا دن بھی روشنی کی وجہ سے دن اور رات پر مشتمل ہوسکے، بغیر بجلی کے سورج کی روشنی اور صرف رات کے گھپ اندھیرے اور مایوسی تک نہ محدود رہے۔

  • مبارک ولیج : جہاں قدرتی حسن اورغربت صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں

    مبارک ولیج : جہاں قدرتی حسن اورغربت صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں

    کراچی اوراس سے ملحقہ ساحلی علاقے یقیناً قدرتی حسن اوردولت سے مالامال ہیں یہاں کے دلفریب نظارے سیر کے لئے آنے والون کی نگاہوں کو خیرہ کردیتے اور واپس لوٹ کروہ کئی دن تک اسی خمارمیں مبتلا رہتے لیکن اس دولت کے اصل مالک یعنی یہاں کے مقامی افراد کس طرح کی زندگی گزارتے ہیں اگر کوئی صاحب دل ان کی ویران آنکھوں اور بے رونق گھروں میں جھانک کردیکھے تو شائد کئی دن سکون کی نیند سونا پائے۔

    پاکستان کی فشنگ انڈسٹری کی پشت یقیناً ساحلی بستیوں پرصدیوں سے آباد مچھیروں کے خاندان ہیں لیکن ملکی معیشت میں بھرپور حصہ ڈالنے والے یہ ماہی گیر کس طرح کسمپرسی اورغربت کی زندگی گزارتے ہیں اس کا اندازہ کراچی سے ملحقہ ساحلی بستی مبارک ولیج کے ایک دورے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

    کراچی سے لگ بھگ 30 کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ساحلی بستی مبارک ولیج کے آبادی تقریباً چارہزارنفوس پرمشتمل ہے اوراس کے مکین پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ شہر کے پڑوس میں آباد ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے مقامی ماہی گیروں کے حالاتِ زندگی جاننے کے لئے جب اس بستی کا دورہ کیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے جتنی سمجھی جاتی ہے۔

    مبارک ولیج کے اس دورے کے دوران اندازہ ہوا کہ زندگی انتہائی مشکل ہے ، مقامی آبادی کے گھر کچے بنے ہوئے ہیں اور سیلاب یا طوفانی ہواوٗں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ بستی زندگی کا بنیادی جزو سمجھی جانے والی سہولیت یعنی بجلی اور پانی سے یکسرمحروم ہے اور سمندر کنارے آبادمقامی افراد کی ضروریاتِ زندگی کا دارو مدار شہر سے آنے والے پانی کے ٹینکر (جوانتہائی مہنگا ہے) اوردوردرازواقع گنتی کے چند میٹھے پانی کےکنووٗں پرہے۔

    یہ بھی دیکھا گیا کہ اس بستی کے مقیم افراد اس حد تک افلاس کا شکار ہیں کہ ان کی نئی نسل جو ابھی نہایت کم عمر ہے ساحل کنارے تفریح کے لئے آنے والوں سے پیسے اور کھانا مانگنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتی۔

    جب ان معصوم بچوں کوکھانافراہم کیا گیا تومحسوس ہوا کہ کھانے کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد کے پیچھے صدیوں کی محرومیاں کارفرما ہیں کہ جن کے سبب یہ معصوم بچے اپنے بچپن کی اصل معصومیت ہی کھوبیٹھے ہیں۔

    بستی کے واحد اسکول کے ایک سینئراستادعبدالستارنے مقامی آبادی کی مشکلات پرروشنی ڈالتے بتایا کہ کس طرح مبارک ولیج کے مکین آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

    عبدالستارنے بتایا کہ چارہزار کی اس بستی کے لئے ایک سرکاری اسکول ہے جو کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن اس اسکول میں اساتذہ کی تعداد انتہائی کم ہے اور سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔

    انہوں نے صحت کی سہولیات کے حوالے سے جو انکشاف کیا وہ کسی کے بھی سر پر آسمان توڑدینے کے مترادف تھا کہ اتنی بڑی آبادی کے لئے ایک ڈسپنسری بھی نہیں ہے، عبدالستارکے مطابق مقامی آبادی میں اموات کی سب سے بڑی وجہ امراض قلب اور زچگی کے دوران پیچیدگی ہے، انہوں نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اکثر 16 سے 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی نوجوان لڑکیاں زچگی کے مراحل میں بنیادی طبی سہولیات میسرنہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں‘‘۔

    عبدالستارکراچی کے سابق ستی ناظم سید مصطفیٰ کمال کے بے حد مداح دکھائی دئیے حالانکہ انہوں نے اپنی حقیقی جذبات کا اظہار کیمرے کے سامنے نہیں کیا لیکن آف کیمرہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’مصطفیٰ کمال یہاں کے مقامی افراد کے لئے پیر کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ یہاں نہ ہونے کے برابر جو سہولیات ہیں وہ انہیں کہ مرہونِ منت ہیں اور پاکستان بننے کے بعد سے ان کی حکومت تک مبارک ولیج میں آنے والی واحد سیاسی شخصیت ہیں‘‘۔

    مبارک ولیج کے اس بزرگ استاد کا کہنا تھا کہ یہاں تک آنے والی سڑک انہی کے حکم سے تعمیر کی گئی ہے اوراسکول میں بھی انہوں نے ہی مقامی افراد کوبحیثیت استاد بھرتی کیا اور ساحل پر انسانی جانوں کی حفاظت کے لئے لائف گارڈز تعینات کئے۔

    ساحل پر تعینات لائف گارڈ ریاض نے اے آروائی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں زندگی آسان نہیں ہے، جب سیزن ہوتا ہے تو ہمیں پیسے ملتے ہیں لیکن جب سمندر بھپرا ہوا ہوتا ہے تو یہاں کوئی نہیں آتا اور اس موسم میں مچھلیاں بھی نہیں ہوتیں کہ گزارہ کیا جاسکے‘‘۔

    واضح رہے کہ حکومت فشنگ سیکٹرسے ہرسال اربوں روپے کماتی ہیں لیکن حکومتی اداروں کی جانب سے ماہی گیروں کو ہمیشہ ہی نظراندازکیا جاتا رہے اوراسی سبب ماہی گیرآج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی انتہائی بدحالی کی زندگی جینے پرمجبورہیں۔

    کراچی کے ساحل سے ملحقہ مبارک ولیج پاکستان میں ماہی گیروں کی دوسری سب سے بڑی بستی ہے۔