Tag: muslims

  • بھارت میں مسلمانوں کی پارلیمنٹ سمیت ہر شعبے میں محدود نمائندگی

    بھارت میں مسلمانوں کی پارلیمنٹ سمیت ہر شعبے میں محدود نمائندگی

    گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض مودی سرکار نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کو نشانے پر ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی اور سیاسی طاقت کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے، اسکے علاوہ سرکاری نوکریوں اور سول سروسز کے اعلی امتحانوں میں ہر سال مسلمان امیدواروں کے اکثریت جان بوجھ کر کم رکھی جاتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دوسری جانب بھارتی سول سروسز میں گزشتہ سال محض 6 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے، مسلمان بھارت میں 200 ملین کی آبادی رکھتے ہیں جبکہ نام نہاد جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار نے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ حال ہی میں مودی نے انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریروں میں مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، 2014 سے قبل بی جے پی میں جو مسلم نمائندگی موجود تھی وہ مودی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ختم ہو کر رہ گئی۔

    بھارت اب ایسی ریاست بن چکا ہے جان بوجھ کر مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، مسلمانوں کی بھارت میں نمائندگی کو مٹانے میں مودی سرکار کا یہ مقصد پنہاں ہے کہ وہ تعلیم، نوکریوں، صحت اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کا مطالبہ کرنے سے قاصر ہو جائیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت کی 14 فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل مسلمانوں کی بی جے پی کے دور حکومت میں نمائندگی پانچ فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔

    بھارتی حکومتی رپورٹ کے مطابق مسلمان خواندگی، آمدنی اور تعلیم تک رسائی میں ہندوؤں، عیسائیوں اور ہندوستان کی نچلی ذاتوں سے پیچھے ہیں، مودی سرکار کے بغض کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی بھارتی مسلمانوں کی کامیابی نہیں دیکھ سکتی، بی جے پی نے ہر لحاظ سے بھارتی سرزمین مسلمانوں کے لیے تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

  • ویڈیو رپورٹ: ہندوتوا نظریے کے حامل 300 سے زائد غنڈوں کا پیدل چلتے مسلمانوں پر تشدد

    ویڈیو رپورٹ: ہندوتوا نظریے کے حامل 300 سے زائد غنڈوں کا پیدل چلتے مسلمانوں پر تشدد

    بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے، بھارت میں اقلیتوں پر پہلے سے جاری ظلم و ستم انتہا پسند مودی سرکار کے آنے کے بعد اب بربریت کی شکل اختیار کر چکا ہے، مودی سرکار دنیا میں سیکولرزم کا پرچار کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندووٴں کے سوا بھارت میں کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے۔

    دی وائر اور ہندوتوا واچ کے مطابق ہندوتوا نظریے کے پیروکاروں نے شانتی نگر میرا روڈ ممبئی میں مسلمان دکان داروں پر حملہ کیا، ہندوتوا نظریے کے حامل 300 سے زائد غنڈوں نے میرا روڈ پر پیدل چلنے والے نہتے مسلمانوں پر دھاوا بولا اور تشدد کیا۔

    بی جے پی کے کارندوں نے مسلمانوں پر ڈنڈے برسائے اور پتھراوٴ کیا جب کہ گاڑیوں اور املاک کو نقصان بھی پہنچایا، مشتعل ہجوم نے 50 سے زائد مسلمانوں کو زخمی کیا اور لاکھوں کی املاک کو نقصان پہنچایا، جب کہ بھارتی پولیس نے پرتشدد ہجوم کو توڑ پھوڑ سے نہیں روکا، بھارتی پولیس نے بلوائیوں کے خلاف شواہد کی موجودگی کے باوجود کوئی ایف آئی آر درج نہ کرائی بلکہ مجرمان کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔

    ایودھیا میں مسلمانوں کی بابری مسجد کے مقام پر ہندو مندر کی تعمیر سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارندوں کو تقویت ملی ہے اور اقلیتوں کے خلاف مظالم میں مزید اضافہ ہوا ہے، مذہب کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والی مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا غنڈہ گردی اور دہشت گردی میں ملوث ہے۔

  • مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے، ہمارے روز مرہ مشاہدے میں بھی یہ بات سامنے آتی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً 35 کتابیں پڑھتا ہے جب کہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، دوسری طرف عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین صورت حال دکھا رہی ہے، اس کے مطابق ایک عمومی یورپین سال میں 200 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے، جب کہ ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً 6 منٹ مطالعہ کرتا ہے۔

    ہمارے پڑوسی ممالک بھارت میں 10، بنگلادیش میں 42 اور چین میں 8 گھنٹے فی ہفتہ کتاب پڑھنے پر خرچ کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن دنیا بھر کی کتب بینی کی فہرست میں سواے مصر اور ترکی کوئی تیسرا مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ انگلینڈ میں 80 لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں، برطانوی لائبریریوں میں 9 کروڑ 20 لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا 60 فی صد (کل آبادی 6 کروڑ 70 لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔

    نئی کُتب

    عالمی سطح پر ہر سال 8 ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے، علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے، دنیا کے جن 28 ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔

    حیرت انگیز طور پر دنیا کی 56 بہترین کتابیں چھاپنے والی کمپینیوں میں کسی کا بھی دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے، اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بغداد بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تھا، ان کی محنت آج بھی لندن کی ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ میں موجود ہے، ان کتب کی تعداد 6 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

    کتاب اور مطالعہ ہر معاشرے، مذہب اور ہر تمدن کی ضرورت رہی ہے، جن اقوام نے کتاب کو اپنایا وہ کامیاب ہوئیں، چاہے ان کی معاشی یا عسکری طاقت کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

    کتب بینی میں کمی کے رحجان میں کئی عوامل شامل ہیں:

    آمریت اور بادشاہت

    سابق سربراہ شعبہ ابلاغ عامہ اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز سے مسلم ممالک میں آمریت اور بادشاہت کا دور دورہ رہا ہے۔ کتب بینی معاشرے میں روشن خیالی اور سوچ کو وسعت دیتی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے استحکام کو دوام بخشنے کے لیے معاشروں کو وسعت خیالی سے دور رکھا، جس کا اثر معاشرے میں سماجی اور ثقافتی طور پر مختلف حلقوں پر پڑا، ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں بھی آزاد خیالی اس وقت زیادہ تیزی سے پیدا ہوئی جب عوام نے آمریت اور بادشاہت سے جان چھڑا لی۔

    انھوں نے کہا تعلیمی نظام، والدین کی تربیت اور ماحول کی تبدیلی نے بھی کتب بینی کی کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس بھی کتب بینی سے دوری کی ایک وجہ ہے، لیکن اس وجہ کو بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ میں ڈیجیٹل میڈیا سب سے پہلے آیا مگر وہاں پر کتاب پڑھنے کا رواج آج بھی قائم ہے۔

    مسئلہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عامر فیروز کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک میں کتب بینی کے رحجان میں کمی کی وجہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے۔ وہ اس بات کو اس طرح سے بتاتے ہیں کہ سارا زور درسی کتابیں پڑھنے پر دیا جا تا ہے، جس سے روزگار کی امید ہوتی ہے۔ والدین نہ خود کتابیں پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق کتابیں پڑھنے سے انسان کی سوچ کو وسعت ملتی ہے، جس سے وہ سوال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر مسلم معاشروں میں آمریت اور بادشاہت ہے، اس لیے وہاں روشن خیالی کے ماحول کو جگہ نہیں ملتی۔

    ڈاکٹر عامر کا کہنا تھا کہ ایک اچھا ریڈر ہی اچھا لیڈر بنتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے دنیا کے ان رہنماؤں کی دی جو بہترین رہنما گزرے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ابتدائی چار دہایوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت معاشرہ قدرے روشن خیال تھا۔ اور اس کی وجہ وہ لوگوں اور نوجوانوں میں کتب بینی کا رحجان اور اس کے ثمرات کو قرار دیتے ہیں۔

  • نئی دہلی میں جلسہ: سرکار کی ناک کے نیچے لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا جاتا رہا

    نئی دہلی میں جلسہ: سرکار کی ناک کے نیچے لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا جاتا رہا

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ایک جلسے میں مودی سرکار کی ناک کے نیچے کھلے عام لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا گیا اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی گئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو گروپوں کے زیر اہتمام منعقدہ ایک جلسہ عام میں مسلم مخالف اور نفرت آمیز تقریریں کی گئیں، جلسے میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش سنگھ ورما نے مسلمانوں کا مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی اور وہاں موجود لوگوں سے اس کا حلف بھی لیا۔

    اس موقع پر کئی اراکین اسمبلی، وی ایچ پی کے رہنما اور پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔

    اتوار کے روز ہونے والا یہ جلسہ ایک 25 سالہ ہندو نوجوان کے قتل کے خلاف منعقد کیا گیا تھا، موبائل فون چوری کے واقعے میں منیش نامی مذکورہ نوجوان کو مبینہ طور پر 3 مسلمان نوجوانوں نے چاقو مار کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔

    تینوں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے، پولیس کے مطابق قتل کا یہ واقعہ پرانی دشمنی کا معاملہ ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    جلسے میں پرویش سنگھ ورما نے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، اگر انہیں (مسلمانوں کو) سبق سکھانا ہے اور ایک ہی بار میں مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کا ایک ہی علاج ہے، ان کا مکمل بائیکاٹ۔

    انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے حلف لیا جس میں کہا گیا کہ ہم ان سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، ہم ان کی دکانوں سے سبزیاں نہیں خریدیں گے۔

    تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ورما پر سخت تنقید کی جارہی ہے حالانکہ ایک حلقہ ان کی حمایت بھی کر رہا ہے۔

    ورما نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا، میں نے کسی مذہبی فرقے کا نام نہیں لیا، میں نے تو صرف یہی کہا کہ جن لوگوں نے قتل کیا ہے ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایسے خاندانوں کا اگر کوئی ہوٹل ہے، یا ان کی تجارت ہے تو اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔

    متعدد سماجی، سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بی جے پی رہنما کے بیان کی سخت مذمت کی ہے، متعدد افراد نے ورما کی تقریر کی ویڈیو وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ٹیگ بھی کی ہے۔

    بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات کے یقیناً بین الاقوامی مضمرات ہو سکتے ہیں، انہوں نے وزیر اعظم مودی سے سوال کیا کہ کیا مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ آپ کی حکومت یا آپ کی پارٹی کی سرکاری پالیسی ہے اور کیا آپ نفرت بھڑکانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟

    رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے، اگر حکمران جماعت کا رکن پارلیمان قومی دارالحکومت میں اس طرح کی بات کر سکتا ہے تو پھر ملکی آئین کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔

    مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل

    مذکورہ جلسے میں موجود کئی ہندو مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں پر حملے کرنے اور ان کے ہاتھ اور سر قلم کر دینے کی بھی اپیل کی۔

    جگت گرو یوگیشور اچاریہ کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کے سر کاٹ دو۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، آپ کو جیل جانا پڑے گا، لیکن اب ان لوگوں کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ ان لوگوں کو چن چن کر مارو۔

    ایک دیگر ہندو مذہبی رہنما مہنت نول کشور داس نے ہندوؤں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس لائسنس یا بغیر لائسنس والی بندوقیں ہیں؟ اگر نہیں تو بندوقیں حاصل کرو، لائسنس حاصل کرو۔ اگر لائسنس نہ ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ کیا جو لوگ آپ کو مارنے آتے ہیں ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں؟

    مہنت نول کشور کا کہنا تھا کہ اگر ہم مل کر رہیں گے تو پولیس بھی کچھ نہیں کرے گی، بلکہ دہلی پولیس کمشنر ہمیں چائے پلائیں گے اور ہم جو کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں گے۔

    یاد رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت مختلف شہروں میں اس طرح کی نفرت آمیز تقریریں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، جس کے باعث بھارت کی بین الاقوامی طور پر بدنامی ہوئی ہے۔

    رواں برس امریکا نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

  • دبئی: بھارتی مسلمان نے لاکھوں درہم سے بھرا بیگ مالک کو واپس کر دیا

    دبئی: بھارتی مسلمان نے لاکھوں درہم سے بھرا بیگ مالک کو واپس کر دیا

    دبئی: بھارتی مسلمان نے لاکھوں درہم سے بھرا بیگ مالک کو واپس کر کے دیانت داری کی نئی مثال قائم کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی میں مقیم بھارتی شہری طارق محمود خالد محمود نے دیانت داری کی مثال قائم کرتے ہوئے خطیر رقم والا بیگ مالک کو لوٹا دیا۔

    رپورٹس کے مطابق بھارتی شہری کو رہائشی عمارت کی لفٹ میں ایک بیگ ملا جس میں دس لاکھ درہم تھے، انھوں نے بیگ اٹھایا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔

    الامارات الیوم کے مطابق البرشا پولیس اسٹیشن کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر عبدالرحیم بن شفیع نے بتایا کہ انڈین شہری طارق محمود رقم کا بیگ لے کر پولیس اسٹیشن پہنچا اور پولیس حکام کے حوالے کر دیا۔

    بریگیڈیئر عبدالرحیم نے بھارتی شہری کی ایمان داری پر اس کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا، البرشا پولیس اسٹیشن کے ڈائریکٹر نے کہا کہ طارق محمود نے جو کچھ کیا وہ متحدہ عرب امارات کے اس معاشرے کی قدروں کا خوب صورت اظہار تھا جس کا وہ خود بھی ایک حصہ ہے۔

    انھوں نے کہا کہ بھارتی شہری کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد یہ پیغام ہے کہ دبئی کی سرزمین پر موجود ہر فرد یہاں امن و امان کے تحفظ کے حوالے سے اپنے کردار کا پابند ہے۔

  • برطانیہ میں ’مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ‘: سروے

    برطانیہ میں ’مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ‘: سروے

    لندن: حال ہی میں کی جانے والی ایک سماجی تحقیق سے علم ہوا کہ برطانیہ میں مسلمان دوسرا سب سے کم پسند کیے جانے والا گروہ ہے، برطانوی شہری اسلام سے ناواقف لیکن اس کے بارے میں حتمی رائے رکھتے ہیں جو عموماً منفی ہوتی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمان ملک میں دوسرا سب سے کم پسند کیے جانے والا گروہ ہے، یہ تحقیق برطانیہ میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی حد کو ظاہر کرتی ہے۔

    برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر چار میں سے ایک برطانوی شہری مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں منفی خیالات رکھتا ہے۔

    ایک چوتھائی سے زیادہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں اور صرف 10 فیصد سے کم بہت زیادہ منفی محسوس کرتے ہیں۔

    16 سو67 لوگوں کے سروے میں برطانوی افراد نے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کے بارے میں زیادہ منفی خیالات کا اظہار کیا۔

    تقریباً 5 میں سے ایک برطانوی شخص جو 18.1 فیصد بنتا ہے، مسلمانوں کی برطانیہ نقل مکانی پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 9.5 فیصد اس خیال کی پرزور تائید کرتے ہیں۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانوی افراد اسلام کے بارے میں بات کرنے کے لیے تو تیار رہتے ہیں لیکن انہیں مذہب کا حقیقی علم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ برطانوی افراد زیادہ تر غیر مسیحی مذاہب کے حوالے سے اپنی لاعلمی کو تسلیم کرتے ہیں، اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ یہودیوں (50.8 فیصد) اور سکھوں (62.7 فیصد) کے مقدس کلمات کیسے پڑھائے جاتے ہیں۔

    البتہ تاہم اسلام کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے میں لوگ پراعتماد ہوتے ہیں اور صرف 40.7 فیصد غیر یقینی کا شکار ہوتے ہیں، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ لوگوں میں یہ غلط قیاس کرنے کا امکان بہت زیادہ ہے کہ اسلام مکمل طور پر لفظی ہے۔

    اس تحقیق کے مصنف اور ریسرچر ڈاکٹر سٹیفن جونز کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ہونا کہ برطانوی شہری اسلام کے بارے میں جانتے کم ہیں لیکن اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اس بات کو بتاتا ہے کہ تعصب کیسے کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اسلامو فوبیا برطانیہ میں اتنا پھیل چکا ہے کہ اب اسے سماجی طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔

  • بھارت میں انتہا پسند دکانداروں کا  مسلمانوں کو راشن دینے سے انکار

    بھارت میں انتہا پسند دکانداروں کا مسلمانوں کو راشن دینے سے انکار

    بہار : بھارت میں انتہاپسند دکانداروں نے مسلمانوں کوکورونا وائرس کی وبا کا ذمہ دارقراردے کرراشن دینے سے انکارکردیا جبکہ ریاست تلنگانہ میں مسلمان خاندان نے ہندودھرم کا نعرہ کے بدلے کھانا لینے سے انکار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی مسلمان کورونا کی وبا کے دوران بھی ہندوانتہاپسندوں کے نشانے پر ہے اور غریب مسلمان راشن سے بھی محروم ہوگئے ہیں ، بھارتی ریاست بہارمیں ہندودکانداروں نے مسلمانوں کوکورونا کا ذمہ دارقراردے کرراشن دینے سے انکارکردیا، جس کے بعد مسلمان خواتین،مرد اوربچے کھانے کے لئے دردربھٹکنے پرمجبور ہیں۔

    دوسری جانب بھارتی ریاست تلنگانا میں بھوک کے باوجود مسلمان خاندان نے جے شری رام کے نعرے کے بدلے کھانا لینے سے انکارکردیا۔

    خیال رہے مسلمان دشمن مودی سرکارنے ریاستی پالیسی کے تحت تبلیغی جماعت کوکورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دارقراردیا تھا اور بی جے پی کے انتہا پسند وزیروں کی اشتعال انگیز تقریروں کے بعد مسلمانوں پرحملوں اورسماجی اورمعاشی بائیکاٹ میں شدت آئی ہے۔

    یاد رہے امریکی خبرایجنسی کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کوکورونا وائرس کے پھیلاؤ کے الزامات کا سامنا ہے، اس امتیازی سلوک کے باعث مسلمان کورونا کا آ سان شکار بن سکتے ہیں۔

    امریکی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مودی سرکارکورونا وائرس پھیلنے کا الزام تبلیغی جماعت کے اجتماع پرلگا رہی ہے، ان الزامات کے بعد مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز تقریروں، تشدد، مسلمانوں کے سماجی اور کاروباری بائیکاٹ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مودی کی حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماؤں نے بھارتی میڈیا پرتبلیغی جماعت کے حوالے سے کورونا دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی۔

    واضح ریے بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے انکشاف کیا تھا کہ بھارتی حکومت کرونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے جزبات کو بھڑکا رہی ہے تاکہ مسلم نسل کشی شروع ہو۔

  • مودی سرکار نے کورونا کے مسلم مریضوں کو بھی نہ بخشا

    مودی سرکار نے کورونا کے مسلم مریضوں کو بھی نہ بخشا

    گجرات : بھارت میں کورونا وائرس کی وبا میں بھی مودی سرکار کی مسلمان دشمنی کم نہ ہوئی، بھارتی وزیراعظم کے آبائی علاقے گجرات کے ایک اسپتال میں کورونا کے مسلمان مریضوں کوالگ کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس کی شدت کے دوران بھی مودی سرکارکی مسلمان دشمنی اور متعصبانہ سلوک عروج پرہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے آبائی علاقے گجرات میں کورونامریضوں کا اسپتال مذہب کی بنیادپرتقسیم کردیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کےمطابق احمد آباد کے اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہندومریضوں کے لئے الگ وارڈ اورمسلمان مریضوں کے لئے علیحدہ وارڈ حکومت کے حکم پربنائے گئے ہیں۔

    اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ عام طور پر مرد اور خواتین مریضوں کے لیے علیحدہ علیحدہ وارڈز ہوتے ہیں، لیکن یہاں ہم نے ہندو اور مسلمان مریضوں کے لیے الگ الگ وارڈز بنائے ہیں۔

    اسپتال کے ذرائع کے مطابق 150میں سے کم از کم 40 مریض مسلمان ہیں، جنہیں گزشتہ ہفتے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

    ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل مذہب کی بنیاد پر وارڈز کے فیصلے سے نا واقف نکلے اور کہا عام طور پر مرد و خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ وارڈز ہوتے ہیں، تاہم میں معاملے کی تحقیقات کروں گا۔

    دوسری جانب عالمی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے گجرات کے اسپتال میں ہندو اور مسلمان مریضوں کو علیحدہ رکھنے کی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے بھارت میں صرف مسلمانوں کے حوالے سے کورونا پھیلانے کی جھوٹی افواہوں میں اضافہ ہوگا۔

    خیال رہے بھارت میں مہلک کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی اور اس دوران وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 377 تک پہنچ گئی ہے۔

  • معروف وکیل روہنگیا مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے کو تیار

    معروف وکیل روہنگیا مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے کو تیار

    جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ نے عالمی عدالت انصاف میں روہنگیا مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے معروف ترین وکیل امل کلونی کی خدمات حاصل کرلیں، امل کلونی اس سے قبل بھی کئی ہائی پروفائل مقدمات جیت چکی ہیں۔

    عالمی عدالت انصاف میں افریقی ملک گیمبیا نے میانمار کی فوج کی جانب سے سنہ 2017 میں کیے جانے والے آپریشن کو چیلنج کر رکھا ہے، اس آپریشن میں بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جبکہ 7 لاکھ 40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرنی پڑی۔

    اب مالدیپ بھی اس مقدمے کا حصہ اور میانمار کے خلاف فریق بننے جارہا ہے۔

    عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے مالدیپ نے امل کلونی کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ امل کلونی معروف وکیل اور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ ہیں جو اس سے قبل بھی کئی ہائی پروفائل مقدمات لڑ چکی ہیں۔

    امل کلونی نے اس سے قبل مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید کے کیس کی نمائندگی کی تھی جس میں اقوام متحدہ نے محمد نشید کے خلاف 13 برس قید کی سزا کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

    امل یوکرین کے وزیر اعظم یولیا تموشنکو اور وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی بھی وکالت کر چکی ہیں، جبکہ انہوں نے 2 صحافیوں کا مقدمہ بھی لڑا جنہیں میانمار کی حکومت نے جاسوسی کے الزام میں قید کیا تھا۔

    گیمبیا کا مقدمہ کیا ہے؟

    گزشتہ برس گیمبیا نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

    گیمبیا کا کہنا ہے کہ سنہ 1948 کے نسل کشی کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے طور پر اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل کشی کو روکے اوراس کے ذمہ داران کو سزا دلوائے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہورہا ہو۔

    گیمبیا نے ثبوت کے طور پر عدالت میں اقوام متحدہ کی رپورٹس پیش کیں جو روہنگیا مسلمانوں کے قتل، اجتماعی زیادتی اور دیہاتوں کو جلانے کے حوالے سے تیار کی گئی ہیں۔

    گیمبیا نے عدالت انصاف سے درخواست کی تھی کہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کا حکم دیا جائے تاکہ صورتحال کو مزید بدتر ہونے سے روکا جاسکے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ میانمار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مظالم کے ثبوت محفوظ رکھے اور ان تک اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو رسائی دے۔

    کیس کی سماعت میں میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی پیش ہوئیں تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    انہوں نے عدالت میں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور فوجی آپریشن ضرور کیا جارہا ہے، تاہم اس کا ہدف رخائن کی ریاست میں موجود مسلح اور جنگجو مسلمان ہیں، نہتے اور غیر مسلح روہنگیوں کو کچھ نہیں کہا جارہا۔

    23 جنوری کو عالمی عدالت انصاف نے میانمار کی حکومت کو حکم دیا کہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بند کرے، فوج کو مسلمانوں کے قتل عام سے روکنے کے اقدامات کرے اور اس حوالے سے شواہد کو ضائع ہونے سے بچائے۔

    عالمی عدالت انصاف کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے گیمبیا کو مقدمے کی کارروائی کو مزید آگے بڑھانے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی سنایا۔ مالدیپ نے عالمی عدالت انصاف کے مذکورہ فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

  • برطانوی ایئرپورٹس پر مسلمانوں کو بلاوجہ روک کر تلاشی لی جارہی ہے: رپورٹ

    برطانوی ایئرپورٹس پر مسلمانوں کو بلاوجہ روک کر تلاشی لی جارہی ہے: رپورٹ

    لندن : انسانی حقوق کی تنظیم نے برطانیہ کے ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر مسلمان مرد و خواتین کو محض ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر 6 گھنٹوں سے زائد تک روکنے اور ان سے مضحکہ خیز سوالات پوچھنے والے عملے کو اسلاموفوبیا کا متاثرین قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کیج نامی تنظیم نے بتایا کہ اسلاموفوبیا میں مبتلا حکام مسلمان خواتین کو اسکارف اتارنے پر مجبور کردیتے ہیں،تنظیم کے مطابق سال 2000 سے اب تک صرف مسلمان مرد و خواتین کو ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر روکنے کے 4 لاکھ 20 ہزار واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ گرفتاری کی شرح 0.007 فیصد رہی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیم نے 10 شہریوں کی وساطت سے اعلیٰ پولیس حکام کو شکایت درج کرائی اور’برٹش مسلم‘ تنظیم کے ذریعے برطانوی وزیراعظم سے ’شیڈول 7‘ قانون سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔

    واضح رہے کہ دہشت گردی ایکٹ 2000 کے شیڈول 7 کی بنیاد پر ایئرپورٹ کا تفتیشی عملہ بغیر کسی قابل ذکر جواز کے مسافروں کو غیرمعینہ وقت کے لیے روک کر تفتیش کرسکتا ہے۔

    تنظیم کے ڈائریکٹر عدنان صدیقی نے اپنے مراسلہ میں لکھا کہ لاکھوں مسلمانوں کو ’بغیر کسی شبہ‘ کے روک لیا جاتا ہے اور یہ عمل اسلاموفوفیا کا عکاس ہے جسے ہراساں کے زمرے میں دیکھا جائے۔

    لندن سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان نے بتایا کہ 2005 کے بعد سے برطانیہ میں داخل ہوتے وقت انہیں مجموعی طور پر 40 مرتبہ ایئرپورٹ پر شیڈول 7 کے تحت روکا گیا اور ایک مرتبہ بھی کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔

    انہوں نے بتایا کہ فرانس، بیلجیم اور اٹلی سے واپسی پر انہیں تقریباً 95 فیصد روکا گیا،ان کا کہنا تھا کہ میں ہر مرتبہ برطانیہ میں داخل ہوتے وقت حکام کے سوالات سے پریشان آچکا ہوں۔

    ادھر کیمبریج یونیورسٹی کی 2004 میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایئرپورٹ پر روکے گئے 88 فیصد لوگ مسلمان تھے۔

    شیڈول 7 کے تحت روکے گئے بیشتر مسلمانوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ کا سیکیورٹی عملہ ان سے ان کے مذہب کے بارے میں سوالات کرتا ہے، مثلاً کیا آپ باقاعدگی سے عبادت کرتے ہیں، کبھی مکہ گئے، کیا باقاعدگی سے روزے رکھتے ہیں، جیسے سوالات کیے جاتے۔

    تنظیم کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جنگ زدہ ملک شام میں مقامی تنظیم کے لیے فلم بنانے والے ایک مسلمان فلمساز نے بتایا کہ ایئرپورٹ سیکیورٹی حکام اس طریقے سے روکتے اور سوالات پوچھتے ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسلامی عقائد کو تسلیم کرکے کوئی جرم کر چکے ہیں۔