Tag: musharraf-high-treason-case

  • سنگین غداری کیس ، پرویزمشرف کو 5 دسمبرتک بیان ریکارڈ کرانے کاحکم

    سنگین غداری کیس ، پرویزمشرف کو 5 دسمبرتک بیان ریکارڈ کرانے کاحکم

    اسلام آباد : خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں پرویزمشرف کو 5 دسمبرتک بیان ریکارڈ کرانے کاحکم دےدیا اور کہا5 دسمبرسےروزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی، کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس پر سماعت کی۔

    جسٹس سیدوقار سیٹھ نے کہا ہائی کورٹ کے اختیار سماعت پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، ہم سلمان صفدر کو پیش ہونے کی اجازت دینے کے پابند نہیں، سلمان صفدر کے حوالے سے ہمارے پاس سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے، سلمان صفدرآپ چاہیں تو ہمارے مقرر کردہ وکیل کی معاونت کرسکتے ہیں۔

    ایڈووکیٹ سلمان صفدرکو پیشی کی اجازت دینے کی بجائے سختی سےخاموش رہنے کی ہدایت کی ، ایڈووکیٹ شبررضا نے کہا میرامقدمہ خارج کیے جانے کی میری درخواست سماعت کی جائے، جس پر عدالت نے کہا مقدمہ خارج کرنےکیےجانےکی پہلی درخواست پرآرڈر ہوچکا ہے ، دوسری درخواست پرنیا بیان حلفی یا دلائل پیش کرنے کی اجازت نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کےحکم کےمطابق وزارت داخلہ 5دسمبر تک ٹیم مقرر کردے، وزارت خارجہ چاہے50رکنی ٹیم مقرر کرےلیکن ہم سنیں گے ،صرف ایک کو، عدالت نے شبررضاکو ہدایت کی آپ 5تاریخ سےپہلےاپنےتحریری دلائل جمع کرائیں۔

    جسٹس شیخ وقار نے کہا ہائی کورٹ کے حکم میں آرٹیکل10کاتذکرہ ہے،اس پر مکمل عمل کرچکے ہیں، ملزم کو متعدد بار اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا، آج بھی ملزم عمارت کے کسی کونے میں موجود ہیں توآجائے ہم سن لیں گے۔

    پرویز مشرف آئین شکنی کیس کی خصوصی عدالت نے کہا 5دسمبر کے بعد التوا نہیں دیں گے ، روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی ، پراسیکیویشن ٹیم پوری تیاری کے ساتھ پیش ہو جبکہ سرکاری وکیل کو 5 دسمبر کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا پرویز مشرف 5دسمبر سے قبل کسی بھی دن اپنابیان ریکارڈ کراسکتے ہیں۔

    تحریری جواب جمع نہ کرانے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا تو سرکاری وکیل نے کہا ہم نےبریت کی درخواست دائرکررکھی ہے، جس پر جسٹس وقاراحمدسیٹھ کا کہنا تھا کہ آپ نے ہمارے احکامات نہیں پڑھے، ہم ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

    اسلام آباد:وزارت داخلہ کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا تو عدالت نے کہا ہائیکورٹ نےآپ کو5دسمبرتک پراسیکیوشن تعینات کرنےکاحکم دیا، پرویز مشرف آئندہ سماعت سےقبل جب چاہیں آکربیان ریکارڈ کراسکتےہیں، آئندہ سماعت تک بیان ریکارڈ کرانے کا موقع دےرہےہیں، آئندہ سماعت کے بعدکوئی درخواست نہیں لیں گے۔

    جسٹس شاہد کریم نے کہا ہم ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابندنہیں،ہم صرف سپریم کورٹ کے احکامات کےپابندہیں ، بعد ازاں پرویز مشرف سنگین غداری کیس پر سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک مشرف غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی تھی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا ، ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے اور پھر فیصلہ دے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کا 2 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کردیا، جس میں حکم دیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت پرویزمشرف کی بریت کی درخواست کاقانون کےمطابق فیصلہ کرے، حکمنامہ میں عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے  سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو  فیصلہ سنانےسےروک دیا اور حکم دیا خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویزمشرف کیس کا فیصلہ روکنے کیلئے وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت ہوئی ، جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجربینچ نے سماعت کی ، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سماعت میں سیکریٹری قانون کی جگہ جوائنٹ سیکریٹری پیش ہوئے تو عدالت نے حکم دیا کہ آدھے گھنٹے میں سیکریٹری قانون پیش ہوں اور کہا کل حکم  دیا تھا کہ مستند ریکارڈ پیش کریں۔

    وفاق کی جانب سےایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجدالیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے ،  تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا  آپ نےقانون  پڑھا؟ سیکریٹری قانون کدھرہیں وہ کیوں نہیں آئے؟سیکریٹری قانون کوکہیں ،آدھےگھنٹےمیں پہنچیں ۔

    جسٹس عامر فاروق  نے کہا سیکریٹری قانون کوکل ریکارڈسمیت طلب کیاتھا،  ریکارڈکی اصل دستاویزلیکرآئیں کاپیاں نہ لائی جائیں، آئین کےمطابق ٹرائل شروع ہو تو مکمل کرناآئینی تقاضہ ہے ، کیس میں وفاقی حکومت کا کہنا ہے پراسیکیوشن کیلئےتیارنہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کی آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں،  اگرآپ تیار نہیں توآئندہ ہفتے کر دیتے ہیں،  عدالتی حکم پر وزارت قانون ریکارڈ پیش نہیں کر  سکا تو عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سرزنش  کرتے ہوئے کہا آپ کیس پردلائل دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس میں جسٹس عامرفاروق نے کہا آپ یہ ذہن میں رکھیں آپ فریق نہیں پٹیشنرہیں، فوٹو کاپیزپیش نہ کریں،اصل ریکارڈ لےکر آئیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جاری نوٹیفکیشنزبتائیں۔

    ایڈیشنل اےجی  نے بتایا چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سےججزکی تقرری ہوتی رہی، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ خود کہتاہےشکایت غلط ہے، توپھرآپ وفاق کی حیثیت سےشکایت واپس لیں۔

    عدالت نےمشرف کے وکیل کی سرزنش کرکےروسٹرم سےاٹھا دیا اور کہا کرسی پربیٹھ جائیں،  جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ  ہم رٹ کس کودیں ، وفاق خود  فریق بن گیا ہے ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس میں کہا ایک شخص عدالت میں آکرکہتاہےجوکیاغلط کیا،  چیف جسٹس  کےمزاحیہ ریمارکس پر  وکلااور سائل ہنس  پڑے، وفاقی حکومت نے پراسیکیوشن ٹیم واپس لےلی ، عدالت کے لئے بھی مسئلہ ہے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار  کیا خصوصی عدالت کا ٹریبونل کب بنا، ان کا نوٹیفکیشن کب ہوا، تو ایڈیشنل اےجی نے بتایا کہ نومبرکو2019 کو ٹریبونل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019  کو تشکیل ہوئی،  ججز میں جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم شامل تھے۔

    ساجد الیاس بھٹی نے کہا وزارت قانون کے نمائندے فائل لیکر باہرچلےگئے ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر  کا کہنا تھا کہ آپ کواتنےسالوں کےبعدمعلوم ہوا  وفاق کی شکایت درست نہیں، اگرایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لےلیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اکتوبر1999کےاقدامات کوبھی غیرآئینی قراردیدیاگیا، آپ الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا اس حوالےسےابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا 3 نومبرکی ایمرجنسی کاٹارگٹ عدلیہ تھی،  سمجھنے کی کوشش کریں یہ غیرمعمولی حالات ہیں، جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ، آپ کہہ رہے ہیں ٹرائل کیلئےخصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی، اب آپ دلائل سےبتارہےہیں کہ ایسا نہیں ہے،  پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ 2013 کے بعد پہلی تبدیلی کب ہوئی،اےاےجی نے بتایا  جس جس تاریخ پرجو تبدیلی آئی اس کے نوٹیفکیشن موجود ہیں ، نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ نے قانون پڑھا ہے؟  کیایہ نوٹی فکیشن واپس لیا جا سکتا ہے؟ تو اے اے جی نے جواب دیا کہ ایسی تشریح نہیں ، جس تک شکایت رہتی ہے واپس نہیں لیتے،جسٹس محسن اختر نے کہا خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جونوٹی فکیشن ہوئےوہ بتائیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کی مشاورت سےخصوصی عدالت کے ججوں کی تقرری ہوتی رہی،   جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظیربعد میں ملی گی یانہیں،کیا شکایت کرنے والا کہےکہ شکایت غلط ہے۔

    جسٹس عامر کا کہنا تھا کہ  شکایت غلط ہےتوٹھیک کس نےکرنی ہے،وفاقی حکومت نےکرناہےناں،  جبکہ جسٹس محسن اختر نے کہا کیاوفاقی حکومت پرویز مشرف کوپراسیکیوٹ نہیں کرناچاہتی،  جس پر ساجد الیاس بھٹی نے جواب دیا کہ    نہیں، ایسا نہیں ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں؟جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ یوں کہیں پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے،  کیاآج وفاقی حکومت پرویزمشرف کےخلاف ٹرائل نہیں کرناچاہتی؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے  استدعا کی خصوصی عدالت کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔

    چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ  کا کہنا تھا کہ آپ زیادہ باتیں نہیں کریں،  جبکہ جسٹس محسن اختر  نے کہا وزارت قانون کی کیا ضرورت ہےاس قوم کو، جو  بھی وزارت قانون نے نوٹیفکیشن کیے غلط کیے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا 4 دسمبر کوپراسیکوشن ٹیم کےسربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا اور 30 جولائی 2018 کو پراسیکیوشن کےسربراہ نےاستعفی دیا، ٹیم کو   23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیس کی سماعت کب تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی، عدالت نے کہا ایک سال سے آپ نےہیڈآف پراسیکوشن کوکیوں تعینات نہیں کیا،  ہیڈآف پراسیکیوشن کو کس نےتعینات کرنا تھا، جوڈیشری یاایگزیکٹو نے؟  جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بت بتایا  تعینات ایگزیکٹو نےکرنا تھا۔

    جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا وزرات قانون انصاف کے سیکرٹری کے آنے کی ضرورت ہے؟  وزارت قانون جو نوٹی فکیشن جاری کرتی ہےوہ غلط ہوتا ہے ،  سزا پھر ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہناتھا ایک شخص جس نےعدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے،  ہم نے اس  کے فیئر ٹرائل کےتقاضے پورے کرنے ہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہا سربراہ پراسیکیوشن ٹیم کےاستعفےکےبعدوفاق نےنئی تقرری نہیں کی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکرٹری قانون عدالتی حکم پر پیش کیوں نہیں ہوئے ؟ وفاقی سیکرٹری قانون عہدے کا اہل نہیں۔

    عدالتی حکم پر سیکرٹری قانون اسلام آبادہائی کورٹ میں پیش ہوئے  ، چیف جسٹس نے  سیکرٹری قانون سے استفسار  کیا آپ نےکل فائل پڑھ لی ہے، سیکریٹری  قانون نے کہا  آپ آرڈر کریں، نوٹی فکیشن کے حوالے سے، جس پرجسٹس عامرفاروق نے کہا  ہائیکورٹ کےپاس سوموٹو ایکشن کےاختیارات نہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس سےمتعلق درخواستوں پرسماعت میں پرویزمشرف کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ  کے کیس کے دلائل  تووفاق کے وکیل نے دے دیے، جس پروکیل پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ  جی !میں مزید دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    پرویزمشرف کےوکیل  یرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا یہ آپ کےلیے ٹیسٹ کیس ہے، میں نےمؤکل کی طرف سےدرخواست نہیں دی،  ملزم اشتہاری ہو  جائے تو اس کی طرف سےوکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا،   پرویز مشرف کے لیےمقرروکیل عمرے پر گئے ،انہیں بھی نہیں سنا گیا،  اشتہاری کو دوسرا  وکیل  دیا جا رہا ہےتومجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں ۔

    ،بیرسٹرسلمان صفدر کا کہنا تھا کہ  9 اکتوبر 2018 کووکالت نامہ داخل کیا،اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے اور 12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روک دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ تودرخواست گزار ہیں خوداپنی غلطیوں پر عدالت کو توجہ دلا رہے ہیں،  جب پرویز مشرف وردی میں تھےتو مکا دکھا رہےتھے، اب مشرف بہت ہی کمزور ہیں۔

    عدالت نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنےکی درخواستیں قابل سماعت ہونےپرفیصلہ محفوظ  کرلیا،  مشرف کیس کافیصلہ روکنےکی درخواستوں پر فیصلہ  آج ہی سنائےجانےکاامکان ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نےڈویژن بینچ میں مقررتمام کیس ملتوی کردیے تھے ، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانےسےروک دیا، ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے  اور خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا تھا ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا کہ مشرف اشتہاری ہیں، ہم آپ کو بطور  فریق نہیں سن سکتے۔

    مزید پڑھیں : آئین شکنی کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب

    چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے وکیل سے پوچھا سپریم کورٹ نے اس کیس سے متعلق جو فیصلہ دیا، کیا وہ آپ کو معلوم ہے؟ آپ کو تو حقائق ہی معلوم نہیں، وزارت داخلہ کے وکیل نےجواب دیا تھا انھیں ابھی فائل دی گئی ہے، جس پر عدالت نے سیکریٹری قانون کو طلب کرلیا تھا۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی ، وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے اور نئی پراسکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے اور فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

  • پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ،  28 نومبر کو سنایا جائے گا

    پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، 28 نومبر کو سنایا جائے گا

    اسلام آباد : خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کےخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، کیس کا فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس پر سماعت کی ، عدالتی حکم پر وفاقی سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت میں جسٹس وقاراحمد نے استفسار کیا کیااستغاثہ ٹیم کوہٹانے سےپہلے عدالت سےاجازت لی گئی؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا حکومت تبدیلی کے بعد پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفی دیدیا ، اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، حکومت نے 23 اکتوبر کواستغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا۔

    جسٹس شاہدکریم نے کہا عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا ، انہیں بات کرنے دیں، جس کے بعد عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو روسٹرم سے ہٹا دیا، جسٹس وقار احمد سیٹھ کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے تحریری دلائل جمع کرا دیے جو کافی ہیں، پرویزمشرف کے وکیل کہاں ہیں؟ رجسٹرار خصوصی عدالت نے بتایا مشرف کے وکیل رضا بشیر عمرے پر گئے ہیں۔

    جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے کہا آج مشرف کے وکیل کو دلائل کے لئے تیسرا موقع دیا تھا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا میں وفاقی حکومت کا نمائندہ ہوں، جس پر جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت تو اس کیس میں فریق ہی نہیں۔

    جسٹس شاہد کریم نے کہا سیکرٹری داخلہ اس کیس میں شکایت کنندہ ہیں ، وزارت داخلہ کوعلم نہیں تھا پراسیکیوٹر کے استعفے کے بعد بھی ٹیم کام کر رہی ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کو شاید اس بات کا علم ہو، جسٹس نذر اکبر نے کہا وزارت داخلہ کے حکام کئی بار عدالت میں پیش ہوئے، کیسے ممکن ہے پیش ہونے والے افسران کو علم نہ ہو، شاید کیا بات ہے؟

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا حکومت کی تبدیلی پر پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفی دیدیا ، اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، حکومت نے 23 اکتوبر کو استغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا، جسٹس نذراکبر کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس کا اس کیس میں کوئی کردار نہیں۔

    جسٹس وقاراحمدسیٹھ نے کہا مختصر وقفے کے بعد اس حوالے سے مزید کارروائی کریں گے، بعد ازاں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، خصوصی عدالت 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنائے گی ، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا کو دفاعی دلائل سے روک دیا تھا اور پراسیکیوشن کی نئی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا ، نئی ٹیم مقرر کرنے میں تاخیر پر عدالت نے بغیر سماعت فیصلہ محفوظ کیا، عدالت کا کہنا ہے کہ مشرف کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرادیں۔

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا، مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

    بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔