Tag: Music

  • کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا نقصان

    کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا نقصان

    ہم میں سے اکثر افراد کام کرتے ہوئے موسیقی سننا پسند کرتے ہیں، بعض افراد کوئی تخلیقی کام کرتے ہوئے جیسے لکھنے پڑھنے یا مصوری کرنے کے دوران بھی موسیقی سنتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں تخلیقی کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا کیا نقصان ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی سنتے ہوئے تخلیقی کام کرنا آپ کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ان کے مطابق تخلیقی کام کرتے ہوئے دماغ کو مکمل طور پر اسی کام کی طرف متوجہ کیے رکھنا ضروری ہے تاکہ اپنی تخلیقی صلاحیت کا بہترین استعمال کیا جاسکے۔ لیکن موسیقی سننا دماغ کی توجہ کو تقسیم کردیتا ہے یوں آپ کی تخلیقی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    اس سے قبل بھی ایسی ہی ایک تحقیق سامنے آئی تھی جس میں تخلیقی کام اور موسیقی کے تعلق کو دیکھا گیا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا تھا کہ مدھم اور نسبتاً اداس موسیقی نے تجربے میں شامل طلبا کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا اور وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

    دوسری طرف پرشور موسیقی نے بھی طلبا میں ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور وہ بھی اپنے کام پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیقی کام کرتے ہوئے مکمل سکون، تنہائی اور خاموشی کا ماحول تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے میں معان ثابت ہوسکتا ہے۔

  • انشاء اللہ ! علی نور کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کی‌ضرورت نہیں پڑے گی

    انشاء اللہ ! علی نور کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کی‌ضرورت نہیں پڑے گی

    معروف گلوکار علی نور سے متعلق جگر کے عطیے کی اپیل گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے لیکن پاکستانی قوانین کے تحت ایسا ممکن نہیں ہے، اہل خانہ پر امید ہیں کہ اس ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

    گزشتہ روز علی نور کے آفیشل انسٹا گرام اکاؤنٹ اور نوری بینڈ کے آفیشل پیج سے اپیل کی گئی تھی کہ علی نور کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے ڈونر درکا ر ہے ، اس اپیل کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔

    پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ علی نور کے پاس صرف اڑتالیس گھنٹے ہیں اور ان کا کوئی بھی دوست ، رشتے دار، سسرالی رشتے دار جس کی عمر 18 سے 45 سال کے درمیان اور بلڈ گروپ بی پازیٹو، بی نیگیٹو، او پازیٹو یا او نیگیٹو ہے، وہ جگر کا عطیہ دے سکتا ہے۔

    اسی پوسٹ کے مطابق علی نور اسلام آباد کے الشفاء اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ انہیں پیپاٹائٹس اے کا عارضہ لاحق ہے ، جس کے جگر پر اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
    ابتدائی اپیل بنیادی طور علی نور کے خاندان والوں سے ہی کی گئی تھی ، تاہم یہ جانے بغیر کہ پاکستانی قانون کے تحت جگر کا عطیہ کو ئی رشتے دار ہی دے سکتا ہے ، سوشل میڈیا پر یہ اپیل دھڑا دھڑ شیئر ہونے لگی ، میوزک انڈسٹری کے بڑے بڑے ناموں نے بھی اسے شیئر کیا۔

    صورتحال کو دیکھتے ہوئے علی نور کے بھائی نے معاملے کی وضاحت کرتےے ہوئے کہا کہ ’’دوستو! گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ، علی نور جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ ان پر یرقان کی ٹائپ اے کا شدید حملہ ہوا ہے اور امکان ہے کہ اس نے ان کے جگر کو نقصان پہنچایا ہو، لیکن ان کی نگہداشت بہترین ڈاکٹرز کررہے ہیں‘‘۔

    ’’ جہاں تک جگر کے عطیے کی بات ہے تو ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ہمیں لوگ اسٹینڈ بائی پر درکار ہیں لیکن عطیہ کنندہ صرف خاندان میں سے ہی ہوسکتا ہے – کہ ہمارے ملک کے قوانین ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ خاندان سے باہر کا کوئی شخص عطیہ دے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انشا اللہ انشاللہ ہمیں اس رستے پر نہیں جانا پڑے گا‘‘۔

    انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم پہلے ہی ان کی حالت میں بہتری دیکھ رہے ہیں اور ہمیں ان کے مداحوں سے اپنے اسٹار کے لیے بس دعائیں درکار ہیں۔

    علی نور کے بھائی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر معروف گلوکار کے مداحوں کو قرار آیا ورنہ اس سے قبل ساری شوبز انڈسٹری اور ان کے مداح صدمے کی حالت میں تھے اور بغیر سوچے سمجھے جگر کے عطیے کی اپیل شیئر کررہے تھے ۔ اس وقت انہیں اپنی مداحوں کی دعاوں کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر ایک بار پھر پہلے کی طرح دلوں کو گرماتے نظر آئیں گے۔

  • موسیقی کا عالمی دن: دل نے وہ گیت گنگنایا ہے

    موسیقی کا عالمی دن: دل نے وہ گیت گنگنایا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا۔ چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے جس میں مائیکل جیکسن، لیڈی گاگا اور کیٹی پیری اہم نام ہیں۔

    پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • پبلک ٹرانسپورٹ میں اونچی آواز میں میوزک پر اب کارروائی ہوگی

    پبلک ٹرانسپورٹ میں اونچی آواز میں میوزک پر اب کارروائی ہوگی

    لاہور: صوبہ پنجاب کے درالحکومت لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ میں اونچی آواز میں میوزک سننے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) ملک لیاقت نے پبلک ٹرانسپورٹ میں اونچی آواز میں میوزک سننے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

    سی ٹی او کی ہدایت پر ایس پی ٹریفک سٹی ڈویژن نے سرکلر جاری کردیا۔ سرکلر کے مطابق چنگچی سمیت دیگر پبلک سروس گاڑیوں میں اونچی آواز میں میوزک نہیں چلےگا۔

    مراسلے میں کہا گیا کہ اونچے میوزک سے سواریوں کو پریشانی کا سامنا تھا۔ ایس پی ٹریفک نے اس حوالے سے روڈ سیفٹی یونٹ کو آگاہی دینے کی ہدایت بھی کردی۔

    خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل پبلک ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں از خود اضافہ کردیا تھا۔

    کرایوں میں اضافے کے بعد بڑی بسوں کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 25 روپے وصول کیا جانے لگا جبکہ کوچز کے کرائے میں بھی 5 سے 15 روپے از خود اضافہ کر دیا گیا۔

    چنگ چی رکشہ والوں نے بھی فی مسافر کرائے میں 5 روپے اضافہ کردیا تھا۔

  • میوزک بجانے والا کتا

    میوزک بجانے والا کتا

    اکثر کتے اپنے مالکوں کی دلچسپیوں اور مشاغل میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کے کئی کام کرتے ہیں، ایسا ہی ایک کتا اپنے موسیقار مالک کے ساتھ نہایت مہارت سے آلات موسیقی بجاتا ہے۔

    میپل نامی یہ کتا اپنے مالک ٹرینچ کے ساتھ مختلف آلات موسیقی بجاتا ہے۔ ٹرینچ نامی یہ میوزیشن مختلف گانوں کی دھنیں مختلف آلات پر بجاتا ہے اور اس کا کتا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر ان دونوں کو پسند کرنے والے صارفین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے انسانوں کی طرح موسیقی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

    ہنگری میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کتے الفاظ اور موسیقی کو سمجھنے کے لیے دماغ کے انہی حصوں کو استعمال کرتے ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں۔

    دوسری جانب کتوں کی اپنے مالک کے لیے محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اپنے مالک کو خوش کرنا کتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    کتوں پر ایک تحقیق کے مطابق کتے خواب میں بھی اپنے مالک کی خوشبو اور اس کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہیں، یا وہ خود کو ایسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جس سے ان کا مالک بہت خوش یا بہت تنگ ہوتا ہو۔

  • موسیقی بجائے بغیر مسحور کردینے والے ساز

    موسیقی بجائے بغیر مسحور کردینے والے ساز

    مختلف اقسام کے آلہ موسیقی جب کسی ماہر کے ہاتھوں بج اٹھتے ہیں تو سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں، تاہم ایک فنکار نے ان سازوں کو ایسے انداز سے پیش کیا ہے کہ سب حیران رہ گئے ہیں۔

    رومانیہ کے فنکار ایڈریان بوردا خود تو کوئی آلہ موسیقی نہیں بجا سکتے، تاہم وہ ان سازوں کے ذریعے اپنے فن کا لوہا منوا رہے ہیں۔

    ایڈریان ایک مصور اور فنکار ہیں۔ ایک اتفاق سے شروع ہونے والی ان کی فوٹو سیریز اس وقت بہت پسند کی جارہی ہے جس میں آلات موسیقی کے اندرونی حصے کو عکس بند کیا گیا ہے۔

    جی ہاں، ان آلات کی موسیقی جہاں ایک طرف تو لوگوں کو مسحور کردیتی ہے تو دوسری طرف ان کے اندر کی بناوٹ بھی بہت خوبصورت ہے جسے رومانیہ کے یہ فنکار پیش کر رہے ہیں۔

    ایڈریان کہتے ہیں کہ وہ رومانیہ کے شہر ریگھی میں رہتے ہیں جسے وائلنز کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں بہت بڑی تعداد میں وائلن بنائے جاتے ہیں جو رومانیہ بھر میں بھیجے جاتے ہیں۔

    یہاں کے مصور بھی وائلن کو کسی نہ کسی طرح اپنی پینٹنگز کا حصہ بناتے ہیں۔

    ایڈریان کا کہنا ہے کہ اس نے ایک بار ان آلات کو مرمت کے لیے کھلا ہوا دیکھا تھا، تب اس نے ان کے اندر اپنا کیمرا رکھ دیا۔ بعد ازاں آنے والی تصاویر بہت حیرت انگیز تھیں۔

    ان آلات کی اندرونی بناوٹ اور اس میں سے چھن کر جاتی ہوئی روشنی ان تصاویر کو بہت سحر انگیز بنا دیتی ہے۔

    آپ بھی یہ تصاویر دیکھیں۔

  • کوک اسٹوڈیو سیزن 11 نے مشہورنغمہ ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیزکردیا

    کوک اسٹوڈیو سیزن 11 نے مشہورنغمہ ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیزکردیا

    کراچی: کوک اسٹوڈیو نے سیزن 11 کا پہلا گیت ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیز کر دیا، ملک میں تبدیلی کی علامت اس گیت کو پچاس سے زائد گلوکاروں اور میوزک بینڈز نے گایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کوک اسٹوڈیو نے ایک بار پھر سیزن 11 کے آغاز پر تہلکہ مچا دیا ہے، ایک قوم ایک جذبہ اور ایک آواز کی حامل سوچ پر مبنی گیت ریلیز کر دیا گیا جس کے متنوع رنگوں میں اتحاد کا گہرا رنگ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

    گیت ’ہم دیکھیں گے‘ اردو کے مشہور اور مقبول شاعر فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’و یبقٰی وجہ ربک‘ پر مبنی ہے، جسے سب سے پہلے 1986 میں اقبال بانو نے لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں گایا تھا۔

    1985 میں جنرل ضیاء الحق نے عورتوں کے ساڑی پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس پر پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج کرتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑی پہن کر ہزاروں سامعین کے سامنے فیض کی یہ نظم گائی۔

    کوک اسٹوڈیو کا کہنا ہے کہ وہ فخریہ طور پر یہ گانا ریلیز کررہا ہے، یہ گانا پاکستان کے لوگوں کی طرف سے پاکستان کے لوگوں کے لیے ہے۔

    اس گیت کو پروفیسر اسرار نے کمپوز کیا ہے، اس کے پروڈیوسر زوہیب قاضی اور علی حمزہ ہیں، اسے البم کوک اسٹوڈیو سیزن 11 میں ریلیز کیا گیا ہے۔

    گیت میں اپنی آواز شامل کرنے والوں میں کیلاش کی آریانا اور ثمرینہ، فقیرا فیم شمو بائی، کریویلا امریکی میوزیکل بینڈ کی یاسمین یوسف اور جہان یوسف اور علی عظمت شامل ہیں۔

    ’ہم دیکھیں گے‘ میں شامل دیگر اہم آوازوں میں عابدہ پروین، عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، حسن جہانگیر، ابرار الحق، جواد احمد، حمیرہ ارشد، مومنہ مستحسن ساحر علی بگا، دو قوال بھائی استاد غلام فرید الدین ایاز اور ابو محمد بھی شامل ہیں۔

    کوک اسٹوڈیو نے باصلاحیت گلوکار تلاش کرلیے

    وادی ہنزہ کی نتاشا بیگ، کوک اسٹوڈیو سے بیکنگ ووکلسٹ کے طور پر ابتدا کرنے والی کراچی کی سنگر ریچل وکاجی، میوزک گروپ زیب اور ہانیہ سے شہرت پانے والی سنگر ہانیہ اسلم، جمی خان، عاصم اظہر، شجاع حیدر اور آئما بیگ نے بھی گیت کو اپنی خوب صورت آوازیں دی ہیں۔

    پاریک: کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فورم سے کیلاشی فوک میوزک کا انوکھا تجربہ

    اداکار احد رضا میر، میوزک بینڈ ساونڈز آف کولاچی، دنیا بھر میں پاکستان کو بہترین انداز میں پیش کرنے والا پشاور کا پشتو بینڈ خماریان، بوہیمیا گیم ٹائم کے لیے مشہور رائٹر ینگ دیسی اور لیاری سے تعلق رکھنے والے ہپ ہاپ گروپ لیاری انڈر گراؤنڈ نے بھی گیت میں پرفارم کیا ہے۔

    گیت میں جام شورو سندھ سے تعلق رکھنے والا صوفی راک فولک بینڈ دی اسکیچز، طبلہ اور ڈھولک پلیئر بابر علی کھنا، بہترین بیس گٹار پلیئر کامران ظفر عرف منو، پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے ابھرتے ہوئے کی بورڈ پلیئر رفس شہزاد اور کراچی کے ڈرمسٹ اور ریلوکٹینٹ فنڈامنٹلسٹ میں کام کرنے والے کامی پال کی پرفارمنس بھی شامل ہے۔

    کوک اسٹوڈیو سیزن 10 – اسٹرنگز کی یاد گارپرفارمنس پر اختتام پذیر

    عمران شفیق عرف مومو، عالمی سطح پر ناول ’دی وِش میکر‘ کے لیے مشہور علی سیٹھی، ریاض قادری اور غلام علی قادری، مشہور پشتو سنگر گل پانڑا، عطاء اللہ عیسی خیلوی کے بیٹے سانول عیسیٰ خیلوی، ایلزبتھ رائے، بلال خان، مشال خواجہ نے بھی پرفارمنس دی ہے۔

    کوک اسٹوڈیو کے گیت میں لاہور سے تعلق رکھنے والا جدید فیوژن فنک بینڈ مغلِ فنک، وشنو اور سنگر اور رائٹر اسرار، نغمہ اور لکی، کوئین آف پشتون فوکلور زرسانگہ، مہر، شہاب اور وجہیہ، چاند تارا آرکسٹرا اور بلوچستان کے پہاڑوں سے اترنے والی آواز شایان منگل دریہان بینڈ کی آوازوں نے بھی جادو جگایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موسیقی کا عالمی دن

    موسیقی کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا۔ چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی بھی برآمد ہوئے جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، گویا موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے جس میں مائیکل جیکسن، لیڈی گاگا اور کیٹی پیری اہم نام ہیں۔

    پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج نصرت فتح علی خاں کا 69 واں جنم دن ہے

    آج نصرت فتح علی خاں کا 69 واں جنم دن ہے

     سروں کے سلطان استاد نصرت فتح علی خاں کی آج 69 ویں سالگرہ ہے ‘ آپ اپنی وفات کے لگ بھگ20 سال بعد بھی بے پناہ پسند کیے جانے والے اور سنے جانے والے موسیقار ہیں، کانوں میں رس گھولتے ان کے سریلے نغموں نے انہیں آج بھی ہمارے درمیان زندہ رکھا ہوا ہے۔

    استاد نصرت فتح علی خاں 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خاں تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے۔ نصرت فتح علی خاں بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    Nusrat Fateh Ali Khan

    ان کے آباؤ اجداد نے کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے حوالے سے بڑا نام کمایا تھا اور انہیں مقبول بنانے میں ان کے والد استاد فتح علی خاں نے بے پناہ کام کیا تھا۔ نصرت فتح علی نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد اور اپنے تایا استاد مبارک علی خاں سے حاصل کی اور اپنی پہلی باقاعدہ پرفارمنس اپنے والد کے انتقال کے بعد استاد مبارک علی خان کے ساتھ گاکر دی۔

    وہ طویل عرصے تک روایتی قوالوں کی طرح گاتے رہے مگر پھر انہوں نے اپنی موسیقی اور گائیکی کو نئی جہت سے آشنا کیا اورپاپ اور کلاسیکی موسیقی کو یک جاں کردیا۔

    نصرت فتح علی خاں کی عالمی شہرت کا آغاز 1980ءکی دہائی کے آخری حصے سے ہوا جب پیٹر جبریل نے ان سے مارٹن اسکورسس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کا ساؤنڈ ٹریک تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ ان کے فنی سفر کا نیا رخ تھا۔ 90 کی دہائی میں انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں اپنی موسیقی کی دھوم مچادی۔ انہیں کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور ان میں گائیکی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    نصرت فتح علی خاں کی معروف قوالیاں*

    ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں‘ اس کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ۔

    خاں صاحب کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی۔

    قوالی کے اس بے تاج شہنشاہ نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا‘ اس کے علاوہ دیگر کئی ممالک اور اقوام متحدہ نے ان کی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔

    جگر و گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49سال کی عمر میں 16اگست 1997 کو شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خاں لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے، ان کی یادیں آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔

     

  • موسیقی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں معاون

    موسیقی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں معاون

    گو کہ تخلیقی کام کرنے والے افراد کو ایک مخصوص اور پرسکون ماحول اور خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکیں، تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق تخلیقی کام کرنے کے دوران خوشگوار موسیقی سننا آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    نیدر لینڈز میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کچھ مخصوص قسم کی کلاسیکی لیکن خوشگوار موسیقی آپ کے دماغ کے ان خلیات کو متحرک کرتی ہے جو نت نئے آئیڈیاز پیدا کرتے ہیں۔

    اس ضمن میں ماہرین نے اٹھارویں صدی کے ایک اطالوی موسیقار انٹونیو ووالدی کی موسیقی کو بطور مثال پیش کیا جس کا ایک نمونہ آپ نیچے سن سکتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل آسٹریلوی شہر سڈنی میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر سام فرگوس کا کہنا ہے تخلیقی صلاحیت آج کے جدید دور میں ہر شعبے کے لیے ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تخلیقی صلاحیت کو اجاگر اور اسے مہمیز کرنے کے لیے مختلف تراکیب و تجاویز پر کام کرنا بھی وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے 5 راز

    مذکورہ تحقیق کے لیے ماہرین نے طلبا کو 5 مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور انہیں مختلف تخلیقی ٹاسک دیے گئے۔ اس دوران تمام گروہوں کے لیے مختلف اقسام کی موسیقی بجائی گئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ مدھم اور نسبتاً اداس موسیقی نے طلبا کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا اور وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

    ایک پرشور موسیقی نے طلبا میں ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور وہ اپنے کام پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کا سبب

    وہ گروہ جس کو انٹونیو ووالدی اور ان سے مماثلت رکھنے والی دوسری موسیقی سنائی گئی اس نے طلبا پر نہایت خوشگوار تاثر چھوڑا اور انہوں نے اپنی بہترین تخلیقی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    ماہرین نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ تخلیقی افراد اور موسیقی کے درمیان تعلق کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے اگر کسی شخص کو موسیقی ناپسند ہو تو ایسے شخص کے لیے یہ ماحول سازگار ثابت نہیں ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔