Tag: mystery

  • انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    لندن: انگلینڈ کے ایک گاؤں میں مقامی افراد کو عجیب و غریب آواز سنائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا سونا مشکل ہوگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انگلینڈ میں ویسٹ یارکشائر کے قریب ہیلی فیکس کے علاقے ہوم فیلڈ کے گاؤں میں ایک عجیب اور پراسرار آواز لوگوں کو سنائی دے رہی ہے۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی یہ آواز ہوتی تو دھیمی ہے لیکن مسلسل اس آواز سے بعض اوقات بڑی پریشانی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب تک اس کی وجہ یا یہ کہاں سے آتی ہے معلوم نہیں ہوسکا ہے، یہ آواز بہت تیز نہیں ہوتی لیکن اس سے ان کی نیند اور موڈ ضرور خراب ہوجاتا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ یہ آواز تمام مقامی لوگ تو نہیں سن سکے ہیں لیکن جنہوں نے اسے سننے کا دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس سے ان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

    انگلش دیہات میں سنی جانے والی اس آواز سے متعلق شہ سرخیاں گزشتہ سالوں کے دوران اخبارات میں لگ چکی ہیں لیکن اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔

    مقامی حکام نے اس حوالے سے تحقیقات کیں اور اس مقصد کے لیے ایک آزاد کنسلٹنٹ کا تقرر بھی کیا لیکن یہ پراسراریت ختم نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

  • دائرے میں 12 دن تک گھومنے والی بھیڑوں کا راز کیا ہے؟

    دائرے میں 12 دن تک گھومنے والی بھیڑوں کا راز کیا ہے؟

    لندن: ایک برطانوی پروفیسر نے چین میں دائرے میں مسلسل 12 دن تک گھومنے والی بھیڑوں کا راز دریافت کر لیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی چین کے علاقے منگولیا میں بھیڑوں کے ایک فارم سے سامنے آنے والی ’پراسرار‘ ویڈیو دنیا بھر میں زیر بحث ہے۔

    ویڈیو میں سینکڑوں بھیڑوں کو ایک دائرے میں مسلسل چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جانوروں کے رویوں پر کام کرنے والے ماہرین بھیڑوں کے اس عمل کی وجہ سمجھنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

    اب تک کئی قسم کی رائے سامنے آ چکی ہے تاہم برطانوی یونیورسٹی آف ہارٹپوری کے شعبہ زراعت کے پروفیسر میٹ بل کی جانب سے بھی ایک توجیہہ پیش کی گئی ہے۔

    12 دنوں سے دائرے میں گھومنے والی پراسرار بھیڑوں کی ویڈیو وائرل

    برطانوی پروفیسر نے یہ معمہ حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید بہت طویل دورانیے کے لیے ان بھیڑوں کو فارم کے اندر رہنا پڑا ہے، اس لیے وہ اس قسم کی حرکت پر مجبور ہوئی ہیں، وہ ایک محدود احاطے میں بند ہیں اس لیے یہ ایک دائرے میں حرکت کرنے لگی ہیں۔

    انھوں نے مزید وضاحت کی کہ بھیڑ ریوڑ کی شکل میں رہنے والا جانور ہے، اور یہ وہی کرتی ہے جو ریوڑ کی دوسری بھیڑیں کرتی ہیں۔

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھیڑوں کے ہاں ہرڈ مینٹیلیٹی یعنی گروپ یا ریوڑ والی نفسیات پائی جاتی ہیں، اور ان کی نقل و حرکت اسی حساب سے ہوتی ہے۔ بھیڑیں درندوں اور دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے مل کر حرکت کرتی ہیں۔

  • دنیا کا انوکھا ترین پراسرار مقام جہاں آج کے دن کچھ خاص ہونے والا ہے

    دنیا کا انوکھا ترین پراسرار مقام جہاں آج کے دن کچھ خاص ہونے والا ہے

    آج زمین کے نصف کرے پر سال کا طویل ترین دن اور مختصر ترین رات ہے، جبکہ دوسرے نصف کرے پر سال کا مختصر ترین دن اور طویل ترین رات ہے۔

    سورج کے اس سفر کو سمر سولسٹس کہا جاتا ہے، اگر آپ گوگل پر سمر سولسٹس لکھ کر سرچ کریں تو سب سے پہلی نظر آنے والی تصویر برطانیہ کے آثار قدیمہ اسٹون ہینج کی ہوگی، تاہم سوال یہ ہے کہ اس مقام کا سورج کے سفر کے اس خاص مرحلے سے کیا تعلق ہے؟

    انگلینڈ کی کاؤنٹی ولسشائر میں واقع اسٹون ہینج اب ایک تاریخی مقام کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ یہ چند وزنی اور بڑے پتھر یا پلر ہیں جو دائرہ در دائرہ زمین میں نصب ہیں۔ ہر پلر 25 ٹن وزنی ہے۔

    اہرام مصر کی طرح اسٹون ہینج کی تعمیر بھی آج تک پراسرار ہے کہ جدید مشینوں کے بغیر کس طرح اتنے وزنی پتھر یہاں نصب کیے گئے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان کی تعمیر 3 ہزار قبل مسیح میں شروع ہوئی اور 2 ہزار قبل مسیح میں ختم ہوئی۔

    ان پلرز کی خاص بات سورج کی سیدھ میں ہونا ہے۔ ہر سال جب سال کا طویل ترین دن شروع ہوتا ہے تو سورج ٹھیک اس کے مرکزی پلر کے پیچھے سے طلوع ہوتا ہے اور اس کی رو پہلی کرنیں تمام پلروں کو منور کردیتی ہیں۔

    اسی طرح موسم سرما کے وسط میں جب سال کا مختصر ترین دن ہوتا ہے، تو سورج ٹھیک اسی مقام پر بالکل سیدھ میں غروب ہوتا ہے۔

    ہر سال 21 جون کو یہاں صبح صادق لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے جو سورج کے بالکل سیدھ میں طلوع ہونے کے لمحے کو دیکھنا چاہتا ہے۔

    اس مقام کو برطانیہ کی ثقافتی علامت قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ سیاحوں کے لیے بھی پرکشش مقام ہے۔

  • بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کائنات میں بکھرے ہوئے وہ عجیب و غریب ستارے ہیں جن سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی، یہاں تک کے روشنی بھی نہیں، اس لیے ان کو براہ راست دیکھ پانا ناممکن ہے، اس دقت کے باوجود ماہرین کو یقین ہے کہ کائنات میں بہت سارے بلیک ہول موجود ہیں، اسی وجہ سے سن 2020 کے فزکس نوبل انعام سے ان کی دریافت اور ان سے متعلق اہم تحقیقات پر تین سائنس دانوں: راجر پنروز (انگلستان)، رائنہارڈ گنزل (جرمنی) اور اندرے گیز (امریکا) کو نوازا گیا۔

    بلیک ہول کا خیال 18 ویں صدی میں سائنسی حلقوں میں آیا۔ نیوٹن کے دیے ہوئے مقولوں کو استمال کرکے ایک انگریز پادری سائنسدان جان مائیکل اور عظیم فرانسیسی ریاضی داں سائمن لاپلاس نے بلیک ہول کے وژن اور اس کے سائز کا فارمولا حاصل کرلیا۔

    غور کریں کہ اگر کسی راکٹ کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے سے کم ہو تو وہ زمینی کشش سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ وہ زمین کی طرف واپس آجائے گا۔ یہ رفتار اسکیپ رفتار کہلاتی ہے اور یہ زمین کے وزن اور اس کے سائز پر منحصر کرتی ہے۔ اگر پوری زمیں سکڑتے ہوئے ایک شیشے کی چھوٹی گولی کے برابر ہو جائے تو اسکیپ رفتار بڑھتے بڑھتے یعنی روشنی کی رفتار (ایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ) کے برابر ہو جائے گی اور تب زمین سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پائے گی۔ یعنی ہماری زمین ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جانے گی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کائنات میں بکھرے ہوئے بلیک ہولز کو ڈھونڈ پانا ایک مشکل کام ہے۔

    سنہ 1915 میں آئن سٹائن نے زمینی کشش کو سمجھنے کے لیے انوکھا طریقہ کار پیش کیا جس کے مطابق مادہ اپنے چاروں طرف کائنات میں گھماؤ پیدا کر دیتا ہے اور جتنا زیادہ مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ گھماؤ ہوگا۔ دوسری اور تمام چیزیں جو اس بڑے مادے کے نزدیک آئیں گیں وہ اسی گھماؤ دار راستے پر چلیں گیں۔

    جرمن سائنسدان کارل شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کے مقالوں کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کے وزن اور اس کے سائز میں تقریباً وہی رشتہ ہے جو بہت پہلے مائیکل اور لاپلاس حاصل کر چکے ہیں۔ بلیک ہول کے چاروں طرف وہ حد جہاں جا کر کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی، وہ شوارزچائلڈ حد کہلاتی ہے۔

    چندرشیکھر کی اہم تحقیقات اور پھر امریکی ایٹم بم سے منسلک مشہور سائنسداں اوپن ہائمر نے یہ محسوس کیا کہ اگر مردہ ستاروں میں بہت زیادہ مادہ ہو تو وہ کشش کی وجہ سے حد درجہ سکڑنے پر بلیک ہول بن سکتے ہیں۔ اس سمجھ کے ساتھ یہ مشکل مسئلہ تھا کے ستارے کے حد درجہ سکڑ نے کی وجہ سے اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائے گا اور پھر فزکس کے تمام اصول وہاں پر ناقص ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے بلیک ہول میں سائنسدانوں کی دلچسپی صرف ریاضیات کی حد تک رہ گئی ہے۔ خود آئن سٹائن کو بلیک ہول کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔

    سنہ 1960 کے آس پاس فلکیاتی سائنسدانوں نے ایک بہت ہی حیرت انگیز ستارہ دریافت کیا۔ اس کو کواسار کہتے ہیں۔ اس دریافت نے تمام فلکیاتی سائنسدانوں میں بلیک ہول سے دلچسپی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ کواسار وہ ستارے ہیں جن سے بے انتہا روشنی نکلتی ہے جو ہماری کہکشاں یا انڈرومیدہ کہکشاں کے کروڑوں ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے۔ کسی ستاروں کے جھرمٹ یا کسی ستارے کے پھٹنے سے اتنی روشنی نہیں نکل سکتی۔ صرف ایک ہی بات ممکن ہے کے کسی بڑے بلیک ہول کی وجہ سے آس پاس کا مادہ کائنات میں گھماؤ کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ بلیک ہول میں گر رہا ہو اور وہ تیز رفتاری کی وجہ سے بے حد گرم ہوکر بے پناہ روشنی پیدا کر رہا ہے۔ اس سمجھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید بلیک ہول کواسار ایک حقیقت ہیں۔

    کوا سار کی دریافت سے متاثر ہوکر راجر پنروز نے ریاضیات کے استمال سے بلیک ہول کی دریافت کو حقیقت کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑا مردہ ستارہ بغیر کسی روک ٹوک کے سکڑنا شروع ہوگا تو بالآخر اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائۓ گا۔ اس ستارے کے باہر گولائی کی ایک حد ہوگی جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی۔ یہ وہی حد ہے جس کا ذکر اوپن ہائمر اور شوارز چائلڈ پہلے کر چکے ہیں۔

    یہ ایسی حد ہے جس کے بعد صرف مستقبل ہے اور پھر بلیک ہول کے سینٹر پر وقت ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔ وقت کے خاتمے جیسی انوکھی بات کو سمجھنے کے لیے شاید فزکس کے نئے مقولوں کی ضرورت ہوگی لیکن بلیک ہول کے چاروں طرف کی حد اس کے اندر کی لامحدودیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ اس سمجھ نے سائنسدانوں میں بلیک ہول کی لامحدودیت کی وجہ سے تکلف کو ختم کر دیا۔ ان دلائل کے بعد بلیک ہول کو دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کے اب ہم صرف بلیک ہول کے آس پاس ان ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بلیک ہول میں ہضم ہوتے جا رہیں ہیں۔ اس سمجھ نے بلیک ہول کی دریافت کی دوڑ کو تیز کر دیا۔

    سنہ 1990 کے آس پاس گینزل اور ان کے فلکیاتی ساتھیوں نے انفراریڈ روشنی کا استمال کرکے بلیک ہول کی تلاش میں ساری توجہ اپنی کہکشاں کے سینٹر پر مرکوز کر دی جہاں پر ایک بڑے بلیک ہول کے ہونے کے بہت امکانات تھے۔ انفراریڈ روشنی کا استمال اس لئے کیا گیا کے آس پاس کی کائناتی دھول کی وجہ سے ٹیلی اسکوپ کے مشاہدات میں رکاوٹ نہ آسکے۔ دوسری دقت یہ تھی کہ ہماری زمین کے چاروں طرف پھیلی ہوا کے وجہ سے ستارے جگ مگ کرتے ہیں اس لئے ان کی تصویر دھندلی ہو جاتی ہے اور پھر ان ستاروں کی صحیح رفتار معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لئے گیز نے کیک کے بہت طاقتور ٹیلی اسکوپ کو استمال کیا تاکہ بہت کم وقت میں اچھی تصویر لی جا سکے۔

    چند ہی سالوں میں باریکی سے مشاہدات کے بعد دونوں تجرباتی تحقیقاتی گروپ ہماری کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے چاروں طرف تیزی سے چلتے ہوئے تاروں کے گھماؤ دار راستوں کو باریکی سے ناپنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشادات نے یہ ثابت کر دیا کے ہماری کہکشاں کے سینٹر پرایک بڑا بلیک ہول ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس حیرت انگیز دریافت کی اہمیت کی وجہ سے ان سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس بات کا بہت ذکر ہوا کے ان تینوں انعام یافتہ سائنسدانوں میں گیز، نوبل انعام کی 120 سال کی تاریخ میں صرف چوتھی خاتون ہیں۔

    فزکس ایسا مضمون ہے، جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے، جو بنا کسی تفریق کے اچھے دماغوں کو نوازتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ سائنسدان عورت ہے یا مرد۔ لیکن فزکس کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست اس بات کی گواہی دیتی ہے کے شاید سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پہلی خاتون سائنسدان مادام کیوری کو شروع ہی میں 103 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے 60 سال کے بعد دوسری خاتون سائنسدان ماریا جیوپورٹ میر کو 1963 میں اور تیسری خاتون ڈونا اسٹرکٹ کو 2018 میں نوبلے انعام ملا۔ ایسی بہت ساری خاتون سائنسدان رہی ہیں جن کی مایہ ناز تحقیقات نوبل انعام کی مستحق ہونے کے باوجود اس انعام سے محروم رہیں۔ ان میں خاص نام ہیں: لیز مایٹنر، چین شنگ وو، ویرا ربن اور ہندوستان کی بیبھا چودھری جن کے نام سے ایک ستارہ بھی منسوب ہے۔

    گیز نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کی بڑے ہوتے ہوئے ہر منزل پر یہ سننا پڑا کہ تم یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم لڑکی ہو، تمہارا داخلہ کیل ٹیک جیسی مشہور جگہ نہیں ہو سکتا۔ کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہر پڑھنے لکھنے والی لڑکی کو سننا پڑتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گیز نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے کام کو ان تمام لڑکیوں کے نام منسوب کیا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود تحقیقات کے کام میں اچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    فزکس کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کے ریسرچ کرنے کی سہولتیں ٹیکس دینے والوں کی عنایت ہے۔ ساری کامیابیاں اسی عنایت کی دین ہے اور اس لیے ہر ناانصافی کو ختم کرنا ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کوئی دباؤ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے تاکہ ریسرچ کے لیے بہتر ماحول بنے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کے پچھلے دو سالوں میں دو خواتین کو نوبل انعام ملا۔ کیا یہ اس بات کی نشان دہی ہے کے آنے والے وقت میں لڑکیوں کے لیے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا آسان ہوجائے گا؟ کیا فزکس میں لڑکیوں کے لیے رکاوٹیں کم ہو جائیں گی؟

  • کوہ پیماؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آسیب یا کوئی اور حملہ آور

    کوہ پیماؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آسیب یا کوئی اور حملہ آور

    چند دن قبل ہی نیپالی کوہ پیماؤں نے پہلی بار دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 کو موسم سرما میں سر کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا، کوہ پیمائی کے دوران بے شمار سنگین واقعات پیش آسکتے ہیں، ایسا ہی کوہ پیمائی کے دوران ہونے ایک واقعہ اب تک دنیا کے لیے معمہ بنا ہوا تھا جسے آسیب زدہ بھی مانا جاتا تھا۔

    روس کے کوہ اورال میں پیش آنے والے واقعے کو ڈیالٹو پاس واقعے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

    سنہ 1959 کے موسم سرما میں کوہ اروال کے اس مقام پر 9 جوان کوہ پیما پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد سے یہ سائنسدانوں کو دنگ کررہا ہے اور اسے خلائی مخلوق سے لے کر جوہری دھماکے کی آزمائش سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔

    مگر اب سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ معمہ حل کرلیا ہے۔

    جریدے جرنل کمیونیکشن ارتھ اینڈ انوائرمنٹ میں شائع تحقیق میں ان تجربہ کار کوہ پیماؤں کی موت کی وضاحت کی گئی، جن کی منجمد لاشیں کوہ اورال میں مختلف جگہوں سے دریافت کی گئی تھیں۔

    جنوری 1959 میں روس کے تجربہ کار 9 کوہ پیماؤں کی ٹیم کوہ اروال پر ٹریکنگ کررہی تھی، جہاں وہ پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے۔ اس مقام سے کوہ پیماؤں کی ڈائریز اور فلم دریافت ہوئی، جس سے تصدیق ہوئی کہ اس ٹیم نے ڈیڈ ماؤنٹین نامی مقام پر کیمپ لگایا تھا۔

    تاہم آدھی رات کو کچھ ایسا ہوا جس کے باعث وہ افراد خیمے سے باہر نکلے اور کوہ اورال کے چاروں طرف بھاگنے لگے، شدید سردی اور برف کے باوجود ان کے جسموں پر مناسب لباس نہیں تھا۔

    کئی ہفتوں بعد امدادی ٹیم نے ان کی لاشوں کو کوہ اروال کے مختلف مقامات پر دریافت کیا، جن میں سے 6 کی موت ہائپوتھرمیا (بہت کم درجہ حرارت) کے باعث ہوئی جبکہ باقی 3 کی ہلاکت شدید جسمانی نقصان کے باعث ہوئی۔

    ان کے جسم کے اعضا غائب تھے، جیسے ایک کی آنکھیں، دوسرے کی زبان جبکہ ان تینوں کی کھوپڑیوں اور سینے کے ہڈیوں کے ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

    یہ ساری صورتحال نہایت غیر متوقع اور پراسرار تھی کیونکہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی یہ حالت کس وجہ سے ہوئی یا ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔

    اس وقت تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کسی نامعلوم مگر طاقتور قدرتی عنصر نے کوہ پیماؤں کو خیمے سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ کچھ حلقوں کے مطابق برفانی انسان کے حملے یا کسی اور جانور کی وجہ سے ایسا ہوا، مگر ان کی اموات کی وضاحت کرنے والی ٹھوس وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔

    تاہم اب نئی تحقیق میں ان کوہ پیماؤں کی موت کی وجہ ایک چھوٹے مگر طاقتور ایوا لاانچ کو قرار دیا گیا ہے، جس کے لیے شواہد بھی پیش کیے گئے۔

    یہ پہلا موقع نہیں جب اس طرح کا خیال سامنے آیا ہے، درحقیقت اس سے پہلے بھی ایوالانچ کا خیال پیش کیا گیا مگر کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔ سنہ 2019 میں روسی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے بھی نتیجہ نکالا تھا کہ ایک ایوالانچ اس واقعے کی وجہ بنا، مگر اس وقت اس خیال کو سپورٹ کرنے والا ڈیٹا سامنے نہیں آیا تھا۔

    دراصل واقعے کے بعد جائے حادثہ پر کسی قسم کے ایوالانچ کے آثار نہیں ملے تھے۔

    تاہم سوئٹزرلینڈ کے اسنو ایوانچ سمولیشن لیبارٹری کی ٹیم نے تجزیاتی ماڈلز، سمولیشنز اور ڈزنی انیمیشن اسٹوڈیو کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے وضاحت کی کہ کس طرح ایک ایوا لانچ اپنے پیچھے شواہد چھوڑے بغیر تباہی مچا سکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایوالانچ اتنا چھوٹا ہوسکتا ہے جس میں برف ایک ٹھوس ڈھلان کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وقت اور برفباری کے ساتھ تمام تر ملبہ اوجھل ہوجتا ہے مگر ہائیکرز کے لیے خطرہ ضرور ہوتا ہے۔

    مگر اس سے یہ وضاحت نہیں ہو سکی کہ 3 کوہ پیماؤں کے جسموں کو نقصان کیسے پہنچا۔

    تو اس سوال کے جواب کے لیے تحقیقی ٹیم نے ڈزنی کی فلم فروزن کو دیکھا اور انیمیشن ماڈلز کے سمولیشن ٹولز کے ذریعے تجزیہ کیا کہ ایوالانچ سے جسموں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس سمولیشن کے ذریعے تحقیقی ٹیم نے تعین کیا کہ ایوالانچ اتنا طاقتور ہوسکتا ہے کہ کھوپڑیوں اور سینے کی ہڈیوں کو توڑ سکے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا اس کے حوالے سے شواہد نہ ہونے کے برابر تھے، کیونکہ وہ سب کوہ پیما خیمے سے باہر نکل کر مختلف حصوں کی جانب بھاگ گئے تھے۔

    مگر محققین کا خیال یہ ہے کہ جب یہ افراد ایوالانچ سے بچ کر بھاگنے اور اپنے زخمی ساتھیوں کی مدد کی کوشش کر رہے تھے، ان کے زخموں اور شدید سردی ان کے لیے جان لیوا عناصر ثابت ہوئے۔

    اس واقعے کے اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جو ابھی بھی حل طلب ہیں۔

  • لاس اینجلس میں پولیس کی کارروائی، گھر سے اسلحے کا بڑا ذخیرہ برآمد

    لاس اینجلس میں پولیس کی کارروائی، گھر سے اسلحے کا بڑا ذخیرہ برآمد

    واشنگٹن : کیلی فورنیا پولیس نے ایک گھر پر چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے ایک ہزار ہتھیار برآمد کرکے 57 سالہ شخص کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست کیلی فورنیا کی پولیس نے ایک نامعلوم ٹیلی فون کال پر لاس اینجلس شہر کے علاقے شمالی بیورلے گلین بلوارڈ کے ایک مکان پر چھاپہ مارا۔ پولیس اہلکار جب دیگر اداروں کے ہمراہ صبح چار بجے 5 بیڈ رومز پر مشتمل مکان میں داخل ہوئی تو اسے غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گھر کے کمروں میں ہر طرف بندوقیں بکھری پڑی تھیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ 30 سکیورٹی اہلکاروں نے مسلسل 12 گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد مکان کے مختلف کمروں سے بندوقیں، پستول اور دیگر خود کار ہتھیار اکھٹے کر کے ان کی فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود شخص جیراڈ سائنز کو کیلی فورنیا کے اسلحہ رکھنے کے قوانین کی خلاف ورزی اور ممنوعہ ساخت کی بندوقیں رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

    پولیس کے مطابق برآمد ہونے والے اسلحے میں جدید خود کار ہتھیار اور 50 بور کی مشین گنز شامل ہیں، کیلی فورنیا کے قوانین کے تحت مخصوص حالات کے علاوہ جدید خودکار ہتھیاروں اور 50 بور کی مشین گن کی تیاری، فروخت اور منتقلی پر پابندی ہے۔

    حکام کے مطابق جیراڈ سائنز نے یہ اسلحہ فروخت کرنے کے لیے گھر کے مختلف حصوں میں چھپا رکھا تھا، لاس اینجلس پولیس کے لیفٹیننٹ کرس ریمرائز نے موقع پر موجود رپورٹرز کو بتایا کہ اسلحے کا ذخیرہ ٹرک میں ڈال کر گھر سے منتقل کر دیا ہے جسے ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    لیفٹیننٹ کرس ریمرائز کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا ذخیرہ ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی شخص اسلحے کا اتنا بڑا ذخیرہ کس طرح اپنے گھر میں جمع کر سکتا ہے، پولیس نے اسلحہ برآمد کرنے کے بعد معاملے کی تفتیش شروع کر دی۔

    فیڈرل لا انفورسمنٹ آرگنائزیشن کے ایک بیان میں کہا گیا کہ جیراڈ سائنز فیڈرل لائسنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے گھر میں ممنوعہ بور کا اسلحہ لائسنس فروخت کر رہا تھا۔ گرفتار ہونے والے جیراڈ سائنز کو 50 ہزار ڈالرز کے مچلکے جمع کرانے کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا۔

    لاس اینجلس میں جائیداد کا ریکارڈ رکھنے والے محکمے کے مطابق جس گھر سے اسلحہ برآمد ہوا وہ گھر بزنس ٹائیکون گورڈن گیٹی کی پارٹنر سنتھیا بیک کی ملکیت ہے، سنتھیا بیک کی گورڈن گیٹی سے تین بیٹیاں بھی ہیں۔

    سنتھیا بیک نے یہ گھر جنوری 2001 میں خریدا تھا تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان واقعات سے سنتھیا کا کوئی تعلق ہے یا نہیں، بزنس ٹائیکون گورڈن گیٹی اور سنتھیا بیک سنہ 1999 میں اس وقت خبروں میں آئے جب یہ راز افشا ہوا کہ گیٹی نے ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے دو شادیاں کر رکھی ہیں اور دوںوں کو خفیہ رکھنے میں طویل عرصے تک کامیاب رہے۔

    ریکارڈ کے مطابق حالیہ برسوں میں سنتھیا بیک نے لاس اینجلس اور سان فرانسسکو میں کئی جائیدادیں خریدیں۔ انہوں نے چند جائیدادیں جیراڈ سائنز کے ساتھ مل کر بھی خریدیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا بیک اسی گھر میں ہی رہتی ہیں جہاں سے اسلحہ برآمد ہوا یا نہیں۔ بیک کا موقف معلوم کرنے کے لیے ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

  • طوفانوں میں‌ جنم لیتی پراسرار روشنیوں نے سائنس دانوں کو سرجوڑنے پر مجبور کردیا

    طوفانوں میں‌ جنم لیتی پراسرار روشنیوں نے سائنس دانوں کو سرجوڑنے پر مجبور کردیا

    سائنس دانوں نے طوفان برق و باراں میں‌ پیدا ہونے والے پراسرار برقی مظاہر کو سمجھنے کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک خاص قسم کا مانیٹر نصب کردیا۔

    سائنس دانوں کے مطابق جب ہم گہرے بادلوں میں‌ بجلی گرجتے ہوئے دیکھتے ہیں، تب بادلوں‌ کی اوپری جانب عجیب و غریب قسم کی برقی شبیہ نظر آتی ہیں، جنھیں حالیہ برسوں ہی میں‌ شناخت کیا گیا. یہ شبیہ پریوں اور جنات کے خیالی تصور سے حیران مشابہت رکھتی ہیں.

    طوفان برق وباراں فطرت کے نہایت شاندار مظاہر میں سے ایک ہے، لیکن ہمیں زمین سے جو کچھ نظر آتا ہے، وہ صرف شروعات ہے، کیوں بجلیاں چمکنے کے بعد زمین کی اوپری فضا میں کیا عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں، ہم ان سے بے خبر رہتے ہیں۔


    ہماری کہکشاں کے وسط میں ایک بڑا بلیک ہول دریافت


    بجلی کی چمک سے پیدا ہونے والی ان عجیب شبیہوں کو سمجھنے کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک مشن کا آغاز کیا گیا ہے، خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ طوفانوں کے یہ برقیاتی اثرات خلائی اسٹیشن سے متواتر مشاہدہ کیے گئے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بجلیاں چمک کر نیچے کی طرف آتی ہیں تو اس وقت بادلوں کے اوپر کچھ عجیب سے مناظر رونما ہوتے ہیں جنھیں عارضی چمکدار مظاہر Transient Luminous Events کہا جاتا ہے اور انھیں پہلی بار 1989 میں اتفاقیہ طور پر دیکھا گیا تھا۔

    مینی سوٹا کے پروفیسر جان ونکلر ایک راکٹ لانچ کرنے کے سلسلے میں ٹی وی کیمرا ٹیسٹ کررہے تھے، جب انھوں نے دور بادل کے اوپر بجلی کی روشن قطاریں دیکھیں، اس مشاہدے نے اس وقت سائنس دانوں کو حیران کردیا۔


    چین کا آسمانی محل زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی تباہ


    ڈنمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے ماہر فزکس کا خیال ہے کہ ہوائی جہازوں کے پائلٹ ضرور اس سے واقف رہے ہوں گے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جب ان برقیاتی شبیہوں سے سائنس دان واقف نہیں تھے، تب بھی عام افراد انھیں اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے آرہے رہے ہیں، وہ انھیں راکٹ بجلیاں اور افقی بجلیاں کہا کرتے تھے، اب انھیں ماہرین نے بجلی کی پریوں کا نام دیا ہے، کیوں کہ یہ پراسرار طور پر اوپر کی طرف لہراتی ہوئی جاتی ہیں اور جسامت میں بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بجلیوں سے پیدا ہونے والی ننھی شبیہہ بجلیوں سے تھوڑی سی مختلف ہوتی ہیں، یہ برقی فیلڈ کی لہر ہوتی ہے، جو اوپر کی طرف جاتی ہے۔ بادل سے جس وقت طاقتور برقی لہر زمین کی طرف گرتی ہے تو اس کے ملی سیکنڈز کے بعد یہ شبیہیں ظاہر ہوجاتی ہیں، انسانی آنکھ جب تک انھیں دیکھے، یہ غائب ہوچکی ہوتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔