Tag: myanmar

  • میانمار میں فوج کا اقتدار پر قبضہ، امریکا اور اقوام متحدہ کا رد عمل آ گیا

    میانمار میں فوج کا اقتدار پر قبضہ، امریکا اور اقوام متحدہ کا رد عمل آ گیا

    واشنگٹن: جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار (سابقہ برما) میں فوج کے اقتدار پر قبضے پر امریکا اور اقوام متحدہ نے اپنا رد عمل ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے میانمار کی فوج سے اقتدار سے دست برداری کا مطالبہ کر دیا ہے، جوبائیڈن نے میانمار پر پابندیوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میانمار کی فوج فوری طور پر اقتدار سے دست بردار ہو جائے۔

    ادھر اقوام متحدہ نے بھی میانمار میں نظر بندیوں کے خاتمے اور سیاسی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے، یو این نے میانمار کی صورت حال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی کل طلب کر لیا ہے۔

    واضح رہے کہ پیر کی صبح میانمار کی فوج نے ملک کے صدر یوون منٹ اور برسر اقتدار جماعت کی رہنما آنگ سان سوچی کو گرفتار کرنے کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ میانمار میں انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد فوج نے بغاوت کرتے ہوئے ملک کا کنٹرول سنبھالا۔

    میانمار میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی گرفتار

    فوج نے برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما آنگ سان سوچی، ملک کے صدر یوون منٹ اور دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا ہے۔

    سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کر رہی ہے، فوج کی جانب سے کہا گیا کہ کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپے جا رہے ہیں۔ فوج نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں الیکشن میں فراڈ کے نتیجے میں عمل میں لائی گئیں۔

    خیال رہے کہ آنگ سان سوچی کے پاس کوئی باقاعدہ سیاسی عہدہ موجود نہیں تھا تاہم وہ برسر اقتدار جماعت کی سربراہی کر رہی ہیں اور ان کی طویل سیاسی جدوجہد کے باعث انھیں ہی ملک کی حقیقی رہنما سمجھا جاتا ہے۔

  • میانمار میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی گرفتار

    میانمار میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی گرفتار

    میانمار کی فوج نے ملک کے صدر یوون منٹ اور برسر اقتدار جماعت کی رہنما آنگ سان سوچی کو گرفتار کرنے کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق میانمار میں انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد اب فوج نے بغاوت کرتے ہوئے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    فوج نے برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما آنگ سان سوچی، ملک کے صدر یوون منٹ اور دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کرلیا۔

    آنگ سان سوچی کے پاس کوئی باقاعدہ سیاسی عہدہ موجود نہیں تھا تاہم وہ برسر اقتدار جماعت کی سربراہی کر رہی ہیں اور ان کی طویل سیاسی جدوجہد کے باعث انہیں ہی ملک کی حقیقی رہنما سمجھا جاتا ہے۔

    سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کر رہی ہے۔ فوج کی جانب سے کہا گیا کہ کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپے جارہے ہیں۔

    فوج کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں الیکشن میں فراڈ کے نتیجے میں عمل میں لائی گئیں۔

    دوسری جانب سوموار کی صبح حکومتی جماعت کے ترجمان میو نیونٹ نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو فون پر بتایا کہ آنگ سان سوچی، صدر یوون منٹ اور دیگر رہنماؤں کو صبح سویرے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ عجلت میں ردعمل کا اظہار نہ کریں اور قانون کے مطابق کام کریں۔

    ادھر کئی وزرائے اعلیٰ کے اہل خانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ صبح کے وقت فوجی اہلکار ان کے گھر پہنچے اور انہیں ساتھ لے کر چلے گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اس وقت دارالحکومت اور مرکزی شہر ینگون کی سڑکوں پر فوجی موجود ہیں۔ ملک کے اہم شہروں میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس منقطع کردی گئی ہے۔

    میانمار کے ریاستی نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی کا کہنا ہے کہ انہیں تکنیکی مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث ان کی نشریات عارضی طور پر معطل ہیں۔

    فوجی بغاوت کے بعد ملک میں بے یقینی اور خوف کی فضا طاری ہے اور پیر کا روز ہونے کے باوجود سڑکوں پر سناٹا ہے، رہائشی علاقوں کے اے ٹی ایمز پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی جو غیر یقینی صورتحال کے باعث نقد رقم نکالنے وہاں جا پہنچی۔

    یاد رہے کہ میانمار یا برما پر سنہ 2011 تک فوج کی حکومت رہی ہے، ملک میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کر لی تھیں تاہم فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

    پارلیمنٹ کے نو منتخب ایوان نے آج یعنی پیر کے روز پہلا اجلاس کرنا تھا لیکن فوج نے التوا کا مطالبہ کر رکھا تھا۔

    ایسے حالات میں اس بارے میں خدشات بڑھ رہے تھے کہ فوج بغاوت کی تیاری کر رہی ہے چنانچہ ان خدشات کے پیش نظر ہفتے کے روز میانمار کی مسلح افواج نے آئین کی پاسداری کا وعدہ بھی کیا تھا جو وفا نہ ہوسکا۔

  • کیا گہرے پانی میں گندی مگر انسان نما مخلوق رہتی ہے؟ تصویر کی حقیقت سامنے آگئی

    کیا گہرے پانی میں گندی مگر انسان نما مخلوق رہتی ہے؟ تصویر کی حقیقت سامنے آگئی

    سوشل میڈیا پر میانمار میں پائے جانے والے انسان سے ملتے جلتے عجیب الخلقت جاندار کی تصاویر وائرل ہوگئیں تاہم جلد ہی ان تصاویر کی حقیقت سامنے آگئی۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹویٹر پر یہ 5 تصاویر نہایت تیزی سے وائرل ہوئیں جن میں ایک انسان نما مخلوق دریا کنارے بیٹھی دکھائی دے رہی ہے۔ ان تصاویر کو 200 سے زائد دفعہ شیئر کیا گیا۔

    تصاویر کے ساتھ برمی زبان میں لکھے گئے ایک بلاگ میں کہا گیا کہ ناگو نامی یہ جاندار جو میانمار میں پایا جاتا ہے، اب معدوم ہوچکا ہے۔

    اس بلاگ میں کہا گیا ہے کہ اس جاندار کی ہیئت انسان نما ہے اور اس کی ایک ٹانگ ہوتی ہے، اس کی پشت پر ایک نوکدار سرا ہوتا ہے جس کی مدد سے یہ درختوں پر چڑھتا ہے۔

    بلاگ میں مزید کہا گیا کہ بھاگتے ہوئے اس کی رفتار تمام جانداروں سے تیز ہوتی ہے۔

    ان تصاویر پر سوشل میڈیا صارفین نے حیرت اور خوف کا اظہار کیا تاہم انٹرنیٹ کی مدد سے جلد ہی ان تصاویر کی حقیقت سامنے آگئی۔

    ریورس امیج سرچ کے ذریعے یہ تصاویر سنہ 2016 کی ثابت ہوگئیں۔ اس وقت شائع شدہ آرٹیکلز کے مطابق یہ دراصل ایک مجسمہ ہے جسے ایک فرانسیسی آرٹسٹ نے تیار کیا تھا۔

    مجسمے کو چکنی مٹی، الجی اور سمندری گھاس سے بنایا گیا تھا اور اسے فرانس کے ایک نیچر ریزرو میں دریا کنارے نصب کیا گیا تھا۔

    اس مجسمے کے بارے میں ایک فرانسیسی اخبار میں جو مضمون چھپا اس کے مطابق مصورہ نے یہ مجسمہ کراؤڈ فنڈنگ کی مدد سے اور اپنے شوہر کے ساتھ مل کر مکمل کیا جو خود بھی ایک ویژول آرٹسٹ ہیں۔

    ایک فرانسیسی چینل نے اس پر ایک ویڈیو رپورٹ بھی تیار کی جو یوٹیوب پر موجود ہے۔

  • روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں پیش

    روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں پیش

    دی ہیگ: میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت کے لیے پیش ہوئی ہیں جو گیمبیا نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف کیا ہے۔

    اپنے کیس میں مغربی افریقی ملک گیمبیا نے کہا ہے کہ میانمار اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

    گیمبیا کا کہنا ہے کہ سنہ 1948 کے نسل کشی کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے طور پر اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل کشی کو روکے اوراس کے ذمہ داران کو سزا دلوائے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہورہا ہو۔

    گیمبیا نے ثبوت کے طور پر عدالت میں اقوام متحدہ کی رپورٹس پیش کی ہیں جو روہنگیا مسلمانوں کے قتل، اجتماعی زیادتی اور دیہاتوں کو جلانے کے حوالے سے تیار کی گئی ہیں۔

    گیمبیا نے عدالت انصاف سے درخواست کی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کا حکم دیا جائے تاکہ صورتحال کو مزید بدتر ہونے سے روکا جاسکے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ میانمار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مظالم کے ثبوت محفوظ رکھے اور ان تک اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو رسائی دے۔

    کیس کو 17 رکنی ججز کا پینل دیکھ رہا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ یہ کیس کئی سال تک چل سکتا ہے۔ جیسا کہ بوسنیا نسل کشی کے خلاف کیس جو سنہ 1995 میں شروع ہوا اور اسے مکمل ہونے میں 15 برس لگے۔

    کیس کی سماعت میں میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی پیش ہوئیں تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    انہوں نے عدالت میں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور فوجی آپریشن ضرور کیا جارہا ہے، تاہم اس کا ہدف رخائن کی ریاست میں موجود مسلح اور جنگجو مسلمان ہیں، نہتے اور غیر مسلح روہنگیوں کو کچھ نہیں کہا جارہا۔

    کیس کا دارو مدار چونکہ ’نسل کشی‘ پر ہے لہٰذا دوران سماعت میانمار کے ایک وکیل نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کی اموات کی تعداد اتنی نہیں کہ اسے نسل کشی قرار دیا جائے۔

    آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف سے اس درخواست کو خارج کرنے کی بھی درخواست کی اور کہا کہ اس ضمن میں پہلے ان کے اپنے ملک کی عدالتوں کو کام کرنے کا موقع دینا چاہیئے۔

  • روہنگیا نسل کشی، میانمار کے فوجی سربراہ پر پابندی عاید کردی گئی

    روہنگیا نسل کشی، میانمار کے فوجی سربراہ پر پابندی عاید کردی گئی

    واشنگٹن: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر امریکا نے میانمار فوج کے سربراہ من اونگ پر پابندی عاید کردی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی جانب سے میانمار کے فوجی سربراہ سمیت تین اعلیٰ عہدیداروں پر بھی پابندی عاید کی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی حکام نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان فوجی افسران پر اب تک میانمار میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کے ردعمل میں پابندی عاید کی جارہی ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والوں کے خلاف میانمار حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مرتکب پائے گئے تھے۔

    میانمار کی فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کھل کر دنیا کے سامنے آنے لگے ہیں، رواں ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں نے فوجی آپریشن کے نام پرمسلمانوں کے قتل عام، اجتماعی زیادتی اور املاک کو جلانے کی تصدیق کر دی ہے۔

    خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میانمار کی فوج نے ریخائن میں بلیک آؤٹ کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں۔

    میانمارکی فوج روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہے، اقوام متحدہ

    عالمی ادارے(یو این) کے تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ 2017 میں برمی فوج نے مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے ریخائن میں آپریشن کیا جس کے بعد 7لاکھ 30 ہزار مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

  • روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث سات فوجی اہلکار سزا پوری کیے بغیر رہا

    روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث سات فوجی اہلکار سزا پوری کیے بغیر رہا

    ینگون: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث سات فوجی اہلکاروں کو سزا پوری کیے بغیر ہی جیل سے رہا کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ برس نومبر میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث میانمار فوج کے 7 اہلکاروں کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم انہیں سزا پوری کیے بغیر ہی چند ماہ بعد جیل سے رہا کردیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں نے 2017ء میں میانمار کے گاﺅں دِن اِن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے دوران 10 بے گناہ اور معصوم دیہاتیوں کو محض مسلمان ہونے کی بناء پر بے دردی سے قتل کیا تھا اور ان کے گھروں کو آگ لگا دی تھی۔

    ان اہلکاروں کی ظلم کی داستان کو دنیا کے سامنے لانے والے برطانوی خبر رساں ادارے کے صحافیوں کیاو سوئے اور والون کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور سات سات سیل قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم 521 دن قید میں رہنے کے بعد حال ہی میں عالمی دباو پر صحافیوں کو رہا کیا گیا تھا۔

    ایک جیل حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ 10 روہنگیا مسلمانوں کے قتل میں ملوث 7 فوجی اہلکاروں کو 10 سال قید کی سزا کو فوج کی جانب سے گھٹا کر 2 ماہ کردیا گیا ہے اس لیے ان اہلکاروں کو فوری طور پر رہا کیا گیا۔

    روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو بے نقاب کرنے والے روئٹرز کے دونوں صحافیوں کو رہائی مل گئی

    یاد رہے کہ 2017 اگست میں برما کی ریاست رکھائن میں ملٹری آپریشن کے نام پر برمی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تھی جس کے باعث مجبوراً لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر گئے تھے۔

  • روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو بے نقاب کرنے والے روئٹرز کے دونوں صحافیوں کو رہائی مل گئی

    روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو بے نقاب کرنے والے روئٹرز کے دونوں صحافیوں کو رہائی مل گئی

    ینگون : میانمار میں روہنگیا مسلمانوں  کے قتل عام پر رپورٹنگ کرنے والے روئٹرز کے دونوں صحافیوں کو رہاکردیا گیا ،دونوں صحافیوں کو میانمار کے صدر کی جانب سے معافی دیے جانے پر رہائی ملی۔

    تفصیلات کے مطابق میانمار میں روہنگیا کے بحران کی رپورٹنگ پر قید کیے جانے والے خبررساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ، 33 سالہ وا لون اور 29 سالہ کیاو سو او کو میانمار کے صدر کی جانب سے معافی دیے جانے پر رہائی ملی ہے۔

    جیل سے رہا ہونے کے بعد وا لون نے بی بی سی کے نک بیکے کو بتایا کہ وہ صحافت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایاکہ میں اپنے  اہل خانہ اور ساتھیوں کو دیکھ کر پرجوش اور واقعی خوش ہوں، میں اپنے نیوز روم میں جانے کے لیے بے چین ہوں۔ان کے گھر بار اور چھوٹے بچے ہیں۔

    وا لون کی اہلیہ پین ایی مون کو ان کے شوہر کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہیں اور انھوں نے اپنی بیٹی کو چند بار ہی دیکھا ہے جب جیل میں ان کی اہلیہ ان سے ملنے کے لیے جاتی تھیں۔

    روئٹرز کے مدیر اعلی اسٹیفن جے ایڈلر نے کہا کہ گذشتہ ماہ ان دونوں صحافیوں کو گرانقدر پیولٹزر انعام سے نوازا گیا ہے ہم بہت خوش ہیں کہ میانمار حکومت  نے ہمارے جرات مند صحافیوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ پریس کی آزادی کی ایک علامت بن گئے ہیں۔

    جب صحافیوں کو رہا کیا گیا تو وہاں افراتفری کا عالم تھا، اپنے ہی دو صحافیوں کی رہائی پر وہاں صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی، برما کے بہت سے صحافیوں کے لیے یہ ذاتی قسم کا معاملہ تھا۔ انھیں خوف تھا کہ جو وہ لکھتے ہیں اگر وہ حکام کو پسند نہیں آئے تو وہ بھی جیل جا سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : روہنگیا مسلمانوں پر مظالم بے نقاب کرنے والے 2صحافیوں کو 7 سال قید کی سزا

    خیال رہے ان صحافیوں کو عام معافی کے تحت ہزاروں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہائی ملی ہے، میانمار میں ہر نئے سال کے موقع پر عام معافی دی جاتی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ سال ستمبر میں دونوں صحافیوں کو سرکاری رازداری ایکٹ کی خلاف ورزی میں سات سال قید کی سزا ہوئی تھی، ان کی گرفتاری کو پریس کی آزادی پر ضرب کے طور پر دیکھا گیا اور اس نے میانمار میں جمہوریت پر سوال کھڑے کردیئے تھے۔ انھوں نے دارالحکومت ینگون (رنگون) کے مضافات کے جیل میں 500 دن سے زیادہ کی مدت گزاری۔

  • بنگلادیش: میانمار حکام کا روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ، اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات

    بنگلادیش: میانمار حکام کا روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ، اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات

    ڈھاکہ: میانمار حکام نے بنگلایش میں قائم روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا اور بنگال کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کیں۔

    تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ رواں ماہ کے وسط میں مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا، میانمار حکام کا یہ دورہ اسی تناظر میں کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس دورے میں میانمار حکام نے درجنوں روہنگیا مہاجرین سے بھی ملاقاتیں کیں، اور مشکل حالات کا سامنا کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔

    حکام کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے لیے میانمار واپسی اور شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کے لیے بنگلادیش کا اہم اعلان

    خیال رہے کہ گذشتہ روز بنگلادیش حکام نے اعلان کیا تھا کہ میانمار سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں روہنگیا مہاجرین کو نومبر کے وسط سے وطن واپس بھیجے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ اقوام متحدہ نے ‫میانمارکی فوج کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور اجتماعی زیادتی میں ملوث قرار دے کر میانمار کے آرمی چیف اور پانچ جنرلز سمیت اعلیٰ فوجی قیادت پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔

    تاہم میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔

    واضح رہے کہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین سے گزشتہ برس اگست کے مہینے میں ملکی فوج کے کریک ڈاؤن کے بعد تقریباً سات لاکھ روہنگیا باشندے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔

  • روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مدت مکمل کرنے والے زید کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ملٹری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آنگ سان سو چی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے زید رعد الحسین جو کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ ہیں ، کہا کہ میانمار کی نوبیل انعام یافتہ وزیراعظم کو اپنی فوج کے مظالم کی توجیہات پیش کرنے کے بجائے ایک بار پھر نظر بند ہوجانا چاہیے تھا ( یاد رہے کہ برمی فوج نے طویل عرصہ انہیں نظر بند رکھا تھا)۔

    اقوام متحدہ نے حالیہ دنوں ایک میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم منظم تھے، تاہم میانمار نے اس رپورٹ کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔

    بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت پر مبنی ملک کی آرمی پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ برس بدھسٹ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں منظم طریقے سے نسل کشی کی ہے، رپورٹ میں ملک کی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بھی فسادات روکنے میں ناکام رہنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

    زید حسین نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’ وہ اس پوزیشن میں تھیں کہ ان حالات کی روک تھام کرتیں لیکن وہ اپنی فوج کی صفائیاں دیتی رہیں۔ کم از کم انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بہتر تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتیں۔ ان کو فوج کا ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ کہنے کی کہ اس معاملے میں غلط معلومات کا پورا آئس برگ ہے اور یہ سب جعلی اور تراشیدہ ہیں۔

    ا س کے بجائے انہیں اپنی فوج سے کہنا چاہیے تھاکہ میں اس ملک کی سربراہ ہوں لیکن ایسے حالات میں نہیں رہ سکتی، آپ کا شکریہ ، میں استعفی دے رہی ہوں اور میں ایک بار پھر نظر بندی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    یاد رہے کہ آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کے معاملے پر تحریک چلانے کےجرم میں سنہ 1989 سے لے کر 2010 تک کل سترہ سال نظر بندی میں گزارے تھے، اس دوران میانمار میں ملٹری کی حکومت تھی۔ سنہ1991 میں نوبیل پرائز کمیٹی نے انہیں امن کا نوبیل انعام دیا تھا، کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان سے یہ ایوارڈ واپس نہیں لیا جائے گا۔

  • برمی فوج روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں‌ ملوث ہے، اقوام متحدہ

    برمی فوج روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں‌ ملوث ہے، اقوام متحدہ

    نیو یارک : اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم سے متعلق شائع کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں برما کے 6 اعلیٰ فوجی افسران پر عالمی کرمنل کورٹ میں مقدمہ چلانے کی تجویز پیش کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی پر جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برما کی فوج نے مسلم اکثریتی والے علاقے رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں جو عالمی قوانین کی نظر میں جرم ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارے ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ ریاست رخائن میں میانمار کی فوج نے سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا، مذکورہ اقدامات جنگی جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں ادارے نے برما کی فوج کے 6 اعلیٰ افسران کے نام شائع کیے گئے ہیں جن پر روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور انسانیت سوز مظالم پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ برما کی سربراہ و نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں ناکام رہیں ہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے برماکی ریاست رخائن اور دیگر مسلم اکثریتی والے علاقوں میں ہونے والے مظالم کو عالمی کرمنل کورٹ بھیجنا چاہیے۔

    رپورٹ میں کچن، شان اور رخائن میں ہونے والے جرائم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں قتل و غارت، قید، اذیت، ریپ، جنسی قیدی اور دیگر ایسے جرائم شامل ہیں

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ برمی حکومت اور فوج جن جرائم کو معمول کی کارروائی کے طور پر مسلسل انجام دے رہے ہیں، جس کے باعث گزشتہ 12 ماہ کے دوران میانمار میں تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔