Tag: muslim student

  • مسلم طالب علم کو تھپڑ لگوانے پر ترپتا تیاگی کے اسکول کے خلاف کارروائی

    مسلم طالب علم کو تھپڑ لگوانے پر ترپتا تیاگی کے اسکول کے خلاف کارروائی

    لکھنؤ: بھارتی ریاست اترپردیش کے ایک علاقے کے اسکول میں مسلم طالب علم کو تھپڑ لگوانے کے واقعے پر حکام نے اسکول بند کروا دیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں واقع نیہا پبلک اسکول کے خلاف حکام نے کارروائی کرتے ہوئے اسے بند کرا دیا ہے، اسکول کی مالکہ ترپتا تیاگی کے کہنے پر کلاس کے بچوں نے مسلم طالب علم کو تھپڑ مارے تھے۔

    واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں خاتون ٹیچر کی جانب سے نفرت انگیز تبصرے بھی کیے گئے تھے، مظفر نگر کی پرائمری ایجوکیشن آفیسر شبھم شکلا نے تصدیق کی کہ نیہا پبلک اسکول کو اپنے الحاق کو واضح کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔

    حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ اسکول محکمے کے معیار پر پورا نہیں اترتا، جس پر یوپی تعلیمی بورڈ کی جانب سے اسکول ختم کرنے کے لیے سینئر حکام کو نوٹس بھی بھیجے گئے ہیں۔

    مسلمان بچے پر تشدد کروانے والی ٹیچر اپنے دفاع میں انوکھی منطق لے آئی

    حکام کے مطابق مذکورہ اسکول میں داخل تمام پچاس طلبہ کو کو ایک ہفتے کے اندر ضلع کے سرکاری اسکول یا دیگر اسکولوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔

  • بی جے پی کے انتہا پسندوں کی مسلمان طالبہ سے بدتمیزی

    بی جے پی کے انتہا پسندوں کی مسلمان طالبہ سے بدتمیزی

    میرٹھ : بھارت میں انتہا پسند طلباء نے بی جے پی کا کیپ نہ پہننے پر مسلمان طالبہ سے بدتمیزی کی، بہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر زبردستی ڈانس کرنے کا بھی کہا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش ( یو پی ) کے دیوان لاکالج میرٹھ کالج میں زیر تعلیم بی جے پی کے انتہا پسند طلباء نے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کردیں، پارٹی کیپ پہنے سے انکار پر مسلمان ساتھی طالبہ کو تنگ کیا۔

    اس حوالے سے کالج طالبہ امم خانم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں الزام عائد کیا ہے کہ ان لڑکوں نے کیپ نہ لینے پر مجھ سے بدتمیزی کی نازیبا جملے کسے اور میرے ساتھ ناچنے کیلئے زبردستی بھی کی۔

    دیوان لا کالج میرٹھ کی امم خانم نے ٹویٹر پر کالج ٹرپ کا احوال بتاتے ہوئے مزید کہا کہ نشے میں دھت ہم جماعت لڑکوں نے ہراساں کیا بے انہوں نے مجھے بی جی پی کی کیپ پہننے کا کہا جب میں نے انکار کیا تو مجھ سے انتہائی بدتمیزی کی گئی۔

    نازیبا جملے کسے اور ہاتھ لگانے کی کوشش کی اس دوران وہاں موجود اساتذہ تماشا دیکھتے رہے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ کالج بس میں وہ اکیلی مسلمان لڑکی تھی ام خانم نے لکھا کہ اس کا آگرہ کا سفر عذاب سے کم نہ تھا لڑکوں نے ہاتھ پکڑ کر زبردستی ڈانس کرنے کا کہا، لمبے قد کو نشانہ بنا کر گانے چلائے اور گندی زبان استعمال کی۔

    اس کے علاوہ کچھ دوستوں نے  میری مدد کی کوشش کی تو ان لڑکوں نے انہیں بھی دھمکانا شروع کردیا۔ امم خانم نے کہا کہ یہی نہیں بس میں موجود کئی لڑکیوں نے بھی انتہا پسند ٹولے کا ساتھ دیا بعد ازاں طالبہ کی شکایت پرانتظامیہ نے دو لڑکوں کو کالج سے نکال دیا۔

  • برطانیہ: اسکارف پہننے والی مسلم طالبہ پر نسل پرست لڑکیوں کا حملہ

    برطانیہ: اسکارف پہننے والی مسلم طالبہ پر نسل پرست لڑکیوں کا حملہ

    لندن : برطانیہ میں اسکارف پہن کر اسکول جانے والی نوجوان طالبہ کو اسلام فوبیا کا شکار متعصب لڑکیوں نے سرعام تشدد کا نشانہ بنایا اور اسکارف بھی کھینچا۔

    تفصیلات کے مطابق ان دنوں برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف متعصب سوچ اور نفرت میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی تازہ مثال برطانیہ میں اسکارف پہننے پر تشدد کا نشانہ بننے والی اسکول کی طالبہ ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کو مختلف ثقافتوں کی سوسائٹی کے حوالے جانا جاتا ہے، جہاں کئی مذاہب کے پیروکار زندگی بسر کررہے ہیں۔

    برطانیہ میں سر پر اسکارف اوڑھنے پر اسکول کی نسل پرست دوشیزہ نے مسلمان طالبہ کو اسکارف اتارنے کا کہا اور بات نہ ماننے پر متعصب لڑکی نے مسلم طالبہ کو مصروف سڑک پر تشدد کرنا شروع کردیا اور اسکارف کھینچ کر اتار دیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند لڑکیاں ایک مسلم طالبہ کو گھیرے کھڑی ہیں اور اسکارف اتارنے کا بول رہی ہیں۔

    عینی شاہدین کے مطابق متاثرہ لڑکی نے مشتعل لڑکیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہی تھی کہ اسکارف دہشت گردی کی علامت نہیں بلکہ مسلمانوں کی ثقافت کا حصّہ ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جائے حادثہ پر موجود اسکول کا ایک طالب علم مسلم لڑکی کو بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مشتعل لڑکیاں اسے بھی تشدد کا نشانہ بناتی ہیں جس کے بعد وہ موقع سے چلا جاتا ہے۔

    سماجی وابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں اسکول کے طلباء اور دیگر افراد کو بھی دکھا جاسکتا ہے جو متاثرہ طالبہ کو نسل پرست لڑکیوں سے بچانے کے بجائے تشدد کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہیں۔


    مزید پڑھیں : برطانیہ میں متعصب شخص کا مسلمان خواتین پر وینش سے حملہ


    یاد رہے کہ رواں برس 15 جون کو برطانیہ میں مسلمانوں نے نفرت کی بنیاد پر ایک سفید فارم برطانوی شہری نے سپر مارکیٹ میں موجود اسکارف پہنی ہوئی خواتین پر صفائی کرنے والے کیمیکل ’وینش‘ سے حملہ کردیا تھا۔


    مزید پڑھیں : برطانیہ میں گینگ کے ہاتھوں تشدد سے زخمی مسلمان طالبہ دم توڑگئی


    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق رواں برس مارچ میں برطانیہ کے شہر ناٹنگھم میں خواتین کے ایک نسل پرست متعصب گینگ نے دن دیہاڑے مسلم طالبہ مریم مصطفیٰ جان کو سرعام بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے وہ شدید زخمی ہوگئی اور اسپتال میں دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئی تھی۔


    مزید پڑھیں : لندن: مسلمان خاتون کا حجاب اتارنے اور سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش


    خیال رہے کہ ایک برس قبل برطانوی دارالحکومت لندن میں اسلام مخالف دو سفید فام نوجوانوں پر مشتمل گروہ نے ایک باحجاب خاتون کو ان کے حجاب سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹا تھا۔

    واضح رہے کہ سنہ 2016 میں بریگزٹ پر ووٹنگ کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگزیز وارداتوں میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ سنہ 2016 اور 2017 کے درمیان مساجد پر بھی حملوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔

  • بھارتی اسکول میں پرنسپل نے مسلم طالب علم کو ہندو اشلوک پڑھنے پرمجبورکردیا

    بھارتی اسکول میں پرنسپل نے مسلم طالب علم کو ہندو اشلوک پڑھنے پرمجبورکردیا

    بنگلور: بھارت میں ایک 15 سالہ مسلم اسکول طالب علم سمیت دیگرمسلم طلبہ کو انتظامیہ نے ہندو مذہب کے اشلوک پڑھنے پرمجبور کردیا۔

    بھارتی اخبار کے مطابق ایک نجی اسکول نے رواں سال ہی سنسکرت کے کچھ اشلوک اپنی اسمبلی میں شامل کیے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسکول پرنسپل نے دیکھا کہ مسلم طلبہ اشلوک نہیں پڑھ رہے تو ان کو اس بات کی سزادی گئی۔

    طالب علم کا کہناتھا کہ انہیں1200 طلبہ و طالبات کے سامنے توہین کا نشانہ بنایا گیا اوراسٹیج پربلا کرزبردستی ہندی اشلوک پڑھوائے گئے ۔ طالب علم نے مزید بتایا کہ جب اس نے کچھ الفاظ کا تلفظ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا تو اسے اس بات پرسب کے سامنے بری طرح لتاڑا گیا۔

    طالب علم کی والدہ نے جب پرنسپل سے اس معاملے کی شکایت کی تو انہوں نے اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ کیے بغیرکہا کہ’’بچوں کو نظم وضبط اوراقدارسکھانے کے لئے دعا ضروری ہے‘‘۔

    متاثرہ والدہ نے مزید کہا کہ اسکول پرنسپل اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کررہیں کہ ہم ایک مختلف عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ دعائیں ہمارے مذہب کا حصہ نہیں ہیں۔