Tag: mullah omer

  • افغان طالبان میں ایک نیا دھڑا تشکیل پاگیا، ملا منصور کی اطاعت قبول کرنے سے انکار

    افغان طالبان میں ایک نیا دھڑا تشکیل پاگیا، ملا منصور کی اطاعت قبول کرنے سے انکار

    کابل: افغان طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایک دھڑے نے اپنے علیحدہ امیرکا اعلان کردیا ہے، واضح رہے کہ ملا اختر منصور کے امیر منتخب ہونے کے بعد یہ پہلی تفریق ہے جس سے ممکنہ طور پر امن مذاکرات میں رخنہ پیدا ہوسکتا ہے۔

    فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کے علیحدہ گروہ نے جنوب مغربی صوبے فرح میں باغی جنگجوؤں کا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں ملا محمد رسول کو متفقہ طور پر امیر منتخب کرلیا گیا۔

    فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا یہ نیا گروہ وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کرسکے گا یا نہیں تاہم ملا عمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد گروہ میں تفریق منظرعام پرآگئی ہے۔

    ملا رسول نے جنگجوؤں کے مجمع میں اعلان کیا کہ ’’ ملا منصور ہمارے امیر المومنین نہیں ہیں، ان کا انتخاب شرعی طریقے سے نہیں ہوا لہذا ہم انہیں اپنا رہنما تسلیم نہیں کرتے‘‘۔

    واضح رہے کہ ملا منصور کے مخا لفین میں طالبان کے سابق امیر ملا عمر کے اہل خانہ بھی شامل ہیں اور ملا عمر کے بیٹے اور بھائی نے بھی نئے امیر کی اطاعت قبول کرلی ہے۔

  • ملا عمر کی موت طبعی تھی، بیٹے کا بیان

    ملا عمر کی موت طبعی تھی، بیٹے کا بیان

    افغان طالبان کے بانی ملا عمر کے بیٹےنے ان کی ہلاکت کے بارے میں پھیلنے والے شکوک و شبہات کی تردید کردی جو کہ قیادت کے تنازعے کے سبب بنے ہوئے تھے۔

    واضح رہے کہ ملا عمر کی موت کے بعد طالبان رہنماوٗں میں خلیج کے سبب نہ صرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مفاہمتی عمل کو نقصان پہنچا بلکہ طالبان کی حریف جماعت داعش کو بھی افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملا۔

    جولائی 2015 میں افغان انٹلی جنس کی جانب سے ملا عمر کی موت کی خبرجاری کرنے کے اگلے دن طالبان نے خبر کی تصدیق کی تھی اور عجلت میں ان کے نائب ملا منصور کا افغان طالبان کا امیر مقررکرلیا تھا۔

    طالبان کے کئی کمانڈر اور ملا عمر کے خاندان کے کئی افراد اس تقرری سے خوش نہیں تھے اوراس سلسلے میں ان کے بیٹے ملا محمد یعقوب نے گزشتہ رات ایک آڈیو پیغام بھی جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سب سے پہلے تو وہ یہ وضاحت کردیں کہ ان کے والد ملا عمر کی موت طبعی تھی‘‘۔

    ملا یعقوب نے آڈیو ٹیپ میں کہا کہ ’’وہ (ملاعمر) کچھ عرصے سے بیمار تھے لیکن پھر ان کی حالت بگڑ گئی، جب ڈاکٹروں سے معلوم کیا تو انکشاف ہوا کہ وہ کالے یرقان میں مبتلا ہیں ‘‘۔

    ان کے بیٹےکے مطابق ملاعمر افغانستان میں ہی رہے اوروہیں ان کی موت ہوئی اور وہیں ان کی تدفین بھی کی گئی۔

    ملا یعقوب کی جانب سے جاری کردہ یہ پہلا آڈیو بیان تھا اور اس میں انہوں نے ملا منصور کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ میرے والد ملا عمرنے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا‘‘۔

    ملا یعقوب 27، کا کہناتھا کہ اگر ان کی موت سے طالبان کا اتحاد دوبارہ قائم ہوسکتا ہے تو وہ خودکشی کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ شوریٰ کے ہر فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی بھی عہدے پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں چاہے وہ اعلیٰ انتظامی عہدہ ہو یا نچلے درجے کا کوئی عہدہ ہو۔

  • افغان طالبان کا ملا عمر کی ہلاکت چھپانے کا اعتراف

    افغان طالبان کا ملا عمر کی ہلاکت چھپانے کا اعتراف

    کابل: طالبان نے اعتراف کرلیا کہ وہ اپنے رہنماء ملا عمر کی ہلاکت کی خبرکو 2 سال تک چھپاتے رہے ، ان کا انتقال 2013میں ہوگیا تھا جیسا کہ افغان انٹلی جنس ذرائع نے دعویٰ کیا تھا۔

    کابل پر 2001 میں طالبان کے تسلط کے خاتمے کے بعد کسی نے بھی ملا عمر کو منظرِ عام پر نہیں دیکھا تھا اور طالبان ان کی جانب سے بیان جاری کرتے رہتے تھے جیسا کہ رواں سال جولائی میں کیا گیا۔

    طالبان نے 30 جولائی کو ملا عمر کے انتقال کرجانے کی تصدیق کی تھی لیکن ان کے دنیا سے گزرجانے کا وقت نہیں بتایا تھا جس کے پسِ پشت نئی قیادت کے انتخاب سے متعلق گروہ کا اندرونی خلفشار تھا۔

    طالبان نے آج بروز پیر ایک بیان جاری کیا جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملا عمر 23 اپریل 2013 کو انتقال کرچکے ہیں اور یہ تفصیلات طالبان کے نئے امیر ملا اختر کی سوانح حیات سے حاصل کی گئی ہیں جو کہ ایک طویل عرصے سے ملا عمر کے نائب کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔

    ملا اختر کی سوانح حیات میں کہا گیا ہے کہ طالبان شوریٰ کے کئی اہم ارکان اور اعلیٰ مذہبی رہنما ملا عمر کے انتقال کی خبر سے واقف تھے لیکن انہوں نے اس خبر کو طالبان کے مقتدرہ حلقوں میں محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    اس خبر کو مخفی رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ 2013 طالبان اور اتحادی افواج کے مابین جاری جنگ کا فیصلہ کن سال تھا جب اعلان کیا گیا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء شروع کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ کئی اعلیٰ عہدیداروں نے ملا اختر منصور کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی جس میں ملاعمر کے بیٹے اور بھائی بھی شامل ہیں۔

    اے ایف پی