Tag: mughal era

  • فرح یاسمین شیخ: ’کلاسیکی رقص کو جدت اور پذیرائی مغل دربار سے ملی‘

    فرح یاسمین شیخ: ’کلاسیکی رقص کو جدت اور پذیرائی مغل دربار سے ملی‘

    پاکستان میں کلاسیکی رقص ایسی کوئی مقبول صنف نہیں جو بہت عام دکھائی دے، عوامی طور پر رقص سیکھنے اور کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن وہ چند گنے چنے نام جو یہاں اس فن سے جڑے ہیں، کسی نہ کسی طرح کلاسیکی رقص کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان میں کئی پاکستانی نام بھی ہیں، اور کئی ایسے بھی جو پاکستانی شہری تو نہیں لیکن ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح پاکستان سے رہا ہے۔

    پاکستانی نژاد امریکی فرح یاسمین شیخ بھی ایسا ہی ایک نام ہیں جو پاکستان میں اس فن کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں، فرح کلاسیکی رقص کی ایک قسم کتھک کی رقاص اور کلاسیکی رقص کی استاد ہیں۔

    پاکستانی نژاد فرح 1977 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا، سیلیناز میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین 1971 میں کراچی سے امریکا منتقل ہوئے تھے۔

    فرح نے 5 سال کی عمر سے رقص سیکھنا شروع کیا لیکن ابتدا میں اطالوی اور امریکی رقص بیلے اور جاز سیکھا، 18 سال کی عمر میں وہ تعلیم کے لیے دوسرے شہر سان فرانسسکو گئیں، وہاں ان کے کورس میں ایک کلاس کلاسیکل ڈانس آف انڈیا کی تھی، وہیں ان کا کلاسیکی رقص سے تعارف ہوا اور پھر انہوں نے مستقل اسے ہی اپنا لیا۔

    ’مجھے کہا گیا کہ آپ نے بہت دیر کردی ہے، 18 برس عمر نہیں ہے رقص سیکھنا شروع کرنے کی، لیکن میں نے سیکھ کر ہی دم لیا۔‘

    فرح کے استاد کلکتہ، بھارت سے تعلق رکھنے والے نامور رقاص پنڈت چتریش داس تھے جو امریکا میں مقیم تھے، فرح 18 سال ان کے زیر تربیت رہیں۔ ان کے علاوہ فرح نے معروف پاکستانی رقاصہ ناہید صدیقی سے بھی رقص سیکھا۔

    فرح بتاتی ہیں کہ ان کے والد امجد نورانی جو ایک ماہر تعلیم تھے، خاصی نمایاں شخصیت تھے اور انہوں نے اپنے گھر میں بچپن سے ہی معروف شخصیات کی آمد و رفت دیکھی۔

    ’ہمارے گھر میں استاد نصرت فتح علی خان، استاد علی اکبر، ذاکر حسین اور اقبال بانو جیسی شخصیات کا آنا جانا تھا، سو یہ فطری تھا کہ میری دلچسپی رقص و موسیقی کی طرف ہوگئی۔‘

    دنیا بھر میں کتھک پرفارم کرنے والی فرح کی دلچسپی کا خاص موضوع مغل دور اور خاص طور پر ملکہ نور جہاں ہیں، وہ تقسیم ہند کی کہانیاں بھی اپنے رقص کے ذریعے پیش کرچکی ہیں۔

    کتھک کیا ہے؟

    برصغیر کا کلاسیکی رقص ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھتا ہے، اس کا پہلا باقاعدہ ذکر سنسکرت زبان کی تصنیف ’ناتیا شاسترا‘ میں ملتا ہے، یہ تصنیف پرفارمنگ آرٹس کے بارے میں ہے جو 200 قبل میسح میں لکھی گئی۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق برصغیر کے قدیم کلاسیکی رقص کی 6 اقسام ہیں۔

    بھارت ناٹیم: اس کا آغاز جنوبی ہند کے علاقوں اور خاص طور پر تامل ناڈو سے ہوا، اسے مندر کا رقص کہا جاتا ہے جس کے ذریعے خواتین رقاصائیں مذہبی داستانیں پیش کرتی ہیں۔

    کتھک کلی: اس کا آغاز جنوب مغربی علاقوں اور خاص طور پر کیرالہ سے ہوا، بھارت ناٹیم سے ملتے جلتے اور مذہبی اثر رکھتے اس رقص میں عموماً مرد رقاص محو رقص ہوتے ہیں اور خواتین کا کردار بھی مرد ہی نبھاتے ہیں۔

    کتھک: کتھک سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو ’کتھا‘ یعنی کہانی سے نکلا ہے،اس رقص کا آغاز شمالی ہند کے علاقوں سے ہوا۔

    کتھک رقص کی خاص بات نزاکت ہے اور اسے محبت کا رقص بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا خاص جزو رقص کے ذریعے کہانیاں پیش کرنا ہے۔

    کتھک میں گھنگھرؤں کی جھنکار اور پاؤں کے تال میل کو (جسے تتکار کہا جاتا ہے) خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ رقص بھی مندر میں کیا جاتا تھا تاہم جلد ہی یہ عام لوگوں میں بھی مقبول ہوگیا اور مختلف تہواروں اور تقاریب کا اہم حصہ بن گیا۔

    منی پوری: شمال مشرقی ہند سے شروع ہونے والے اس رقص میں لوک داستانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔

    کچھی پوری: جنوب مشرقی ہند کے اس رقص میں رقاص گاتے بھی ہیں۔

    اوڈیسی: مشرقی ہند کے علاقوں کا یہ رقص قدیم ترین رقص ہے جس میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی شبیہہ پیش کی جاتی ہے، اسے ایک مشکل اور سب سے زیادہ تاثراتی رقص کہا جاتا ہے جس میں 50 سے زائد مدراز (ہاتھوں کی حرکت) شامل ہیں۔

    فرح کے مطابق جب انہوں نے رقص سیکھا تب یہ 6 اقسام ہی تھیں، لیکن اب چند مزید علاقوں کے لوک رقص کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس کے بعد اب ان کی تعداد 8 ہوگئی ہے۔

    ’کلاسیکی رقص پورے جنوبی ایشیا کا اثاثہ ہے‘

    سنہ 2016 میں فرح نے ایک ڈانس انسٹی ٹیوٹ ’نورانی ڈانس‘ قائم کیا، یہاں انہوں نے کلاسیکی رقص کو صرف بھارت کے نام سے محدود کرنے کے بجائے جنوبی ایشیا کے نام سے موسوم کیا، ’یہ صرف انڈین کلاسیکل ڈانس نہیں بلکہ کلاسیکل ڈانس آف ساؤتھ ایشیا ہے کیونکہ یہ صرف بھارت یا پاکستان کے کلچر کا حصہ نہیں، یہ تو بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی ثقافت کا بھی حصہ ہے، یہ رقص بہت قدیم اور چند تبدیلیوں کے ساتھ پوری جنوبی ایشیائی ثقافت کا حصہ ہے، ہماری ثقافتی تاریخ مشترکہ رہی ہے۔‘

    فرح کا کہنا ہے کہ اپنے والدین کے نام پر بنائے گئے ان کے اس ادارے میں سیکھنے والے متنوع پس منظر کے افراد ہیں، لیکن ان میں پاکستانی بہت کم ہیں۔ ’شاید وہ اسے اپنی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھتے، جو اس رقص کو سیکھنا چاہتے ہیں وہ امریکا میں رہتے ہوئے دراصل اپنی ثقافت سے جڑنا اور اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں، مجھے بہت خوشی ہوگی اگر زیادہ سے زیادہ پاکستانی رقص کو، اور خاص طور پر کلاسیکی رقص کو پاکستانی ثقافت کا حصہ سمجھیں‘۔

    ’پاکستان میں پرفارمنس کا الگ ہی لطف ہے‘

    فرح یاسمین شیخ دنیا بھر میں پرفارم کرچکی ہیں لیکن بقول ان کے، پرفارمنس کی جیسی داد پاکستان میں ملتی ہے ویسی کہیں اور نہیں ملتی۔ ’یہاں لوگ اس زبان کی شاعری کو، اور موسیقی کو سمجھتے ہیں، انہیں اس کا مطلب، اس کی نزاکت کا علم ہے، ہر ہر شعر پر اور مصرعے پر لوگ جس طرح جھوم کر داد دیتے ہیں، ایسے کہیں اور نہیں مل سکتی۔‘

    ’چاہے اقبال بانو کی گائی غزلوں پر پرفارمنس ہو، فیض کی غزل ہو یا امیر خسرو کا کلام، لوگ جب اس پر رقص دیکھتے ہیں تو اس کلام، اس غزل کی نئی جہت ان پر آشکار ہوتی ہے اور پھر جو ان کی داد ہوتی ہے اس کی مثال ہی نہیں ملتی، پاکستان میں پرفارم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔‘

    لیکن کیا انہیں کبھی کسی تنقید یا تنازعے کا سامنا بھی کرنا پڑا؟

    اس بارے میں فرح بتاتی ہیں، کہ اب تک یہاں ان کی پرفارمنسز کے تجربات شاندار رہے اور انہیں کسی منفی تبصرے یا ناخوشگوار تجربے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، البتہ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے حالات بدل گئے ہیں۔

    ’میرے سوشل میڈیا پر لوگ اکثر ایسے کمنٹس کرتے ہیں کہ اللہ آپ پر رحم کرے، آپ کو معاف کرے۔ میں ہر شخص کے نظریے کی عزت کرتی ہوں، لیکن مجھے علم ہے کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہی، میرا دل مطمئن ہے۔ میں ایسے تبصروں کا جواب نہیں دیتی اور میری ہدایت پر میری ٹیم انہیں حذف کردیتی ہے کیونکہ میں منفی چیزوں کو اپنے کام کے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی۔‘

    کلاسیکی رقص ہندو دیو مالائی داستانوں کا حصہ رہا ہے اور اسے مندروں سے منسلک سمجھا جاتا ہے، تو کیا یہ وجہ رہی جس کی وجہ سے پاکستان میں اسے اپنانے سے گریز کیا جاتا ہے؟

    اس سوال پر فرح نے کہا، ’کلاسیکی رقص کا آغاز ہزاروں سال پہلے مندروں میں ضرور ہوا، لیکن اسے عروج مغل درباروں میں ملا۔ آج کلاسیکی رقص میں جو جدت ہے اور آج اس کا جو چہرہ ہم دیکھتے ہیں، یہ مغل دربار کے بغیر ناممکن تھا۔ رقص یا فن ویسے بھی کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا، یہ خطے کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے، یہ رقص جتنا بھارتی ہے، اتنا ہی پاکستانی بھی ہے۔‘

    تاہم فرح نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان میں اس حوالے سے خاصی حساسیت پیدا ہوچکی ہے، خواتین رقاص کو خاص طور پر منفی تبصروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کوئی متنازعہ چیز نہ پیش کروں، میری دلچسپی کا محور ویسے بھی مغل دور، اس دور کی ملکاؤں اور تقسیم کی کہانیوں کو پیش کرنا ہے تو میں وہی پرفارمنسز یہاں پیش کرتی ہوں، البتہ امریکا یا دیگر ممالک میں، میں نے ہندو دیو مالائی کہانیوں، رامائن اور مہابھارت کی داستانوں پر بھی پرفارمنس دی ہے۔‘

    رقص و موسیقی کو معیوب کیونکر سمجھا جانے لگا؟

    فرح کا کہنا ہے کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو اس وقت پاکستان میں ضیا ڈکٹیر شپ تھی اور رقص و موسیقی کو ممنوع قرار دیا جاچکا تھا، ’اگر میں یہاں ہوتی تو اپنی زندگی کے ابتدائی 10 سال اس سے محروم رہتی، اس دور میں پرورش پانے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ ان کی زندگی اور ثقافت میں سے کیا چیز غائب کردی گئی ہے، شاید اسی لیے اب رقص کے بارے میں اس قدر عدم برداشت پیدا ہوگئی ہے۔‘

    انہوں نے کہا کہ ابھی یہاں کچھ عرصہ قبل صوبہ سندھ کے اسکولوں میں موسیقی کو نصاب کا لازمی حصہ قرار دیا گیا تو انہیں بہت خوشی ہوئی، البتہ اس پر جو تنقید کی جاتی رہی، اور اس فیصلے کو واپس لینے پر زور دیا جاتا رہا، اس سے انہیں خاصا دکھ پہنچا۔

    ’کسی چیز کو یکدم ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا، اگر موسیقی پر، یا رقص پر یا کسی اور فن پر اعتراض ہے تو اس میں تبدیلی لائیں، ابتدا میں اسے یہاں کے کلچر جیسا بنانے کی کوشش کریں تاکہ لوگ اسے کم از کم قبول تو کرنا شروع کریں۔ اگر بالکل ہی ممنوع کردیا جائے، تو پھر آگے بڑھنے اور برداشت کرنے کی طرف راہیں کیسے کھلیں گی۔‘

    فرح کہتی ہیں کہ ان کا مقصد رقص کے ذریعے محبت اور مثبتیت کو فروغ دینا ہے، ’کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ آرٹ اور رقص لوگوں کو جوڑتا ہے، ان میں محبت پیدا کرتا ہے، نفرت اور دوری نہیں۔ اگر ہم اپنے دل اور دماغ کو کھولیں گے، سب کے لیے جگہ بنائیں گے، تو ہی یہ انسانیت اور اس دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔‘

  • شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے، اُسی طرح ان کی بیگمات اور شہزادیاں بھی منفردُ المثال تھیں۔

    جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اور کشور کشا نیز علم دوست اور ادب نواز تھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فنِ حرب و ضرب میں ماہر اور علم و ادب کی دلدادہ تھیں۔

    ملک کی پہلی خاتون حکم راں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب و ضرب اور واقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔

    ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر و فن اور علم و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہلِ علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نام ور دانش ور اور حکماء و علماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فنِ حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالاں کہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگر علمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہوا کرتی تھیں اور پسِ پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہوا کرتی تھیں۔

    رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکم راں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔

    محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدّین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھ داری نے سلیم کو مصالحت پر مجبور کیا۔

    ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوئیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں تو کئی مؤرخ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نور جہاں، ملکہ ممتاز محل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اور زینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فنِ مصوّری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمسُ الدّین التمش کے مقبرے کو تعمیر کرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہو چکا ہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کا پتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبر پر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

    اسی طرح نور جہاں نے اعتماد الدّولہ کا عظیم الشّان مقبرہ تعمیر کروا کے اپنے ذوقِ عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلّی کی معروف فتح پوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرائی تو دریا گنج کی گٹھا مسجد ایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

    رضیہ سلطان، ملک کی اوّلین خاتون حکم راں تھی، جس نے ملک پر شان دار حکم رانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکم رانی کی۔ وہ حکم رانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اور مشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمر بیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کرایا۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔

    شاہ جہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دین دار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ و شاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیوں میں ایک نام زینتُ النّساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھا مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیر کرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبر آبادی نے اکبر آبادی مسجد کی تعمیر کرائی اور فخرُالنّساء خانم نے فخرُ المساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ اس کا بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرُالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

    امراء کی بیگمات بھی علم و فن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اور کچھ دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم و ادب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لیے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں، گلبدن بیگم، گل رخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔

    (محقّق و مصنّف: غوث سیوانی)