Tag: mullah omar

  • ویڈیو: ملا عمر کی قبر کہاں ہے، طالبان نے 9 سال بعد نشان دہی کر دی

    ویڈیو: ملا عمر کی قبر کہاں ہے، طالبان نے 9 سال بعد نشان دہی کر دی

    زابل: امارت اسلامیہ افغانستان کے مؤسس ملا عمر کہاں دفن ہیں، طالبان نے 9 سال بعد نشان دہی کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق 2013 میں انتقال کرنے والے ملا عمر کی قبر افغان صوبے زابل کے ضلع سیوری میں ہے، ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ویڈیو جاری کر دی۔

    ویڈیو میں طالبان وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند اور افغان کابینہ کے اراکین کو قبر پر فاتحہ خوانی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    افغان عوام کے محسن امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی قبر زیارت عام کے لیے منکشف کی گئی ہے، عوام نے بھی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور دعا مانگی۔

    ختم قرآن اور دعائیہ تقریب میں وزیر اعظم ملا محمد حسن، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی اور ملا عمر کے خاندان کے افراد نے شرکت کی۔

  • ملاعمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے، کتاب میں انکشاف

    ملاعمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے، کتاب میں انکشاف

    آدیس بابا : ایک کتاب "سیکرٹ لائف آف ملا عمر ” میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے بانی ملاعمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر مقیم تھے۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے۔

    ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم کی نئی کتاب ‘دس سیکریٹ لائف آف ملا عمر’ میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

    صحافی بیٹے ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔ وہ امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔

    بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے، جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ممبران سے گفتگو کی، انھوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی ، جنھوں نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے۔

    صحافی بیٹے ڈیم لکھتی ہیں کہ جبار عمری کے مطابق انھوں نے ملا عمر کو 2013 تک پناہ دی تھی، جب طالبان رہنما بیماری کے سبب انتقال کر گئے۔

    کتاب کے مطابق امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی، ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔

    صحافی نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔

    صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔

    اس کتاب میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعووں کے برعکس، ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے، البتہ یہ کہا گیا کہ انھی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا۔

    خیال رہے گذشتہ ماہ ڈچ زبان میں شائع ہونے والی کتاب بہت جلد اب انگریزی زبان میں بھی شائع ہونے والی ہے۔

  • طالبان نے ملا عمر کی موت کی تصدیق کر دی

    طالبان نے ملا عمر کی موت کی تصدیق کر دی

    قابل: طالبان نے ملا عمر کی موت کی تصدیق کر دی،ترجمان طالبان کے مطابق ملا عمر سنہ دو ہزار تیرہ کو افغانستان میں انتقال کر گئے تھے ۔

    طالبان کے امیر ملا عمر اس دنیا میں نہیں رہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملا عمر کی موت پر باقاعدہ بیان جاری کر دیا،جس کے مطابق ملا عمر کا انتقال سنہ دو ہزار تیرہ میں بیماری کے باعث افغانستان میں ہوا۔

     ذبیح اللہ مجاہد نے ان افواہوں کی تردید کی کہ ملا عمر کا انتقال کراچی کے نجی اسپتال میں ہو ا تھا ۔ ترجمان کا کہناہے کہ ملا عمر نےچودہ برس کے دوران ایک دن بھی افغانستان سے باہر نہیں گزارا۔

    ذرائع کے مطابق ملاعمرکے بیٹےملا یعقوب نے بھی ملا عمر کی موت کی تصدیق کی ہے،طالبان شوریٰ نے ملا محمد اختر منصور کو اپنا نیا امیر منتخب کیاہے۔

  • ملا عمرکی ہلاکت کی خبریں: طالبان سے کل مذاکرات کا دوسرا دور مؤخر

    ملا عمرکی ہلاکت کی خبریں: طالبان سے کل مذاکرات کا دوسرا دور مؤخر

    اسلام آباد: ملا عمرکی ہلاکت کی خبروں کےبعد افغان طالبان سے کل مذاکرات کا دوسرا دور مؤخر کردیا گیا ہے۔

    ترجمان دفتر خارجہ  کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ ملا عمر کی موت کی افواہوں کے بارے میں پڑھا ہے۔ ان افواہوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کررہے ہیں، پاکستان افغانستان امن عمل کیلئےمذاکراتی عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔

     دفترخارجہ نے تصدیق کردی کہ ملاعمر کی ہلاکت کی خبروں پر طالبان سے کل ہونے والے مذاکرات کا دوسرا دور مؤخر کردیا گیا ہے، نئے امیر کیلئےطالبان کی مشاورت جاری ہے جبکہ نئے امیر کیلئے ملا اختر منصور مضبوط امیدوار ہیں۔

    ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان نہ صرف موغادیشو میں دہشتگرد حملے بلکہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتاہے۔

  • افغان طالبان کا مذاکرات کے دوسرے دورسے اظہارلاعلمی

    افغان طالبان کا مذاکرات کے دوسرے دورسے اظہارلاعلمی

    افغان طالبان نے افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ رواں ہفتے منعقد ہونے والے امن مذاکرات کے دوسرے دورسے لاعلمی کا اظہارکیا ہے۔

    افغان طالبان کی ویب سائٹ پرجاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان یاچین میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے بارے میں علم نہیں ہے۔

    افغان حکومت سے مذاکرات کے لئے قطرمیں طالبان کا پولیٹکل آفس قائم کیا گیا ہے جسے مذاکرات سے متعلق مکمل اختیارات حاصل ہیں اور ان کا پولیٹکل آفس بھی مذاکرات کے دوسرے دورسے لاعلم ہے۔

    واضح رہے کہ کابل کی جانب سے ملا عمر کی ہلاکت ی باقاعدہ تصدیق کے بعد طالبان کی جانب سے یہ پہلا بیان جاری کیا گیا ہے لیکن اس بیان میں ملاعمرکی ہلاکت کی خبر کی تصدیق یا تردید کرنے کے بجائے اس معاملے پرخاموشی اختیار کی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ افغان حکام نے رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طالبان کے نمائندوں سے مری میں ملاقات کی تھی۔

    طرفین کی جانب سے دوبارہ ملاقات کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی اور افغان حکام کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا تھا کہ مذاکرات کا یہ دوسرا دور جس میں جنگ بندی طے پا جانا متوقع ہے جمعے کے روز ہوگا۔

    دوسری جانب کئی افغان کمانڈروں نے طالبان مذاکرات کاروں کی قانونی حیثیت پرسوال اٹھایا تھا جس سے افغان طالبان کے درمیان واضح تنازعات سامنے آئے ہیں۔

    طالبان کے درمیان اس خلیج کا فائدہ عراق اور شام میں برسرِ پیکار جہادی تنظیم داعش اٹھارہی ہے اور کئی طالبان کمانڈر داعش میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

  • افغان انٹیلی جنس نے ملا عمرکی ہلاکت کی تصدیق کردی

    افغان انٹیلی جنس نے ملا عمرکی ہلاکت کی تصدیق کردی

    قابل: افغانستان نے مصدقہ معلومات پر ملا عمر کی موت کی تصدیق کر دی، افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے آفس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے ملا عمر کی پاکستان میں موت ہو چکی ہے۔

    ملا عمر کے مرنے کا دعویٰ آج بی بی سی نے کیا۔ جس کے بعد دنیا بھر میں سارا دن بحث ہوتی رہی کہ ملا عمر زندہ یا مردہ ہے۔ بی بی سی کا دعویٰ تھا فغان طالبان کے امیر ملا عمر جنوری دو ہزار تیرہ میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔

     امریکا نے ملا عمر کی موت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، رات میں افغان ایوان صدر کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں افغان ایوان صدر نے مصدقہ اطلاعات پر ملا عمر کی موت کی تصدیق کر دی۔

     افغان ایوان صدر کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملا عمر کی اپریل دوہزار تیرہ میں پاکستان میں موت ہو چکی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق افغان حکومت سے تفصیلات حاصل کر رہے ہیں ۔

    ماضی میں بھی ملا عمر کی موت کےبارے میں کئی باراطلاعات آئیں تھیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں،امریکہ نے ملاعمر کےسرکی قیمت ایک کروڑامریکی ڈالرمقرر کر رکھی ہے۔

    افغانستان کے باغی گروپ اسلام موومنٹ فدائی محاذ کے ترجمان حمزہ نے چوبیس جولائی کو دعوی کیا تھا ملا عمر کو دوسال قبل قتل کردیاتھا، حزب اسلامی نے بھی مُلا عمر کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

  • افغان طالبان رہنماء ملا عمر’ہلاک‘ ہوگئے: بی بی سی

    افغان طالبان رہنماء ملا عمر’ہلاک‘ ہوگئے: بی بی سی

    طالبان کے سپریم لیڈر ملاعمر کی ہلاکت کی خبریں گردش کررہی ہیں تاہم طالبان نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔

    ملاعمر 2001ءمیں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد سے روپوش تھے جبکہ ان کے سر کی قیمت 10ملین ڈالر مقرر تھی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے نے افغان حکام اور انٹلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان رہنماء ملا عمر تین سال قبل افغانستان میں مارے جاچکے ہیں۔

    بی بی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کے ترجمان نے اس معاملے پر ان سے رابطہ کیا ہے اور جلد ہی اس حوالے سے حتمی اعلامیہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    یادرہے کہ اس سے قبل طالبان سے علیحدہ ہونیوالے گروپ محاظ فدائی نے کہاتھاکہ ملاعمر دوسال قبل تنظیم کی اندرونی لڑائی کے دوران مارے گئے تھے تاہم عید الفطرکے موقع پر طالبان نے ایک پیغام شائع کیاتھا جس کے مطابق ملاعمر نے مذاکرات کی توثیق کردی جبکہ اس سے قبل اپریل میں کہاتھاکہ سوانح حیات شائع کی تھی اور کہاکہ ملاعمر زندہ اور خیریت سے ہیں۔

    ملاعمر کی ہلاکت کی خبرایک ایسے وقت پرنشرہوئی جب افغان طالبان اورحکومت کے درمیان امن مذاکرات کا دوسرا دورجمعہ کو متوقع ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق  افغان حکام نے بھی ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے اور افغانستان کے نائب صدر اس معاملے میں چکھ دیر میں پریس کانفرنس کریں گے۔

    ملاعمر ایک گاﺅں میں پیداہوئے اور مختصر سی دینی تعلیم حاصل کی، مجاہدین کے ہمراہ سویت یونین کے خلاف لڑے اور 1994ءمیں طالبان کی تشکیل میں مدد دی، ایک رپورٹ کے مطابق وہ شادی شدہ تھے اوران کے دوبیٹے ہیں۔

  • طالبان افغان حکومت مذاکرات ملا محمد عمر کے زندہ ہونے یا نہ ہونے پر تعطل کا شکار

    طالبان افغان حکومت مذاکرات ملا محمد عمر کے زندہ ہونے یا نہ ہونے پر تعطل کا شکار

    اسلام آباد: تحریک طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات ملا محمد عمر کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر تعطل کا شکار ہوگئے۔

    ملا عمر کہاں ہیں زندہ ہیں یا نہیں،یہ بھی معلوم نہیں، اور یہی بات افغانستان کی حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کی راہ کا روڑہ بن گئی، ذرائع کے مطابق مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار ملا محمد عمر کی زندگی سے مشروط ہے، جس کا پہلا دور اسلام آباد میں ہوا تھا۔

    ذرائع کے مطابق ان مذاکرات کو امریکہ اور چین سمیت مختلف ممالک کی حمایت حاصل تھی۔

    مذاکرات کا دوسرا دور عید کے بعد طے پایا تھا، ذرائع نے بتایا ہے کہ مختلف افغان گروپوں کے درمیان مذاکرات پر اختلافات پیدا ہوئے ہیں اور ملا عمر کے زندہ ہونے پر ابہام سے مذاکرات کھٹائی میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔