Tag: Myopia

  • تابکاری اثرات : موبائل فون کا استعمال کن خطرناک بیماریوں کا سبب ہے؟

    تابکاری اثرات : موبائل فون کا استعمال کن خطرناک بیماریوں کا سبب ہے؟

    موبائل فون ایک ایسی ایجاد ہے جس نے ہماری زندگیوں اور 24 گھنٹے کے معمولات کو اپنا عادی بنا لیا ہے، جس کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔،

    اس مواصلاتی آلے نے خط و کتابت اور مواصلاتی نظام کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، جس کی وجہ سے ہم خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔

    موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچے اور بڑے دونوں کی صحت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے آنکھوں میں تابکاری کی وجہ سے مائیوپیا اور دیگر مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اس تابکاری کا اثر دماغ اور چہرے پر بھی نظر آتا ہے، یہی نہیں موبائل کے زیادہ استعمال سے دماغ میں ٹیومر جیسی بیماری کا خطرہ بھی رہتا ہے۔

     mobile radiation

    اس حواکے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں موبائل اور ڈیسک ٹاپ سے نکلنے والی تابکاری کو قدیم اروما تھراپی کے ٹوٹکے استعمال کرکے بچایا جا سکتا ہے۔

    بھارت میں جلدی امراض کے ماہر اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر بلاسم کوچر کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی تابکاری سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے چند آسان طریقے اپنانا ضروری ہیں۔

    تابکاری سے جلد کو کیسے محفوظ رکھیں؟

    اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر بلوسم کوچر کا کہنا ہے کہ زیادہ دیر تک موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرنے سے پہلے چائے کی پتی کے پانی کے ساتھ لیوینڈر آئل، ڈی 5 آئل اور نیاسینامائیڈ کو چہرے پر لگائیں۔

    ایسا کرنے سے جلد موبائل یا کمپیوٹر کے ڈیسک ٹاپ کی تابکاری سے محفوظ رہتی ہے۔ اسے کام سے پہلے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو ایک گھنٹے کے استعمال کے بعد آسانی سے دھویا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے جلد ترو تازہ اور نم رہتی ہے اور تابکاری کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

    ان کا کہنا ہے کہ تابکاری کی وجہ سے عمر کے اثرات چہرے پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں اور لوگ کم عمری میں ہی بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے چنبیلی، بادام اور کسٹرڈ کے تیل میں لوبان کا تیل استعمال کریں۔ ایک ایک قطرہ تمام تیلوں کے ساتھ ملا کر چہرے پر لگایا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ سارا عمل قدیم اروما تھراپی کے اصولوں پر مبنی ہے اور ایک قدیم علم ہے، جس کا استعمال بتدریج کم ہو گیا ہے۔ تاہم اب جدید طرز زندگی میں جسم مختلف چیزوں سے متاثر ہو رہا ہے تو کہیں اروما تھراپی بہت سے مسائل میں کارگر ثابت ہو رہی ہے جن میں سے ریڈی ایشن اور بڑھاپا (جوانی میں بوڑھا ہو جانا) ایک بڑا مسئلہ ہے۔

    یاد رکھیں کہ عام طور پر جو موبائل فون ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ بات کرنے کے لیے سر کے قریب آتا ہے۔ ایسی صورت حال میں موبائل سے نکلنے والی ریڈیو فریکوئنسی اور تابکاری سے دماغ اور مرکزی اعصابی نظام متاثر ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری انتباہ کے مطابق موبائل ریڈی ایشن درد شقیقہ کے پٹھوں میں مستقل درد کا باعث بن سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق موبائل فون کو دن میں 2 گھنٹے سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اسے مسلسل دیکھنے سے مائیوپیا یا آنکھوں میں تناؤ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے موبائل کا آنکھوں سے فاصلہ کم از کم 18 انچ ہونا چاہیے۔

  • نظر کے چشمے سے چھٹکارے کے لیے کون سا علاج بہتر ہے؟

    نظر کے چشمے سے چھٹکارے کے لیے کون سا علاج بہتر ہے؟

    نظر کی کمزوری ہر عمر کے افراد میں بڑھتی جارہی ہے جس پر اگر توجہ نہ دی جائے تو یہ بڑھتی جاتی ہے، نظر کی کمزوری میں اضافے کے ساتھ چشمے سے چھٹکارا پانے کے لیے مختلف سرجریز بھی کی جارہی ہیں تاہم عام افراد ان کے بارے میں متضاد خیالات کا شکار ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر امراض چشم ڈاکٹر شریف ہاشمانی نے شرکت کی اور نظر کی کمزوری اور اس کے علاج کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر ہاشمانی کا کہنا تھا کہ نظر کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ تو اسکرینز کا بے تحاشہ استعمال ہے۔

    علاوہ ازیں بچوں کو زیادہ تر گھر کے اندر رکھا جارہا ہے اور باہر نہیں جانے دیا جاتا جس سے وہ سورج کی مناسب روشنی اور جسمانی سرگرمی سے محروم ہیں لہٰذا ان میں نظر کی کمزوری سمیت کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

    ڈاکٹر ہاشمانی کا کہنا تھا کہ ملک میں 37 فیصد افراد نظر کی کمزوری کا شکار ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ نظر کے چشمے سے چھٹکارے کا سب سے آسان علاج تو لیسک سرجری ہے، تاہم یہ آنکھ کے کورنیا کی صحت پر منحصر ہے۔

    ڈاکٹر ہاشمانی کا کہنا تھا کہ بعض افراد کا کورنیا صحت مند ہوتا ہے تو ان کی نظر منفی 11 ہو تب بھی ان کی لیسک سرجری ہوسکتی ہے، لیکن اگر آنکھ کا کورنیا صحت مند نہ ہو تو منفی 1 کے لیے بھی لیسک نہیں کیا جاسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کے لیے دوسری قسم کی سرجری کی جاتی ہے جس میں آنکھ میں لینس فٹ کیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں وہ بزرگ افراد جن کی دور و نزدیک کی نظر کمزور ہو ان کے لیے بھی مددگار لینس دستیاب ہیں جو معمولی سی سرجری سے آنکھوں میں لگا دیے جاتے ہیں۔

  • سنہ 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو عینک کی ضرورت ہوگی

    سنہ 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو عینک کی ضرورت ہوگی

    کیا آپ عینک لگاتے ہیں؟ یا آپ آنکھوں میں تکلیف اور سر میں درد کے باعث ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچ رہے ہیں اور آپ کو قوی امید ہے کہ ڈاکٹر آپ کو عینک پہننے کی تجویز دے گا؟ تو پھر آپ اکیلے اس صورتحال کا شکار نہیں ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو نظر کی کمزوری کا چشمہ پہننے کی ضرورت ہوگی، اور اس تشویشناک رجحان کی وجہ کچھ اور نہیں ہمارے اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس ہوں گے۔

    تحقیق میں سنہ 1995 سے 2015 تک کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس سے علم ہوا کہ اس عرصے میں نظر کی عینک کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں خاصی حد تک اضافہ ہوا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2050 تک اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا اور دنیا کی 49.8 فیصد آبادی یعنی لگ بھگ 4 ارب سے زائد افراد نظر کی کمزوری کا شکار ہوں گے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ نظر کی کمزوری یعنی مائیوپیا دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مرض بن جائے گا اور اس کا زیادہ تر شکار ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ممالک ہوں گے۔ اس عرصے میں چھوٹے بچوں میں بھی عینک پہننے کا رجحان بڑھ جائے گا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو نظر کی کمزوری سے بچانے کا آسان طریقہ

    اسکرین ٹائم کو کم کریں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نظر کی کمزوری میں اضافے کی وجہ ہمارا اسکرینز کے ساتھ گزارا جانے والا وقت ہے۔

    اس وقت ہم اپنے دن کا زیادہ تر حصہ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے ساتھ گزارتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل کی اسکرین نیلے رنگ کی ہوتی ہیں اور یہ دیگر تمام رنگوں سے زیادہ توانائی کی حامل ہوتی ہے۔ یہ نیلی اسکرینز نہایت شدت سے ہماری آنکھوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    یہ ہماری آنکھ کے پردے کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس کا پہلا نقصان ہمیں نظر کی کمزوری کی صورت میں پہنچتا ہے، مزید نقصان کی صورت میں ہم ہمیشہ کے لیے نابینا بھی ہوسکتے ہیں۔

    فطرت کے ساتھ وقت گزاریں

    ماہرین کی تجویز ہے کہ ان اسکرینز کے نقصانات سے بچنے کے لیے ہمیں ان کے ساتھ گزارا جانے والا وقت کم کر کے بیرونی سرگرمیوں پر توجہ دینی چاہیئے۔

    ان کے مطابق ہمیں باہر کھلی ہوا میں مختلف کام انجام دینے چاہئیں، جبکہ فطرت کے قریب جیسے پارک، سبزے، سمندر یا پہاڑوں کے درمیان وقت گزارنا بھی ان خطرات میں کمی کرسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں ایک ٹائم ٹیبل کے تحت بچوں کا موبائل کا ٹائم محدود کیا جائے اور انہیں مختلف آؤٹ ڈور کھیل جیسے کرکٹ، فٹ بال، سائیکلنگ اور دیگر کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جائے۔