Tag: muslim

  • مسلمانوں سے نفرت نہیں، محبت کریں: باشعور برطانوی شہریوں کی انوکھی مہم

    مسلمانوں سے نفرت نہیں، محبت کریں: باشعور برطانوی شہریوں کی انوکھی مہم

    لندن: برطانیہ میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کے خلاف سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں شہر کے مختلف افراد کو نفرت انگیز خطوط موصول ہوئے تھے، جن میں انھیں مسلمانوں پر حملوں کی ترغیب دی گئی تھی اور3 اپریل کو ’پنش اے مسلم ڈے‘ یعنی مسلمانوں کو سزا دینے کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان نفرت انگیز خطوط میں مسلمانوں سے بدسلوکی اور تشدد کی مناسبت سے پوائنٹس کا تعین کیا گیا تھا۔

    ایک جانب جہاں ان خطوط کے خلاف لندن پولیس کا انسدادِ دہشت گردی یونٹ حرکت میں آگیا، وہیں برطانیہ کے باشعور طبقات کی جانب سے اس کی شدید مذمت کی گئی۔ ان خطوط کی گونج اعلیٰ ایوان میں بھی سنائی دی۔

    اس مہم کے جواب میں ایک گروپ کی جانب سے تین اپریل کو مسلمانوں سے محبت کے دن کے طورپر منانے کی مہم شروع کی گئی ہے۔ اسلاموفوبیا کے خلاف سرگرم ایک سماجی تنظیم MEND Community نے اپنے ٹوئٹرپیچ سے 3 اپریل کو مسلمانوں سے محبت کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔

    نفرت انگیز مہم کے برخلاف اس مہم میں مسلمانوں سے احسن سلوک کرنے پر پوائنٹس رکھے گئے ہیں۔ اس مہم کے لیے سماجی تنظیم نے امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے سیاہ فام امریکی سیاست داں مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ کا انتخاب کیا ہے، جنھوں نے کہا تھا کہ اندھیرے کو دور کرنے کے لیے روشنی ہی واحد ذریعہ ہے۔

    برطانوی خبر رساں اداروں کے مطابق مسلمانوں سے نفرت کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر مسلمانوں سے محبت کے لیے شروع کی جانے والی مہم کو زیادہ پذیرائی ملی ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ میں 28 لاکھ مسلمان آباد ہیں، جو کل آبادی کا 4.4 فی صد ہیں۔ ادھرلندن پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اس قسم کے نفرت انگیز اقدامات کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے اور ان کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔


    برطانیہ میں مسلمانوں‌ کے خلاف نفرت انگیز خط کی تقسیم


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • متنازع فیصلہ، وائٹ ہاؤس کے باہر مسلمانوں کا احتجاج، نماز کی ادائیگی

    متنازع فیصلہ، وائٹ ہاؤس کے باہر مسلمانوں کا احتجاج، نماز کی ادائیگی

    واشگنٹن: مسلمانوں کے امریکا داخلے پر پابندی کے متنازع فیصلے کو ایک سال مکمل ہونے پر مقامی مسلمانوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر پرامن مظاہرہ کیا اور ٹرمپ کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی مسلمانوں کے خلاف پہلا ایگزیکٹو آرڈر منظور کیا تھا جس کے تحت 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر  امریکا داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

    متنازع فیصلے کو ایک سال مکمل ہوا تو امریکا میں مقیم ہزاروں مسلمانوں وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے ٹرمپ کے مسلم مخالف فیصلے پر شدید احتجاج کیا۔

    مزید پڑھیں: مسلمان مخالف ویڈیو ری ٹوئٹ کرنے پر امریکی صدر نے معافی مانگ لی

    مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر پناہ گزینوں سے محبت کے الفاظ درج تھے، مظاہرین نے بینرز درج کیا تھا کہ کسی مسلمان سے نفرت اور اُن سے ڈرنا نہیں چاہیے‘۔

    مظاہرین نے وائٹ ہاؤس کے باہر نماز بھی ادا کی، شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ٹرمپ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے سے متعلق پہلا حکم نامہ جاری کیا تھا جس عدالت نے بعد میں منسوخ کیا۔ حکم نامے میں عراق کے علاوہ چھ مسلمان ملکوں پر ویزا پابندی عائد کی گئی تھی۔

    وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ نئے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، یمن اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر 90 دن کی پابندی رہے گی اور انہیں اس عرصے میں امریکی ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: مسلمانوں کا ٹرمپ ٹاور کے باہر افطار اور نماز ادا

    امریکی صدر  کے حکم نامے کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاج کیا گیا تھا، حکم نامے کے فوری بعد امریکی ائیرپورٹس پر ہزاروں مسلمان پھنس گئے تھے جس کے بعد وہاں پر باجماعت نماز کی ادائیگی بھی شروع ہوگئی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئر کریں۔

  • مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی، گجرات انتخابات میں چار مسلمان کامیاب

    مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی، گجرات انتخابات میں چار مسلمان کامیاب

    گجرات: گو ہندوستانی ریاست گجرات کے اسمبلی انتخابات میں حکمراں جماعت بی جے پی فاتح ٹھہری، مگر ماضی کے برعکس اس بار کانگریس پارٹی بھی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مبصرین اسے راہول گاندھی کی کاوشوں کا نتیجہ ٹھہرا رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ گجرات اسمبلی کی 182 نشستوں میں سے بی جے پی نے 99 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، کانگریس کے حصے میں 77 نشستیں آئیں۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں چار مسلم امیدوار کامیاب رہے، جب کہ گذشتہ انتخابات میں دو مسلم امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ گجرات میں مسلم آبادی 9.67 فیصد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جیتنے والے تمام مسلم امیدوار کانگریس پارٹی کے رکن ہیں۔ اس بار انتخابات میں کانگریس پارٹی نے چھ مسلمان امیدوار کو انتخابات میں میں ٹکٹ دیا تھا۔ البتہ بی جے پی کی جانب سے مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے کسی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ انتخابی مہم میں بھی ان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اندازوں کے مطابق گجرات کی 80 فیصد مسلم آبادی روایتی طور پر کانگریس کی ووٹر ہے۔

    کامیاب ہونے والے امیدواروں میں شیخ غیاث الدین ، پیرزادہ محمد جاوید عبدالمطلب، نوشاد جی بالاجی بھائی اور عمران یوسف بھائی شامل ہیں۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے میں جب گجرات کو ہندو ریاست قرار دیا جارہا تھا، کانگریس کی کارکردگی اور مسلمانوں کی کامیابی تبدیلی کی ہوائیں چلا سکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • امریکا: ٹیچر نے’اللہ’ کا نام لینے پر معذور طالب علم پولیس کے حوالے کردیا

    امریکا: ٹیچر نے’اللہ’ کا نام لینے پر معذور طالب علم پولیس کے حوالے کردیا

    ہوسٹن: امریکی ریاست ٹیکساس میں اسکول ٹیچر نے معذور طالب علم کو لفظ ’اللہ‘ ادا کرنے پر دہشت گرد قرار دیتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا۔

    امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ٹیکساس کے علاقے ہوسٹن میں واقع اسکول میں ٹیچر نے لفظ ’اللہ‘ ادا کرنے پر دہشت گرد قرار دیتے ہوئے 6 سالہ معذور طالب علم محمد سلمان کو پولیس کے حوالے کیا۔

    مذکورہ طالب علم کے والد کا کہنا ہے کہ میرے بیٹا پیدائشی طور پر نفسیاتی مرض ’سینڈروم‘ میں مبتلا ہے اس لیے وہ بول نہیں سکتا مگر ٹیچر کی جانب سے بچے کو دہشت گرد قرار دینا بہت بڑی بیوقوفی ہے‘۔

    محمد سلمان ذہنی معذوری کی وجہ سے بول نہیں سکتا، والد

    اُن کا کہنا تھا کہ ’ایلمنٹری اسکول کے ٹیچر کی غیر موجودگی میں دوسرے استاد نے بیٹے پر الزام عائد کر کے اُسے ٹیکساس پولیس کے حوالے کیا جبکہ ذہنی معذوری کی وجہ سے وہ بولنے سے ہی قاصر ہے‘۔

    اسکول ٹیچر کے مطابق محمد سلمان نے کلاس میں تمام طالب علموں کے سامنے دھمکی آمیز کلمات کے ساتھ لفظ اللہ ادا کیا، جس کی وجہ سے اُسے تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کیا گیا۔

    مسلمان طلبہ کے والدین کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد بچوں کے تحفظ کے ادارے نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی۔

    پولیس کے مطابق مذکورہ بچے کے خلاف کی جانے والی تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر اُسے دہشت قرار دیا جاسکے، طالب علم کو تفتیش مکمل ہونے کے بعد رہا کردیا گیا۔


     اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھجن میں غلطی کرنے پر مسلم گلوکار کو قتل کر دیا گیا

    بھجن میں غلطی کرنے پر مسلم گلوکار کو قتل کر دیا گیا

    راجھستان: نام نہادسیکولر بھارت کا بھیانک انتہا پسند چہرہ سامنے آگیا ، بھارتی ریاست راجھستان میں مسلم گلوکار بھجن میں غلطی کرنے پر انتہا پسند ہندوؤں کی سفاکیت شکار ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک میں اقلیتوں کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کا ایک اور واقعہ سامنے آگیا ، مسلمان گلوکار انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔

    راجستھان میں مسلم لوک فنکار کوہندو انتہاپسندوں نے بیدردی سے قتل کردیا، بھارتی پولیس کے مطابق بھارتی ریاست راجھستان میں ڈانٹال نامی گاؤں میں ستائیس ستمبر کو تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب ایک پنڈت نے لوک گلوکار احمد خان پر الزام لگایا کہ اس نے ہندو دیوی کی شان میں پڑھی جانے والی بھجن میں غلطیاں کی تھیں۔

    محض معمولی غلطی پر گلوکار کے قتل کے بعد مسلم آبادی خوفزدہ ہوکر ہجرت پر مجبور ہوگئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق اب تک دو سو سے زائد مسلمان علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں، کئی خاندانوں نےاسکول اورسرکاری عمارتوں میں پناہ لے لی ہے، انتہاپسند مودی کی سرکار میں سیکولر بھارت انتہا پسندی کی راہ پر چل پڑا مسلمان،عیسائی،سکھ اور دلت کوئی محفوظ نہیں۔


    مزید پڑھیں : گوشت کھانے کا شبہ،4 افراد پر ہجوم کا بدترین تشدد، ایک شخص ہلاک،3زخمی


    بین الاقوامی مذہبی آزادی پر کےامریکی کمیشن کی رپورٹ کےمطابق دوہزار سولہ میں بھارت میں عدم برداشت اورمذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

    واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سے مسلمان اقلیت پر ہونے والے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں میں متعدد مسلمان ہلاک بھی ہو چکے ہیں جبکہ کئی ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی بھی عائد کی جا چکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • برما میں کوئی مسلمان ’اسلامی نام ‘ نہیں رکھ سکتا

    برما میں کوئی مسلمان ’اسلامی نام ‘ نہیں رکھ سکتا

    رنگون: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر قانون کے تحت اسلامی نام رکھنے پر پابندی عائد ہے‘ مسلمان دو نام رکھنے پر مجبور ہیں‘ حالیہ فسادات میں سوا تین لاکھ افراد ہجرت کرگئے ہیں۔

    اے آروائی نیوز کے اینکر پرسن اقرار الحسن ان دنوں برما میں موجود ہیں اور وہاں کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ یہاں کے قوانین کے تحت مسلمانوں کے اسلامی نام رکھنے پر پابندی عائد ہے ‘ جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔

    اقرارالحسن کا کہنا ہے کہ یہاں پر بسنےوالے مسلمان مجبور ہیں کہ وہ اپنے دونام رکھیں‘ ایک نام جو ان کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرتا ہے اورعموماً ان کے اہلِ خانہ اور ارد گرد کے لوگ اسی نام سے پکارتے ہیں۔ دوسرا نام سرکاری دستاویزات کے لیے رکھا جاتا ہے جس پر ان کا شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بنتے ہیں ۔

    برمی حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم پر ساری دنیا تشویش میں مبتلا ہے ‘ سنہ 2012 سے جاری ان فسادات میں اب تک ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد یہاں سے نقل مکانی کرگئے ہیں۔

    حکومت نے ایکشن نہ لیا تو بدھا روہنگیا مسلمانوں کی مدد کریں گے*

    گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو ایک بار پھر فسادات کا نیا سلسلہ زور پکڑ گیا‘ برمی فوج کا موقف تھا کہ وہ روہنگیا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے تاہم اس کارروائی میں گاؤں کے گاؤں نذر آتش کردیے گئے۔

    اب تک فسادات میں 400 سے زائد افراد قتل کیے جاچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق تین لاکھ سے زائد افراد نے ہجرت کی ہے‘ بنگلہ دیش اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے جہاں اب تک ساڑھے سات لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان پہنچ چکے ہیں۔

    یاد رہے کہ سنہ 2011 میں میانمار میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوئی تھی اور امید ہوچلی تھی کہ خطے میں طویل عرصے سے جاری اس کشمکش کا خاتمہ ہوسکے گا‘ تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

    گزشتہ روز بدھ مت کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ نے اپنے بیان میں کہا کہ آج اگر گوتم بدھ موجود ہوتے تو وہ روہنگیا مسلمانوں کا ساتھ دیتے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لندن آتشزدگی: سحری کیلئے اٹھے مسلمان لوگوں کی جانیں بچانے والے ہیرو

    لندن آتشزدگی: سحری کیلئے اٹھے مسلمان لوگوں کی جانیں بچانے والے ہیرو

    لندن : لندن کے گرین فیل ٹاورمیں آتشزدگی کے بعد متاثرہ خاندانوں کی مدد میں صحری کیلئے اٹھے مسلمان پیش پیش رہے،برطانوی میڈیا نے مسلمانوں کی ہمدردی اورمدد کے جذبے کوقابل تعریف قراردیا۔

    لندن میں مسلمانوں کی ہمدردی اور بہادری کے چرچے، مسلم کیمونٹی کے قابل تقلید کردار کو برطانوی میڈیا نے خراج تحسین پیش کیا اور مسلم کمیونٹی برطانوی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بن گئی۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق گرین فیل ٹاور میں آتشزدگی کے بعد مسلمانوں نے اپنے پڑوسیوں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق لندن گرینفل ٹاور میں آتشزدگی کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے سب سے پہلے افراد مسلمان تھے، انہوں نے اپنے سوئے ہوئے پڑوسیوں کے دروازوں کو کھٹکھٹاتے ہوئے عمارت میں لگی آگ کا بتا کر انہیں چوکنا کیا اور عمارت سے باہر نکلنے میں ان کی مدد کی۔

    سحری کے لئے بیدارہونے والے مسلمانوں نے آگ کی لپیٹ میں آئی عمارت میں پھنسے لوگوں کو باہرنکالا، متاثرہ افراد کا کہنا تھا مسلمانوں نے نہ صرف جانیں بچائیں بلکہ کھانا اورکپڑے بھی فراہم کئے۔

    گرینفل ٹاور میں آگ رات کو تقریباً دو سے ڈھائی بجے کے درمیان لگی جب اکثر لوگ سو چکے ہوتے ہیں تاہم چونکہ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے لہٰذا مسلمان خاندان سحری کی تیاریوں کی وجہ سے جاگ رہے تھے اور انہوں عمارت میں پھنسے لوگوں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    برطانوی میڈیا نے مسلم کیمونٹی کےکردار کوسراہتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دیا۔

    مقامی خواتین صفیہ اور رشیدہ نےبتایا کہ اس علاقہ میں مختلف اقوام، ممالک اور مذاہب کے لوگ مقیم ہیں، جو ایک دوسرے سے امن و محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔

    نادیہ یوسف نے کہا کہ وہ سحر کی تیاری میں مصروف تھیں کہ آگ کا پتہ چلا اور انہوں نے کئی مرد و خواتین اور بچوں کو بچانے میں ساتھیوں کی مدد کی۔


    مزید پڑھیں : لندن : رہائشی عمارت میں خوفناک آتشزدگی


    یاد رہے گذشتہ روز مغربی لندن میں چوبیس منزلہ رہائشی عمارت میں اچانک شعلے بھڑک اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ پھیل گئی ، جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوئے جبکہ درجنوں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔

    مذکورہ عمارت 130 رہائشی فلیٹس پر مشتمل ہے جس میں ہزاروں افراد رہائش پذیر تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی مسلمان باکسر کو حجاب کے ساتھ کھیلنے کی اجازت

    امریکی مسلمان باکسر کو حجاب کے ساتھ کھیلنے کی اجازت

    واشنگٹن: حجاب کے ساتھ باکسنگ میں حصہ لینے کی ممانعت کے خلاف امریکی نوعمر مسلمان باکسر عمایہ ظفر کی جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی، اور امریکی باکسنگ ایسوسی ایشن نے اسے باحجاب ہو کر کھیل میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔

    امریکی ریاست منیسوٹا کی 16 سالہ عمایہ کے لیے یہ جدوجہد اتنی آسان نہیں تھی۔ وہ اپنے حریف کے ساتھ ساتھ ان قوانین سے بھی متصادم تھی، جو اسے حجاب کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لینے سے روکتے ہیں۔

    عمایہ اپنی مذہبی اقدار اور اپنے جنون کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی تھی۔

    لیکن اس کی راہ میں اس کے پسندیدہ کھیل باکسنگ کے وہ قوانین حائل تھے جن کی رو سے وہ مکمل ڈھکا ہوا لباس اور سر پر حجاب پہن کر اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔

    ہوش سنبھالنے کے بعد سے اس کھیل کی پریکٹس کرنے والی عمایہ گزشتہ برس ایک باکسنگ میچ میں حصہ لینے کے لیے فلوریڈا گئی۔

    لیکن وہاں اسے بتایا گیا کہ حجاب، مکمل بازوؤں والی جرسی اور لیگنگ کے ساتھ اسے مقابلہ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

    عمایہ دل برداشتہ لوٹ آئی، لیکن اس نے حوصلہ نہیں ہارا۔ وہ کہتی تھی، ’میں اپنے شوق کے لیے مذہب، اور مذہب کے لیے شوق کو کیوں قربان کروں‘؟

    ایک نئے حوصلے سے عمایہ نے پھر سے باکسنگ کی پریکٹس شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ عمایہ اور اس کے خاندان نے کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز سے رابطہ کیا اور اس سلسلے میں ان سے مدد کی درخواست کی۔

    کونسل نے امریکی باکسنگ ایسوسی ایشن سے کھیل کے قوانین میں مذہبی چھوٹ کے حوالے سے شق شامل کرنے کے معاملے پر گفت و شنید شروع کردی۔

    بالآخر کونسل کی کوششیں، اور عمایہ کی سچی لگن رنگ لے آئی اور چند روز قبل باکسنگ ایسوسی ایشن نے عمایہ کو اجازت دے دی کہ وہ اپنے اسلامی اقدار کے مطابق لباس پہن کر کھیل میں حصہ لے سکتی ہے۔

    فیصلے کے بعد ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا کہ گو کہ ایک مسلمان کی وجہ سے انہیں اپنے قوانین میں ترامیم کرنی پڑی۔ لیکن انہیں خوشی ہے کہ ان ترامیم کی وجہ سے یہ کھیل مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا سبب بنے گا۔

    مزید پڑھیں: افغان خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ۔ خالدہ پوپل

    عمایہ کی وجہ سے اب نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کی لڑکیاں بھی مکمل لباس کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں۔

    اس کے والد محمد ظفر بھی بیٹی کی کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ مستقبل میں عمایہ ایک مسلمان کی حیثیت سے امریکا کے لیے روشن مثال ثابت ہوگی۔

    عمایہ کو اپنے پہلے میچ میں تو شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس نے اپنے حقوق کے لیے جو جنگ لڑی، اس میں وہ فاتح ٹہری۔

    عمایہ اب 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لینے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ اس کا عزم پہاڑوں سے بھی بلند ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ خود کو امریکا کی بہترین پہچان بنانے میں کامیاب رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکہ میں ایک اور مسلم خاتون مذہبی نفرت کا نشانہ بن گئی

    امریکہ میں ایک اور مسلم خاتون مذہبی نفرت کا نشانہ بن گئی

    امریکی ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی میں ایک افسوس ناک حادثہ پیش آیا جہاں کسی شدت پسند نے اسکارف پہنے پر مسلم خاتون کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

    تفصیلات کے مطابق یہ دل دہلا دینے والا سانحہ اس وقت پیش آیا جب مذکورہ خاتون فجر کی نماز ادا کرکے پیدل اپنے گھر جارہی تھیں۔

    نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خاتون نے امریکی میڈیای کو دیے انٹرویومیں کہا ہے کہ ’’ وہ گھر جارہی تھیں جب یہ سانحہ پیش آیا‘ ایک گاڑی آکر رکی اور اس میں سے اترنے والے شخص نے مجھے روکا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نفرت انگیز واقعات میں زبردست اضافہ

    خاتون کا کہنا تھا کہ ’’اس شخص نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنا اسکارف اتاردوں‘ میں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن اس شخص نے مجھے زمین پر گرادیا اور جانوروں کی طرح تشدد کا نشانہ بنایا‘‘۔

    سانحےکا شکار ہونے والی مسلم خاتون نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ’’اس نے میرا اسکارف کھینچ کر اتارا اور مجھے اٹھا کردیوار پر دے مارا‘‘۔ خاتون کادعویٰ ہے کہ نامعلوم حملہ آور نے کئی بار ان کا سر دیوار سے ٹکرایا جس کے سبب وہ لہولہان ہوگئیں۔

    حملے کے بعد خاتون کسی طرح ہمت جتا کر گھر واپس آئیں جہاں سے ان کے اہل خانہ فی الفور انہیں اسپتال لے گئے۔ اسپتال میں انہیں ایک دن داخل رہنا پڑا۔

    اسکارف سے خود کو پھانسی لگا لو

    علاقے کی اسلامی کمیونٹی کے رہنما اور وکیل منجد احمد کا کہنا ہے کہ ’’یہ حملہ مذہبی منافرت کی بنا پر کیا گیا ‘ ہمیں اپنی برادری کی سیکیورٹی کے لیے تشویش لاحق ہوگئی ہے‘‘۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’خاتون کی تمام تر اشیا اس کے پاس موجود ہیں‘ حملہ آور نے نہ کچھ چھینا اور نہ ہی کوئی چیز ساتھ لے کر گیا لہذا یہ لوٹ مار کا واقعہ نہیں ہے‘‘۔

    مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ’’تاحال واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ابھی تک پولیس نے اس حملے کے شبے میں کسی کو بھی حراست میں نہیں لیاگیا ہے‘‘۔

  • منیشا کی بلال سے شادی، محبت اورانسانیت کی جیت، دھرم ہارگیا

    منیشا کی بلال سے شادی، محبت اورانسانیت کی جیت، دھرم ہارگیا

    سندھ کے دیہی علاقوں میں ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے پیار کی شادیاں ہمیشہ جبر اورتضادات کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں کیونکہ زیادہ تر شادیوں میں ایک جانب مذہبی عالم اور پنڈت کود پڑتے ہیں تو دوسری جانب سول سوسائٹی کی دکانیں کُھل جاتی ہیں اور پھر محبت کے شادی کرنے والا مسلمان لڑکا اور ہندو لڑکی زندگی بھر محبت کو بھول جاتے ہیں۔

    چند روز قبل ایک خوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں محبت اور انسانیت جیت گئی اور دھرم ہار گیا۔ میرپورخاص کے ہندو سماجی کارکن ڈاکٹر گوردھن نے ایک انوکھی مثال قائم کی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی منیشا کو اس کے پریمی مسلمان نوجوان بلال قائم خانی کے سپرد کیا اور اپنے گھر پر مولوی بلاکر نکاح کروا دیا۔

    میرپور خاص کی منیشا کماری اور بلال قائم خانی کی پریم کہانی کے بارے میں منیشا کے والدین با خبر تھے، محبت کی ابتدا تب سے ہوئی جب منیشا کی عمر اٹھارہ برس سے بھی کم تھی لیکن ڈاکٹرگوردھن کھتری نے انسانیت کو ترجیح دی اور اپنی بیٹی کو صبر کی تلقین کی اورپھر وہ لمحہ بھی گیا جب بلال قائم خانی کی بارات ہندو ڈاکٹر گوردھن کے گھر پہنچی۔

    مسلم عقائد کے مطابق شادی کی رسومات ہوئیں اور بلال قائم خانی اپنی دلہن منیشا کو میرپور خاص سے اپنے آبائی گاﺅں ہتھونگو لے گئے۔ دیہی ماحول میں جوڑے کا شانداراستقبال کیا گیا اور پھر ردعمل میں کھتری برادری کی پنچائیت نے ڈاکٹر گوردھن کو برادری سے نکال دیا اور اس کے خاندان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا۔

    ڈاکٹر گوردھن کہتے ہیں کہ اس نے دھرم کے بجائے انسانیت کو ترجیح دی اس کی بیٹی اگر مسلمان لڑکے کو چاہ رہی تھی وہ شادی چاہتی تھی مسلمان ہوناچاہتی تھی تو وہ کون ہوتا ہے کہ رکاوٹ بنے۔

    ڈاکٹر گوردھن کا کہتا ہے کہ وہ پنچایت اور دھرم سے زیادہ انسانیت کو عظیم سمجھتا ہے۔ منیشا کماری اب منیشا بلال ہوگئی اورشادی کے بعد میکے بھی آگئی، جہاں منیشا اور بلال پر پھول نچھاور کئے گئے۔ منیشا اور بلال دونوں بہت خوش ہیں۔

    سندھ کے دیہات میں ہندو خاندانوں کے سماجی مسائل اور نفسیاتی پیچیدگیاں اپنی جگہ پر اورہندو لڑکیوں کی جبری شادیاں بھی ایک بھیانک پہلو ہے۔ لیکن سندھ کے مشہور سیاسی خاندانوں کے گھروں میں بیک وقت ہندو اور مسلمان دونوں بستے ہیں۔

    سندھ کے سابق وزیر اعلیٰٰ ارباب غلام رحیم کی والدہ ہندو تھیں، ارباب توگاچی کی اہلیہ سابق ایم پی اے رام سنگھ سوڈھو کی بہن تھی اس طرح رام سنگھ سوڈھو ارباب غلام رحیم کے ماموں ہیں۔

    سندھ کے اور بھی کئی خاندانوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکے سے شادی کے وقت سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان لڑکی ہندو لڑکے سے شادی کر سکتی ہے اور سندھ کی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ڈاکٹر گوردھن کھتری نے انوکھی تاریخ رقم کردی ہے۔
    تصیح: سوشل میڈیا اور مقامی اخبارات کے حوالے سے اس اسٹوری میں پہلے شائع شدہ تصویر متعلقہ شخصیت کی نہیں تھی۔ بعد ازاں اس غیر ارادی سہو کی تصیح کرتے ہوئے اس تصویر کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس سہو سے کسی کو کوئی آزار پہنچا ہوتو ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔