Tag: Mysterious death

  • سنگدل عورت نے معذور بیٹے اور شوہر کا قتل کیوں کیا؟ دل دہلا دینے والا واقعہ

    سنگدل عورت نے معذور بیٹے اور شوہر کا قتل کیوں کیا؟ دل دہلا دینے والا واقعہ

    فلوریڈا : امریکا میں اپنے شوہر اور معذور بیٹے سمیت قتل کی وارداتوں میں ملوث ایک امریکی سنگدل عورت کو بجلی کی کرسی پر بٹھا کر موت کی سزا دے دی گئی۔

    جُوڈی بوئناانو فلوریڈا میں 1848 کے بعد سزائے موت پانے والی پہلی عورت تھی جس کی سزا پر عمل درآمد 30 مارچ 1998 کو ہوا۔

    سفاکیت اور سنگین جرائم کے باعث اسے "بلیک وِڈو” یعنی "کالی بیوہ” کا لقب دیا گیا تھا، وہ ایک ایسی درندہ صفت عورت تھی جس پر اپنے شوہر، معذور بیٹے اور ایک بوائے فرینڈ کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔

    three victims

    اس کے علاوہ اُس نے ایک اور بوائے فرینڈ کو مارنے کی بھی کوشش کی جو خوش قسمتی سے بچ گیا جس کے بعد جوڈی کے جرائم سامنے آنا شروع ہوگئے۔

    رپورٹ کے مطابق سال 1971میں اس عورت کا شوہر جیمز گوڈیئر جو ایک فوجی تھا، ویتنام جنگ سے گھر واپس آیا اور اچانک بیمار پڑ گیا، اُسے پیٹ میں درد اور قے کی شکایت ہوئی اور تین دن کے اندر ہی اس کی موت واقع ہوگئی،اس وقت جُوڈی کی عمر 28 سال اور وہ تین بچوں کی ماں تھی۔

    اس واقعے کے چند سال بعد جوڈی کولوراڈو چلی گئی جہاں وہ اپنے بوائے فرینڈ بوبی جومورس کے ساتھ رہنے لگی لیکن سال 1978 میں بوبی بھی گوڈیئر جیسی علامات کے بعد اچانک مرگیا۔

    بوبی مورس کی موت کے دو سال بعد 1980میں ایک اور اندوہناک سانحہ پیش آیا، جُوڈی کا بیٹا مائیکل جو جزوی طور پر معذور تھا، کشتی کی سیر کرتے ہوئے دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ تاہم اس بات کا بعد میں علم ہوا کہ جُوڈی نے بیٹے کو مارنے کیلیے خود کشتی کو الٹایا تھا تاکہ اسے مار کر واقعے کو حادثہ قرار دیا جاسکے۔

    اس کے بعد جُوڈی کی ملاقات ایک اور کاروباری شخص جان جینٹری سے ہوئی، کچھ عرصے بعد وہ بھی بیمار رہنے لگا ایک روز جب وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکلا تو اس کی کار میں اچانک زور دار دھماکہ ہوا تاہم اس کی جان بچ گئی۔

    یہی وہ وقت تھا جب پولیس کو جوڈی پر شک گزرا اور تمام اموات کی تفتیش کا آغاز کردیا گیا، تفتیش شروع ہوئی تو انکشاف ہوا کہ جُوڈی نے جان جینٹری کو زہر دے کر پہلے ہی مارنے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ 5 لاکھ ڈالر کی انشورنس کی رقم حاصل کرسکے۔

    Son Michael Goodyear, Husband James E. Goodyear, Judias Buenoano, known as Floridas Black Widow

    تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے پولیس نے اس کے شوہر بیٹے اور بوائے فرینڈ کی لاشوں کو قبر سے نکال کر دوبارہ جانچ پڑتال کی تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ اس کے شوہر گوڈیئر کو آرسینک نامی زہر دے کر مارا گیا تھا۔ اسی طرح بوبی مورس کو بھی زہر دے کر قتل کیا گیا تھا جبکہ بیٹے مائیکل کو کشتی سے دھکا دے کر مارا گیا تھا۔

    قتل کی وارداتوں کی پیچھے کیا عوامل تھے؟

    تمام تر ثبوتوں اور شواہد کے بعد پولیس نے جُوڈی کو باقاعدہ گرفتار کیا اور دوران تفتیش سنگدل عورت نے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے یہ تینوں قتل کی وارداتیں مقتولین کی انشورنس کی رقوم حاصل کرنے کیلیے کیں۔

    ملزمہ نے شوہر گوڈیئر کی موت کے بعد تقریباً 28ہزار ڈالر انشورنس اور 80 ہزار ڈالر فوجی وظیفے سے جبکہ بوائے فرینڈ مورس کی موت کے بعد 77 ہزار ڈالر اس کے علاوہ معذور بیٹے مائیکل کی موت کے بعد ایک لاکھ ڈالر سے زائد رقم حاصل کی۔

    بعد ازاں سال 1984 میں عدالت نے جینٹری کو قتل کرنے کی کوشش پر 12 سال قید اور بیٹے مائیکل کے قتل پر عمر قید اور سال 1985 میں شوہر گوڈیئر کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنادی۔

  • ڈراؤنی گڑیا ’اینابیل‘ کی دیکھ بھال کرنے والے محقق کی پراسرار موت

    ڈراؤنی گڑیا ’اینابیل‘ کی دیکھ بھال کرنے والے محقق کی پراسرار موت

    نیویارک : آسیب زدہ گڑیا انابیل پر اب تک متعدد فلمیں بن چکی ہیں، ان ڈراؤنی فلموں نے شائقین کی بھر پور پذیرائی بھی حاصل کی۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ ان فلموں کی کہانیاں زیادہ تر ایسے مبینہ سچے واقعات سے مستعار لی گئی تھیں کہ سن کر ہی انسان پر دہشت طاری ہوجائے۔

    مذکورہ رپورٹ ایک مشہور امریکی پراسرار واقعات کے محقق ڈین ریویرا کے بارے میں ہے جو ریاست کنیکٹیکٹ سے تعلق رکھتے تھے۔

    ڈین ریویرا

    نیو انگلینڈ سوسائٹی فار سائیکک ریسرچ کے نمائندہ ڈین ریویرا وہ شخص تھے جو مشہور “اینابیل” گڑیا کی دیکھ بھال پر مامور تھے یہ وہی گڑیا ہے جسے ہالی ووڈ کی فلم دی کونجرنگ سیریز میں دکھایا گیا ہے۔

    اس گڑیا سے کئی ڈراؤنی کہانیاں منسوب ہیں اور لوگ سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔

    نیو انگلینڈ سوسائٹی فار سائی کِک ریسرچ نامی تنظیم کو مشہور پراسرار تحقیق کار ایڈ اور لورین وارن نے قائم کیا تھا۔

    ڈین حال ہی میں (این ای ایس پی آر) کی ٹیم کے ساتھ اینابیل گڑیا کو ایک ٹوور پر لے کر پنسلوینیا گئے تھے۔ اسی دوران ان کا اچانک انتقال ہوگیا، فی الحال ان کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

    ان کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر کی گئی ایک پوسٹ میں بتایا کہ ڈین ریویرا کا یقین تھا کہ وہ لوگوں کو پراسرار چیزوں کے بارے میں آگاہ کریں۔

    ڈین کی موت سے پراسرار تحقیق سے وابستہ حلقوں میں رنج و غم کی کیفیت پائی جا رہی ہے کیونکہ ڈین کو اس شعبے میں ایک محنتی اور مخلص نمائندے کی حیثیت حاصل تھی۔

    واضح رہے کہ ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ ڈراؤنی فلم اینابیل سے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ حقیقی واقعات پر مبنی ہے اور اس آسیب زدہ گڑیا کی دہشت کو انجام تک پہنچانے میں ’ایڈ اور لورین وارن‘ کا اہم کردار ہے۔

  • سبھاش چندر بوس کی پراسرار موت کا معمہ، حقیقت کیا ہے؟

    سبھاش چندر بوس کی پراسرار موت کا معمہ، حقیقت کیا ہے؟

    برصغیر کو قابض انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروانے کیلئے متعدد تحریکوں نے جنم لیا، جس میں کئی عظیم ہستیوں کے نام شامل ہیں ان میں ایک نام سبھاش چندر بوس کا بھی ہے۔

    سبھاش چندر بوس جو کہ بھارت کے ایک اہم قوم پرست رہنما تھے سال 1945 میں پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے، جس کے بعد مختلف نظریات اور قیاس آرائیاں جنم لیتی رہیں۔

    ابتدائی تحقیقات میں سرکاری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سبھاش چندر بوس تائیوان میں ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے لیکن آج بھی بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ اس حادثے میں بچ گئے تھے اور باقی زندگی انہوں نے گمنامی میں دنیا سے چھپ کر گزاری۔

    منشی عبدالقدیر نے اپنی کتاب ’تاریخ آزاد ہند فوج‘ میں لکھا ہے کہ آزادی ہند فوج کے روح و رواں سبھاش چندر بوس تھے جو سبھاش بابو اور نیتا جی کے نام سے بھی معروف ہیں۔

    پیدائش اور ابتدائی تعلیم 

    سبھاش بابو 23 جنوری 1897 کو اڑیسہ کے ایک مقام کٹک میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد رائے بہادر جانکی ناتھ بوس وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

    ایک مُتمول گھرانے کے فرزند ہونے کی وجہ سے سبھاش بابو کی تعلیم بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تاہم کالج کے دنوں ہی سے سبھاش بابو میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے آثار موجود تھے۔

    ایک باغیانہ سرگرمی میں حصہ لینے کی وجہ سے سبھاش بابو کو دو سال تک پریزیڈنسی کالج کلکتہ سے نکالا گیا۔ بعد ازاں اُنھوں نے اسکاٹش چرچ کالج سے گریجویشن کی اور لندن سے انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کا امتحان پاس کرکے 1920 میں وطن واپس آئے اور انگریزوں کیخلاف مؤثر کارروائیوں کا آغاز کیا۔

    انہوں نے آزاد ہند فوج جسے انڈین نیشنل آرمی بھی کہا جاتا تھا کی بنیاد رکھی جس کی قیادت خود سبھاش چندر بوس کے ہاتھ میں تھی۔ یہ فوج ہندوستانی شہریوں پر مشتمل تھی جس میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔

    سرکاری بیانیہ : طیارہ حادثہ

    سب سے زیادہ مانا جانے والا نظریہ یہ ہے کہ سبھاش چندر بوس 18 اگست 1945 کو تائیوان میں ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ 1970 میں بھارتی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک کمیشن بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ تاہم اس کے باوجود شکوک و شبہات اور سوالات برقرار رہے، جس کی وجہ سے مختلف نظریات کو تقویت ملی۔

    زندہ بچ جانے کے بعد خفیہ زندگی

    اس حوالے سے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بوس کی جان طیارہ حادثے میں بچ گئی تھی اور وہ بھارت میں ہی کہیں چھپ کر زندگی گزارتے رہے۔ جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئی شناخت اختیار کی اور خفیہ طور پر بھارت کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔

    روس میں جلا وطنی:

    ایک خیال یہ بھی ہے کہ سبھاش چندر بوس کو ان کے ساتھیوں نے دھوکہ دے کر سوویت یونین کے حوالے کر دیا تھا، جبکہ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں روس میں قید کیا گیا اور وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور روسی حکومت نے ان کی موجودگی کو خفیہ رکھا۔

    سادھو کی زندگی:

    ایک غالب گمان یہ بھی ہے کہ بوس نے گمنامی کی زندگی اختیار کرتے ہوئے سادھو بابا کا روپ دھارا جو مبینہ طور پر بھارت کی ریاست اتر پردیش میں رہتے تھے۔ یہ نظریہ بھارتی میجر جنرل جی ڈی بخشی کی کتاب کی اشاعت کے بعد مزید مشہور ہوگیا، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بوس سے ان کی نئی شکل میں ملاقات کی تھی۔

    سیاسی اختلافات:

    کچھ نظریات میں سیاسی چالاکیوں اور دھوکے بازی کا ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سبھاش چندر بوس کو ان کے اپنے ساتھیوں نے دھوکہ دیا، خصوصاً جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی، جو پارٹی قیادت کے لیے انہیں اپنا حریف سمجھتے تھے۔

    مکھرجی کمیشن

    اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہچانے کیلئے سال 1999میں بھارتی حکومت نے مکھرجی کمیشن قائم کیا تاکہ بوس کی گمشدگی کے حالات کی مکمل تحقیقات کی جاسکے۔

    کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بوس طیارہ حادثے میں ہلاک نہیں ہوئے اور جاپان کے ایک مندر میں دفن راکھ ان کی نہیں تھی۔ تاہم بھارتی حکومت نے کمیشن کے نتائج کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا۔

    سچائی تاحال معمہ ہی ہے

    بہت سی تحقیقات اور نظریات کے باوجود سبھاش چندر بوس کی موت کے بارے میں حقیقت ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ حتمی شواہد کی عدم موجودگی اور ان کی وراثت کے گرد سیاسی حساسیت نے اس پراسرار شخصیت کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کو مزید بڑھا دیا ہے۔

  • امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے اہلکار کی پُراسرار موت

    امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے اہلکار کی پُراسرار موت

    امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کے اہلکار کی پُر اسرار موت کے بعد کھلبلی مچ گئی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی مقامی پولیس اور سیکرٹ سروس کی جانب سے گزشتہ روز پیش آنے والے کی واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں جبکہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مذکورہ شخص نے خودکشی کی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والے شخص کی لاش سفارت خانے کے احاطے میں پڑی تھی۔ واقعے سے متعلق مزید تفصیلات میڈیا سے شیئر نہیں کی گئیں۔

    بھارتی سفارت خانے نے جمعے کو ایک سرکاری بیان میں اہلکار کی موت کی تصدیق تو کردی مگر یہ نہیں بتایا کہ موت کی وجہ کیا بنی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارت خانے کے ایک اہلکار کی 18 ستمبر 2024ء کی شام موت واقع ہوئی تھی۔

    سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ لاش کی جلد بھارت منتقلی کے حوالے سے تمام متعلقہ ایجنسیوں اور خاندان کے افراد سے رابطے میں ہیں۔

    بی جے پی پولیس کو ’محافظ‘ سے ’حیوان‘ بنا رہی ہے، پرینکا گاندھی

    اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ مرنے والے شخص کے بارے میں اضافی تفصیلات خاندان کی رازداری کے باعث جاری نہیں کی گئیں۔

  • خود کشی یا قتل : ڈیفنس میں گھریلو ملازمہ کی پراسرار موت

    خود کشی یا قتل : ڈیفنس میں گھریلو ملازمہ کی پراسرار موت

    کراچی : ڈیفنس خیابان بخاری کے ایک بنگلے سے نوجوان ملازمہ کی پھندا لگی لاش برآمد ہوئی ہے، مالکان کا کہنا ہے کہ اس نے خود کشی کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کراچی کے نمائندے سلمان لودھی کے مطابق بنگلے سے نوجوان لڑکی کی لاش ملنے کا واقعہ پولیس نے مشکوک قرار دیا ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق بنگلے کا مالک ڈاکٹر ہے اس کا کہنا ہے ہم اتوار کی دوپہر کھانا کھانے باہر گئے تھے واپس آئے تو لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی، اس لڑکی نے خودکشی کی ہے۔

    سولہ سالہ گھریلو ملازمہ کی مبینہ خود کشی کی اطلاع پر پولیس بنگلے پر پہنچی تو گھر والے لڑکی کی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش کو نیچے اتار چکے تھے۔

    گھر کے مالک شہروز  نے بتایا کہ میں بذات خود ڈاکٹر ہوں اس لیے پولیس کے آنے سے پہلے خود لاش اتار کر اسے فرسٹ ایڈ دینے کی کوشش کی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی تقریباً ایک سال سے اسی بنگلے میں ملازمت کررہی تھی، واقعے کے وقت ڈاکٹر اپنی فیملی کے ساتھ گھر سے باہر گئے ہوئے تھے۔

    16سالہ فاریہ خیابان بخاری کے بنگلے میں بچوں کو سنبھالنے کا کام کرتی تھی،بچی کرسی پر چڑھ کر کیسے لٹکی پولیس کو یہ معاملہ مشکوک لگ رہا ہے۔

    پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں واقعہ پراسرار لگ رہا ہے تاہم تحقیقات جاری ہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی صورتحال مزید واضح ہوسکے گی۔

    علاوہ ازیں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد پہاڑ گنچ کے قریب بھائی نے بہن کو قتل کردیا، پولیس کے مطابق فائرنگ کے بعد بھائی جاوید موقع واردات سے فرار ہوگیا جبکہ کورنگی سنگرچورنگی کےقریب فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوگیا ۔

     

  • فائرنگ سے پراسرار ہلاکت، بزنس پارٹنر گرفتار

    فائرنگ سے پراسرار ہلاکت، بزنس پارٹنر گرفتار

    کراچی : صفورہ کے قریب فائرنگ کا پراسرار واقعہ پیش آیا ہے جس کے نتیجے میں ایک شخص کی موت واقع  ہوگئی ہے پولیس نے شک کی بنیاد پر اس کے بزنس پارٹنر کو حراست میں لے لیا۔

    اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق ہوگیا۔

    اطلاع ملتے ہی پولیس اہلکار موقع پر ہی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور متوفی کی لاش کو ابتدائی تحقیقات اور پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال منتقل کیا۔

    پولیس کے مطابق متوفی کی شناخت اکبر کے نام سے ہوئی ہے جو نارتھ کراچی کارہائشی تھا، واقعے کی اطلاع مددگار 15 پر اکبر کے بزنس پارٹنر نے دی تھی۔

    متوفی اکبر کے بزنس پارٹنر رضوان نے اپنے بیان میں واقعے کو خودکشی بتایا، جائے وقوعہ سے متوفی کا 30بور کا پستول ملا ہے۔ اکبر نے مبینہ طور پر بزنس پارٹنر کو 50 لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔

    پولیس کے مطابق اکبر کے بزنس پارٹنر کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جارہی ہے، اکبر اور رضوان گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے۔

  • آدتیہ سنگھ نے موت سے قبل سوشل میڈیا پر کیا لکھا؟

    آدتیہ سنگھ نے موت سے قبل سوشل میڈیا پر کیا لکھا؟

    ممبئی : بھارتی فلم اور ٹی وی انڈسٹری کے مشہور اداکار آدتیہ سنگھ راجپوت کی لاش گزشتہ روز پراسرار طور پر ان کے گھر سے برآمد ہوئی تاہم تاحال یہ معمہ حل نہ ہوسکا۔

    اپنے گھر کے باتھ روم میں ہلاک ہونے والے آدتیہ راجپوت نے موت سے چند گھنٹے قبل انسٹاگرام پر ایک اسٹوری پوسٹ کی تھی جس میں انہوں نے گھر کی کھڑکی سے ممبئی کی اونچی عمارتوں کی ایک خوبصورت تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’سنڈے فنڈے وِد بیسٹیز‘۔جس کے اگلے ہی روز ان کی موت واقع ہوگئی۔

    موت سے قبل آدتیہ سنگھ کی انسٹا اسٹوری کیا تھی؟

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آنجہانی اداکار کی آخری رسومات آج بروز منگل کو ادا کی جائیں گی، یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ ان کی موت منشیات کی زیادتی کے باعث ہوئی ہے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

    17سال کہ عمر سے بطور ماڈل اپنے کرئیر کا آغاز کرنے والے آدتیہ سنگھ راجپوت کی ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو ان کا تعلق دہلی سے تھا جبکہ ان کے خاندان کا تعلق اتراکھنڈ سے تھا۔ آدتیہ نے اپنی تعلیم دہلی کے گرین فیلڈ اسکول سے مکمل کی۔

    آدتیہ سنگھ راجپوت 25 سے زائد اشتہارات میں کام کرچکے ہیں ، جس میں اداکار ہریتک روشن اور کرکٹر سارو گنگولی کے ساتھ ایک موٹر سائیکل کا مشہور اشتہار بھی شامل ہے۔

  • لاش میں خودبخود آگ بھڑک اٹھی، دل دہلا دینے والا کیس

    لاش میں خودبخود آگ بھڑک اٹھی، دل دہلا دینے والا کیس

    دنیا بھر کی پولیس کو بعض اوقات ایسے کیسز سے واسطہ پڑتا ہے جو ان کا ذہن گھما کر رکھ دیتے ہیں، ایسا ہی ایک کیس فلوریڈا پولیس کے سامنے آیا جس میں لاش گھر کے اندر پڑی جل کر راکھ ہوگئی مگر گھر کے کسی سامان کو کچھ نہیں ہوا۔

    یہ جولائی 1951 کی ایک صبح کی بات ہے جب فلوریڈا کے علاقے ٹمپا بے کے ایک اپارٹمنٹ کی مالکہ پنسی کارپینٹر کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جو ان کی ایک کرائے دار کے لیے تھا۔ وہ ٹیلی گرام لے کر اپارٹمنٹ میں گئیں اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں ملا، جس پر انہوں نے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔

    جب انہوں نے دروازے کی ناب کو چھوا تو وہ ناقابل برادشت حد تک گرم ہورہی تھی، پنسی کارپنٹر کو معاملہ مشکوک لگا تو وہ اپنے اپارٹمنٹ واپس گئیں اور پولیس سے رابطہ کیا۔

    جب پولیس اہلکار وہاں پہنچے اور 67 سالہ میری ریسیر کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو ان کا سامنا اپنی زندگیوں کے سب سے پراسرار کیس سے ہوا۔

    معمر خاتون کرسی پر تھیں بس ہوا یہ تھا کہ زندہ یا لاش کی شکل میں نہیں بلکہ راکھ کی صورت میں، اگر بایاں پیر، کھوپڑی اور ریڑھ کی ہڈی کا کچھ حصہ باقی نہیں بچتا تو کوئی بھی یہ بتا نہیں پاتا کہ یہ کسی انسان کی راکھ ہے۔

    اس خاتون کا لگ بھگ پورا جسم جل کر خاک ہو گیا تھا مگر حیران کن طور پر ان کی کرسی کے باقی بچ جانے والے اسپرنگز کے برابر میں اخبارات کا ڈھیر بالکل ٹھیک حالت میں موجود تھا۔

    اپارٹمنٹ کا تمام فرنیچر، قالین، دیواریں درست حالت میں تھے، آتشزدگی کی واحد نشانی کچھ پلاسٹک مصنوعات کے نرم ہونے اور چھت پر حرارت اور دھوئیں سے بننے والے کچھ نشانات تھے۔ یعنی میری ریسیر اپنی نشست گاہ کے وسط میں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔

    میری ریسیر کی پیدائش 8 مارچ 1884 کو ریاست پنسلوانیا کے علاقے کولمبیا میں ہوئی اور اپنے شوہر کی موت کے بعد وہ سینٹ پیٹرز برگ، فلوریڈا منتقل ہوکر اپنے بیٹے اور اس کے خاندان کے قریب مقیم ہوگئیں۔

    میری کو فلوریڈا کا گرم موسم پسند نہیں تھا، وہ تمباکو نوشی کرتی تھیں اور نیند کی گولیاں بھی کھاتی ہیں۔ اپنی موت سے پہلے بیٹے سے ملاقات میں انہوں نے اپنی شکایات بیان کیں اور واپس پنسلوانیا جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔

    وہ فلوریڈا کے گرم موسم سے بھاگنے کی خواہشمند تھیں اور ان کے لیے جو ٹیلی گرام بھیجا گیا تھا وہ پنسلوانیا کے ٹرپ کے انتظامات مکمل ہونے کے بارے میں ہی تھا۔

    سینٹ پیٹرز برگ کی پولیس نے اس کیس میں 5 دن میں اپنی شکست تسلیم کرلی۔

    یہ خاتون یقیناً جل کر خاک ہوئی تھیں جس کے لیے 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کے باوجود کمرے میں آتشزدگی کے لگ بھگ کوئی شواہد نہیں تھے۔

    جلنے کے بعد میری ریسیر کی کھوپڑی سکڑ کر بہت مختصر ہوگئی تھی جس نے تحقیقات کو مزید پیچیدہ بنادیا، کیونکہ شدید درجہ حرارت سے کھوپڑی سکڑنے کے بجائے پھیلتی ہے بلکہ پھیل کر پھٹ جاتی ہے۔

    عمارت میں کسی کو بھی آگ کا علم نہیں ہوا بس پنسی کارپینٹر کو صبح 5 بجے کے قریب دھوئیں کی بو محسوس ہوئی تھی مگر وہ انہیں اپنی ناقص برقی مصنوعات کا نتیجہ لگا۔

    پولیس اس موت کے حوالے سے بس ایک بات کی تصدیق کر سکی اور وہ تھا موت کا وقت صبح ساڑھے 4 بجے، وہ بھی اس وجہ سے کیونکہ گھڑی پر وقت ساکٹ پگھلنے کی وجہ رک گیا تھا۔

    7 جولائی کو پولیس کے سربراہ نے میری ریسیر کے باقی بچے جانے والے پیر، 6 چھوٹی چیزیں جن کو دانت خیال کیا گیا، قالین کا ٹکڑا اور راکھ میں ملنے والے شیشے کے ذرات ڈبے میں ڈال کر ایف بی آئی ڈائریکٹر ایڈگر ہوور کو بھیج دیے۔

    اس ڈبے کے ساتھ انہوں نے مراسلے میں لکھا کہ ہمیں ایسی تفصیلات یا خیالات جاننا ہیں جن سے وضاحت ہوسکے کہ ایک چھوٹی سی بند جگہ میں انسانی جسم جل کر خاک ہوجائے مگر اس سے ہٹ کر عمارت کے اسٹرکچر اور فرنیچر کو کوئی بھی نقصان نہ ہو، یہاں تک دھوئیں کے بھی آثار نہ ہونے کے برابر ہوں۔

    متعدد ہفتوں بعد ایف بی آئی نے اس کیس کو وک افیکٹ کا نتیجہ قرار دیا، جس کی وجہ خاتون کے آگ پکڑنے والے نائٹ گاؤن، ان کی سگریٹ اور نیند کی گولیوں کا امتزاج تھا۔

    ایف بی آئی رپورٹ کے مطابق ایک بار جب جسم جلنا شروع ہوتا ہے تو اس میں اتنی چربی اور دیگر آگ پکڑنے والے اجزا ہوتے ہیں جو کئی طرح کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، کئی بار یہ جلنے سے ہونے والی تباہی اس درجے کی ہوتی ہے کہ انسانی جسم لگ بھگ مکمل طور پر جل کر خاک ہوجاتا ہے۔

    پولیس سربراہ جے آر راکیرٹ نے انسانی جسم کے ایک ماہر ولٹن کروگمین سے بھی تحقیقات کی درخواست کی اور انہوں نے ایف بی آئی کے نتائج کو مسترد کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ ایک بار انسانی جسم جلنے لگے تو وہ خود کو مکمل طور پر راکھ بنالے، جیسے کوئی شمع جل کر پگھل جاتی ہے اور بس پگھلے ہوئے موم کے کچھ ذرات ہی بچتے ہیں۔

    راکیرٹ کا کہنا تھا کہ اس رات جو کچھ بھی ہوا اس کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی کچھ نہ جان سکیں مگر یہ کیس اب بھی مجھے ڈراتا ہے، یعنی ایک انسان مکمل طور پر جل کر راکھ ہوجائے اور اس کے اپارٹمنٹ کو کچھ بھی نہ ہو، ایسی صورت میں تو اس پوری جگہ کو جل جانا چاہیئے تھا۔

    یہ رپورٹ 1961 میں شائع ہوئی تھی اور اس کیس کے بارے میں مزید جوابات سامنے نہیں آئے۔ پولیس چیف نے ایک بیان میں اسے اپنے 25 سالہ کیریئر کا سب سے غیر معمولی کیس قرار دیا۔

    اس کیس کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔

    ایک نظریہ تو یہ سامنے آیا کہ یہ واقعہ کسی وجہ کے بغیر انسانی جسم کے خود جل کر راکھ ہونے کا نتیجہ ہے اور 70 سال بعد بھی اس کیس کے حوالے سے اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    ایسے کیسز میں ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی شے آگ بھڑکنے کے باہری ذریعے کے بغیر جل کر خاک ہوجائے۔

    میری ریسیر سے ہٹ کر بھی اس طرح کے کیسز سامنے آئے ہیں اور ان کیسز کی تحقیقات بھی کوئی ٹھوس جواب دینے میں ناکام رہی، یعنی یہ ہضم کرنا ہی مشکل ہے کہ کوئی انسان اچانک ہی کسی وجہ سے جلنا شروع ہوجائے۔

    مگر ایف بی آئی نے میری ریسیر کے کیس میں اس خیال کو ٹھوس انداز سے مسترد کردیا تھا۔

    ایف بی آئی نے جو خیال پیش کیا وہ زیادہ دہشت زدہ کردینے والا ہے یعنی وہ خاتون کسی موم بتی یا شمع کی طرح آہستہ آہستہ جل کر راکھ بن گئی۔

    اگر آگ لگنے پر وہ پہلے ہی مر چکی تھیں (فالج یا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے) یا بے ہوش یا حرکت کرنے سے قاصر تھیں (نیند کی ادویات کے اثر کے باعث)، تو یہ آسانی سے خیال کیا جاسکتا ہے کہ جلتا ہوا سگریٹ گرا ہو اور ان کو جلانا شروع کردیا ہو۔

    مگر اس نظریے کے درست ہونے میں مسئلہ یہ ہے کہ آخر اپارٹمنٹ اور پوری عمارت اتنی زیادہ حرارت (3 ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ) سے متاثر کیوں نہیں ہوئی اور کھوپڑی کیوں سکڑ گئی؟

    اس موت کے ایک دہائی سے زائد عرصے بعد ولٹن کروگمین نے ایک متبادل تھیوری پیش کی اور وہ یہ تھی کہ ہوسکتا ہے کہ خاتون کو کسی اور جگہ قتل کر کے جلایا گیا ہو اور پھر راکھ واپس اپارٹمنٹ میں پہنچا دی گئی ہو؟

    ان کے مطابق مبینہ قاتل کو انسانی جسم جلانے والے آلات تک رسائی ہو اور خاتون کو راکھ بنانے کے بعد باقیات کو واپس اپارٹمنٹ تک پہنچا دیا ہو۔ مگر اس خیال پر بھی متعدد سوال سامنے آئے جیسے اپارٹمنٹ میں پلاسٹک کا کچھ سامان نرم کیوں ہوگیا اور دروازے کی ناب بہت زیادہ گرم کیوں تھی۔

    اب تک اس کیس سے جڑے سوالات کا کوئی تشفی بخش جواب سامنے نہیں آیا اور اتنے برسوں بعد بھی یہ کیس جدید تاریخ کے چند حل طلب اسرار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

  • لاہور میں ایک اور ڈاکٹر کی پر اسرار موت

    لاہور میں ایک اور ڈاکٹر کی پر اسرار موت

    لاہور: لاہور میں ایک اور ڈاکٹر پر اسرار طور پر موت کی وادی میں چلے گئے ہیں، ڈاکٹر احسان اللہ جناح اسپتال کے ہاسٹل میں رہائش پزیر تھے۔

    پولیس ذرائع کے مطابق ڈاکٹر احسان اللہ اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے، وہ جناح اسپتال کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے اور جناح اسپتال کے برن یونٹ میں اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے۔

    پولیس کے مطابق ڈاکٹر احسان اللہ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کردیا گیا ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد موت کی اصل وجہ سامنے آئے گی۔

    اس سے قبل گذشتہ ماہ کی اٹھائیس تاریخ کو سروسزاسپتال لاہور کے ہاسٹل سے اے ایم ایس ڈاکٹر حسن پر اسرار طور پر اپنےکمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سروسز اسپتال لاہور کے اے ایم ایس کی پر اسرار ہلاکت

    اسپتال انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سروسز اسپتال کےہاسٹل سے اے ایم ایس کی لاش ملی ہے، اے ایم ایس ڈاکٹر حسن پر اسرار طورپر اپنےکمرے میں مردہ پائے گئے۔

    اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈاکٹرحسن کو فوری طور پر سروسز اسپتال کی ایمرجنسی میں لےجایاگیا، جس وقت انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تو ان کے منہ سے خون نکل رہا تھا، ڈاکٹرحسن سروسز اسپتال میں بطور اے ایم ایس کام کررہےتھے۔

  • غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کی پراسرار موت

    غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کی پراسرار موت

    حیدرآباد : غیرت کے نام پر داماد کو قتل کرنے والا شخص گھر سے مردہ حالت میں ملا، پولیس نے خود کشی کا شبہ ظاہر کیا ہے، ماروتی راؤ2018 میں24سالہ پرانئے کے قتل معاملہ کا اصل ملزم تھا۔

    تفصیلات کے مطابق عزت کے نام پر قتل کی واردات کے اصل ملزم کی موت واقع ہوگئی، ماروتی راؤ سال2018 میں 24سالہ داماد پرانئے کے قتل معاملہ کا اصل ملزم تھا جو حیدرآباد کے ایک علاقہ میں واقع اپنے کمرہ نمبر306میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

    اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ملزم ماروتی راؤ حیدرآباد کیوں آیا تھا؟ پولیس نے اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال منتقل کردیا۔

    پولیس نے شبہ ظاہر کیا کہ اس نے خودکشی کی ہے، ماروتی راؤ پر پرانئے کے قتل کے لئے ایک کروڑ روپئے کی رقم ادا کرنے کا بھی الزام ہے۔

    واضح رہے کہ مقتول پرانئے نے ملزم ماروتی راؤ کی بیٹی سے شادی کی تھی، ذات کی اونچ نیچ پر اس نے شادی کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ پرانئے دلت تھا اور ملزم کی ذات اونچی تھی۔

    جائے واردات پر قتل کی یہ واردات سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی تھی جس نے پوری ریاست میں سنسنی پھیلادی تھی، قتل کے وقت ماروتی راؤ کی بیٹی حاملہ تھی۔

    بعد ازاں اپریل2019میں عدالت سے ماروتی راؤ اور اس معاملہ کے دیگر ملزمان کی ضمانت منطور ہوگئی تھی کیونکہ پولیس اندرون 90دن چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ ضمانت پر رہائی کے بعد سے ملزم مریال گوڑہ میں واقع اپنے مکان میں رہ رہا تھا۔

    پولیس کا خیال ہے کہ ماروتی راؤ نے زہر پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے، پولیس مختلف زاویوں سے اس معاملہ کی جانچ کررہی ہے، تاہم صورتھاقل پوقسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد واضح ہوگی۔