Tag: muslim killings in burma

  • روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام : آنگ سان سوچی کیخلاف بڑا فیصلہ

    روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام : آنگ سان سوچی کیخلاف بڑا فیصلہ

    لندن : روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے معاملہ پر میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے انعام واپس لے لیا گیا، دی سٹی آف لندن کارپوریشن کا کہنا ہے کہ میانمار رہنما کا رویہ قابل مذمت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو ایک اور بڑا جھٹکا لگ گیا، روہنگیا قتل عام کے معاملہ پر دی سٹی آف لندن کارپوریشن نے اپنا ایوارڈ واپس لے لیا گیا۔

    ٹی سی ایل سی عہدیداران کا کہنا ہے کہ ہم میانمار حکومت اور اس کے لیڈروں کے دہرے رویہ کی سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہیں ہم روہنگیا کے معاملہ پر سوچی کے رویے سے خوش نہیں ہیں لہٰذا دی سٹی آف لندن کارپوریشن سوچی کو دیا گیا ایوارڈ واپس لینے کا اعلان کرتی ہے۔

    سٹی آف لندن کارپوریشن کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے تمام انسانی حقوق کے کارکنان میانمار میں روہنگیاؤں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے۔

    اس حوالے سے کافی فکرمند ہیں، سوچی سے یہ ایوارڈ بھی میانمار حکومت کے غلط کاموں اور ان کے نرم رویہ کی وجہ سے ہی واپس لیا گیا ہے۔

    بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آنگ سانگ سوچی کو اس باوقار ایوارڈ کیلئے اس لئے منتخب کیا گیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں انسانیت دوست اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کی علامت تھیں ۔ حالانکہ یہ پرانی بات لگتی ہے اور اب حالات ویسے نظر نہیں آرہے ہیں ۔

    آنگ سانگ سوچی سے فریڈم ایوارڈواپس لینے کی قرارداد منظور

    یہ ایوارڈ ونسٹن چرچل ، نیلسن منڈیلا اور اسٹیفن ہاکنگ جیسی عظیم شخصیات کو مل چکا ہے اور اس کے وقار کو برقرار رکھنے کیلئے یہ قدم اٹھانا ضروری تھا۔

  • آنگ سانگ سوچی روہنگیا مسلمانوں کے لئے خاموش کیوں؟

    آنگ سانگ سوچی روہنگیا مسلمانوں کے لئے خاموش کیوں؟

    برما کی انسانی حقوق کی علمبردار اور نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سانگ سوچی کی روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم اور خاموشی انسانی حقوق کی دنیا کے لئے سوالیہ نشان بن گئی۔

    مغربی برما میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں، روہنگیا کے یہ وہ مسلمان ہیں، جنہیں برما کے فوجی حکمران شہریت دینے سے انکاری ہیں، سینکڑوں افراد خستہ اور اذیت ناک حالت میں کیمپوں کی مشکل زندگی گذارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں جبکہ دس فیصد جان کی امان کے لئے سمندروں میں بھٹک رہے ہیں۔

    ایسے میں برما کی وہ نوبل امن انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی جو نوے کی دہائی سے دو ہزار دس تک فوجی آمر کے خلاف ثابت قدم تھیں، اس موقع پر سوچی کی برما میں اقلیتی روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں خاموشی انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

    خیال کیا جا رہا ہے کہ سوچی کے لیے زیادہ اہم اس وقت نومبر میں انتخابات جیت کر اقتدار سنبھالنا ہے اور آنگ سان سوچی اس مرحلے پر بدھ مت کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتی۔

    اس مقام پر یورپ سمیت امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی دو رخی کے علاوہ کیا ہے؟ شواہد ہیں کہ امریکہ اور یورپ نے دنیا کو مفادات کا ایک ایسا تختہ مشق بنا رکھا ہے، جہاں صرف وہ اپنا سرمایہ اور فائدہ دیکھتے ہیں مگر انہیں سسکتی انسانیت فلسطین، کشمیر اور روہنگیا میں نظر نہیں آتی۔

    یہ سب مسلم ممالک کے اہلِ اقتدار کے چلن پر ایک ایسا طمانچہ ہے، جس پر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔